بِسم اللہ الرحمٰن الرحیم
) اِنَّمَا
یَخْشَی اللّٰہُ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمآؤُا ط
(
(
اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔(ترجمہ معانئ قرآنِ کریم:سورۂفاطر:آیت۲۸(
اس آیتِ شریفہ میں اللہ لنے علماء کی تعریف متعین فرما
دی یعنی علماء کو مختصر ترین الفاظ میں Define کر
دیا۔اس کے علاوہ خود رسولِ پاک انے علماء کی عظمت اور اہمیت بتاتے ہوئے فرمایا:
(العلماءُ وَرَثَا ءُ الاَنْبِیَاء)
یعنی علماء نبیوں کے وارث
(العلماءُ وَرَثَا ءُ الاَنْبِیَاء)
یعنی علماء نبیوں کے وارث
ہیں۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ
وراثت نبوت کی نہیں ہے کیونکہ نبوت کا سلسلہ تو آپ اکے بعد ختم ہوگیا،بلکہ یہ
وراثت دین کی تبلیغ،منکر کو ختم کرنے اور دینِ حق کو قائم رکھنے کی ہے۔
ابو نعیم سے روایت ہے کہ
رسول اللہ انے فرمایا:’’اگر علماء و حاکم اچھے ہوں گے تو لوگ بھی اچھے ہوں گے اور
اگرحکمراں اور علماء برے ہوں گے تو لوگ بھی برے ہوں گے‘‘۔یعنی جیسے علماء و حکمراں
ہوں گے ویسے ہی لوگ بھی ہوں گے۔
الدارمیؔ اپنی کتاب
المقدمہؔ میں روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم انے فرمایا:’’ مجھ سے برائی کے بارے میں
سوال مت کرو بلکہ اچھائی کے بارے میں پوچھو‘‘۔ آپ انے یہ بات تین مرتبہ فرمائی پھر
ارشاد فرمایا:’’دنیا میں سب سے بری چیز برے علماء ہیں اور سب سے اچھی چیز اچھے
علماء ہیں‘‘۔
اس وقت جن مسائل کا امت کو سامنا ہے اُن کے تعلق سے
مسلمانوں،خصوصاً علماء کی ذمہ داری کیا ہے؟آج امتِ مسلمہ جن مسائل سے دوچار
ہے،اُنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،اُن مسائل اور حالات پر غور و فکر کرنا اور
ان کے حل کیلئے کوشش کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے؛مثلاً : حضرت نعمان بن بشیر صکی
متفق علیہ روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم انے فرمایا:
’’
آپسی
محبت و الفت ،مودت و اخوت میں مؤمن کی مثال ایک جسم کی ہے۔اگر جسم کے ایک حصہ یا
عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بخار اور درد کو محسوس کرتا ہے اور اس میں مبتلا
ہوجاتاہے۔‘‘
پچھلے کچھ سالوں ہی میں اگر دیکھیں تو مسلمانوں نے کتنی
پریشانیوں کا سامنا کیا ہے اور کتنی مصیبتیں جھیلی ہیں۔ ان کو کیا ہم نے محسوس
کیا؟ اور کیا ان پریشانیوں سے نجات پانے کیلئے ہم نے کبھی سوچا؟ مسجد میں اپنے
خطبوں اور تقریروں میں مسلمانوں کے مسائل اور تکلیفوں پر کیا ہم نے کبھی روشنی
ڈالی؟کیا کبھی ہم نے اس پر غور کیا کہ ان مسائل کا حل کیا ہے؟
یہ ایک ناقابلِ انکار
حقیقت ہے کہ اس وقت امتِ مسلمہ ہر طرح کے مسائل سے گھری ہوئی ہے،چاہے وہ اقتصادی
ہوں،یا معاشرتی،تعلیمی ہوں یا تہذیبی اور فوجی ہوں یا سیاسی۔ہم نے دیکھا سرزمینِ
اسراء و معراج پر کس طرح یہودی مسلط اور قابض ہیں۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت کس
بری طرح ساری دنیا میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے؛فلسطین اور چیچنیا اور ابھی
حال ہی میں لبنان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں ایک بڑی تعداد میں مسلمان
مرد،عورتوں اور بچوں کو قتل کیا جارہا ہے۔عراق میں خوراک اور دواؤں میں پابندی کی
وجہ سے پانچ لاکھ بچے موت کا شکار ہوئے اور ہزاروں بچے یورینیم بم گرائے جانے سے
معذور پیدا ہو رہے ہیں۔بوسنیا میں ساٹھ ہزار مسلمان عورتوں کی عصمت کو پامال کیا
گیا۔ چیچنیا کے مسلمانوں پر روسیوں کا ظلم و ستم،صوبۂ سنکیانگ ؔ میں چینیؤں کی
زیادتاں،سوڈان میں دارفورؔ کا مسئلہ اور،اوزبیکستانؔ میں داعیانِ اسلام پر مصیبتوں
کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں کے تعلق سے یہ چند مثالیں آپ کے سامنے
ہیں۔
۱۱
۱۱
ستمبر کے بعد سے اسلام کے خلاف جنگ
میں شدّت آگئی ہے،اس وجہ سے اسلام اور مسلمان ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئے
ہیں۔ہم نے دیکھا کہ امریکہ نے کس طرح افغانستان جیسے غریب اور کمزور ملک پر قبضہ
کیا جہاں معصوم شہریوں پر ہزاروں بم گرائے گئے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ نئے زمانے کے
منگولوں نے عراق پر کس طرح قبضہ کیا ہوا ہے،مسلمانوں کے اس ملک پر ابھی تک اتنے بم
گرائے جا چکے ہیں جتنے دونوں عالمی جنگوں میں ملا کر بھی نہیں گرائے گئے تھے۔ ہم
یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے بھائیوں کے ساتھ ابو غریب جیل اور گوانٹانامو میں
جانوروں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ کس طرح سے ان کو پنجروں میں لٹکایا گیا،نہ تو اُن
کو اپنا وکیل کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی ان پر مقدمہ چلایا جارہا ہے۔برطانوی
رسالے Lancet کے
مطابق عراق میں امریکی
قبضے کے بعد سے اب تک ایک لاکھ لوگ مارے جا چکے ہیں۔
بابری مسجد کی شہادت پر
ہم نے کس طرح احتجاج کیا تھا،آپ کو معلوم ہے عراق میں امریکہ اور برطانیہ کتنی
مسجدیں شہید کر چکے ہیں؟صرف شہر فلوجہ میں وہاں کی آدھی مسجدوں کو شہید کر دیا گیا
ہے۔ہمیں ایک لمحہ کیلئے بھی یہ نہیں سوچنا چائے کہ یہ مسائل ہمارے نہیں ہیں کیونکہ
ہم تو ہندوستان میں بیٹھے ہیں اور یہ مسائل تو افغانستان،عراق اور لبنان کے
ہیں،ہمارا ان سے کیا تعلق؟اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی بتایا ہے
:
:
(اِنَّمَا
الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ)
