ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
بقلم : مفتی حبیب الرحمن قاسمی
اسلام وحدت کا داعی ہے اور اسلام میں وحدت کی بنیاد اسلامی عقیدہ و فکر ہے نہ کہ رنگ ونسل یا وطنیت و زبان ، کیونکہ رنگ و نسل یا وطنیت و زبان کی بنیاد پر قائم ہونے والی وحدت وقتی مفادات پر مبنی ہوتی ہے اور نہایت کمزور اور عارضی ہوتی ہے ، نیز قدرت نے رنگ و نسل اور وطنیت و زبان میں تنوع رکھا ہے ، گورا،کالا، گندمی مختلف رنگ و روپ کے لوگ دنیامیں پائے جاتے ہیں ۔ اسی طرح سینکڑوں زبانیں بولنے والے لوگ اس عالم رنگ و بو میں وآباد ہیں، پہاڑی علاقے، میدانی علاقے، ساحلی علاقے،سرد آب و ہوا کے علاقے ، گرم آب و ہوا کے علاقے، غرض مختلف خصوصیات کے حامل جغرافیائی علاقوں میں لوگ بستے ہیں، اگر ان سب کو رنگ و نسل اور وطنیت اور زبان کی بنیاد پر متحد کرنے اور معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کی جائے گی تو زبردست اختلافات، لڑائی جھگڑے اور کبھی نہ ختم ہونے والا تصادم کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
عرب جاہلیت میں آباء و اجداد پر فخر، عرب قبائل کی آویزش ، آفریقہ میں سیاہ فام
اور سفید فام کی بنیاد پر نسلی امتیاز، ہندوستان میں ذات پات پر مبنی امتیازات ،
تمل غیر تمل، مرہٹہ غیر مرہٹہ، آندھرا و تلنگانہ وغیرہ کے جھگڑے، یہ سب شہادت دے
رہے ہیں کہ رنگ و نسل اوروطنیت کی بنیاد پر جو وحدت قائم ہوتی ہے وہ بہت کمزور
ہوتی ہے ، اور زبردست اختلافات اور تباہیوں کا سبب بنتی ہے۔ اس لئے اسلام میں رنگ
و نسل کی بنیاد پر وحدت کا تصور نہیں پایا جاتا ہے۔
بعثت نبوی ؐسے قبل عرب میں نسلی اور خاندانی عروج پر تھی۔وہ آباء و اجداد پر فخر
کرتے تھے، قبائلی لڑائیوں کا بازار گرم رہتا تھا، یثرب کے قبائل اوس و خزرج کی
لڑائیاں تو عرب میں بہت مشہور تھیں ، اوس و خزرج آپس میں خوب لڑتے تھے، اور دونوں
طرف سے جان و مال کا بڑا نقصان ہوتا تھا، تباہی و بد امنی سے نکلنے کی بظاہر کوئی
راہ نظر نہیں آتی تھی۔ یکایک کوہ صفا کی چوٹی سے آفتاب رسالت طلوع ہوا آپﷺ نے
لوگوں کو توحید کی دعوت دی اور اسلامی عقیدہ و فکر کی بنیاد پر منتشر عرب قبائل کو
ایک کر دیا، محض تئیس سال کے مختصر عرصہ میں آباء و اجداد پر فخر کرنے والے، نسلی
و خاندانی عصبیت میں ڈوبے ہوئے اور آپس میں دست و گریباں عرب قبائل کو آپ ﷺ نے
اسلام سے وابستہ کرکے وحدت لڑی میں پرو دیا ، سن ۱۰ھ حجتہ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ سے زیادہ صحا بہ کرام میدان عرفات میں
موجود تھے ، یہ سب ایک عقیدہ، ایک نظریہ اور ایک قیادت کے تحت جمع تھے ۔ آپﷺ نے
خطبۂ حج میں ارشاد فرمایا ’’ اے لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے، اور تمہارا باپ
(آدم) ایک ہیں ، ہاں عربی کو عجمی پر ، عجمی کو عربی پر سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ
کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ کے سبب سے‘‘ ( مسند احمد) آپﷺ نے فرمایا ہر
مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں (مستدرک حاکم)
یہ دراصل وحدت امت کی عالمگیر پکار تھی ۔ سارے عالم میں مسلمانوں کو امت واحدہ بن
کر زندگی گذارنے کی نبوی تلقین تھی ۔ اسلامی نقطۂ نظر سے دنیا میں دو ہی قوم پائی
جاتی ہے ، ایک اسلام کو ماننے والی قوم یعنی مسلم قوم اور دوسرے اسلام کا انکار
