حدیث نمبر51
مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ
ترجمہ: تم میں سے جو کوئی بھی برائی دیکھے اسے چاہیے کہہ ضروراسکو وہ اپنے بازؤں سے رو کے اور اگر ایسا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تواپنی زبان سے اسکوروکے اور اس کے بھی قابل نہ ہو تواپنے قلب میں اس سے نفرت کرے، اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے ۔(رواہِ مسلمؒ )
خلاصہ وتشریح:
الف: ’’تبدیل کرنے ‘‘کا جوفرمان جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے ایک بندشی حکم ہے جسے اجماع کے تحت فرض حکم تسلیم کیاجاتا ہے اور تبدیل کرنے کا یہ حکم امر بالمعروف و نہی عن المنکر ( برائی کو روکنا اور بھلائی کا حکم دینا) کا ہی حصہ تسلیم کیا جاتا ہے قران نے جس کو فرض بیان کیاہے اور آپ ﷺ کی سنت نے بھی اس کو فرض بیان فرمایا ہے اور یہ فریضہ اجماع صحابہ سے بھی فرض ثابت ہے جیسا کہ امام نووی ؒ نے بیان فرمایا ہے۔
ب: امر بالمعروف و نہی عن المنکر ( برائی کو روکنا اور بھلائی کا حکم دینا) ایک فرض کفایہ ہے اگر کچھ لوگ اس کو انجام دیتے ہوں تو اِس کی ذمہ داری اوراِس کامقصد انجام پاتاہے اور فریضہ پورا ہو جاتا ہے لیکن اگراس سے غفلت برتی گئی اور انجام نہ دیا گیا تو ہر ایک فرد ذمہ دار اور گناہ گار قرار پائے گا۔
ت: امام نووی ؒ کے مطابق اس عمل کے لئے یہ درکار لازمی شرط نہیں ہے کہ جو شخص امر بالمعروف و نہی عن المنکر ( برائی کو روکنا اور بھلائی کا حکم دینا) کرتاہووہ خود اس معاملہ میں پوری طرح بَری اور صاف ہو۔ اگر وہ پوری طرح تمام اچھائیوں پر کاربند نہ ہو اور ہر قسم کی برائیوں سے دور نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ یہ جان کرکہ پہلے اسے خود اس بھلائی پر کاربند ہونا اور برائی سے پرہیزکرنا چاہئیے ،بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی خود پر عائد ہونے والی ذمہ داری سے وہ خود کو کسی طور پر روک نہیں سکتا۔ اسے یہ ذمہ داری بہر حال اداء کرنی ہے چاہے وہ خود اس پر مکمل طور پر کاربند نہ ہو۔
ث: یہ فرمان کچھ خاص لوگوں تک ہی محدود نہیں ہے جیسے جج (قاضی) ، امیر و سربراہ یا کسی خاص استطاعت اور قابلیت والے لوگ یعنی علماء وغیرہ بلکہ اس فرمان کا اطلاق تمام لوگوں پر ہے جو کہ ’’ من رأى منكم ‘‘ کے عام طرز مخاطب سے معلوم ہوتا ہے۔
ج: برائی جس کا بیان ہوا ہے وہ ایسا واضح منکر ہو جس کی برائی کے متعلق سب کا اتفاق ہو کہ وہ منکر ہے اور جو علماء کے درمیان اختلاف کا معاملہ ہو اس کے متعلق انکار( لوگوں کو روکا جائے یا مذمت کی جائے) جائز نہیں ہے۔
چ: شیخ ابن تیمیہ ؒ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر یعنی ( بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ) کے متعلق تین شرائط بیان کی ہیں جس میں سب سے پہلی شرط’’ عمل سے قبل علم ہے‘‘ ( اور یہ علم معاملہ کی مناسبت سے ہو چنانچہ ایسا عام کھلا معاملہ جو مسلمانوں کی عام معلومات میں ہو مثلاً نماز کا چھوڑنا یا شریعت کی بجائے دیگر احکام کے ساتھ حکومت کرنا وغیرہ معاملات میں امر و نہی کے لئے کسی مسلم شخص کا عالم دین ہونا ضروری نہیں ہے)، دوسری شرط امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا عمل کرتے وقت ’’ مقصد و متانت ‘‘ہے ( تاکہ پیغام کو نہایت موثر انداز میں پیش کیا جاسکے اور کسی بھی بہتان اور الزام سے بری رہا جا سکے)، تیسری شرط اس’’ عمل کے بعد صبر‘‘ ہے (کیونکہ جو بھی یہ عمل کرتا ہے اسے ان لوگوں کا عتاب و آزمائش سہنا پڑتا ہے جن سے وہ مخاطب ہوتا ہے)۔
ح: یہ روایتیں بتلاتی ہیں کہ اگر منکریعنی برائی کو طاقت و اقتدار کے بل بوتے روکا نہیں جا سکتا تواس کے خلاف آواز بلند کرناضروری ہے۔
خ: ایک روایت ہے کہ عیسی بن دینارجو مشہور تبع تابعین میں سے ایک ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ’’تین لوگوں کے متعلق ان کی برائی بیان کرنا غیبت نہیں ہوتی، جابر وظالم حکمران، فاسق جو کھلم کھلا گناہکاری کرتا ہے اورجو کوئی اصل بدعت کا مرتکب ہو‘‘
اگر بازؤں سے حق کوغالب نہ کیا جاسکے تو زبان کا استعمال کرکے حق بات کہنا لازم ہے
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
2:52 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: