خلافت کا سنہری دور


Engineer Aftab Siddiqui

 
آج اگر کوئی شخص مسلم دنیا پر نظر ڈالتا ہے تو اُسے ماسوائے جہالت‘ غربت‘ کر پشن‘ انتشار، خونریزی اور جنگ وجدل کے علاوہ کچھ نظر نہیںآتا۔ اور اسی طرح کے بہت سے حالات وواقعات عالمی میڈیا کی زینت بن کر مسلمانوں کو پوری دنیامیں جاہل‘گنوار اور وحشی پیش کرتے ہیں ۔ جبکہ اس قوم کو پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے بھیجا گیا ہے جس کی گواہی اللہ تعالی قران میں یوں دیتے ہیں کہ ’’ تم بہترین امت ہو جس کو لوگو ں کے لیے نکالا گیا ہے کیونکہ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر یقین ر کھتے ہو‘‘۔ عالمی میڈیا ہمیشہ مسلمانوں کے کارناموں کو یکسر نظرانداز کرکے مسلمانوں کی انسانیت کے لیے تمام خدمات کو فراموش کردیتا ہے۔ کیونکہ
۳مارچ ۱۹۲۴ کو خلافت یعنی اسلامی ریاست کے خاتمہ کے بعد مسلمانوں سے وہ چھت چھن گئی جس کی وجہ سے وہ دنیا میں عالمی طاقت تھے اور پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ’’ خلیفہ ایک ڈھال جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور وہ حملوں سے محفوظ رکھتی ہے۔‘‘ 

خلافت کے انہدام کے بعد یہ ڈھال ٹوٹ گئی اور مسلمانوں کی طاقت ریزہ ریزہ ہوگئی بلکہ مسلمان اپنی پہچان ہی کھو بیٹھے جو صرف خلافت کی وجہ سے تھی۔ان کو ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا جو آج بھی جاری ہے۔
لیکن پچھلے دس سال سے خلافت کے دوبارہ قیام کی آوازدن بدن زور پکڑتی جارہی ہے جس میں شدت کی وجہ سے مغرب اور مغربی ذہن رکھنے والے مسلمانوں کا اس ریاست کے خلاف نفرت اور غصہ کھل کر سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ اور یہ پروپیگنڈہ پورے زورں پر ہے کہ خلافت تو
۱۴۰۰ سو سال پرانا نظام ہے جو آج کے دور سے مطابقت نہیں رکھتا اور اس کے لیے آواز بلند کرنے والے دوبارہ سے انسانیت کوپتھر کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں۔جبکہ یہ وہ ریاست تھی جو ۸۰۰ سو سال تک دنیا کی تنہا سپر پاور رتھی جس نے انسانیت کوجہالت کے گڑھوں سے نکالا تھا جوآج ایک بار پھر جہالت کے اندھیروں میں ڈوب چکی ہے۔ آج کے اس شہریہ میں خلافت کے ان چند کارناموں اور خدمات پر روشنی ڈالی جائے گی جو آج امت کوسب سے زیادہ پریشان کیے ہوئے ہیں۔بلکہ وہ شخص جو حضورؐ کی بشارتیں سن کر یقین کر لیتا ہے کہ خلافت تو قائم ہو کر ہی رہنی ہے وہ بھی اس کو حقیقت میں وجودمیں آتے نہیں پاتا۔چونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ مسلم دنیا کہ پاس جدید ہتھیار نہیں ہیں‘ جبکہ مغرب سیٹلائیٹ کے ذریعے سب کچھ کنٹرول کر لیتا ہے اور دنیا کا کوئی کونہ بھی ان کی آنکھ سے محفوظ نہیں ہے۔ 

دوسرا سب سے اہم مسئلہ اسے ٹیکنالوجی کے حصول میں مسلمانوں کا سب سے پیچھے ہونے کی صورت میں درپیش ہوتا ہے۔ مغربی ممالک کی صنعتی ترقی دیکھ کر اس کی آنکھیں چندھیا جا تی ہیں ربوٹس‘لیزر ٹیکنالوجی‘میڈیکل سائنس میں نت نئی ایجادات اور خلاء کی تسخیر اس کا حوصلہ توڑ دیتی ہے اور رہی سہی کسر امت مسلمہ کی حالتِ زار پوری کر دیتی ہے جس کا نہ تو اس وقت عقیدہ محفوظ ہے نہ ہی ان کی عورتوں کی عزت‘ نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو کر مقصدِ زندگی ہی بھول بیٹھے ہیں برسرِ روزگار سارا دن صرف گھر کا چولہا جلانے کی فکر میں ہی مصروف رہتے ہیں ۔ ایسے میں اگر کسی بھی شخص کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ مسلمانوں کا بھی ایک شاندار ماضی تھا اورایک دور میں وہ بھی ٹیکنالوجی میں سب سے آگے تھے تو اس کو یہ سب ایک خواب نظر آتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے۔
 