کرنے والے یعنی کافر قوم۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد پر مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا اور سب کو
متحد رہنے کا حکم فرمایا،اسلام کے علاوہ قبیلہ یا خاندان وغیرہ کی بنیاد پراجتماعیت
کو افتراق اور اختلاف قرار دیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :(تم سب مل کر اللہ کی رسیّ
کو مضبوطی سے تھام لو اور الگ الگ نہ ہوجاؤ اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو جو اس نے
تم کئے جب تم آپس میں دشمن تھے تو اس نے تمہارے درمیان الفت ڈال دیا پھر اس کی
مہربانی سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے ۔۔۔۔(آل عمران ۱۰۳)
عہد نبوی میں جب کبھی یہود و منافقین مسلمانوں کے درمیان نسلی اور خاندانی عصبیت
کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرتے آپ فوراً اقدام کرکے اسے بجھا دیتے تھے۔ایک دفعہ کا
واقعہ ہے کہ اوس و خزرج کے کچھ لوگ ایک جگہ جمع تھے اور آپس میں بات چیت کر رہے
تھے ، ایک یہودی شخص وہاں سے گزر رہا تھا، اللہ کے دشمن کو ان کا آپس کا اتحاد بہت
ناگوار ہوا، چنانچہ اس نے ایک یہودی کو اس مجلس میں بھیج دیا، اس نے اوس و خزرج کو
پچھلے زمانہ کے واقعات یاد دلائے جب اوس و خزرج کے درمیان زبردست جنگ چلی تھی، اور
خصوصاً جنگ بعاث کے واقعات یاد دلائے، وہاں بیٹھے ہوئے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک
اٹھے اور اپنی مدد کے لئے اپنے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو بلانے لگے ایک دوسرے کے
خلاف تلواریں نکال لئے ،آپ ؐ کو خبر ملی توآپ فوراً تشریف لائے اور
فرمایا:
’’أبدعوی الجاہلیۃ و انا بین اظہرکم ‘‘
(یہ کیا جاہلیت کی پکار ہے ؟جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں )اور پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی
:واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا واذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعداءً فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا ۔۔۔
’’ائے مسلمانو!تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور الگ الگ نہ ہوجاؤ ،اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم سب آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اورتم سب اللہ کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے ۔آل عمران ۱۰۳‘‘(تفسیر ابن کثیر۲؍۹۰)
اسی طرح جب غزوۂ بنی المصطلق کا واقعہ پیش آیا اور جنگ کے بعد ابھی مسلمانوں کا لشکر ’’مریسیع‘‘ کے پانی پر جمع تھا کہ اچانک ایک ناگوار واقعہ پیش آگیا ، ایک مہاجر اور ایک انصاری میں اسی پانی پر جھگڑا ہوگیا اور معاملہ سنگین رخ اختیار کر گیا، مہاجر نے اپنی مدد کے لئے مہاجرین کو پکارا اور انصاری نے انصار کو، رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ فوراً وہاں تشریف لے گئے اور شدید ناراضگی کے ساتھ فرمایا:
’’ ما بال دعوی الجاہلیۃ ‘‘
( یہ جاہلیت کا نعرہ کیسا ہے؟) اور فرمایا:
’’دعوہا فانہا منتنۃ‘ ‘
(اس نعرہ کو چھوڑ دو کیونکہ یہ بدبودار نعرہ ہے ) گویا آپ ﷺ نے اسلامی عقیدہ کی بنیاد پر وحدت کی تاکید کی اور نسل پرستی کی پکار سے سختی سے روکا جو مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور انتشار پیدا کر تا ہے۔ سنن ابو داؤد میں حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’
