امام مہدی، سیدنا عیسٰی (علیہ السلام) اور دجا ل
سرخی شامل کریں |
حضرت آدم سے لیکر آج تک انساینت نے اپنی تاریخ میں کئی
پریشانیاں اور اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ آج کے دور کی نسل شدید قسم کا (بدعنوانی) اور
ظلم دیکھ رہی ہے جو پوری دنیا پر حاوی ہو گئے ہیں۔ سرمایادارانہ نظام نے دنیا کو
طاقتور اور مالدار لوگوں کے لئے عام جنتا کی جان مال اور دولت کو لوٹنے کھسوٹنے کے
کھیل کا میدان بنا دیا ہے۔ ان حالات کے نتیجے میں کئی لوگ اپنے آپ کو ان سے پوری
طرح گھرا ہوا پاتے ہیں اور وہ محسوس کرتے ہے کہ وہ خود ان حالات کو بدلنے میں
ناکامیاب ہیں۔ یہودی اور نصرانی سب سے پہلے تھے جو مشکلات کا سامنا ہونے پر، انکو
قابو میں کرنے کا حوصلہ جٹانے کی جگہ، دنیا کے خاتمے کی بات کرنے لگے اور دوسری
بار ظاہر ہونے (عیسٰی علیہ السلام) کی۔ انکے مطابق صرف عیسیٰ(علیہ اسلام) کے دوسری
بار ظاہر ہونے کے بعد ہی دنیا پھر سے بہتر اور انصاف پر مبنی بن پائیگی۔ انہوں نے
اپنی ٹھہراؤاور قسمت کے بھروسے بیٹھے رہنے کی یہ تاویل دی کہ ان پریشانیوں سے
چھٹکارا حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کے دوبارہ ظاہر ہونے سے ہوگا۔ یعنی کی ہم حالات
کو بدلنے کے لئے کچھ نہیں کر سکتے، اس لیے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کے دوبارہ
ظاہر ہونے کا انتظار کیا جائے اور دنیا کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے۔
آج مسلمان بھی چاروں طرف سے بے شمار پریشانیوں اور
چیلینج کا سامنا کر رہے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی اسی سوچ کا
شکار ہو گئے ہیں۔ کچھ مسلمان بھی اسی جال میں پھنس گئے اور اسلامی نص (قرآن اور
سنت) کی اس اندازسے تشریح کرنے لگے جو جمود(inactivity) اور قسمت کے بھروسے بیٹھے
رہنے کی طرف لے جاتا ہے۔ اس تشریح کا اثر یہ پڑا کہ لوگ پریشانیوں کی وجہ کو ختم
کرنے کی کوشش نہیں کرتے جس کے سبب امت کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ بلکہ وہ
اپنا زیادہ تر وقت اپنی سستی اور جمود کو درست ثابت کرنے کے لئے دجال کے ظہور کی
نشانیاں، امام مہدی کا انتظار اور حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کی واپسی جس کے ذریعہ
یہ امت کا اس مغربی ظالمانہ نظام اور اس کے ظلم سے نجات پانے پر بھروسہ کرکے بیٹھی
ہے۔ ہمارے لئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ شرعی دلیل (نص) کو سمجھنے کے لئے ہمارے
پاس کون سی ذہنیت ہو اور کس طرح یہ دلیل ہمارے برتاؤ ، عمل اور فکر کوسمت دے۔ یہ
بات صاف ظاہر ہے کہ قضا (Fatalism) کے عقیدے پر منحصر ذہنیت
مسلمان زندگی کے کئی پہلوؤں سے جوڈ کر دیکھتے ہیں، لیکن اسے سب مسئلوں (پہلووں) سے
نہیں جوڑتے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ جو سیاسی حالات میں تبدیلی کو قسمت (قضا) کے
نظریے یا ذہنیت سے دیکھتے ہیں لیکن جب رزق (روزی روٹی) کی بات آتی ہے، جسے اللہ
مہیا کرتا ہے تو اس معاملے میں قضا پر بھروسہ نہیں کرتے یعنی رزق حاصل کرنے کے لئے