 ہجرتِ مدینہ کے بعد نبیؐ نے جس ریاست کی بنیاد رکھی اس کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالی کے پیغام کو پوری دنیا تک لے کر جانا تھا ۔ اُس ریاست کی اہم ضرورت منظم فوج کی تیاری تھی جواس نوخیز ریاست کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس پیغام کو پوری دنیا تک لے کر جانے کا بیڑا اٹھائے۔لہذا ایسی فوج کی بنیا د ہجرت کے ساتھ ہی رکھ دی گئی تھی جو ریاست کے خاتمہ تک یہی کام انجام دیتی رہی۔ غزوہ بدر ہو یا فتحِ مکہ‘ رومی سلطنت کا خاتمہ ہو یا تاتاریوں سے کھوئے علاقے واپس لینا مسلمانوں بہت بہادری سے لڑے اور لوگوں کے دلوں پر ایسی دھاک بٹھائی کے یورپین یہ کہتے ہوئے ہمت ہی چھوڑ بیٹھے کہ ’’مسلمانوں کی فوج ناقابلِ تسخیر ہے‘‘۔مسلمان لڑائی تو ہارے ہوں لیکن جنگ کبھی نہ ہارے تھے۔
 
 خاص طور بزنطینیوں کو شکست مسلمانوں کا وہ کارنامہ ہے جس نے بڑے بڑوں کے دل دہلا دیے۔ چونکہ مسلمان یہ جان چکے تھے کہ بزنطینیوں سے فیصلہ کُن معرکہ سمندر میں ہی ہوگا۔جس میں فوجی اڈوں اور ایک طاقتوربحری فوج کا قیام وقت کی ضرورت تھا۔ اس لیے شام اور مشرقی افریقہ میں جو ۶۴۱ء تک خلافت کا حصہ بن چکے تھے بندرگاہیں تعمیر کی گئی اور ۶۴۹ ء تک ۱۰۰۰ بحری بیڑوں تیارکرلیے گئے۔ ریاست کی اہم بندر گاہوں ‘ خلیج فارس میں آبلہ اور سرافین‘ شمالی افریقہ میں تیونس اور مراکش میں سُس کے مقام پر کشتیاں بنانے کی فیکٹریاں تعمیر کی گئیں۔جس کی وجہ سے بزنطینیوں کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو اُس وقت بحری طاقت سمجھی جاتی تھا۔ ۶۷۰ ء میں پہلا فوجی اڈہ جو کہ کینٹ‘ گھوڑوں‘ اونٹوں‘ آٹلری‘ تلواروں اور گن پاوٗڈر پر مشتمل تھا قیروان موجودہ تیونس میں تعمیر کیا گیا۔ سو سال کے اندر ہی یہ بندرگاہیں تجارت کا مرکز بن گئیں جس سے ریا ست کو معاشی طور پر بے انتہا فائدہ ہوا۔ جس کی وجہ سے لو ہے کی صنعت اونچے ترین مقام پر پہنچ گئی ‘ جبکہ شیشے اور سرامکس کی صنعت نے بھی کافی ترقی کی۔ انہی معاشی اورفوجی پالیسیوں کی وجہ سے طارق بن زیاد نے ۷۱۱ء میں سات ہزار کی فوج کے ساتھ جبرالٹر عبور کر کے سپین اور اس کے بعد یورپ فتح کیا۔ وہی طارق بن زیاد جس نے ساحل پر اترنے کے بعد یہ کہتے ہوئے کشتیوں کو آگ لگوا دی تھی کہ فوج کے پاس اندلس کو فتح کرنے کے علا وہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
 
 آج جبکہ مسلمان کبھی F-16 طیاروں اور نیوکلئیر فیول کے لیے امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں‘ دورِخلافت میں جب اسلامی فوج صلیبیوں سے نبرد آزما تھی توصلیبی خود لکھتے ہیں کہ جب وہ میدانِ جنگ میں تھے تو اچانک دھماکوں کی آواز آنی شروع ہو گئی تو وہ پریشان ہو گئے‘ یعنی اُس وقت مسلمان بم بنا چکے تھے جس وقت صلیبیوں کے ہاں اس کا تصور بھی نہیں تھا۔
 
 جہاں تک انٹیلی جنس کی بات ہے تو حضورؐ نے اس کی بنیاد بھی بدر کے موقع پر ہی رکھ دی تھی جب آپؐ نے لوگوں سے کفارکے ذبح کیے گئے اونٹوں کی تعداد پوچھ کر ان کی فوج کا اندازہ لگایا۔ اور اس سنت کو آنے والے خلفاء نے بہت زبردست طریقے سے استعمال کیا۔ جس کی ایک مثال قسطنتیہ کی فتح میں نظر آئی۔ جس کی فتح کی بشارت حضورؐ اپنی زندگی میں ہی دے گئے تھے۔ جب مسلم حکمران سلطان محمد فاتح نے ایک جاسوس کے ذریعے اس علاقے کی مٹی کے نمونے منگوائے تاکہ وہ قسطنتنیہ کے قلعہ کی دیواروں کی مضبوتی اور موٹائی جان سکے۔ جس کے بعد اس نے ایک توپ تیار کروائی جو اپنے وقت کی سب سے بڑی توپ تھی۔ جس سے ان مضبوط دیواروں کو گرایا گیا اور قسطنتنیہ کو فتح کیا گیا۔
 
جبکہ آج کی انٹیلی جنس صرف خلافت کے داعیوں کو روکتی ہے تاکہ ان کو اس خلافت کے قیام سے روکا جائے جو تمام مسلمانوں کی جان‘ عزت‘ زمین اور عقیدہ کی حفاظت کرے گی۔
ہر خلیفہ کا مقصد حضورؐ کا مقصدِ بعثت تھا یعنی پوری کائنات پر اسلام کو نافذ کرنا کہ کوئی ذرہ بھی اللہ تعالی کے دین سے روشناس ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔مشہور یورپی مورخ گبنز(
Gibbens)کہتا ہے کہ ’’جس تیزی سے اسلام پھیل رہا تھا کہ چند صدیوں میں برطانیہ سے خلافت کا فاصلہ ۲۵۰ میل رہ گیا تھا‘ اگر اسی تیزی سے اسلام پھیلتا رہتا تو بہت جلد ہی لندن کے رہنے والے عربی بولتے اور قران سیکھتے۔‘‘ یہ تھی اسلام کو پورے دنیا تک لے کر جانے کی فکر۔ خلافت اتنی وسیع تھی کہ اس کے مشرق اور مغرب میں ۴ ہزار ۵ سو میل کا فاصلہ تھا۔
 
 عثمانی خلافت میں بھی فتوحات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور خلافت آذربئیجان‘آرمینیا‘البانیہ‘ سربیا‘کروشیا‘بوسنیا ہرزگووینا‘کوسووو‘ قبرص اور روس کے جنوبی حصوں تک پھیل گئی۔ وہ وقت کس مورخ کو یاد نہیں جب یہ ریاست تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی۔ عثمانی خلافت میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب امریکہ خلافت کو جزیہ دیتا تھا۔ ۱۷۸۳ء میں جب پہلی بار امریکی بیڑے بین الاقوامی پانیوں میں اُترے تو دو سال بعد ہی عثمانی بحری فوج نے ان کو قابو کر لیا۔ ۱۷۹۳ء تک مزید۱۲بحری بیڑے قابو میں کر لیے گئے۔ آخر کار ۱۷۹۵ء میں امریکہ عثمانی خلافت سے لاحق اس پر یشانی اور خطرے کی وجہ سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گیا جس کو’’Barbary Treaty ‘‘ کا نام دیا گیا۔ باربیری کا لفظ خلافت کے شمالی افریقہ کے ولایوں الجیریا‘ تیونس اور تریپولی کے لیے استعمال ہوتاتھا۔ اس معاہدے کی شرائط یہ تھیں۔
۱
 ۔اس معاہدہ کے مطابق امریکہ کو۴۶۳.۹۹۲ ڈالر پہلی دفعہ ادا کرنے ہوں گے۔ 
۲۔قابو کی ہوئی امر یکی کشتیاں واپس کر دی جائیں گی اور امریکی بحری بیڑوں کو بحرَاوقیانوس اور بحرَروم کے درمیان کشتیاں چلانے کی اجازت ہوگئی۔ 
۳۔اس کے بدلے میں امریکہ ۶۴۲۰۰۰ لاکھ ڈالر سونے کی صورت میں ادا کرے گا۔
۴۔ امریکہ ۱۲ ہزار ڈالر سالانہ ٹیکس سونے کی مد میں ادا کرے گا۔
۵۔۵۸۵۰۰۰ لاکھ ڈالر گرفتار شدہ سیلرز کی مد میں ادا کیے جائیں گے۔
۶۔ایک اعلی معیار کا بحری بیڑا عثمانی خلافت کے لیے تیار کیا جائے گا جس کے تمام اخراجات امریکہ برداشت کرے گا۔
 
 یہ معاہدہ تُرک زبان میں لکھا گیا جس پر امریکی صدر واشنگٹن نے دستخط کیے۔ یہ واحد امریکی سرکاری دستا ویز ہے جو کسی بیرونی زبان میں لکھی گی اور یہ واحد معاہدہ ہے جس پر امریکہ دستخط کر کے کسی دوسری قوم کو سالانہ ٹیکس دینے پر مجبور ہوا ہو۔ یہ تھی اُس اسلامی ریاست کی طاقت جس نے آج کی سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکر دیا تھا۔
 
آج جس وقت بھی کفارکادل چاہتا ہے وہ حضورؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور ان کے خاکے بنا کر پوری دنیا میں چھاپتے ہیں‘ جس کے جواب میں امت سوائے چند جلوس نکالنے اور کڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی۔ جبکہ خلافت کے آخری دور ۱۹۰۱ء میں‘ جب ریاست انہدام کے قریب تھی۔ بر طانیہ اور فرانس نے تو ہین رسالت کا سلسلہ شروع کیا اور فرانس نے ایک ڈرامہ بنایا جس میں حضورؐ کی توہین کی گئی تھی۔ خلیفہ عبدالحمید دوئم نے فوراََ فرانس کے سفیر کو طلب کیا اور اُسے گھنٹوں اپنے آفس میں انتظار کروایا۔ اُس کے بعد مکمل جنگی لبا س میں اس کے سا منے آئے اور زور سے اپنی تلوار میز پر ماری۔ فرانس کا سفیر یہ دیکھ کر فوراََ آفس سے نکل گیا۔ اور اپنے ملک کو خلیفہ کے ارادے کے بارے میں باخبر کیا‘ جس پر فرانس نے ڈرامہ کی تشہیر روک دی اوربرطانیہ سے کہا کہ وہ اس ڈرامے کی تشہیر کر ے اور خلیفہ کے ارادے سے بھی آگاہ کر دیا ۔ برطانیہ کا جواب تھا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے اور تما م ٹکٹیں بھی بک چکی ہیں اس لیے اس موقع پر ڈرامہ کو موخر کرنا ممکن نہیں ہے۔خلیفہ عبدالحمید دوئم نے اسے یہ جواب دیا کہ اگر یہ ڈرامہ چلا تو میں برطانیہ کے خلاف جہادِاکبر کا اعلان کروں گا اور عرب وعجم کی فوج لے کر تم پر چڑھ دوڑوں گا‘ اس جواب کو سن کر برطانیہ کی ہمت بھی دم توڑ گئی جو اس وقت کی سپر پاور تھی جس کادعوی تھا کہ ہماری سر زمین پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔ 
 