(یاد رکھو)سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں،(ترجمہ معانئ قرآن ِ کریم: الحجرات:آیت ۲۸)
اور حضورا نے فرمایا:
((الْمُسْلِمُوْنَ اُمَّۃٌ وَاحِدۃ،بِلا دھم واحدۃ و حَرْبُھُمْ واحِدۃ))
مسلمان ایک امت ہیں،اُن کی زمین یاملک ایک ہے اور اُن کی جنگ بھی ایک۔
(یاد رکھو)سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں،(ترجمہ معانئ قرآن ِ کریم: الحجرات:آیت ۲۸)
اور حضورا نے فرمایا:
((الْمُسْلِمُوْنَ اُمَّۃٌ وَاحِدۃ،بِلا دھم واحدۃ و حَرْبُھُمْ واحِدۃ))
مسلمان ایک امت ہیں،اُن کی زمین یاملک ایک ہے اور اُن کی جنگ بھی ایک۔
اس وقت ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کتنی مرتبہ ہم نے
ان مسائل پر لوگوں سے گفتگو کی ہے،اپنے خطبوں اور بیانوں میں کتنی بار اس کا ذکر
کیا ہے؟ اور کیا ان مسائل کے اصل حل کی طرف ہم نے کبھی توجہ دی ؟
اگر خدا نخواستہ کعبۃ اللہ پر کوئی حملہ کرتا ہے تو
یقیناً ہم میں سے ہر ایک بے چین ہو جائے گا،ہماری راتوں کی نیند اُڑ جائے گی،لوگوں
سے گفتگو میں صرف یہی موضوع رہے گا اور ہم کعبۃ اللہ کی حفاظت کیلئے تمام ممکنہ
کوششیں کریں گے۔لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ اللہ گکے نزدیک کعبے کے مقابلے میں
مسلمان کے خون کی قیمت کیا ہے؟ابن
((مَا اعْظَمَکِ،وَمَا اشْرَفَکِ،وَمَا اجْمَلَکِ ))
کتنا عظیم ہے تو،کتنا مقدس ہے تو،اور کتنا خوبصورت ہے تو‘‘۔ اور پھر فرمایا’’ مگر اللہ تعالیٰ کی نظ ماجہ کی حدیث ہے کہ ایک مرتبہ جب آپ ا کعبۃ اللہ کا طواف کر رہے تھے،اس موقع پر آپ ا نے کعبے کی طرف دیکھ کر فرمایا تھا:ر میں ایک مسلمان کا خون تیرے آس پاس کی چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔
اگر مسلمان کا خون اتنا قیمتی ہے تو یقیناً ہمیں اس کے تحفظ کیلئے ہر ممکنہ کوشش کرنا چاہئے۔ساری دنیا کے مسلمان ان مسائل کے بارے میں تکلیف محسوس کر رہے ہیں اور ان کے درمیان گفتگو کا موضوع یہی ہے۔
دنیا میں ہر جگہ مسلمان آج علماء کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ان کو ان تمام مسائل اور پریشانیوں سے نجات دلائیں گے اور امت کی صحیح راستے کی طرف راہنمائی کریں گے۔اس لئے علماء کے کندھوں پر یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل کی طرف توجہ دیں۔اس سے قبل کہہم ان مسائل کے حل اسلامی شواہد و دلائل کی روشنی میں تلاش کریں،یہ ضروری ہے کہ کچھ بنیادی نکات کو پیشِ نظر رکھا جائے۔
۱۔۔۔بحیثیت مسلمان یہ بات ہمارے ذہنوں میں بالکل واضح ہونا چاہئے کہ اپنے ہر انفرادی اور اجتماعی عمل سے پہلے اور ہر مسئلے کے حل کیلئے ہمارے پاس کوئی شرعی دلیل ہونا چاہئے،نیز یہ کہ قرآن،سنت ،اجماعِ صحابہ اور قیاس پر مبنی دلیل ہی شرعی دلیل تسلیم کی جا سکتی ہے۔صرف ان ذرائع سے مستنبط حکم ہی ہمارے لئے قابلِ تسلیم ہے،نہ تو بڑے سے بڑے کسی قابل آدمی کی کوئی تحریر،پارلیمینٹ سے پاس کیا ہوا کوئی قانون،کسی صدر یا بادشاہ کی کہی ہوئی کوئی بات اور نہ ہی ہمارے جذبات و خواہشات یا اپنی مرضی و مفاد پر مبنی کوئی قانون۔یہ کسی شخص کی ذاتی رائے نہیں،بلکہ یہ ہمارے ایمان کاجز ہے جب ہم اقرار کرتے ہیں لا اِلہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ اللہگ کا ارشاد ہے
:
(اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط یَقُصُّ الْحَقَّ وَھُوَ خَیْرُ الْفَاصِلِیْنَ)
حکم کسی کا نہیں بجز اللہ تعالیٰ کے۔ اللہ تعالیٰ حق بات بتلا دیتا ہے اور سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا وہی ہے۔(ترجمہ معانئ قرآنِ کریم: سورۂ المائدۃ:آیت ۵۷)
۲۔۔۔یہ بات ہم کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ہماری تمام وفارادیاں صرف حق یعنی اللہ کے دین سے وابستہ ہونا چاہئے،نہ کہ کسی مخصوص گروہ،جماعت،تنظیم،پیر،امیر،عالم،بزرگ،خاندان،برادری یا کسی ادارے اور حکومت سے۔ متعدد احادیث میں رسول اکرم انے اس زمانے کے بارے میں تنبیہ فرمائی ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث(حوالہ: باب۷۶ حدیث ۹۹) ہے کہ اللہ گ تمہیں ایک بار علم دینے کے بعد اس سے محروم نہیں کرے گا لیکن ایک عالم کی موت سے علم اُٹھا لیا جاتا ہے۔اس کے بعد جاہل رہ جائیں گے جو اپنی مرضی سے فتوے جاری کریں گے،دوسروں کو گمراہ کریں گے اور خود بھی بھٹکیں گے۔ یعنی وہ خود اپنی ذاتی رائے سے فتوے دیں گے جو شرعی دلائل سے اخذ کئے ہوئے نہ ہوں گے۔ ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم یاد رکھنا چاہئے:
(وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوْا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ)
اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ تمہیں تو خود اس کا علم ہے۔(ترجمہ معانئ قرآنِ کریم: سورۂ البقرۃ:آیت ۴۲)
((مَا اعْظَمَکِ،وَمَا اشْرَفَکِ،وَمَا اجْمَلَکِ ))
کتنا عظیم ہے تو،کتنا مقدس ہے تو،اور کتنا خوبصورت ہے تو‘‘۔ اور پھر فرمایا’’ مگر اللہ تعالیٰ کی نظ ماجہ کی حدیث ہے کہ ایک مرتبہ جب آپ ا کعبۃ اللہ کا طواف کر رہے تھے،اس موقع پر آپ ا نے کعبے کی طرف دیکھ کر فرمایا تھا:ر میں ایک مسلمان کا خون تیرے آس پاس کی چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔
اگر مسلمان کا خون اتنا قیمتی ہے تو یقیناً ہمیں اس کے تحفظ کیلئے ہر ممکنہ کوشش کرنا چاہئے۔ساری دنیا کے مسلمان ان مسائل کے بارے میں تکلیف محسوس کر رہے ہیں اور ان کے درمیان گفتگو کا موضوع یہی ہے۔
دنیا میں ہر جگہ مسلمان آج علماء کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ان کو ان تمام مسائل اور پریشانیوں سے نجات دلائیں گے اور امت کی صحیح راستے کی طرف راہنمائی کریں گے۔اس لئے علماء کے کندھوں پر یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل کی طرف توجہ دیں۔اس سے قبل کہہم ان مسائل کے حل اسلامی شواہد و دلائل کی روشنی میں تلاش کریں،یہ ضروری ہے کہ کچھ بنیادی نکات کو پیشِ نظر رکھا جائے۔
۱۔۔۔بحیثیت مسلمان یہ بات ہمارے ذہنوں میں بالکل واضح ہونا چاہئے کہ اپنے ہر انفرادی اور اجتماعی عمل سے پہلے اور ہر مسئلے کے حل کیلئے ہمارے پاس کوئی شرعی دلیل ہونا چاہئے،نیز یہ کہ قرآن،سنت ،اجماعِ صحابہ اور قیاس پر مبنی دلیل ہی شرعی دلیل تسلیم کی جا سکتی ہے۔صرف ان ذرائع سے مستنبط حکم ہی ہمارے لئے قابلِ تسلیم ہے،نہ تو بڑے سے بڑے کسی قابل آدمی کی کوئی تحریر،پارلیمینٹ سے پاس کیا ہوا کوئی قانون،کسی صدر یا بادشاہ کی کہی ہوئی کوئی بات اور نہ ہی ہمارے جذبات و خواہشات یا اپنی مرضی و مفاد پر مبنی کوئی قانون۔یہ کسی شخص کی ذاتی رائے نہیں،بلکہ یہ ہمارے ایمان کاجز ہے جب ہم اقرار کرتے ہیں لا اِلہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ اللہگ کا ارشاد ہے
:
(اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط یَقُصُّ الْحَقَّ وَھُوَ خَیْرُ الْفَاصِلِیْنَ)
حکم کسی کا نہیں بجز اللہ تعالیٰ کے۔ اللہ تعالیٰ حق بات بتلا دیتا ہے اور سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا وہی ہے۔(ترجمہ معانئ قرآنِ کریم: سورۂ المائدۃ:آیت ۵۷)
۲۔۔۔یہ بات ہم کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ہماری تمام وفارادیاں صرف حق یعنی اللہ کے دین سے وابستہ ہونا چاہئے،نہ کہ کسی مخصوص گروہ،جماعت،تنظیم،پیر،امیر،عالم،بزرگ،خاندان،برادری یا کسی ادارے اور حکومت سے۔ متعدد احادیث میں رسول اکرم انے اس زمانے کے بارے میں تنبیہ فرمائی ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث(حوالہ: باب۷۶ حدیث ۹۹) ہے کہ اللہ گ تمہیں ایک بار علم دینے کے بعد اس سے محروم نہیں کرے گا لیکن ایک عالم کی موت سے علم اُٹھا لیا جاتا ہے۔اس کے بعد جاہل رہ جائیں گے جو اپنی مرضی سے فتوے جاری کریں گے،دوسروں کو گمراہ کریں گے اور خود بھی بھٹکیں گے۔ یعنی وہ خود اپنی ذاتی رائے سے فتوے دیں گے جو شرعی دلائل سے اخذ کئے ہوئے نہ ہوں گے۔ ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم یاد رکھنا چاہئے:
(وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوْا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ)
اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ تمہیں تو خود اس کا علم ہے۔(ترجمہ معانئ قرآنِ کریم: سورۂ البقرۃ:آیت ۴۲)
علامہ سیوطی ؒ نے حسن حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:’’اگر تم دیکھو کہ کوئی عالم حکمرانوں سے زیادہ
گھل مل رہا ہے تو جان لو کہ وہ چور ہے‘‘۔یہ بات تو مسلم حکمرانوں کے تعلق سے
فرمائی گئی،اب جو اہلِ علم غیر مسلم حاکموں سے اپنی قرابت پر فخر کریں اور اُن کے
غیر اسلامی افکار کو مسلمانوں میں عام کریں تو یقیناً علماء صالحین کو اُن سے اپنی
بے زاری کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ ایسے لوگ عوام میں کوئی وقعت نہ پائیں۔
ترمذی شریف میں حاکم ابن عمیر ص سے روایت نقل کی ہے کہ
حضور انے فرمایا:’’ مجھ
سے برائی کے بابت نہ پوچھو بلکہ اچھائی کے بارے دریافت کرو‘‘، یہ بات آپ انے تین
بار فرمائی اور پھر ارشاد ہو،’’تم میں بد ترینمخلوق برے علماء ہیں اور بہترینمخلوق
اچھے علماء ہیں۔۰حدیث
نمبر (۱۰۰)۔
آخر ہمارے مسائل کا حل کیا ہے؟
ہمارے مسائل کے حل معلوم کرنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے
صحیح طریقہ سے مسئلہ کی حقیقت کو سمجھنا چاہئے۔ ہم ان مسائل کو ایک دوسرے سے
علیحدہ نہیں کر سکتے،یہ تمام مسائل بنیادی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ان کی
جڑ ایک ہی ہے ،جس طرح کینسر کی علامت کا تعلق اس کی جڑ سے ہوتا ہے جس جگہ کینسر
پنپ رہا ہوتا ہے۔ آج ہمارے مسائل کی جڑ یا کینسر ایک اسلامی ریاست کا نہ ہوناہے۔
ایک ایسا نظام جس کے ذریعہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کا نفاذ ہوتا
ہے۔اس ریاست کو اللہ کے رسول ا نے خلافت کے نام سے موسوم کیا ہے اور جس کو اور
دوسرے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے مثلاً سلطنت،امارت یا دولتِ اسلامیہ،آج ایسی
کسی ریاست کا دنیا میں وجود نہیں ہے۔ آج مسلم ممالک کے تمام ہی حکمران بے ایمان
اور کافروں کے ایجنٹ ہیں۔
خلیفہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی لیڈرشپ کا نام ہے،یہ
ایک دنیوی لیڈرشپ ہوتی ہے جو اسلامی شریعت کو نافذ کرتی ہے اور جس کا کام اسلام کو
ساری دنیا میں پھیلانا ہوتا ہے۔یہ ایک عوامی حکومت ہوتی ہے نہ ذاتی اقتدار۔خلیفہ
مسلمانوں کا امیر ہوتا ہے جو رسول اللہ اکے جانشین کی حیثیت سے اسلام کو نافذ کرتا
ہے،اسی لئے یہ روحانی یا مذہبی لیڈرشپ نہیں ہوتی،بلکہ دنیوی قیادت ہوتی ہے۔رسول
اکے برعکس خلیفہ کا تقرر اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے پاس لوگوں
کیلئے اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے،بلکہ خلیفہ کا انتخاب اور تقرر خود مسلمان کرتے