ہر طرح کی کوشش اور جدوجہد کرتے ہیں، یہا ں تک کہ اپنے گھر اور اپنے خاندان کو اور
اپنے پیا روں کو چھوڑکر پردیس تک جانے کے لئے تیار رہتے ہیں تاکہ انہیں کوئی کام
دھندا مل جائے۔ حالانکہ شریعت کی نص میں یہ بات قطعی طور پر (جسکی دلیل اور مفہوم دونو
ں قطعی ہیں) ثابت ہے کہ رزق اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) کی طرف سے ہوتا ہے۔
یہ بات بھی بالکل صاف ہے کہ وہ مسلم جو قضا (fatalistic) ذہنیت
رکھتے ہیں، اگر کسی طرح ان کی جان پر بن آئے تو وہ اسے بچانے کے لئے ہر طرح کی
کوشش کریں گے۔ وہ اس بس کے سامنے نہیں ٹھہریں جب وہ ان کی طرف آ رہی ہوگی۔ جب ان
پر بیماری آ جاتی ہے، تو وہ ڈاکٹر سے علاج کراتے ہیں اور اگر وہ ڈاکٹر مدد نہیں کر
سکے تو وہ بہتر علاج کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنی جان بچانے کے لئے خطرناک
جگہوں پر جانے سے بچیں گے اور جنہیں وہ چاہتے ہیں انہیم بھی بچانے کی کوشش کریں
گے۔ ایسا اسکے باوجود بھی کرینگے جبکہ اللہ تعالیٰ نے قطعی طور پر (قطعی ثبوت اور
قطعی دلیل) بیان کیا ہے کہ موت اللہ کی طرف سے آتی ہے اور زندگی کے وقت کا خاتمہ
اسی کی طرف سے ہے۔
جب ہم نص (قرآن اور سنت) میں دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ
ان میں سے کچھ ایمان سے تعلق رکھتے ہیں۔ چونکہ اس دلیل کا تعلق ایمان سے ہوتا ہے
اسلئے اس نص کو قطعی دلیل اور ثبوت کے اعتبار سے ہونا ضروری ہے۔ قرآن میں ایسی کئی
آیات ہیں جو ایمان سے جڑے اجزاء کو طے کرتی ہیں جیسے
:
‘‘اے
ایمان والو ! اللہ تعالیٰ پر اسکے رسول (ﷺ) پر اور اس کتاب پر جو اسنے اپنے رسول
پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے اس نے نازل فرمائی ہیں، ایمان لاؤ! جو
شخص اللہ تعالیٰ سے، اور اسکے فرشتوں سے اور اسکی کتابوں سے، اور اسکے رسولوں سے
اور قیامت کے دن سے کفر کرے، وہ تو بہت بڑھی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔’’ (ترجمہ
معانئ قرآن سور ۃالنسا ء: 136)
وہ سنت جو ثبوت اور دلیل (قطیع الدلالہ) کے اعتبار سے
قطعی ہو وہ متواتر ہوتی ہے۔ متواتر روایت کو دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ پہلی
لفظ(زبانی) متواتر جیسے کہ حدیث :
''جو
کوئی بھی میرے طرف جھوٹ گڑھ کر بولے گاوہ اپنا مقام جہنم میں بنائے ۔''
دوسرا
متواتر معنوی یعنی جو معنی کے اعتبار سے متواترہو، مثال کے طور پر راویوں کو الگ
الگ واقعات سے اس بات پر اتفاق ہے کہ فجر کی نماز کی سنت رکعتوں کی تعداد دو ہے۔
جہاں تک حدیث اخباریہ(مستقبل کی خبر دینے والی) کا تعلق ہے، وہ ان چیزوں کے بارے میں
بات کرتی ہے جو حقیقت میں موجود نہیں ہوتی اور اس لیے وہ اس غیب کی طرح ہے جس کے
بارے میں ہمارے پاس پیشن گوئی کی شکل میں صرف کچھ خبر اور اشارے موجود ہوتے ہیں،
لیکن اس کی ساری تفصیل کو سمجھنا اب بھی ہماری عقل سے پرے ہے۔ اس لیے ہم ان
معاملات میں کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے۔ ہم اس کو پوری طرح اسی وقت سمجھ سکتے ہیں