 خلا فت نے اپنے اس سنہری دور میں تکنیکی میدان میں بھی بہت ترقی کی۔ اور وہ ٹیکنالوجی استعمال کی جس کا یورپ خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس دور میں اسلامی دنیا کے انجنئیروں‘ دانشوروں اور تاجروں نے آرٹس‘زراعت‘ معاشرت‘ انڈسٹری‘ قانون‘ لٹریچر‘ جہازرانی‘ فلسفہ‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والے سابقہ کام کونہ صرف محفوظ کیا بلکہ بہت سی نئی جدتیں بھی دیں ۔ 
 

 جب عباسیوں نے خلافت سنبھالی تو انھوں نے بغداد کودارلحکومت کی طرز پر تعمیر کرنے کا منصوبہ شروع کیا جس کو پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا سکے۔ خلیفہ‘المنصور‘نے پوری دنیا سے انجنئیرز‘اور تعمیرات کے ماہرین کو اکٹھا کیا اور شہر کی تعمیر کے لیے منصوبے بنوائے۔صرف ایک لاکھ مزدور ہی جمع کر کے اُن کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔ بغداد دنیا کا پہلادائرہ نما شہر تھا۔ کچھ ہی عرصے میں بغدادنے ایشیا اور بحرِروم کو ملانے والی سب سے بڑی تجارتی منڈی کی حیثیت حاصل کر لی۔
۷۸۶
 ء سے ۸۰۶ ء ‘ ہارون الرشید کے دور میں بغداد قسطنطنیہ کے بعد دوسرا بڑا شہر تھا۔ یورپی قصبے ‘ شہر اور آبادیاں بیرونی حملہ آوروں اور یلغار سے بچنے کے لیے چار کونوں والی دیواریں تعمیر کیا کرتے تھے جن کے اگر ایک کونے پر دباؤ ڈالا جا تا تھادیوار گر جاتی تھی اور فوجیں اندر داخل ہو جاتی تھیں مسلمانوں نے یہ مسئلہ شہر کی گرد گول دیواریں بنا کر حل کرلیا۔
 
زراعت کے میدان میں ہونے والی ترقی اپنی مثال آپ تھی‘ پانی کی کمی نے عرب کی بنجر سر زمین کو وسیع صحرہ میں تبدیل کر دیا تھا جس نے کبھی کوئی قابلِ ذکر اناج پیدا نہیں کیا تھا سوائے معمولی سی مکئی کے جوُ ان کی اپنی زمین پر کاشت ہوتی تھی۔ بکھری ہوئی آبادی ہمیشہ درآمد شدہ غذا پر انحصار کر تی تھی۔ صرف مدینہ ہی اپنے کنووں اور ندیوں کی وجہ سے پورے صحرا میں سر سبز جگہ تھی۔عباسیوں نے یہ مسئلہ سب سے پہلے دجلہ و فرات پر پانی کے بہاؤکنٹرول کرکے حل کیا۔ اور علاقے کے نہری نظام کو نئی نہریں کھود کر وسعت دی۔ سب سے بڑی نہر دجلہ اور فرات کے بیچ میں بہتی تھی۔ اس نہر کو نہرِعیسی کا نام دیا گیاجو کو شام اور عراق کے درمیان کشتیوں کی گزرگاہ تھی۔ اسی کی وجہ سے بحر ہند اور خلیجِ فارس کے بحری راستے کھلے۔اس کے علاوہ عباسیوں نے ان ندی نالوں اور پانی کے ذخیروں کی دوبارہ تعمیر کروائی جو کہ حجاج بن یوسف نے ۷۰۲ء میں تعمیر کر وائے تھے۔ اس کی وجہ سے بغداد میں سے گندے جوہڑوں کا خا تمہ ہوا جوکہ ملیریا کا گڑھ تھے۔
عباسیوں نے آٹھویں صدی میں قدیم یونانیوں کے کام کا‘ عربی میں ترجمہ کاسب سے بڑا منصوبہ شروع کیاتاکہ ان کا کام ضائع نہ ہو جائے۔ یہ بہت مشکل‘ کٹھن اور صبرآزما کام تھا۔بیت الحکماء کے نام سے مکتب کی بنیاد صرف اسی مقصد کی غرض سے رکھی گئی۔ ترجمہ کے کام نے ریاست میں صنعت کی حیثیت اختیار کر لی اور مسلمان دانشور وں نے وہ ایجادات کیں جس سے آج تک تمام انسانیت مستفید ہو رہی ہے۔ تحقیقی ادارے کھولے گئے جنہوں نے
Humanities, Sciences, Mathematics, Astronomy, Medicine, Chemistry, Zoloogy, اور Geographyمیں بے پناہ خدمات سر انجام دیں۔مسلم سائنسدانوں ‘ دانشوروں اور ماہرین نے قدیم تہذیبوںیونانی اور فارسی کام کا ترجمہ کیا جس میں فیثاغورث‘ پلاٹو‘ارسطو اور سقراط کا کام شامل ہے۔ ان تمام کاموں کو ایک جگہ پر جمع کیا گیا جس کا وجہ سے بغداد کو پوری دنیا میں علم وتحقیق کے گڑھ کی حیثیت حا صل ہو گئی۔
 
 مسلمانوں نے اندلس میں تقریباََ ۸۰۰ سو سال حکومت کی۔ مغربی مورخین کے مطابق اس وقت کے یورپی بادشاہ لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے اور یہی یورپی مورخین لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے دورِ حکومت میں اندلس میں بہت مشکل سے کوئی اَن پڑھ کسان ملتا تھا۔ قرطبہ جو اندلس کا دارلحکومت تھا صرف اس میں اس وقت ۸۰۰ سو سکول تھے اور وہاں کے حکمرانوں کی نجی لائبریریوں میں چھ لاکھ سے زائد کتب موجود تھیں۔ اس کے علاوہ بغداد‘ قرطبہ‘ استنبول اور دمشق کی یونیورسٹیاں کس سے ڈھکی چھپی ہیں جہاں پر یورپی بادشاہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے خلفاء کے احسان مند ہوتے تھے۔
 
 طب کے میدان میں مسلمانوں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔صرف سرجری کے لیے ہی بیش بہا تحقیق اور آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلمانوں نے یہ اوزار دسویں صدی میں ہی تیار کر لیے تھے جن کی تعداد ۲۰۰ سے زائد تھی جو آج بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ فرانس کی یونیورسٹی میں اٹھارویں صدی میں طالبعلموں کوطب کی ایک کتاب پڑھائی جاتی تھی جس کا نام تھا’’قانون فی طب‘‘ تھا۔یہ کتاب گیارہویں صدی میں لکھی گئی تھی۔ مسلمان ان یورپی ممالک سے ۷۰۰ سو سال آگے تھے جو آج اپنے آپ کو اس تحقیق کا بانی سمجھتے ہیں۔
 
 آٹوموبائیلز میں ترقی کا تعلق Combustion Engineمیں تحقیق سے ممکن ہوا ہے۔ ایک ایسی مشین جس کے انجن میں تیل کے جلنے سے Pistons حرکت کرتے ہیں جس کی بدولت آٹو موبیل حرکت کر تی ہے۔ یہ برطانوی سلطنت کے دور میں ممکن ہوا تھا جب بھاپ اور کوئلوں کی مدد سے Pistonsکو حرکت میں لایا گیا جس کی وجہ سے روٹری انجن وجود میں آیا۔ اس تمام کام کی بنیاد ۱۲صدی میںAl-Jazzariکے کام سے عبارت ہے جب اس نے Crank shaftانجن دریافت کیا جس میں سلنڈر اور راڈز کی مدد سےn Rotary Motioپیدا کی گئی۔وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے اس تمام عمل کو مشین کی شکل میں اکٹھا کیا۔

پیراشوٹ ایک ایسی چیز ہے جوکہ فضاء کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی شے کی حرکت میں کمی لاتا ہے۔
۹ویں صدی میں ابن فرناس نے ابتدائی نمو نہ بنایا۔ اُس نے قرطبہ کی ایک مسجد کے مینار سے پر نما ایک کپڑے کے ساتھ چھلانگ لگائی تاکہ وہ اپنے گرنے کے عمل میں کچھ رکاوٹ پیدا کر سکے لیکن اس کو معمولی زخم آئے۔بعد میں پیراشوٹ بنانے میں جدت آئی اور لینن کے کپڑے سے لکڑی کے فریم پر بننے لگے۔ اور اُس کے بعد سلک کے کم وزن اور طاقت کی وجہ سے پیراشوٹ بنانے کے لیے دوہری سلک کا استعمال ہونے لگا۔

اللہ تعالی کی عبادت اور شکر گزاری کی طلب نے مسلمانوں کی بہت سی ایجادات کی طرف رہنمائی کی۔ پنجگانہ نمازکے اوقات‘ قبلہ کی سمت اور رمضان کا تعین‘ ستاروں اور چاند کی سمتوں کی صحیح نشاندہی چاہتاہے۔ اس وجہ سے مسلمانوں نے تحقیق اور مشاہدات کے لیے ٓلات دریافت کرنا شروع کیے۔ اس وجہ سے آج بہت سے
Navigational Stars کے نام عربی میں ہیں جیسا کہ Acamar, Baham, Baten Kaitos, Caph,Dabih, Furud, Izar, Lesath, Mirak, Nashira, Tarf and Vega وغیرہ۔ مسلمانو ں نے اجرامِِِ فلکی کے علم میں بہت سی خدمات انجام دیں اور آخر کار ایک Astronomical Clockتیا رکی۔

اس طرح سورج اور چاند کی حرکت کومدِنظر رکھتے ہوئے ابوالریحان البیرونی نے دسویں صدی میں ایک مکینیکل کیلنڈر تیار کیا جو کہ گئیر اور پہیوں پر مشتمل تھا جو گراری کے ذریعے جڑے ہوئے تھے۔ اس ڈیزائن پرتقی الدین نے
۱۵ صدی میں مکینیکل گھڑی تیار کی۔ قبلہ کی صحیح سمت کے تعین کے لیے Compassبنایا گیا۔مسلمانوں نے ایسے Compassبھی تیار کیے جو کہ چاروں سمتوں کی نشاندہی بری اور بحری نقشوں پر کرتے تھے۔
مسلمانوں نے دنیا کو
Wind Millکے استعمال سے متعارف کروایا جو ہوا کی طاقت سے توانائی پیدا کرتی تھی۔جس کے ذریعے زرعی زمین کو سیراب کیا جاتا تھا اور اجناس کو پیساجا تا تھا۔ جبکہ مغرب نے یہ ٹیکنالوجی مسلمانوں کی ایجاد کے پانچ سو سال بعد اپنائی۔ نویں صدی میں مسلمانوں کے پاس ایک ایسا بینک کا نظام تھا جب کوئی مسلم تاجر بغداد سے نکلتا تھا تو وہ چین جا کربینک ڈرافٹ پیش کرکے پیسے وصول کر سکتا تھا۔

اسلام ایک منفرددین ہے جسے اللہ تعالی نے نازل فرمایا جو افراد اور معاشرے دونوں کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ اللہ تعالی خالقِ کائنات کی حیثیت سے جانتے ہیں کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے۔ خلیفہ اللہ تعالی کو اُن سب مسائل کا جوابدہ ہے خلافت کے شہریوں کو درپیش ہوتے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا ’’ تم میں سے جو کوئی بھی مسلمانوں کے امور پر نگہبان بنایا گیا اور وہ ان سے بے خبر رہے اور ان کے مسائل اور ضرورتوں کی طرف توجہ نہ دے‘ توقیا مت کے دن اللہ تعالی بھی اس سے بے خبر رہیں گے اور اس کے مسائل اور ضرورتوں کا خیال نہیں کریں گے‘‘‘۔

امام کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کے امور کی دیکھ بھال کرے۔ ان میں سے ایک بنیادی ذمہ داری صحت کی سہولتوں کی فراہمی ہے۔ جب حضورؐ کو مدینہ کے حاکم کے طور پر ڈاکٹر تحفہ میں دیا گیا تو آپؐ نے اسے مسلمانوں پر معمور کر دیا۔ یعنی رسول اللہﷺ نے تحفے میں دیے گئے ڈاکٹر کو مسلمانوں پر معمور کردیا جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صحت کی سہولتیں مسلمانوں کی ضرورت ہے۔ دورِخلافت میں بھی اس کو بنیادی ذمہ داری سمجھا گیا۔ مسلمان علاقے خوشحال تھے اور غربت
وافلاس کا دور دور تک نام ونشان نہیں تھا۔اس کی ایک مثال خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے دور سے ملتی ہے جب انہوں نے اپنے نمائندے یحیی بن سعد کو افریقہ بھیجا کہ وہ صاحبِ نصاب سے زکوۃ لیں اور اُسے مستحقین میں تقسیم کریں تو انہیں پورے افریقہ میں ایک بھی زکوۃ کا مستحق نہ مل سکا۔ یہ تھی اس خلافت کے امراء کی امت کے لیے فکر اور عوام کی خوشحالی کا معیار جب اس کے برعکس آج کے افریقہ کی حالتِ زار ہمارے سامنے ہے۔آج اسی افریقہ میں ہر دو سیکنڈ بعد ایک بچہ بھوک کی وجہ سے مرتا ہے۔
 
ریاست میں اعلی درجہ کے ہسپتال اور ڈاکٹرز تھے جس میں بغداد‘ مشق‘ قاہرہ‘ یروشلم‘اسکندریہ‘قرطبہ‘ ثمرقند اور بہت سے علاقے شامل ہیں۔ صرف بغداد میں ہی
۶۰ ہسپتال تھے جہاں پر In-doorاور Out-door مریضوں کے لیے الگ الگ ڈیپارٹمنٹ تھے اور ایک ہزار سے زائد فزیشن موجود تھے۔

المنصوری ہسپتال جو کہ
۱۲۸۳میں قاہرہ میں تعمیر کیا گیا‘آٹھ ہزار بستروں پر مشتمل تھا۔ ہر مریض کے لیے دو Attendant تھے جو مریض کے بستر پر اس کو ہر طرح کا آرام اور سہولیات مہیا کرنے کے ذمہ دار تھے۔ ہر مریض کے لیے الگ برتن اور بستر تھا جبکہ مریضوں کو دوائیاں اور کھانا مفت فراہم کیا جا تا تھا۔ گاوٗں کے لوگوں اور معذور افراد کے لیے الگ سے موبائل ڈسپنسری اور کلینک تھے جو ان کو مکمل علاج کی سہولتیں فراہم کرتے تھے۔ خلیفہ المقتدر بلا نے اپنے دور میں یہ حکم بھی جاری کیا ہوا تھا کہ ہر موبائل یونٹ کچھ وقت کے بعد ہر گاوٗں جایا کرے گا اور ہاں پر کچھ دن قیام بھی کیا کرے گا۔ 

ّاسلامی ریاست کے خلفاء اللہ تعالی کے اس فرمان کو ریاست کا مقصد بنائے ہوئے تھے کہ ’’ آپؐ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘اور ’’تمھارے لیے حضورؐ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ اس لیے علاقوں کو فتح کرنے کے بعد ان کو لوٹا نہیں جاتا تھا اور نہ ہی لوگو ں کو ظلم اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔جس کی واضح مثال حضورؐ کی زندگی میں فتح مکہ کے بعد مشرکین سے برتاوٗ ہے۔ اس طرح کی ایک مثال خلافت راشدہ کے دور میں نظر آتی ہے جب خالدبن ولیدؓ نے ایک علا قے کو فتح کیا تو وہاں پر بہت ہی غریب اور معذور لوگ قیام پذیر تھے۔ آپؓ نے خلیفہِ وقت ابو بکر صدیقؓ کا اس صورتحال سے آگاہ کیا تو آپؓ نے حکم دیا کہ جب تک یہ لوگ اسلامی ریاست میں رہیں گے اس وقت ان سے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔ اور جتنی دیر وہ خلافت میں رہیں گے بیت المال سے ان کی امداد کی جائے گئی اور ان کی ضروریات پوری کی جائیں گئی۔ یہی برتاوٗ مفتوح علاقے کے لوگوں کے ساتھ خلافت کے انہدام تک جاری رہا۔ خلافت نے نہ صرف مسلمانوں کو تحفظ دیا بلکہ غیرمسلم‘ یہودی اور عیسائی بھی خلافت میں پناہ لیتے تھے۔
۱۴۹۲ء میں اندلس پر جب انگریز قابض ہوگئے تو عیسائیوں نے یہودیوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔تو اس وقت خلیفہ بایزیدالثانی نے یہ اعلان کیا کہ ان یہودیوں کا مسلمان سر زمین پر استقبال کیا جائے اور خلافت ان کو تحفظ فراہم کرے گی۔ اُس وقت کے قسطنطنیہ اورآج کے استنبول میں وہ یہودی محلہ موجود ہے جہاں پر ان یہودیوں نے سکونت اختیار کی تھی۔

یہاں پر اسلامی ریاست کا غیر مسلموں کے ساتھ برتاوٗکو بیان کرنا اس لیے ضروری ہے کہ آج جو برتاوٗ مسلمانوں کے ساتھ مغربی سر زمین پر کیا جا رہا ہے وہ قابلِ بیان نہیں ہے لیکن اس سے آپ سب لوگ واقف بھی ہیں۔میں یہاں پر چند مثالیں ان برتاوٗ کی رکھ رہا ہوں جو اسلامی ریاست نے اپنے غیرمسلم شہریوں کے ساتھ کیا۔
 
عہدنامہ ایک ایسا معاہدہ تھا جس میں سلطان محمد الفاتح نے یہودیوں اور عیسایوں کے حقوق کا تعین کیا۔سلطان محمد فاتح وہ شخص تھا جس نے قسطنطنیہ کو فتح کر کے حضورؐ کی دی ہوئی بشارت کو پورا کیا۔سلطان فاتح ایک عظیم اور نڈر خلیفہ سلطان مراد(
I)کا پوتا تھا جس نے بالکن کے علاقوں کو اسلام کے لیے کھولا تھا۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ ۱۳۸۹ ء میں سربوں کو کوسووو (Kosovo)میں شکست دینا ہے۔ سلطان فاتح کے والد مراد (II) نے کوسووو(Kosovo) میں ایک اور جنگ لڑکر بوسنیا کو خلافت میں شامل کیا۔ سلطان محمد فاتح نے اپنے دادا اور والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس پورے علاقے کو اسلام کے لیے کھول دیا۔
 
 عہدنامہ ایک ایسا واضح اور قطعی معاہدہ ہے جس نے اسلامی ریاست کے اندر رہنے والے یہودیوں اور عیسائیوں کے حقوق واضح کر دیے۔وہ انصاف جو خلافت نے بوسنیا کے عیسائیوں کے ساتھ۱۴۳۹ء میں کیا‘اگر اس کو عیسائیوں کے مسلمانوں کے ساتھ سلوک سے موازنہ کیا جائے جو ۳۹ سال بعد سپین میں مسلمانوں کے سا تھ کیا گیا جہاں ان کے پاس دو ہی راستے تھے دین چھوڑ دیں یا یہ علاقہ چھوڑ دیں‘ تو شاید ہی کوئی مسلمانوں کوظالم اور جابر کہہ سکے۔یہ عہد نامہ کچھ اس طرح سے تھا۔’’ میں سلطان محمدیہ حکم دیتا ہوں کہ کوئی بھی شخص ان کو تنگ کرے گااور نہ ہی ان کے گرجا گھروں کو نقصان پہنچائے گا۔ میری سلطنت میں ان کو سکون سے رہنے کی اجازت ہے۔ اور جو مہاجر بن چکے ہیں وہ یہا ں محفوظ ہیں۔ ان کو واپس جانے اور اپنے مذ ہب کو اختیار کرتے ہوئے میری سلطنت کے کسی بھی ملک میں سکونت اختیار کرنے کی مکمل آزادی ہے۔شاہی خاندان کے لوگ ہوں یا میرے وزراء‘ نوکر ہوں یا سلطنت کے شہری کسی کو بھی ان کی بے حرمتی اور تنگ کرنے کاکوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا۔ کسی کو بھی ان کی زندگی چھیننے ان کو اذیت میں ڈالنے حتی کہ چرچ کی زمین پر قبضہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ بلکہ اگر وہ ریاست کے باہر سے کسی شخص کو لانا چاہیں تو میری سلطنت میں اس کی اجازت ہوگئی۔‘‘
 