ہیں تا کہ وہ ان کے نمائندے کی حیثیت سے ریاست کے اندر یعنی دار الاسلام میں اسلام
کو نافذ کرے اور ریاست کے باہر اس کی دعوت دے۔
مشہور عالمِ دین علامہ الماوردیؒ اپنی کتاب احکام
السلطانیۃ میں اسلامی ریاست کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:’’ رسول اللہ اکی وفات کے
بعد یہ دین کی حفاظت اور دنیوی معاملات یا سیاست کی نگہداشت کرتی ہے‘‘۔دیگر علماء
نے بھی اس کی یہی تعریف کی ہے۔امام احمد ابن حنبلؒ کی مسند میں روایت ہے کہ رسول
اللہ انے فرمایا:’’اسلام کی گٹھانیں ایک کے بعد ایک توڑ دی جائیں گی۔ سب سے پہلے
حکومت کی گٹھان ٹوٹے گی اور سب سے آخر میں نماز کی گٹھان"۔
ہجرت کے بعد رسول اللہ انے بذاتِ خود مدینہ منورہ میں
اسلامی حکومت کی گٹھان باندھی تھی۔ اس اسلامی حکومت کی بنیاد رسول اللہ انے رکھی
اور یہ ایک ہزار تین سو سال تک قائم رہی۔ آپ اکے بعد مسلمانوں کی طرف سے حضرت ابو
بکر صدیق صکو بیعت دی گئی ،اس کے بعد حضرت عمر فاروق صکو،اس کے بعد حضرت عثمان ابن
عفانصکو اور اس کے بعد حضرت علی ابن ابی طالبص کو اور ان کے بعد حضرت حسن ابن علیص
کو،اور یہ سلسلہ سلطان عبدالمجید یعنی ۱۹۲۴ ء تک جاری رہا۔ان میں سے بہت سے خلفاء
سے ہم واقف ہیں جیسے حضرت عمر ابن عبدالعزیزؒ ،سلطان محمد الفاتح،سلیمان
القانونی،سلطان عبدالحمید ثانی اور سلطان مراد۔کچھ خلفاء بہت اچھے بھی رہے اور کچھ
کی طرف سے زیادتاں بھی ہوئیں،لیکن اس سارے عرصے میں اسلام کا نفاذ جاری و ساری
رہا۔
اگرچہ کچھ خلفاء نے اسلام کی غلط تاویلیں بھی کیں اور بعض نے ظلم بھی کئے،لیکن خود رسول اللہ انے ایسے لوگوں کی پیشن گوئی کی تھی کہ لوگ ایسے خلَفاء کو بھی قبول کریں اور جب تک وہ کفر بواح کے مرتکب نہ ہوں اُن کا اتباع کرتے رہیں۔تمام ہی علماء اہلِ سنت نے تسلیم کیا ہے کہ خلفاء راشدین،بنی امیہ،بنو عباس، اور عثمانی دور تک خلافت کا سلسلہ جاری رہا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد یہ خلافت کفر کی سازش کے تحت ختم کر دی گئی۔
یہ تمام خلفاء شریعتِ اسلامی کے مطابق ہی حکومت کرتے
رہے اور کبھی بھی انہوں نے کفر بواح کا نفاذ نہیں کیا ۔اسی لئے ہمیں معلوم ہے کہ
اسلام کے عظیم المرتبت علماء مثلاً حضرت امام ابو حنیفہؒ ،امام شافعیؒ ،امام مالکؒ
امام احمد ابن حنبلؒ امام جعفر الصادقؒ نے ان کو خلیفہ تسلیم کیا ہے اور ضرورت
پڑنے پر خلیفہ کا احتساب بھی کیا ہے۔درحقیقت امام ابو حنیفہؒ کے دو مشہور
شاگرد،جنہوں نے فقۂ حنفی کی تدوین کی اور جس فقہ کا مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت
ہندوستان میں اتباع کرتی ہے۔ان خلفاء کے دور میں قاضی ابو یوسف اور محمد الشیبانی
نے قاضی القضاۃ کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں۔
اگرچہ آج ہندوستان میں ہم میں سے بہت سے لوگ اور کچھ
علماء تک خلافت کا مفہوم ہی بھول گئے ہیں،ایک وہ وقت تھا جب ہندوستان کے علماء اور
مسلمانوں نے خلافت کی حمایت میں زبردست تحریک چلائی تھی اور خلافتِ عثمانیہ کو ختم
کئے جانے کے خلاف بہت زیادہ احتجاج کیا تھا۔مولانا محمد علی جوہرؔ نے خلافت کے
بارے میں کہا تھا:’’ترکی کا حکمران خلیفہ ،رسول اللہ ا کا جانشین اور مسلمانوں کا
امیر یاامیر المومنین تھا،ہمارے دین میں خلافت اتنی ہی ضروری ہے جتنی قرآن اور
رسول اللہ اکی سنت"۔My Life- a fragment- by
M.A .Johar page 4.) مولٰنا ابوالکلام آزادؔ ؒ نے ۱۹۲۰ ء میں مسئلۂ خلافت نام
سے ایک کتاب تحریر کی تھی جس میں وہ بیان کرتے ہیں:’’ خلافت کے بغیر اسلام کا وجود
ممکن نہیں ہے،مسلمانانِ ہند کو اپنی تمام تر کوششیں اور توانائیاں خلافت کے قیام
کیلئے لگا دینا چاہئے"۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن جو دار العلوم
دیوبند کے مہتمم اعلیٰ تھے اور جنہیں انگریزوں نے تین سال تک مالٹاؔ میں قید رکھا
صرف اس لئے کہ حضرت شیخ الہند ؒ نے حق سے رو گردانی نہیں کی اور خلافتِ عثمانیہ کی
مخالفت میں فتویٰ دینے سے انکار کردیا تھا۔حضرت شیخ الہند ؒ کا ایک فتویٰ جو ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰ء کو شائع ہوا تھا،اس
میں فرماتے ہیں:’’خلیفۃ المسلمین ،یعنی مسلمانوں کا خلیفہ جو پوری امت کو متحد
کرنے کا واحد ذریعہ ہے وہ اللہ کے نائب کی حیثیت سے زمین پر اسلام کے آفاقی قوانین
کو نافذ کرتا ہے،جو اللہ کی شان اور کلمہ کو بلند رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے،جو
مسلمانوں کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرتا ہے،وہ خود دشمنوں سے گھر گیا ہے اور بہت
زیادہ دباؤ میں ہے"۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
((اِنَّمَا الاِمَامُ جُنَّۃ یُقَاتَلُ مِن وَرَاءِہٖ ویُتَّقٰی بہٖ))
بے شک امام ایک ڈھال ہے جس کے پیچھے ہم لڑتے ہیں اور جو ہماری حفاظت کرتا ہے۔خلافت ایک ایسا طریقہ یا Mechanism ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے تحفظ اور ہمارے مسائل کو حل کرنے کیلئے نازل فرمایا ہے۔
((اِنَّمَا الاِمَامُ جُنَّۃ یُقَاتَلُ مِن وَرَاءِہٖ ویُتَّقٰی بہٖ))
بے شک امام ایک ڈھال ہے جس کے پیچھے ہم لڑتے ہیں اور جو ہماری حفاظت کرتا ہے۔خلافت ایک ایسا طریقہ یا Mechanism ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے تحفظ اور ہمارے مسائل کو حل کرنے کیلئے نازل فرمایا ہے۔
خلافت کا ہونا،اللہ تعالیٰ کی شرعیت کو نافذ کرنے اور