اور تصدیق کر سکتے ہے جب حقیقت پوری طرح سے ہمارے سامنے نہ آ جائے۔
صحابہ کرام (رضی اللہ عنھماجمعین) ایسی بہت ساری حدیث
اخباریہ کو جانتے تھے لیکن وہ اسے تبھی سمجھ پائے جب انکی آنکھوں کے سامنے حقیقت آ
گئی۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے ان حدیثوں کو نٹھلے بیٹھ جانے اور کچھ
نہ کرنے کا جواز نہیں بنایا، کی وہ واقعہ کے ہونے کا انتظار کرے۔ بلکہ انہوں نے
اللہ کے ذریعے عائد کیے گئے فرائض کو پورا کرنے کے لئے سخت محنت کی۔ مثال کے طور
پر ابن ہشام نے اپنی سیرت ابن اسحاق میں بیان کیا ہے :
حضرت سلمان الفارسی نے کہا : ''(خندق کی جنگ کے دوران)
میں ایک خندق (کھائی) کے ایک کونے پر کھدائی کر رہا تھا کہ ایک چٹان نے میری
کھدائی میں مشکل پیدا کر دی اللہ کے رسول (ﷺ) میرے پاس آئے اور میری پریشانی کو
دیکھا جب میں کھدائی کر رہا تھا۔ وہ نیچے اترے اور اوزار میرے ہاتھ سے اپنے ہاتھ
میں لے لیا۔ پھر آپ نے(ﷺ) (چٹان پر) چوٹ ماری اور اوزار کے نیچے تیز آگ چمکی۔ آپ
نے ایک چوٹ اور ماری اور تیز چنگاری چمکی۔ آپ نے تیسری بار بھی چوٹ ماری اور تیسری
بار چنگاری نکلی۔ میں نے کہا : ''اے اللہ کے رسول، میرے ماں باپ آپ پر قربان، وہ
کیا تھا جسے میں نے اوزار کے نیچے چمکتے ہوئے دیکھا جب آپ چوٹ مار رہے تھے؟ آپ نے
کہا : اے سلمان، کیا تم نے اسے دیکھا؟ میں نے کہا : ہاں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا : پہلی
چوٹ میں اللہ نے میرے لئے یمن کو کھول دیا (The south) دوسری بار اس نے میرے لئے
الشمال
(the north) اور المغرب (The west ) کھول دیا اور تیسری بار،
اس نے المشرق (The east) کھول دیا۔'' (ابن ہشام نے
اسے اپنی سیرت میں بیان کیا ہے، بیروت، دار الوفاق)
جب یہ خبر صحابہ کرام کے درمیان پھیلی، تو وہ آس لگاکر
بیٹھ نہیں گئے، نہ ہی اس کے ہونے کی انتظار کرنے لگے۔ اسکے بجائے انہوں نے سخت
محنت کی، اور اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) کے خاطر نئی سرزمینوں کو کھولنے (دارالاسلام
کے دائرے میں لانے) کے لئے اپنی پوری کوششیں لگا دیں۔ حدیث اخباریہ(جس میں مستقبل
میں ہونے والے واقعات کی خبر دی گئی ہو) پڑتے وقت انہیں سمجھنے کا صحیح نقطہ نظر
ہونا ضروری ہے۔ ایسی حدیثوں کو سمجھنے کے لئے پانچ نکات کو دھیان میں رکھنا چاہیئے
۔
1۔ ان حدیثوں میں پہلے جس چیز کو دیکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ
کیا یہ مسلمانوں کو مستقبل میں ہونے والے واقعات کی پہلے سے تیاری کرنے کی تاکید
کر رہی ہے۔ اللہ کے رسول (ﷺ) نے دجا ل کے فتنے سے بچنے کے لئے صحابہ کو یہ دعا
سکھائی :۔ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا : تم میں سے کوئی
بھی تشہد پڑھتے وقت (نماز میں) آزمائشوں سے اللہ ہ کی پناہ چاہے اور کہے کہ : اے
اللہ ! میں جہنم کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، عذاب قبر سے، زندگی اور موت کی
آزمائش سے اور مسیح دجال کے فتنے سے ۔
2۔ دوسری چیز ان میں دیکھنے کی یہ ہے کہ کیا یہ مسلمانوں کو کائی
لائحۂ عمل