لیس منا من دعا الی عصبیۃ و لیس منا من قاتل عصبیۃ و لیس منا من مات علی عصبیۃ ‘‘
( وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کے لئے لڑے اور وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مر جائے)
رسول اللہﷺ کے خلفاء نے بھی مسلمانوں میں جاہلیت کو ابھرنے نہیں دیا ، قومیت و وطنیت، رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر امتیازات اور اختلافات کی آگ کو بھڑکنے نہیں دیا ، اسلامی عہد کے طویل عرصہ میں امت مسلمہ وطنیت اور رنگ و نسل پر مبنی امتیازات کے ناپاک جراثیم سے محفوظ رہی، حتی کہ خلافت عثمانیہ میں سرحدات کی وسعت افریقہ و یوروپ اور مشرقی ایشیاء تک پھیل چکی تھی ، ان تمام علاقوں میں مسلمان مختلف رنگ و روپ کے تھے، ان کی زبانیں مختلف تھیں ، اور وہ مختلف موسمی حالات کے علاقوں میں زندگی بسر کرتے تھے ، اس کے باوجود سب ایک امت تھے ، امت مسلمہ کا یہ اتحاد یہود اور اہل یوروپ کو کبھی بھی قابل قبول نہ رہا ، کیونکہ مسلمانوں کا آپسی اتحاد ان کے لئے ہمیشہ زوال کا سبب بنا رہا، اس لئے وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ مسلمانوں کو جاہلیت کی طرف پھیر دیا جائے، ان میں نسل پرستی اور وطنیت کی آگ بھڑکا دی جائے، چنانچہ عربوں کو عرب قومیت کا سبق پڑھایا گیا اور ترکوں کو ترک آباء واجداد کے کارنامے یاد دلائے گئے، اہل مصر فخر کرنے لگے کہ وہ فراعنہ مصر کی اولاد ہیں ، اس طرح نیشنلزم اور وطنیت کی جڑ اسلامی علاقوں میں پیوست ہونے لگی ، دین کو معاشرہ سے بے دخل کرنے کی پوری تیاری کر لی گئی، یہاں تک کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کا اعلان کر دیا گیا، پھر کیا تھا؟ نیشنلزم اور وطنیت کی بنیاد پر امت مسلمہ پچاس سے زائد ٹکڑوں میں بٹ گئی اور نسل پرستی اور وطن پرستی نے مسلمانوں کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا، ہر ایک کے ہاتھ میں قومیت اور نیشنلزم کا جھنڈا دے دیا گیا ، ہر ایک نے اپنے لئے قومی لباس منتخب کر لیا، قومیت کا جشن منانے کے لئے سال میں ایک دن مقرر کر لیا، نوجوان حب وطن کے ترانے گانے لگے ، حالانکہ نیشنلزم اور وطنیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، یہ باطل نظریہ ہے، یہ وہ بت ہے جسے عقل انسانی نے ازخود تراش لیا ہے، یہ مسلمانوں کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں ۔ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اسلامی عقیدہ و فکر کی بنیاد پر مسلم علاقوں میں ایک خلیفہ کے تحت اسلامی خلافت کو قائم کرنا ہوگا اور وطن پرستی اور نسل پرستی کی لعنت کو مسلم معاشرہ سے بے دخل کرنا ہوگا تاکہ مکمل طور پر اسلامی شریعت کا نفاذ ہو،برصغیر کے مشہورو معروف عالم دین اور مفسر قرآن حضرت مفتی شفیع احمد صاحبؒ فرماتے ہیں : ’’ کاش آج بھی مسلمان اپنے قرآنی اصول اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایات پر غور کریں ، غیروں کے سہارے جینے کے بجائے خود اسلامی برادری کو مضبوط بنالیں ، رنگ و نسل اور زبان و وطن کے بت کو پھر ایک دفعہ توڑ ڈالیں تو آج بھی خدا تعالیٰ کی نصرت اور امداد کا مشاہدہ کھلی آنکھوں ہونے لگے‘‘(معارف القرآن تفسیر سورۂ منافقون )