ہمارے مسائل کو حل کرنے کیلئے فرض ہے۔ قرآن مجید، سنتِ رسول اللہ ا اور اجماعِ
صحابہ سے یہ قطعی دلائل سے ثابت ہے اور تاریخ اسلام میں تمام علماء اس پر متفق رہے
ہیں۔اب آپ کے سامنے چند شواہد پیشہیں۔
قرآن مجید سے اس کا ثبوت: حکومت سے متعلق متعدد آیات ہیں:
(وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتََّبِعْ اَھْوَآءَ ھُمْ وَاحْذَرْھُمْ ۔۔۔الخ)
قرآن مجید سے اس کا ثبوت: حکومت سے متعلق متعدد آیات ہیں:
(وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتََّبِعْ اَھْوَآءَ ھُمْ وَاحْذَرْھُمْ ۔۔۔الخ)
آپ ان کے معاملات میں خدا کی نازل کردہ وحی کے مطابق ہی
حکم کیا کیجئے،اُن کی خواہشوں کی تابعداری نہ کیجئے اور ان سے ہوشیار
رہئے۔۔۔(ترجمہ معانئ قرآنِ کریم: المائدۃ:آیت ۴۹)
اللہ تعالیٰ کا کسی بات پر اپنے اپنے رسول سے خطاب اس
کی امت سے بھی خطاب ہوتا ہے،جب تک کہ اس خطاب کے صرف رسول اللہ ا تک محدود کرنے کی
کوئی دلیل نہ ہو ،یہاں ایسی کوئی تخصیص کی دلیل نہیں ہے جو اس آیت کے خطاب کو رسول
اللہ ا تک مخصوص کرتی ہو،اس طرح ا للہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ کرنے کیلئے یہ
اللہگ کا مسلمانوں کو حکم ہے۔خلیفہ کے تقرر کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے
کہ اللہ کا حکم اور اس کا اقتدار قائم ہو۔جہاں تک اقتدار کا سوال ہے تو یہ اللہ
تعالیٰ نے مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے کہ وہ اس کا اتباع کریں،یہ بھی اس بات کی
دلیل ہے کہ حاکم کی موجودگی فرض ہے۔باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(یَاایُّھَا الذِینَ آمَنُوااطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو اور اُن کی جو تم میں صاحبِ امر ہیں۔(ترجمہ معانئ قرآن کریم:نساء:۵۹)
(وَ مَنْ لَّمْ یَّحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فاُولٰءِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ)
اور جو شخص اللہ تعالےٰ کے نازل کئے ہوئے کے موافق حکم نا کرے تو ایسے لوگ بالکل کافرہیں۔(ترجمہ معانئ قرآنِ کریم:مائدہ:۴۴)
(یَاایُّھَا الذِینَ آمَنُوااطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو اور اُن کی جو تم میں صاحبِ امر ہیں۔(ترجمہ معانئ قرآن کریم:نساء:۵۹)
(وَ مَنْ لَّمْ یَّحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فاُولٰءِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ)
اور جو شخص اللہ تعالےٰ کے نازل کئے ہوئے کے موافق حکم نا کرے تو ایسے لوگ بالکل کافرہیں۔(ترجمہ معانئ قرآنِ کریم:مائدہ:۴۴)
اس کے علاوہ متعدد آیات میں نماز قائم کوکرنے اور حدود
کو نافذ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے۔ ان احکام کے نفاذ کیلئے
ایک نظام ضروری ہے اور جس کے بغیر اسلام ادھورا ہو جاتا ہے اور اس کی غیر موجودگی
میں ہم سب گنہگار ہو رہے ہیں۔امام طحاوی، مسلم بن یاسر سے روایت کرتے ہیں کہ رسو ل
االلہ نے فرمایا:’’زکوٰۃ کی وصولی،حدود کا نفاذ،مالِ غنیمت کی تقسیم اور جمعہ کو
قائم کرنا سلطان کی ذمہ داری ہے۔
اس طرح خلافت کے قیام کا فرض ایسا فرض ہے جس پر دوسرے
فرائض کا انحصار ہے جیسے حدود،زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم وغیرہ۔ نیز کفر کا خاتمہ
بھی خلافت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اسلام کے قیام کے معنے ہی دراصل خلافت کے
قیام کے ہیں کیونکہ یہ اسلام کے نفاذ کا واحد طریقہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خلافت کے
بغیر معاشرے میں دین کا وجود ممکن نہیں ہے۔اس طرح پورا اسلام خلافت پر منحصر ہے
کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جو اسلام نے ہمیں بتایا ہے۔ امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت اس
کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ہمارے ہاں شرعی قوانین کی جگہ معربی قوانین نے لے لی ہے
اور آج امتِ مسلمہ کی پوری دولت کفار کے درمیان مالِ غنیمت کے طور پر تقسیم ہو رہی
ہے۔مسلمانوں کے پاس ایک بڑی فوجی طاقت ہونے کے باوجود مسلم ممالک پر کفار قبضہ
جمائے ہوئے ہیں۔اسلامی نظامِ زندگی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ملکوں کا معاشرہ غیر
اسلامی ہوگیا ہے۔القدسؔ کی مقدس سر زمین پر شراب خانے اور نائٹ کلب چل رہے ہیں۔اس
کے علاوہ مسلمانوں کے بڑے بڑے شہروں اور اسلامی دنیا کے صدر مقاموں میں یہی حال
ہے۔ ان روشن حقائق سے ہمارے معاشرے کا غیر اسلامی وجود اور اسلام کی عدم موجودگی
کی شکل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بیانوں کی سچائی عیاں ہو رہی ہے
۔
اللہ گ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان لوگوں کی حفاظت
کریں جن پر دینِ اسلام کی وجہ سے حملہ کیا گیا ہے۔ اس طرح جب عراقؔ ،افغانستاؔ
ن،فلسطین ؔ اور لبنانؔ پر حملہ ہوتا ہے اور ہم ان کے تحفظ کیلئے اس نظام کے قیام
کی کوشش نہیں کرتے تو ہم اللہ تعالیٰ کی نظر میں گنہگار ہوں گے۔