Course of action)) بتاتی ہے جب یہ واقعہ ہو. النواس ابن
سمعانؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم اجمعین) نے اللہ کے رسول (ﷺ) سے
پوچھا کہ وہ (دجال) کتنے وقت کے لئے زمین پر رہے گا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : چالیس دن،
(جس کا) ایک دن سال کے برابر ہوگا، ایک دن ایک مہینے کے برابر اور ایک دن ایک ہفتے
کے برابر اور باقی دن تمہا رے عام دنوں کی طرح ہو نگے۔'' ہم نے اللہ کے رسول (صﷺ)
سے پوچھا، ‘کیا ایک دن کی نماز ایک سال کے برابر دن کے برابر ہوگی؟’ اس پرآپ نے
کہا، ‘نہیں، بلکہ تمہیں وقت کا اندازہ ا لگانا ہوگا (اور اسکے مطابق نماز پڑھنی
ہوگی) (صحیح مسلم) اس حدیث میں مسلمانوں کو نماز کے اوقات گننے کا حکم دیا گیا ہے
جب ہم ایک سال کے برابر والے دن کا سامنا کریں گے، جو دجال کے دور میں ہوگا۔
۳۔ یہ حدیث ان لوگوں کے حوصلہ کو بڑھاتی ہے جو اللہ ہ کے
دین کے دوبارہ قیام، اسکی حفاظت اور اسے دنیا تک پہنچانے کے لئے جدوجہد کر رہے
ہیں۔ حضرت ابو امامہؓ سے مروی ایک حدیث میں اللہ کے رسول (صﷺ) نے فرمایا : ''میری
امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہے گا وہ اپنے دشمن کو فتح کرے گایہاں تک
اللہ کا حکم ان کے پاس آئے گاجبکہ وہ ابھی بھی اسی حال میں ہو نگے۔'' آپ (ﷺ) سے
پوچھا گیا، ''االلہ کے رسول (ﷺ)، وہ کہا ں ہے؟’’ آپ نے جواب دیا، ''یروشلم میں’’۔
(احمد اور طبرانی)
4۔ ایک اور ضروری نقطہ یہ ہے کہ غیب سے متعلق معاملے پر تفصیل سے
بحث اور گفتگو نہیں کرنا۔ ایسی گفتگوجو مابعد الطبیعات (Metaphysics یا دنیا کی حقیقت سے پرے)
پر کی جائے جو محسوس حقیقت سے پرے ہو، اس پر بحث کرنا، اور یہ دعویٰ کرنا کہ کسی کی
رائے دوسروں سے بہتر ہے، جس کے لئے بہت قمتی وقت لگایا گیا ہو، یہ مسلمانوں کے سب
سے اہم اور ضروری مسئلے سے لوگوں کی توجہ کو ہٹا دیتا ہے، جس کے لئے مسلمانوں کو
کام کرنا ضروری ہے۔ اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) نے ایسی ایک بحث کی مثال جو اہل کتاب
(یہود اور نصاریٰ)غارمیں پناہ لینے والے لوگوں کی تعداد کے بارے میں کرتے تھے،
''تو اب لوگ کہیں گے، وہ تین ہیں اور ان کاکتا چوتھا، اور کچھ کہیں گے، وہ پانچ
ہیں اور ان کا کتا چھٹا، بل کو ل اندھی اٹکل، اور کچھ کہیں گے، وہ سات ہیں اور ان
کا کتاآٹھواں’’، کہہ دیجیے، ''میرا رب ان کی تعداد کو اچھی طرح جانتا ہے ان میں سے
کوئی نہیں جانتا مگر بہت کم۔ اس لیے ان کے بارے میں کوئی بحث نہ کرو، سوائے اسکے
کہ کیا ہوا ہے، اور اہل کتاب سے ان کے بارے میں کچھ بھی نہ پوچھو۔ (ترجمہ معانیٗ
قرآن مجیدالکہف : 22)
5۔ ان حدیثوں کو کبھی بھی جمود (inactivity)، کاہلی اور مایوسی کے لئے بنیاد نہیں بنایا جائے۔ ان احادیث کو
اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ذریعے عائد کیے گئے فرائض کو نظرانداز کرنے کا ذریعہ نہ
بنایا جائے، جیسے اسلا م کا احیاء (نئے سرے سے زندہ کرنا )، صرف اس لیے کہ یہ حدیث
ہمیں خبر دے رہی ہے کے ایک دن امت کا احیاء ہو جائے گا۔ اور اس سے بھی خطرناک اور