اسلام کے بجائے قومیت اور نیشنلزم کا جھنڈا بلند کرنے والے وطن پرستی کے جواز پر رسول اللہ ﷺ کے واقعۂ ہجرت کو دلیل بنا تے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب آپ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کی طرف روانہ ہو رہے تھے بار بار آپؐ کی نگاہ مبارک وطن عزیز مکہ کی طرف پلٹ رہی تھی اور آپ فرما رہے تھے : ’’ اے مکہ اگر تیرے باشندے مجھے نکلنے پر مجبور نہ کرتے تو میں تجھے چھوڑ کر نہ جاتا، اس واقعہ سے وطن پرستی اور قومیت کے جواز پر دلیل قائم کرنا غلط فہمی ہے، غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ نبیﷺ کو سرزمین مکہ اس لئے عزیز تر نہیں تھا کہ وہاں آپ پید ا ہوئے تھے اور اس لئے نہیں کہ وہ آپ کے خاندان اور قبیلہ کا مسکن تھا بلکہ مکہ مکرمہ سے انس و محبت کی وجہ یہ تھی کہ یہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند تھا اور اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے سے مکہ میں کعبۃ اللہ تعمیر کرکے اسے مرکز توحید بنایا تھا اور تقدیر الٰہی نے سرزمین مکہ کو قیامت تک کے لئے سارے جہاں کے اہل ایمان کے لئے قبلہ بنا دیا تھا، اگر آپ ﷺ کو مکہ وطنیت کی بنیاد پر عزیز تر ہوتا تو فتح مکہ کے بعد آپؐ وہاں مقیم ہو جاتے لیکن آپ ؐنے مدینہ منورہ ہی میں اقامت کو ترجیح دی ،جہاں آپ کو اوس و خزرج قبائل کی نصرت اور امداد حاصل ہوئی اور آپ ؐ نے اسلامی ریاست قائم کرکے شریعت مکمل طور پر نافذ کر نے میں کامیابی حاصل کر لی، اسی بنا پر آپؐ انصار مدینہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور انصار سے محبت کو ایمان کی علامت قرار دیتے تھے، اور اسی نسبت سے آپؐ نے احد پہاڑ کی طرف نگاہ کرکے فرمایا تھا :
’’ ہذا جبل یحبنا و نحبہ ‘‘
( یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم ان سے محبت کرتے ہیں )۔
یہ درست ہے کہ فطری طور پر انسان کو اس گاؤں یا شہر سے محبت اور قلبی لگاؤ ہوتا ہے جہاں وہ پلتا اور بڑھتا ہے، جہاں وہ بچپن اور بچپن سے جوانی کی منزل میں قدم رکھتا ہے، اسی طرح انسان کو وہ قبیلہ اور خا ندان محبوب ہوتا ہے جس میں وہ پیدا ہوتا ہے، وہ زبان اسے عزیز تر ہوتی ہے جسے وہ ماں کی گود میں سیکھتا ہے۔ انسان ماں باپ سے محبت کرتا ہے ، جن کی محبت و شفقت کے سایہ میں وہ پرورش پاتا ہے، یہ ساری محبتیں ، یہ قلبی لگاؤ اور یہ جذباتی تعلق اسلام میں قابل قدر ہیں ،لیکن یہ تعلق اور محبتیں اجتماعیت اور وحدت کی بنیاد نہیں بن سکتی ہیں اجتماعیت اور وحدت کی بنیاد صرف اسلامی عقیدہ ہے ، رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا آدمی اپنی قوم و خاندان سے محبت کرتا ہے تو کیا یہ عصبیت میں داخل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: نہیں ، لیکن عصبیت یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کی ناحق مدد کرے۔(احمد،ابن ماجہ)یعنی اگر کوئی قبیلہ و خاندان کی محبت میں عدل اور انصاف کو نظر انداز کردے تو یہی عصبیت ہے، گویا وطن یا نسل و خاندان سے محبت فطری ہے ، اس سے لگاؤ کا اظہار کرنا برا نہیں ہے لیکن یہ بس تعارف کے لئے ہے، وحدت اور اجتماعیت کا نظم قائم کرنے کے لئے اس کو بنیاد بنانا بالکل درست نہیں ، اسی طرح اسلام کے بجائے نسل یا وطن کو وحدت کی بنیاد بنانا عصبیت اور جاہلیت ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