 اس کے علاوہ۱۸۴۵ئمیں جب آئرلینڈ میں قحط کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے دس لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔عثمانی سلطان خلیفہ عبدالمجید (I) نے اپنے اس ارادے کا اعلان کیا کہ وہ آئرلینڈ کے کسانوں کی مدد کے لیے ۰۰۰،۱۰پاوٗنڈ بھیج رہا ہے لیکن ملکہ وکٹوریہ نے اُسے صرف ۱۰۰۰ پاوٗنڈ بھیجنے کی درخواست کی کیونکہ اُس نے خود صرف ۲۰۰۰ پاوٗنڈ بھیجے تھے۔ خلیفہ نے ۱۰۰۰ پاوٗنڈ کے ساتھ چپکے سے تین غلہ سے لدے ہوئے بحری جہاز بھی بھجوا دیے۔ برطانیہ نے ان کوروکنے کی کوشش کی لیکن عثمانی ملاح انہیں ساحلوں پر چھوڑ کر چلے گئے۔ یہاں پر یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ اس زمانے کے ۰۰۰.۱۰ ہزار پاوٗنڈ کی مالیت آج کے۸ لاکھ پاوٗنڈ کے برابر ہے جو کہ ۱۶ لاکھ ۸۳ ہزار ۲۸۰ امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ جس کے مقابلہ میں ملکہِ وکٹوریہ کی دی ہوئی رقم کی مالیت آج کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار پاوٗنڈ یعنی تین لاکھ چھتیس ہزار چھ سو چھپن امریکی ڈالر کے برابر ہے۔اور یہ مدد اور سخاوت اس موقع پرکی گئی جس مغربی تاریخ دانوں کے مطابق خلافت کا زوال کا دور تھا جبکہ خود سلطان عبدالمجیدکا شمار بھی مشہور عثمانی خلفاء میں نہیں ہوتا۔ 
 
اسی طرح کا سلوک عثمانی خلافت نے تُرکی میں رہنے والے اسرائیلیوں کے ساتھ کیا جس کی تصدیق امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کی۔ جب
۱۸۷۷ء میں ایک امریکی ٹیم عثمانی خلافت کا یہودیوں کے ساتھ سلوک کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے بھیجی گئی۔ نیویارک ٹائمزکے ۲۳ اگست ۱۸۷۷ کے ایڈیشن کے مطابق ’’ امریکی وزیر نے کہا کہ ترکوں کے عدل نے اسے یہ ماننے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہودیوں کے سا تھ سب سے بہتر سلوک دوسری مغربی طاقتوں کے مقابلہ میں عثمانیوں نے کیا اور یہ تاثر غالب ہے کہ عثمانی سلطنت کابر تاوٗ عیسائیوں کے برتاوٗ سے بہتر تھا۔‘‘ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کویہ خط ترکی میں موجود اپنے وزیر کی طرف سے موصول ہوا جس میں بہت ہی دلچسپ انکشافات کیے گئے تھے۔ اسرائیلیوں کی سلطنت میں کل تعداد ۵ لاکھ تھی۔ جس میں سے ڈھائی لاکھ رومانیہ‘ اسی ہزار ایشیائی ترکی‘ پچھتر ہزار یورپین تُرکی اور سربیا میں دوہزار رہتے ہیں۔ اس خط کے مطابق عثمانی سلطنت میں یہودیوں کو مذہب کے حوالے سے ایک الگ قوم کی پہچان حاصل ہے اور ان کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا اختیار حا صل ہے۔اُن کا روحانی امام ربی اور باشی کو مکمل اثرورسوخ حاصل ہے اور وہ آزادی سے اپنے امور سر انجام دیتا ہے۔

ٍ یہ تھا خلافت کے سنہری دور کی چند جھلکیاں ۔ وہ خلافت جس نے کفار کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ مسلمانوں سے بہتر عدل کسی قوم نے نہیں کیا۔ آج وہ لوگ جو اس خلافت کے دوبارہ قیام کو دقیانوسی کہتے ہیں اور ایک فرسودہ نظام سمجھتے ہیں وہ خود ہی جہالت اور اندھیر نگری میں رہ رہے ہیں۔ اگر مسلمان اس زمانے میں گھوڑوں اور اونٹوں کی مدد سے تین براعظموں پر حکومت کر رہے تھے تو آج کے جدید دور میں جب مسلمان ایٹمی قوت ہیں، معدنی ذخائر سے مالا مال ہیں ‘ بحری اور بری گزرگاہیں ان کے زیر اثر ہیں تو آج کیوں یہ سپر پاور نہیں بن سکتے۔ انشااللہ وہ وقت بہت قریب ہے جب ایک اسلامی ریاست اس دنیا کے نقشے پر ابھرے گی اور دوبارہ سے دنیا کی سپر پاور بنے گی ۔ ضرورت صر ف اس امر کی ہے کہ ہم ان آخری مراحل میں جو اگرچہ کٹھن ہیں پوری قوت سے اس کے قیام میں حصہ ڈالیں تاکہ وہ سعادت ہمیں ہماری زندگی میں نصیب ہو جائے جس کی حضورؐ نے بشارت دی ہے کہ ’’پھر دوبارہ نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہوگی۔‘‘

خلافت کا سنہری دور خلافت کا سنہری دور Reviewed by خلافت راشدا سانی on 9:40 AM Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.