غلط ذہنیت یہ ہے کہ ان فرائض کے لئے، جیسے خلافت راشدہ کو دوبارہ قائم کرنا، ہمارے
خود کے عمل اور کوششوں کے ذریعے سے بالکل ناممکن ہے کیوں کہ اللہ (سبحانہ و
وتعالیٰ) اسے ہمارے لئے خود اپنے چنندہ وقت پر قائم کرے گا۔
امام مہدی (ہدایت یافتہ) کا ظہور
اگر ہم امام مہدی (علیہ السلام) سے متعلق کچھ حدیثوں کو
دیکھتے ہیں جیسے :
حضرت ابو داؤد نے حضرت ام سلمہؓ سے روایت کیا ہے کہ آپ
(ﷺ) نے فرمایا : ''ایک خلیفہ کے انتقال کے بعد اختلاف ہو جائے گا، تو مدینہ سے مکہ
کی طرف ایک آدمی فرار ہوگا، تو مکہ کے لوگ اسکے پاس آئیں گے اور اس کو اس کی مرضی
کے خلاف باہر لائیں گے (خلیفہ کے دعویدار کے طور پر) اور اسے (کعبے کے) کونے اور
مقام ابراہیم، کے بیچ بیعت دیں گے۔ اسکے خلاف ایک فوجی ٹکڑی بھیجی جائے گی شام
(سیریا) سے، اور زمین انہیں مکہ اور مدینہ کے بیچ میں موجود بغیر پانی کے ریگستان
میں نگل جائے گی۔ جب لوگ یہ دیکھیں گے تو شام کے لوگوں مے سے ابدال ان کی طرف آئیں
گے اور عراق سے بھی لوگ آئیں گے اور وہ لوگ اسے بیعت دیں گے پھر قریش میں سے ایک
آدمی (بغاوت کے لئے) اٹھے گا جس کا ماموں (ماں کا بھائی) قلب (قبیلے) سے ہوگا۔
اسکے خلاف فوج بھیجی جائیگی اور یہ اسے فتح کر لے گی، یعنی قلب کی فوج کی ٹکڑی کو،
اور جو کوئی بھی قلب کے مال غنیمت کو حاصل نہیں کرتا ہے اسکے لئے مایوسی ہے۔ تو وہ
(مہدی) دولت کو تقسیم کرے گااور اپنے رسول اللہ (ﷺ) کی سنت کے مطابق عمل کرے گا
اور اسلام کو زمین پر اسکی گردن کے بل پھینکے گا۔ وہ سات سال رہے گا اور اسکا انتقال ہو جائے گا اور مسلمان اسکی
نماز پڑھیں گے ۔ (ابو داؤد، کتاب 36، نمبر427)
امام مہدی کی حدیث ہم پر کئی چیزیں ظاہر کرتی ہیں۔ وہ
اس امت کے مسلمانوں میں سے ایک مسلم ہوں گے کچھ حدیثیں اشارہ کرتی ہیں کہ وہ محمد
(ﷺ) کے خاندان میں سے ہوں گے ۔ وہ کوئی کرشمہ یا معجزہ ظاہر نہیں کرینگے نہ ہی ان
پر وحی نازل ہوگی بلکہ وہ انصاف کے ساتھ حکومت کریں گے جس کے سبب خلافت میں
خوشحالی آئے گی۔ انہیں خود پتہ نہیں ہوگا کہ وہ مہدی ہیں، جیسا کہ حدیث میں اشارہ کیا
گیا کہ وہ بیعت لینے سے کترائیں گے اور اسکے لئے انہیں یقین دلانا۔ حدیث صاف طور
پر بتاتی ہے کہ وہ ایک خلیفہ کی موت کے بعد خلیفہ بنیں گے اور اس وقت نئے خلیفہ کے
تعین میں اختلاف پیدا ہوگا۔ ان سب دلیلوں سے پتہ چلتا ہے کہ امت کے پاس ریاست
خلافت ہوگی اور وہ یہ جانتے ہوں گے کہ خلیفہ کا انعقاد کیسے کیا جاتا ہے۔ اس حدیث
سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مہدی اپنے آس پاس سے اسلام سیکھیں گے ۔ اور ان پر کوئی
وحی نازل نہیں ہوگی۔ حدیث بتاتی ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان سنت سے فیصلہ کریں گے جس
سے پھر اشارہ ملتا ہے کہ وہ امت ہے جسکو اس بات کے لئے تیار ہونا ہے کہ وہ مہدی کی
پرورش اور تعلیم کرے تاکہ وہ خلافت کے کام کو اپنے ہاتھوں میں لے سکے۔ اس لیے اس
بات کی کوئی دلیل نہیں ہے مسلمان غیر متحرک رہیں اور اسکے لئے کچھ نہ کریں، کیونکہ