یاٰایّھا الناّس انا جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا انّ اکرمکم عند اللہِ اتقاکم۔۔۔۔
(ا ے لوگو ! یقیناً ہم نے تم سب کو خاندانوں اور قبیلوں میں پیدا کیا تاکہ آپس میں تمہارا تعارف ہو بے شک تم لوگوں میں سب سے افضل اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے ۔سورۂ حجرات۱۳)
اس سے معلوم ہوا کہ وطن کی محبت، مادری زبان سے انس، قبیلہ اور خاندان سے تعلق اور آباء و اجداد سے جذباتی لگاؤ یہ سب وحدت کی بنیاد نہیں، اور ان کی بنیاد پر زندگی کا نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ وحدت کی بنیاد بس اسلام ہے، سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ، تمام مسلمان ایک امت ہیں ان سب کا ایک ہی امام و خلیفہ ہوگا، لیکن آج مسلمان وطنیت اور نیشنلزم کی بنیاد پر پچاس سے زائد ٹکروں میں بٹے ہوئے ہیں ،دشمنانِ اسلام یہود و نصاریٰ و مشرکین مسلمانوں کو وطنیت اور نسل پرستی کا سبق پڑھاتے رہے تاکہ سارے عالم کے مسلمانوں کے درمیان اسلامی اخوت کا رشتہ کمزور ترہو جائے اور ان کے درمیان اختلاف اور انتشار بڑھتا جائے اور پھر عالم اسلام میں موجود قدرتی وسائل پر ان کا قبضہ برقرار رہے اور سب سے بڑی سازش یہ کہ ایک خلیفہ کے تحت مسلمانوں کو متحد ہونے سے روکا جا سکے ، مفتی شفیع احمد ساحبؒ فرماتے ہیں: ’’دشمن اسلام آج سے نہیں ،بلکہ ہمیشہ سے مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کرنے کے لئے یہی برادری اور وطنی قومیت کا حربہ استعمال کرتے ہیں ، اور جس وقت موقع مل جاتا ہے اسی سے کام لے کر مسلمانوں میں تفرقہ ڈال دیتے ہیں‘‘( معارف القرآن تفسیر سور�ۂ منافقون )
نیشنلزم ، نسل پرستی و وطنیت یہ سب غیر اسلامی افکار ہیں اور مغرب نے یہ باطل افکار عالم اسلام میں پھیلا دیئے ہیں اور انہیں افکار کے سہارے مغرب عرص�ۂدراز سے عالم اسلام پر اپنا تسلط برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے ۔ یہ باطل افکار وحدت امت کے لئے بڑی رکاوٹ ہیں اور نفاذ شریعت کی راہ میں حائل ہیں، اس لئے سارے عالم کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان باطل افکار کو مٹانے کے لئے خالص اسلامی اور پرامن جدوجہد میں شامل ہو جائیں تاکہ اسلامی عقیدہ کی بنیاد پر اجتماعیت یعنی اسلامی ریاست کا قیام آسان ہو جائے۔
’’أبدعوی الجاہلیۃ و انا بین اظہرکم ‘‘
(یہ کیا جاہلیت کی پکار ہے ؟جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں )اور پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی
:واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا واذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعداءً فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا ۔۔۔
’’ائے مسلمانو!تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور الگ الگ نہ ہوجاؤ ،اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم سب آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اورتم سب اللہ کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے ۔آل عمران ۱۰۳‘‘(تفسیر ابن کثیر۲؍۹۰)
اسی طرح جب غزوۂ بنی المصطلق کا واقعہ پیش آیا اور جنگ کے بعد ابھی مسلمانوں کا لشکر ’’مریسیع‘‘ کے پانی پر جمع تھا کہ اچانک ایک ناگوار واقعہ پیش آگیا ، ایک مہاجر اور ایک انصاری میں اسی پانی پر جھگڑا ہوگیا اور معاملہ سنگین رخ اختیار کر گیا، مہاجر نے اپنی مدد کے لئے مہاجرین کو پکارا اور انصاری نے انصار کو، رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ فوراً وہاں تشریف لے گئے اور شدید ناراضگی کے ساتھ فرمایا:
’’ ما بال دعوی الجاہلیۃ ‘‘
( یہ جاہلیت کا نعرہ کیسا ہے؟) اور فرمایا:
’’دعوہا فانہا منتنۃ‘ ‘
(اس نعرہ کو چھوڑ دو کیونکہ یہ بدبودار نعرہ ہے ) گویا آپ ﷺ نے اسلامی عقیدہ کی بنیاد پر وحدت کی تاکید کی اور نسل پرستی کی پکار سے سختی سے روکا جو مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور انتشار پیدا کر تا ہے۔ سنن ابو داؤد میں حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’
لیس منا من دعا الی عصبیۃ و لیس منا من قاتل عصبیۃ و لیس منا من مات علی عصبیۃ ‘‘
( وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کے لئے لڑے اور وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مر جائے)
رسول اللہﷺ کے خلفاء نے بھی مسلمانوں میں جاہلیت کو ابھرنے نہیں دیا ، قومیت و وطنیت، رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر امتیازات اور اختلافات کی آگ کو بھڑکنے نہیں دیا ، اسلامی عہد کے طویل عرصہ میں امت مسلمہ وطنیت اور رنگ و نسل پر مبنی امتیازات کے ناپاک جراثیم سے محفوظ رہی، حتی کہ خلافت عثمانیہ میں سرحدات کی وسعت افریقہ و یوروپ اور مشرقی ایشیاء تک پھیل چکی تھی ، ان تمام علاقوں میں مسلمان مختلف رنگ و روپ کے تھے، ان کی زبانیں مختلف تھیں ، اور وہ مختلف موسمی حالات کے علاقوں میں زندگی بسر کرتے تھے ، اس کے باوجود سب ایک امت تھے ، امت مسلمہ کا یہ اتحاد یہود اور اہل یوروپ کو کبھی بھی قابل قبول نہ رہا ، کیونکہ مسلمانوں کا آپسی اتحاد ان کے لئے ہمیشہ زوال کا سبب بنا رہا، اس لئے وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ مسلمانوں کو جاہلیت کی طرف پھیر دیا جائے، ان میں نسل پرستی اور وطنیت کی آگ بھڑکا دی جائے، چنانچہ عربوں کو عرب قومیت کا سبق پڑھایا گیا اور ترکوں کو ترک آباء واجداد کے کارنامے یاد دلائے گئے، اہل مصر فخر کرنے لگے کہ وہ فراعنہ مصر کی اولاد ہیں ، اس طرح نیشنلزم اور وطنیت کی جڑ اسلامی علاقوں میں پیوست ہونے لگی ، دین کو معاشرہ سے بے دخل کرنے کی پوری تیاری کر لی گئی، یہاں تک کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کا اعلان کر دیا گیا، پھر کیا تھا؟ نیشنلزم اور وطنیت کی بنیاد پر امت مسلمہ پچاس سے زائد ٹکڑوں میں بٹ گئی اور نسل پرستی اور وطن پرستی نے مسلمانوں کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا، ہر ایک کے ہاتھ میں قومیت اور نیشنلزم کا جھنڈا دے دیا گیا ، ہر ایک نے اپنے لئے قومی لباس منتخب کر لیا، قومیت کا جشن منانے کے لئے سال میں ایک دن مقرر کر لیا، نوجوان حب وطن کے ترانے گانے لگے ، حالانکہ نیشنلزم اور وطنیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، یہ باطل نظریہ ہے، یہ وہ بت ہے جسے عقل انسانی نے ازخود تراش لیا ہے، یہ مسلمانوں کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں ۔ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اسلامی عقیدہ و فکر کی بنیاد پر مسلم علاقوں میں ایک خلیفہ کے تحت اسلامی خلافت کو قائم کرنا ہوگا اور وطن پرستی اور نسل پرستی کی لعنت کو مسلم معاشرہ سے بے دخل کرنا ہوگا تاکہ مکمل طور پر اسلامی شریعت کا نفاذ ہو،برصغیر کے مشہورو معروف عالم دین اور مفسر قرآن حضرت مفتی شفیع احمد صاحبؒ فرماتے ہیں : ’’ کاش آج بھی مسلمان اپنے قرآنی اصول اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایات پر غور کریں ، غیروں کے سہارے جینے کے بجائے خود اسلامی برادری کو مضبوط بنالیں ، رنگ و نسل اور زبان و وطن کے بت کو پھر ایک دفعہ توڑ ڈالیں تو آج بھی خدا تعالیٰ کی نصرت اور امداد کا مشاہدہ کھلی آنکھوں ہونے لگے‘‘(معارف القرآن تفسیر سورۂ منافقون )
اسلام کے بجائے قومیت اور نیشنلزم کا جھنڈا بلند کرنے والے وطن پرستی کے جواز پر رسول اللہ ﷺ کے واقعۂ ہجرت کو دلیل بنا تے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب آپ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کی طرف روانہ ہو رہے تھے بار بار آپؐ کی نگاہ مبارک وطن عزیز مکہ کی طرف پلٹ رہی تھی اور آپ فرما رہے تھے : ’’ اے مکہ اگر تیرے باشندے مجھے نکلنے پر مجبور نہ کرتے تو میں تجھے چھوڑ کر نہ جاتا، اس واقعہ سے وطن پرستی اور قومیت کے جواز پر دلیل قائم کرنا غلط فہمی ہے، غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ نبیﷺ کو سرزمین مکہ اس لئے عزیز تر نہیں تھا کہ وہاں آپ پید ا ہوئے تھے اور اس لئے نہیں کہ وہ آپ کے خاندان اور قبیلہ کا مسکن تھا بلکہ مکہ مکرمہ سے انس و محبت کی وجہ یہ تھی کہ یہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند تھا اور اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے سے مکہ میں کعبۃ اللہ تعمیر کرکے اسے مرکز توحید بنایا تھا اور تقدیر الٰہی نے سرزمین مکہ کو قیامت تک کے لئے سارے جہاں کے اہل ایمان کے لئے قبلہ بنا دیا تھا، اگر آپ ﷺ کو مکہ وطنیت کی بنیاد پر عزیز تر ہوتا تو فتح مکہ کے بعد آپؐ وہاں مقیم ہو جاتے لیکن آپ ؐنے مدینہ منورہ ہی میں اقامت کو ترجیح دی ،جہاں آپ کو اوس و خزرج قبائل کی نصرت اور امداد حاصل ہوئی اور آپ ؐ نے اسلامی ریاست قائم کرکے شریعت مکمل طور پر نافذ کر نے میں کامیابی حاصل کر لی، اسی بنا پر آپؐ انصار مدینہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور انصار سے محبت کو ایمان کی علامت قرار دیتے تھے، اور اسی نسبت سے آپؐ نے احد پہاڑ کی طرف نگاہ کرکے فرمایا تھا :
’’ ہذا جبل یحبنا و نحبہ ‘‘
( یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم ان سے محبت کرتے ہیں )۔
یہ درست ہے کہ فطری طور پر انسان کو اس گاؤں یا شہر سے محبت اور قلبی لگاؤ ہوتا ہے جہاں وہ پلتا اور بڑھتا ہے، جہاں وہ بچپن اور بچپن سے جوانی کی منزل میں قدم رکھتا ہے، اسی طرح انسان کو وہ قبیلہ اور خا ندان محبوب ہوتا ہے جس میں وہ پیدا ہوتا ہے، وہ زبان اسے عزیز تر ہوتی ہے جسے وہ ماں کی گود میں سیکھتا ہے۔ انسان ماں باپ سے محبت کرتا ہے ، جن کی محبت و شفقت کے سایہ میں وہ پرورش پاتا ہے، یہ ساری محبتیں ، یہ قلبی لگاؤ اور یہ جذباتی تعلق اسلام میں قابل قدر ہیں ،لیکن یہ تعلق اور محبتیں اجتماعیت اور وحدت کی بنیاد نہیں بن سکتی ہیں اجتماعیت اور وحدت کی بنیاد صرف اسلامی عقیدہ ہے ، رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا آدمی اپنی قوم و خاندان سے محبت کرتا ہے تو کیا یہ عصبیت میں داخل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: نہیں ، لیکن عصبیت یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کی ناحق مدد کرے۔