سنتِ رسول اسے اس کا ثبوت:مسلمانوں کے اوپر خَلیفہ کا ہونا فرضِ عین ہے۔ہر مسلمان کی گردن پر خلیفہ کی بیعت کا طوق ہونا فرض ہے۔اس سلسلے میں متعین طور پر کچھ احادیث ہیں،مثلاً:مسلم شریف میں حضرت عمر صسے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا:’’کوئی بھی مسلمان اس حالت میں مرا کہ اس کی گردن پر خلیفہ کی بیعت کا طوق نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘۔جاہلیت کی موت سے مراد کفر کی حالت میں موت ہے۔اس حدیث میں گردن پر بیعت کا طوق ہونے کا مطلب ایک دوسری حدیث سے بالکل واضح ہوجاتا ہے۔الطبرانی ؔ میں حضرت ابو نعیم صسے روایت نقل ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا:’’جو بھی امام کے بغیر مرا تو وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘۔خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے قول سے ثابت ہوتا ہے کہ اس فرض کی اہمیت حیاتِ مبارکہ سے زیادہ ہے۔ مشرکینِ مکہ کی ایک سیکیولر پیشکش کے جواب میں حضور انے فرمایا:’’واللہ اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں تو بھی میں اس کام سے باز آنے والا نہیں،یہاں تک کہ یا تو اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب کر دے یا اس جد وجہد میں میری جان چلی جائے۔
اجماعِ صحابہ سے اس کا ثبوت:رسول پاک اکی وفات کے بعد آپ ا کو تین دن اور دو رات تک دفنایا نہیں گیا، اس تاخیر کے بارے میں امام حاتمیؒ فرماتے ہیں:’’ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ اکی وفات کے بعد امام کا انتخاب مسلمانوں پر فرض تھا۔اسی لئے دوسرے تمام فرائض اور خود حضور پاک اکی تدفین کو مؤخر کرکے پہلے امیر کا انتخاب کیا گیا‘‘۔
سنتِ رسول اسے اس کا ثبوت:مسلمانوں کے اوپر خَلیفہ کا ہونا فرضِ عین ہے۔ہر مسلمان کی گردن پر خلیفہ کی بیعت کا طوق ہونا فرض ہے۔اس سلسلے میں متعین طور پر کچھ احادیث ہیں،مثلاً:مسلم شریف میں حضرت عمر صسے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا:’’کوئی بھی مسلمان اس حالت میں مرا کہ اس کی گردن پر خلیفہ کی بیعت کا طوق نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘۔جاہلیت کی موت سے مراد کفر کی حالت میں موت ہے۔اس حدیث میں گردن پر بیعت کا طوق ہونے کا مطلب ایک دوسری حدیث سے بالکل واضح ہوجاتا ہے۔الطبرانی ؔ میں حضرت ابو نعیم صسے روایت نقل ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا:’’جو بھی امام کے بغیر مرا تو وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘۔خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے قول سے ثابت ہوتا ہے کہ اس فرض کی اہمیت حیاتِ مبارکہ سے زیادہ ہے۔ مشرکینِ مکہ کی ایک سیکیولر پیشکش کے جواب میں حضور انے فرمایا:’’واللہ اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں تو بھی میں اس کام سے باز آنے والا نہیں،یہاں تک کہ یا تو اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب کر دے یا اس جد وجہد میں میری جان چلی جائے۔
اجماعِ صحابہ سے اس کا ثبوت:رسول پاک اکی وفات کے بعد آپ ا کو تین دن اور دو رات تک دفنایا نہیں گیا، اس تاخیر کے بارے میں امام حاتمیؒ فرماتے ہیں:’’ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ اکی وفات کے بعد امام کا انتخاب مسلمانوں پر فرض تھا۔اسی لئے دوسرے تمام فرائض اور خود حضور پاک اکی تدفین کو مؤخر کرکے پہلے امیر کا انتخاب کیا گیا‘‘۔
جب حضرت عمر بن الخطاب ص زخمی ہونے کے بعد بسترِ مرگ پر
تھے اور اُنہیں یقین ہوگیا تھا کہ وہ اب نہیں بچیں گے تو اُنہوں نے صحابۂ کرام سے
کہا کہ تمہارے درمیان یہ چھ لوگ ہیں جن کے بارے میں حضور اکرم انے فرمایا تھا کہ
یہ لوگ جنتی ہیں،یعنی حضرت عثمان، حضرت علی،حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف،حضرت سعد ابن
ابی وقاص،حضر ت زبیر اور حضرت طلحہ ث۔ان میں سے کسی ایک کو اپنا امیر منتخب کر لو۔
حضرت عبداللہ ابن عمر ص بھی اُن کے سا تھ رہیں گے لیکن وہ صرف مشورے کی حد تک شامل
رہیں گے ۔پھر ان لوگوں سے تفصیلی گفتگو کے بعد فرمایا:’’ میرے بعد اس کام کیلئے
تمہارے پاس تین دن کی مہلت ہوگی اور اس دوران حضرت صہیب ص نماز کی امامت کریں گے
اور چوتھا دن آنے سے پہلے اپنے اوپر اپنا امیر مقرر کر لینا۔حضرت ابو طلحہ
الانصاری صکو ا ن حضرات کی حفاظت اور ان کی مدد کرنے کیلئے مقررکیا۔ حضرت عمر صنے
فرمایا:’’اے ابو طلحہ،اللہ تعالیٰ نے تم انصار کے ذریعہ اسلام کی مدد فرمائی ہے،
تم انصار میں سے پچاس آدمیوں کو لے کر ان چھ آدمیوں کی نگرانی کرنا اور ان پر زور
ڈالنا کہ یہ اپنے میں سے ایک کو اپنا امیر مقرر کرلیں۔حضرت عمر صنے المقداد بن
الاسود ص کو جگہ کا انتخاب کرنے اور ان لوگوں کو وہاں جمع کرنے کی ذمہ داری دی اور
اُن سے فرمایا:’’مجھے دفنانے کے بعد ان چھ لوگوں کو ایک گھر میں بند کر دینا اور
جب تک یہ اپنے میں سے کسی ایک کو اپنا امیر مقرر نہ کر لیں اِنہیں باہر مت آنے
دینا‘‘ پھر حضرت صہیب ص سے اس میٹنگ پر نظر رکھنے کو کہا اور فرمایا:’’ تین دن تک
نماز میں تم لوگوں کی امامت کرنا اور ان چھ لوگوں کی نگرانی کیلئے ان کے سر پر
سوار رہنا اور عبد اللہ ابن عمر کو صرفمًشورے کی حد تک شامل رکھنا۔ اگر پانچ لوگ
ایک شخص پر متفق ہو جائیں اور ایک شخص اس سے اختلاف کرے تو اس کا سر تلوار سے قلم
کر دینا؛اگر چار لوگ ایک شخص پر متفق ہوجائیں اور دو لوگ اس سے اختلاف کریں تو ان
دونوں کا سر قلم کر دینا۔اگر تین تین لوگوں کی رائے آپس میں بنٹ جائے تو ایسی حالت
میں عبد اللہ ابن عمر سے فیصلہ کرانا،اب جس فریق کوعبد اللہ ابن عمر منتخب کر لیں
ان میں سے ایک کو اپنا امیر بنا لینا،اگر یہ لوگ عبداللہ ابن عمر کی رائے قبول
کرنے سے انکار کردیں تو اُس فریق کا ساتھ دینا جس میں حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف ص