اس واقعہ کے (مہدی کے) وجود میں آنے سے پہلے کچھ واقعات کا ہونا ضروری ہے جیسے
ریاست خلافت کا دوبارہ قیام اور امت کا اسلامی طرز زندگی کو دوبارہ زندہ کرنے کے
لئے تیار ہونا۔ یہ فرض اب بھی مسلمانوں کے سر پر ہے نہ کہ امام مہدی کے۔
حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کا نزول اور دجال کی تباہی
إِذْ قَالَ اللّہُ یَا عِیْسَی إِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ
و۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‘’ اور
(یاد کرو) جب اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) نے کہا : اے عیسیٰ! میں تمہیں لے جاؤں گا
اور۔۔۔۔۔ (سورہ : آل عمران : 55)
اس آیت کا معانی یہ ہیں کہ حضرت عیسٰی کو اللہ (سبحانہ
وتعالیٰ) اٹھا لیں گے اور ان کا مشن ختم ہو جائے گا۔ ایسی کئی احادیث ہیں جو ان کی
واپسی سے تعلق رکھتی ہیں۔ جیسے اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا:
''قسم
ہے اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، مریم کا بیٹا (عیسٰی علیہ السلام) جلدہی
تمہارے درمیان ایک منصف حکمراں کی حیثیت سے اترے گا اور وہ صلیب (cross) کو
توڑ دے گا، خنزیر کو ختم کر دے گے اور جزیے کو منسوخ کر دے گا۔ اس کے بعد بے شمار
دولت ہو جائے اور پھر کوئی بھی صدقات قبول نہیں کرے گا۔ اس وقت ایک سجدہ اس دنیا
اور اس دنیا میں جو کچھ ہے، اس سے بہتر ہوگا’’۔
البخاری نے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ اللہ کے
رسول (ﷺ) نے فرمایا: تم اس وقت کیسے ہو گے؟ جب ا لمسیح، مریم کے بیٹے، تمہارے
درمیان ہو ں گے اور جبکہ تمہارا امام تم میں سے ہوگا’’۔
صحیح مسلم کی ایک اور حدیث جسے حضرت ابو ہریرہؓ نے
روایت کیا ہے، میں فتنہ دجال اور مسلمانوں کو بھرم میں ڈالنے والی اور ان آنکھوں
کو دھوکہ دینے والی طاقتوں کا ذکر ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) کے نزول کا بھی
ذکر کرتی ہے:
''وہ
ہواؤ ں کے ذریعے لائے گئے طوفان کی طرف لوگوں کے پاس آئے گا اور لوگوں کو بلائے گا
(اپنی عبادت کی طرف)، اور وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اسکی دعوت قبول کریں گے ۔
وہ آسمان کو حکم دے گا اور وہ برسے گا، زمین (سے کہے گا) اور وہ اگائے گا(نباتات)،
انکے جانور ان پاس لوٹ آئیں گے، جبکہ انکے لمبے لمبے بال ہو ں گے اور ان کے (دودھ
سے) بھرے ہو ں گے اور ان کے پیٹ موٹے ہو نگے۔ پھر وہ الگ قسم کے لوگوں کے پاس جائے
گا اور انہیں بلائے گا (اپنی عبادت کی طرف) تو وہ اس کی پکار کو مسترد کر دیں گے۔
وہ انہیں چھوڑکر چلا جائیگا۔ جب (یہ) لوگ صبح (سو کر) اٹھیں گے تو غریبی کی حالت
میں ہو نگے اور اپنا سارا سامان کھو چکے ہو نگے۔ وہ ریگستارنوں سے گزرے گا اور اس
سے کہے گا، اپنے خزانے نکال دے، اور اسکے خزانے اس کے پیچھا مکھیوں کے جھنڈکے
مانندے کریں گے ۔ وہ ایک مرد کو بلائیے گاجو پوری طرح جوان ہوگا اور اس پر تلوار
سے ایک چوٹ مارکر دو ٹکڑے کر دیگا (اور اس طرح وہ ان ٹکڑوں کو الگ کرے گا) اتنی