(احمد،ابن ماجہ)یعنی اگر کوئی قبیلہ و خاندان کی محبت میں عدل اور انصاف کو نظر انداز کردے تو یہی عصبیت ہے، گویا وطن یا نسل و خاندان سے محبت فطری ہے ، اس سے لگاؤ کا اظہار کرنا برا نہیں ہے لیکن یہ بس تعارف کے لئے ہے، وحدت اور اجتماعیت کا نظم قائم کرنے کے لئے اس کو بنیاد بنانا بالکل درست نہیں ، اسی طرح اسلام کے بجائے نسل یا وطن کو وحدت کی بنیاد بنانا عصبیت اور جاہلیت ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
یاٰایّھا الناّس انا جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا انّ اکرمکم عند اللہِ اتقاکم۔۔۔۔
(ا ے لوگو ! یقیناً ہم نے تم سب کو خاندانوں اور قبیلوں میں پیدا کیا تاکہ آپس میں تمہارا تعارف ہو بے شک تم لوگوں میں سب سے افضل اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے ۔سورۂ حجرات۱۳)
اس سے معلوم ہوا کہ وطن کی محبت، مادری زبان سے انس، قبیلہ اور خاندان سے تعلق اور آباء و اجداد سے جذباتی لگاؤ یہ سب وحدت کی بنیاد نہیں، اور ان کی بنیاد پر زندگی کا نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ وحدت کی بنیاد بس اسلام ہے، سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ، تمام مسلمان ایک امت ہیں ان سب کا ایک ہی امام و خلیفہ ہوگا، لیکن آج مسلمان وطنیت اور نیشنلزم کی بنیاد پر پچاس سے زائد ٹکروں میں بٹے ہوئے ہیں ،دشمنانِ اسلام یہود و نصاریٰ و مشرکین مسلمانوں کو وطنیت اور نسل پرستی کا سبق پڑھاتے رہے تاکہ سارے عالم کے مسلمانوں کے درمیان اسلامی اخوت کا رشتہ کمزور ترہو جائے اور ان کے درمیان اختلاف اور انتشار بڑھتا جائے اور پھر عالم اسلام میں موجود قدرتی وسائل پر ان کا قبضہ برقرار رہے اور سب سے بڑی سازش یہ کہ ایک خلیفہ کے تحت مسلمانوں کو متحد ہونے سے روکا جا سکے ، مفتی شفیع احمد ساحبؒ فرماتے ہیں: ’’دشمن اسلام آج سے نہیں ،بلکہ ہمیشہ سے مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کرنے کے لئے یہی برادری اور وطنی قومیت کا حربہ استعمال کرتے ہیں ، اور جس وقت موقع مل جاتا ہے اسی سے کام لے کر مسلمانوں میں تفرقہ ڈال دیتے ہیں‘‘( معارف القرآن تفسیر سور�ۂ منافقون )
نیشنلزم ، نسل پرستی و وطنیت یہ سب غیر اسلامی افکار ہیں اور مغرب نے یہ باطل افکار عالم اسلام میں پھیلا دیئے ہیں اور انہیں افکار کے سہارے مغرب عرص�ۂدراز سے عالم اسلام پر اپنا تسلط برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے ۔ یہ باطل افکار وحدت امت کے لئے بڑی رکاوٹ ہیں اور نفاذ شریعت کی راہ میں حائل ہیں، اس لئے سارے عالم کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان باطل افکار کو مٹانے کے لئے خالص اسلامی اور پرامن جدوجہد میں شامل ہو جائیں تاکہ اسلامی عقیدہ کی بنیاد پر اجتماعیت یعنی اسلامی ریاست کا قیام آسان ہو جائے۔
وطنیت اور اسلام
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
1:20 PM
Rating:
آپ نے پوسٹ کرنا کیوں بند کردیا ۔۔۔۔۔ آپکی پوسٹ پڑھکر بھت معلومات اور دلی تسکین ملتی تھی
جواب دیںحذف کریں