شامل ہوں۔اب جو اس فیصلے سے انکار کرے اسے قتل کر دو‘‘۔یہ تمام اصولی اور تفصیلی
ہدایات دینے کے بعد فرمایا:’’ اب اس بات کو میری وفات تک اُٹھا رکھو"۔
امام نوویؒ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:’’علماء کا اس
پر اجماع ہے کہ یہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے لئے خلیفہ کا انتخاب
کریں‘‘۔(حوالہ شرح صحیح مسلم:امام نوویؒ جلد ۱۲ صفحہ ۲۰۵)۔تمام صحابہ ث کا اس پر
اجماع ہے اور اس کام کیلئے مہلت یا مدّت تین دن اور دو راتوں کی ہے،اس دوران یہ
کام ہو جانا چاہئے۔ آپ ذرا سوچئے آج خلافت ختم ہوئے بیاسی سال کی مدت گزر چکی ہے
اورہمیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔ ہم سب گنہگار رہیں گے جب تک خلافت قائم نہ ہو
جائے۔بنیادی طور پر خلیفہ کا تقرر فرِ ض کفایہ ہے،لیکن ابھی تک خلافت قائم نہ سکنے
کی شکل میں یہ فرضِ عین ہو گیا ہے۔اس کی مثال بالکل ایک جنازے کی ہے کہ اس کی
تدفین فرضِ کفایہ ہے لیکن اگر کچھ لوگ اس کو پورا نہیں کرتے تو وہ فرضِ عین ہو
جاتا ہے۔ اس لئے خلافت کا قائم کرنا ہر مسلمان پرفرض ہو گیا ہے۔
ماضی کے علماء کی طرح آج کے علماء کو بھی اپنی تمام تر
صلاحیتیں اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس کام کیلئے اُٹھ کھڑا ہوجانا
چاہئے اور اس سلسلے میں رائے عامہ ہموار کرنا چاہئے۔ علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ
وہ عوام کے اندر اسلام کا صحیح فہم اور شعور پیدا کریں اور انہیں بتائیں کہ اسلام
ایک مکمل عقیدہ اور نظام ہے جس میں انسانوں کے تمام مسائل کا حل موجود ہے،اور یہ
اس لئے نازل کیا گیا ہے کہ اس کا تمام انسانوں پر نفاذ کیا جائے۔
اس وقت کفار خصوصاً امریکہ اور مغربی ممالک مسلمانوں پر
اپنی تہذیب تھوپ رہے ہیں اور دین کو دنیا سے علیحدہ کرنے کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ وہ
اسلام میں ان کی مرضی کے مطابق اصلاح و ترمیم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔وہ ان کا
پسندیدہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہیں اور اس کام کیلئے وہ اپنے ایجنٹ،پیسہ
اور طاقت کے ذریعہ ہر جگہ اپنے فاسد افکار اور عقائد پھیلا رہے ہیں۔
علماء کا فرض ہے کہ وہ ان کا جواب دیں اور اسلام کے
دفاع کیلئے میدان میں آجائیں اور کافرانہ اور فاسد افکار جیسے
جمہوریت،سیکیولرزم،آزادی،قوم پرستی یا نیشنلزم،سوشیلز م وغیرہ لات،منات،اور عزی کے
بجائے جدید زمانے کے بت بن گئے ہیں اور ان کی پرستش کی جارہی ہے۔ ہم اس منکر کے مقابلے
میں کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟امت کے سامنے جو مسائل ہیں ہم ان کا حل کیوں نہیں
بتاتے؟اپنے خطبوں میں ان کافرانہ عقائد کی نفی کیوں نہیں کرتے؟
ہمیں ایسے علماء سے ہوشیار رہنا چاہئے جو دنیا کی حقیر
چیزوں کے عوض اپنے دین کو ہی بیچ رہے ہیں،جو حق کہنے سے ڈرتے ہیں اور ان لوگوں کے
خلاف جو اسلام کے نام پر یہ باطلانہ افکار امت کے اندر پھیلا رہے ہیں۔ہمیں رسول
اللہ اکی اس حدیث کو وارننگ سمجھ کر اس سے عبرت حاصل کرنا چاہئے:
طبرانی میں حضرت عوف ابن مالک الاشجعی صسے روایت ہے کہ
حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا :’’میری امت قریب ستّر
فرقوں میں بنٹ جائے گی اوران میں سب سے بڑی آزمائش ان کی ہوگی جو اپنی عقل اور
رائے سے فتوے دیں گے جن میں وہ اللہ تعالیٰ کے حرام کئے ہوئے کو حلال اور حلال کو
حرام کہیں گے۔
بدقسمتی سے آج ہم یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے
ہیں،جمہوریت اور قوم پرستی کو جائز قرار دیا جارہا ہے اور اس کی سرِ عام وکالت کی
جارہی ہے۔ سعودی عرب کے کچھ علماء نے حجاز کی مقدس سرزمین پر امریکن کفار کی
موجودگی کو جائز ٹھہرایا ہے تاکہ وہ عراق کے مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں!جامع
الازہر ؔ کے شیخ نے سود کو جائز قرار دے دیا ہے! ہمیں ماضی کے ان علماء کی مثالیں
پیش نظر رکھنا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے نہیں ڈرتے تھے۔
مثال کے طور پر حدیث کے استاذ،مکہ کے مجتہد امام احمد
ابن حنبلؒ جن کے نام سے حنبلی مسلک منسوب ہے،ان کے زمانے میں خلیفہ مامون نے
معتزلہ کا یہ عقیدہ اختیار کر لیا کہ قرآن مخلوق ہے اور مامون نے یہ عقیدہ عوام پر
تھوپنا چاہا جس سے عوام میں بے چینی پیدا ہوئی اور یہ علماء ہی تھے جن کے ہاتھ میں
عوام کی لیڈرشپ تھی جن میں امام موصوف بھی شامل تھے اور جنہوں نے اس عقیدے کو قبول
کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ان کے چچا نے نے امام ؒ سے کہا کہ تم صرف زبان سے اقرار
کر لو اور دل سے مت مانو،اس طرح تم پر ظلم نہیں توڑا جائے گا۔ چچا کے اس پُر شفقت
مشورے پر امام احمد ؒ نے فرمایا:’’اگر ایک عالم ہی باطل کے سامنے خاموش رہتا ہے تو
پھر حق کس طرح ظاہر ہوگا؟‘‘امام صاحب نے عقیدہ کے معاملہ میں مفاہمت اور Compromise کرنے کے مقابلہ میں جیل
جانا اور کوڑوں کی مار برداشت کرنا پسند فرمایا۔وہ اس کیلئے ہر سزا بھگتے کو تیار
رہے جس طرح حضرت یوسف ں نے ایک فتنے کے مقابلہ میں جیل جانا پسند کیا تھا۔امام
احمد اس حدیث کو صحیح سمجھتے تھے جس کو علامہ سیوطیؒ نے بھی صحیح بتایا ہے:’’جس نے
سلطان کو خوش کرنے کیلئے کوئی ایسا کام کیا جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے تو اس
نے اللہ کے دین کو چھوڑ دیا‘‘!
مسندِ احمد میں حضرت ابو سعید الخدری ص سے روایت نقل کی
ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا:’’ لوگوں کا خوف کسی کو حق بات کہنے سے نہ روکے جبکہ
وہ اُس بات کا شاہد ہو،کیونکہ حق کہنے سے نہ تو موت قریب آتی ہے اور نہ ہی رزق دور
ہوتا ہے۔
ہمیں امام اہل الرائے،کوفہ کے مجتہد فقیہ اور حنفی مسلک
کے بانی حضرت امام ابو حنیفہؒ کی مثال یاد رکھنا چاہئے۔ حضرت امام اعظم ؒ شریعت کے
ماہر تسلیم کئے جاتے تھے،ایک مرتبہ خلیفہ منصور کے دربار میں آپ کو طلب کیا گیا
اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ قاضی القضاۃ یا
Chief Justice کا عہدہ قبول کر لیں۔آپ نے انکار کر دیا
کیونکہ آپ اُس خلیفہ کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔آپ نے جواب دیا:’’میں
اس عہدے کے لائق نہیں ہوں‘‘۔ خلیفہ منصور اس پر بہت ناراض ہوا،اُ ن پر چلایا اور
کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو،تم اس کے اہل ہو۔اس پر امام اعظمؒ نے جواب دیا:’’فیصلہ تو
آپ نے خود کردیا ،اگر میں واقعی جھوٹ بول رہا ہوں تو میں اس کا اہل نہیں ہوں اور
اگر میں سچ کہہ رہا ہوں تو میں آپ سے کہہ ہی چکا ہوں کہ میں اس عہدے کا اہل نہیں
ہوں‘‘۔اس جواب پر وہ قید کر لئے گئے اور اُن پر درّے بھی مارے گئے۔ امام اعظمؒ نے
اس طرح ایک مثال قائم کی کہ کس طرح خوف و لالچ اور مفاد و نقصان سے بالاتر ہو کر
حق پر ڈٹ جانا چاہئے۔
ہمارے علم میں یہ بات ہونا چاہئے کہ آج بھی ایسے علماء
موجود ہیں جو بغیر کسی خوف کے حق کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور خلافت کے دوبارہ قیام
کیلئے برابر کوشش کر رہے ہیں۔ مثلاً امام علی سید ابو الحسنؒ جو خرطومؔ ؔ کی مسجدِ
صحابہ کے امام اور خطیب تھے،انہوں نے سوڈان کے حاکم جنرل عمرالبشیرؔ کو جبکہ وہ ان
کی مسجد میں آیا تو اسے بر سرِ عام چیلینج کیا جس پر انہیں دو سال کی جیل کی سزا
بھگتنا پڑی۔دوسری مثال شیخ ثامر نجار حفیظ اللہ کی ہے۔ وہ کئی سال اردن میں قید
رہے کیونکہ وہ خلافت کے دوبارہ قیام کیلئے کوشاں تھے۔انہیں جیل میں بہت اذیتیں دی
گئیں اور Torture کیا
گیا،پھر بھی وہ دین کے معاملہ میں مفاہمت اور
Compromise کرنے کو تیار نہیں ہوئے اور ظالم حکمرانوں
کے سامنے حق بات کہنا جاری رکھا۔
ایک اور مثال شیخ عصام عامر کی ہے جو القدس کی بیت
الثقیفہ مسجد کے امام ہیں،انہیں فلسطینی حکومت ہر سال رمضان میں قید کر دیتی ہے
کیونکہ لوگ اُن کے خطبوں کا اثر قبول کرتے ہیں۔
آخیر میں ہم اس بحث کے خلاصہ پر ایک نظر ڈال لیں
:
۱۔۔۔یہ ہمارے اوپر فرض عین ہے کہ ہم اپنی تمام تر صلاحیتیں اور کوششیں منکر کو ختم کرنے اور خلافت کو دوبارہ قائم کرنے میں لگا دیں۔۔۔ یہ قطعی فرض ہے۔
۱۔۔۔یہ ہمارے اوپر فرض عین ہے کہ ہم اپنی تمام تر صلاحیتیں اور کوششیں منکر کو ختم کرنے اور خلافت کو دوبارہ قائم کرنے میں لگا دیں۔۔۔ یہ قطعی فرض ہے۔
۲۔۔۔اس کام کی مخالفت کرنا اللہ تعالیٰ کی شریعت کی مخالفت کرنا ہے۔اگر کسی فروعی مسئلہ پر ہمیں اختلاف ہے تو بھی ہمیں اس عظیم کام کی مخالفت نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیں ان لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے جو اس کام کی مخالفت کر رہے ہیں۔
۳۔۔۔ہمیں اپنی تمام صلاحتیں اس کام میں لگا دینا چاہئے،یعنی ہم کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ہم کس طرح عملی طور پر اس کام میں تعاون اور شرکت کر سکتے ہیں۔ہمیں چاہئے کہ ہم بالکل اُسی طرح خلافت کے قیام کی اس کوشش میں بھرپور حصہ لیں،اس کیلئے عوام میں ماحول بنائیں اور اُنہیں اس کام کیلئے تیار کریں جس طرح کہ ماضی میں علماء کرتے رہے ہیں۔
۴۔۔۔ہمیں ناامید اور شکست خوردہ نہیں ہونا چاہئے چاہے ہمارے سامنے کتنی ہی پریشانیاں اور رکاوٹیں آئیں اور ابتدائی مرحلے میں چاہے لوگ اس کی کتنی ہی مخالفت کریں کیونکہ اللہ گنے اس کا وعدہ کیا ہے اور اس کے رسول انے اپنی حدیثِ مبارکہ میں اس کی پیشن گوئی فرما دی ہے۔
ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَا فۃً عَلَی منھاج النبوۃ
پھر عین نبوت ہی کی طرز پر خلافت ہوگی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم حق کیلئے اُٹھ کھڑے ہوں اور اس کے دین کو اس زمین پر غالب کرنے کیلئے جٹ جائیں۔
غلبۂ حق اورقیامِ خلافت کے تعلق سے علماء کی ذمہ داری
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
8:23 AM
Rating:
بھترین اور عمدہ تبصرہ اللہ آپکا حامی و مددگار ھو.... ھم بھی آپکے ساتھ ھیں الحمدللہ
جواب دیںحذف کریں