دوری میں (جیسے کی شکاری اور) شکار کے بیچ ہوتی ہے۔ پھر وہ اس مرے ہوئے آدمی کو
پکارے گا اور وہ آ موجود ہوگا اور اسکا چہرہ خوشی اور ہنسی سے چمک رہا ہوگا۔
اسکے بعد
(جب دجال کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہوگا) اللہ ہ المسیح (عیسٰی علیہ السلام)، مریم
کے بیٹے کو نازل فرمائیں گے ۔ وہ دمشق شہر کے پورب کے ایک سفید منار کے پاس اتریں
گے ۔ انہوں نے ایسے کپڑے پہن رکھے ہو نگے جس کا رنگ ہلکا کیسری ہوگا اور ان کے
ہاتھ دو فرشتوں کے پروں پر ہو ں گے۔ جب بھی وہ اپنا سر نیچے کی طرف کریں گے تو
بوندیں گریں گی۔ جب بھی وہ اپنا سر واپر کی طرف اٹھائین گے تو قیمتی پتھر، جو
موتیوں کی طرح، ہوں گے گرنے لگیں گے۔ عیسٰی (علیہ السلام) کی سانس سے کوئی بھی
کافر نہیں بچ پائے گا جو انکی وہاں تک پہنچے گی جہا ں تک انکی نظر پہنچے گی۔ وہ
دجال کا پیچھا کرینگے اور (فلسطین کے شہر) لد تک پیچھا کریں گے جہا ں وہ اسے مار
دیں گے ۔ لوگوں کا ایک گروہ جو دجال (کے شر) سے بچ گئے تھا، عیسٰی (علیہ السلام)
کے پاس سے گزریں گے اور وہ (عیسٰی علیہ السلام) ان کے چہروں پر خوشبودار تیل
لگائیں گے اور ان کو جنت میں ان کے مرتبوں کے بارے میں خبر دیں گے ۔ جلد ہی جبکہ
عیسٰی (علیہ السلام) کے ساتھ ایسا ہو رہا ہوگا، اللہ ان پر ظاہر کردیگا، ''میں نے
میری مخلوق میں ایسے لوگوں کو پیدا کیا ہے جن سے کوئی بھی لڑنے کی طاقت نہی رکھتا۔
اس لیے میرے بندوں کو الطور (سنائی میں موجود حضرت موسٰی علیہ اسلام کا پہاڑ) میں
اکٹھا کرو۔ پھر اللہ یاجوج اور ماجوج کو اٹھائے گا اور وہ بڑی تیزی سے ہر چھوٹی
پہاڑی سے نکل کر بڑی تعداد میں اکٹھے ہوں گے ۔ ان کی آ گے والی (فوج کی) ٹکڑی
تباریہ(گیلیلی کا ساگر) کی جھیل پر پہنچے گی اور اسکا سارا پانی پی جائے گی ۔
ان
کی آخری ٹکڑی جب وہا ں سے گزرے گی تو کہے گی، ''اس جھیل میں کبھی پانی ہوا کرتا
تھا۔'' اسی دوران عیسٰی، اللہ کے پیغمبر، اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشکل حالات میں پڑ
جائیں گے یہا ں تک کہ ان کے لئے بیل کا ایک سر تمہاپرے سو دیناروں سے بہتر ہوگا۔
عیسٰی، اللہ کے پیغمبر، اللہ کو مدد کے لئے پکاریں گے اور اللہ النغف(ایک طرح کا
کیڑا) یاجوج اور ماجوج کے گلو میں بھیج دے گا۔ صبح آئے گی اور وہ سارے کے سارے
ایسے مر جائیں گے جیسے کہ ایک جسم کی موت ہوتی ہے۔ اسکے بعد عیسٰی، اللہ کے
پیغمبر، اپنے ساتھیوں کے ساتھ (کوہ طور سے) نیچے اتریں گے۔ وہ پائیں گے کہ زمین پر
ان کی چربی اور سڑے (ہوئے اجزاء ) سے ایک ہاتھ بھر زمین بھی خالی نہیں ہوگی۔
عیسٰی، اللہ کے پیغمبر، اپنے ساتھیوں کے ساتھ اللہ سے دعا کریں گے ۔ اللہ یہ ایسی
چڑیا بھیجے گا جن کی گرد نیں اونٹ کے برابر بڑی ہوں گی۔ وہ انکو (یاجوج اور ماجوج
کی لاشوں) کو اٹھا کر لے جائیں گی ور انہیں وہاں پھینک دیں گی جہا ں اللہ چاہتا
ہے۔ اسکے بعد اللہ ایسی برسات بھیجے گا کوئی بھی مٹی یا جانور کی کھال سے بنا گھر
اس سے محفوظ نہی رہ پائے گا، اور یہ زمین کو ایسے صاف کر دے گی جیسے کی آئینہ۔
اللہ زمین کو حکم دیگا، ''اپنے پھل اگاؤ اور اپنی بہاروں کو پھر حاصل کرو، پھر یہ
گروہ ایک انار سے کھائے گا اور اسکی کھال میں پناہ لے گا۔ دودھ کی برکت ہوگی اتنی
زیادہ کہ دودھ دینے والی اوٹنی اتنا دودھ دے گی کہ وہ ایک بہت بڑے گروہ کے لئے کافی
ہوگا۔ اس دوران اللہ ایک پاک ہوا چلائے گا اور جو مسلمانوں کو ان کی بغلوں سے قابو
کر لے گی اور ہر مسلم اور ایمان والے کی روح قبض کر لے گی۔ صرف گنہگار باقی رہ
جائیں گے۔ وہ گدھو کی طرح بے شرمی سے کھلے عام ہم بستر ہوگی۔ ان پر پھرقیامت برپا
(واقع ) ہوگی۔''
جو کوئی بھی اس حدیث پر غور کرتا ہے تو اس پر یہ صاف ہو
جاتا ہے کہ عیسٰی (علیہ السلام) لوٹ کر آئیں گے، وہ حکومت کریں گے ، اور حضرت محمد
(صﷺ) کی شریعت کی اتبا ع کر یں گے۔ کئی احادیث اس طرف ایشارہ کرتی ہیں کہ انکی
مسلمانوں کے خلیفہ سے گفتگو ہوگی یعنی مسلمانوں کا خلیفہ/امام پہلے سے موجود ہوگا
اور یہ کہ عیسٰی (علیہ السلام) اسلا می ریاست کے شہری ہوں گے ۔ اس سے پھر اس بات
کی طرف ایشارہ ملتا ہے کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کی واپسی تب ہی ہوگی جب خلافت
موجود ہوگی۔ اس سے ہمیں دوبارہ اسکے قیام کی کوششیں کرنے کے لئے حوصلہ اور ترغیب
ملتی ہے، کیونکہ عیسٰی (علیہ السلام) اس وکتب تک نہیں آییگیں جب تک خلافت قائم نہ
ہوجائے۔ یہ حدیث صاف طور پر یہ بات اجاگر کرتی ہے کہ خلافت ریاست ایک ڈھال ہوگی
دجال کے فتنے سے۔ یہی سبب ہے کہ اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا:
''خلیفہ ان کے لئے
(مسلمانوں کے لئے) ایک ڈھال ہے۔ وہ اسکے پیچھے سے لڑتے ہیں اور اسکے ذریعے انہیں
حفاظت ملتی ہے (ظالموں سے)۔ اگر وہ اللہ سے ڈرنے کا حکم دیتا ہے اور انصاف کرتا ہے
تو اسکے لئے (بڑا) اجر ہے، اور اگر وہ کسی اور چیز کا حکم دیتا ہے تو یہ آخر میں
اسکے لئے نقصان دہ ہوگا’’۔ (مسلم)
تو اس موضوع پر حدیث پڑھنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس بات کی
کوئی بنیاد نہیں ہے کوئی غیر متحرک رہے اور ان حدیثوں کو کچھ نہیں کرنے کی دلیل
بنائیں اور بیکار بیٹھ کر امام مہدی اور حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کا انتظار کریں۔
کئی مسلمانوں نے ان حدیثوں کو سیاسی حالات کو تبدیل کرنے، خلافت ریاست کو واپس
لانے کے لئے کوئی عمل نہیں کرنے کا جواز بنایا ہے۔ انہوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا
ہے کہ جب زمینیں پوری ناانصافیوں سے بھر جائے گی تب امام مہدی ظاہر ہوں گے اور امت
مسلمہ کی حالت کو ٹھیک کریں گے ۔ درحقیقت نہ تو ان حدیثوں میں اور نہ ہی دوسری
حدیثوں میں ایسا کوئی ایشارہ ملتا ہے جس سے ہم اسلام کو جامع طور پر نافذ کرنے کے
فرض سے آزادی مل جائے، جبکہ ا سلامی ریاست موجود نہ ہو، اور ہم ایسے حالت میں اللہ
(سبحانہ وتعالیٰ) کے دین کے غلبہ کے لئے کام نہ کریں۔
کیا امام مہدی کا ظہور کا تعلق خلافت کے قیام سے ہے
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
5:08 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: