اجتہاد اور کلوننگ
کیا اسلام کفار کی فوجوں کے ساتھ مشتر کہ فوجی مشقوں کی اجازت دیتا ہے؟
ایٹم بم کے استعمال کے بارے میںا اسلام کا
کیا حکم ہے۔ کیا کسی بھی صورت
میں اسلام مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں
کے لیے امن مذاکرات کی اجازت دیا ہے۔ پر وفیسر امینہ ودود
نے آخرمخلوط مجمع کی امامت کر کے
اسلام کے کس نص کی
خلاف ورزی کی ہے۔ اقوام متحدہ میں
شامل ہونا کیسا ہے؟ Limitedکمپنی بنانا جائز ہے کہ نہیں۔ اسلام کلوننگ کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
اگر چہ اس مضمون
میں اوپر دیئے گئے تمام سوالوں کا جواب دینا ممکن نہیں اور نہ ہی یہ مقصود
ہے۔ بلکہ مقصداسلام کا وہ طریقہ کا رسمجھنا ہے جس کے ذریعے
نئے مسائل کیلئے
اللہ کاحکم شرعی نصوص سے استنباطExtract کیا
جاتا ہے۔ تا ہم اس مضمون
میں کلوننگ کے بارے میں اجتہاد ضرور دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ اسلام پر بطور نظام اعتماد بحال کرنے کی ایک چھوٹی
سی کوشش ہے۔ گذشتہ
ایک دہائی سے جہاں امت کے ساتھ
ساتھ باقی دنیا برٰ تعداد میں اسلام کی
طرف راغب ہونا شروع ہوئی وہاں اسلام سمجھانے کی " ضعت" بھیی اپنے عروج
پر ہے۔ بد قسمتی سے اسلام ے افکار پر
ہونے والے بحث ومباجحثے اسلام کی واضح اور شفاف فکر کو سمجھانے کے بجا ئے امت کے
افکار کو دھندلا نے کا زیادہ باعث بن رہے ہیں۔ انہیں میں سے ایک فکر اجہتاد
ہے۔
اجتہاد کے بارے میں پچھلے کچھ عرصے سے ذرائع ابلاغ خصوصاالیکٹر ونک میڈیا میں ایک
بحث جاری ہے۔ افسوس سے کہنا
پڑتا ہے کہ یہ بحث امت کو اجتہاد
کے مفہوم سے آگا ہی تو کجااسلام
کی بنیادوں پر ضرب لگانے کی کوشش زیادہ محسوس ہوتی ہہے۔ اجتہاد پر بات کرنا ایک فیشن بن گیا
ہے ۔ خصوصاوہ لوگ جو اسلام کو کفر کے
نظاموں سے کسی طرح منطبق کرنا
چاہتے ہیں اجتہاد کا سہا رالینا اپنا
فرض گردانتے ہیں۔
خواہ وہ بینکار ی نظام اور اس کا سود ہو، اٹیمی اسلحے
کی تلفی ہو یا جہاد طلب
کی منسوخی۔ حالیہ دنوں
میں مفتی"مشرف" نے" مجتہد" بش کے اصولوں پر اسلام کے
خلاف صلیبی جنگیں دوبارہ شروع
کرنے کے لئے صلح حدیبیہ سے اپنا "اجتہاد" کیا۔ اس سے پہلے
خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں
ان کے "اجتہاد" سے امت
پہلے ہی واقف ہے۔
اسلام میں قرآن
وسنت سے احکامات اخذ کرنے کے عملprocess کو اجتہاد
کہتے ہیں۔ چنانچہ قرآن اور سنت،
جو کہ قانونی متنlegal text ہیں، سے
کسی بھی مسئلے کے بارے میں
اللہ کے احکامات اخذ کرنے کے عمل کو اجتہاد کہتے ہیں۔ کسی بی دور میں پوری امت میں کم ازکم ایک مجتہد کا ہونا فرض ہے جو امت کو نئے
مسائل کے بارے میں حکم، شرعی مصادر سے استنباط کر کے دے
سکے۔ قرآن وسنت سے احکامات
استنباط کرنا ہر مسلمان کے لئے
ممکن نہیں جس طرح ایک انگریزی
پڑھنے والا فقط آئین
پایا کستان پینل کو دکوپڑھ کر قانونی
ماہرنہیں بن جاتا ۔ اسی طرح
فقط ک عربی کی تھوڑی بہت سمجھ یا قرآن
اور حدیث کا ترجمہ پڑھ لینے سے
انسان نصوص سے شرعی احکامات اخذ کرنے کی صلاحیت حاصل
نہیں کر لیتا۔ اجتہاد کرنے کی
شرائط اصول الفقہ کی کتابوں
میں موجود ہیں۔
چنانچہ مجتہد وہ
قانونی ماہرlegal expert ہوتا ہے جو نصوص یعنی
قرآن و سنت سے شرعی احکامات
اخذ ک کرنے کی استعد ادر کھتا ہو۔ نیز یہ بھی سمجھنا ضروری
ہے کہ اجتہاد کسی مجتہد کی اپنی پسند نا پسند پر منبی
نہیں ہو تا بلکہ یہ فقط قرآن اور سنت
میں وارد شدہ اللہ کے احکامات کو
سمجھنے اور تلاش کرنے کا نام ہے۔ اسلام انسانی عقل کو نہایت ہی اہمیت
دیتا ہے ۔ چنانچہ اللہ کے وجود، قرآن کا منجانب اللہ ہونے اور محمد صلى الله عليه وسلم کا اللہ
کا رسول ہونے سے متعلق
حقائق میں عقل کو حاکم اور نبیاد گردانتا ہے۔ اللہ کے وجود
پر قطعی دلائل حاصل کرنے کے لئے
قرآن جابجاانسان کو چنے اور تدبرکرنے
کی دعوت دیتا ہے۔
نیز مباح معاملات
اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں انسانی عقل سے استفادہ لیناانسانیت کی فلاح
کے لئے نہایت ہی ضروری ہے۔ لیکن
اس کے ساتھ ساتھ خالق مطلق انسانی عقل کی حدود بھی متعین فرماتا ہے۔ عقل انسانی اس امر سے
قاصر ہے کہ وہ انسانوں کی تمام
ضرور یات اور باہمی تعلقات کو منظّم کرنے کے لئے ازخودایک مربوط نظام مہیا کر سکے۔
اللہ نے قرآن میں اس امر
کوواضح کرتے ہوئے فرمایا:
كُتِبَ
عَلَيۡڪُمُ ٱلۡقِتَالُ وَهُوَ كُرۡهٌ۬ لَّكُمۡۖ وَعَسَىٰٓ أَن تَكۡرَهُواْ شَيۡـًٔ۬ا
وَهُوَ خَيۡرٌ۬ لَّڪُمۡۖ وَعَسَىٰٓ أَن تُحِبُّواْ
شَيۡـًٔ۬ا وَهُوَ شَرٌّ۬ لَّكُمۡۗ
وَٱللَّهُ يَعۡلَمُ وَأَنتُمۡ لَا تَعۡلَمُونَ
"جنگ تم پر
فرض کر دی گئی ہےا ور وہ تمہیں نا گوار
ہے۔۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز
تمہیں نا گوار ہو اور وہی تمہاری لئے خیر ہو۔ اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز
تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے
لئے شرہو۔ اللہ جانتا ہے ، تم نہیں جانتے۔"
(سورۃ البقرۃ :۲۱۶)
اسی لئے ہر مجتہد
مستنط شدہ حکم کے لئے شرعی مصادر
سے دلیل پیش کرنے کا پابند ہوتا ہے تا کہ
دیگر علماء اور مقلد ین اس حکم کی جانچ پڑتال کر سکیں۔ چنانچہ
ایک مجتہد کسی بھی مسئلے کے بارے میں قرآن و سنت، اجماع الصحابہ اور قیاس جیسے
شرعی مصادر سے اللہ کے حکم تک رسائی
حاصل کرتا ہےنیز تمام وہ
لوگ جو از خودا جتہاد کی
صلاحیت نہیں رکھتے کسی بھی مجتہد
کی تقلید کر سکتے ہیں۔ یہ مسئلے
ٹیسٹ ٹیوکب بے بی کی طرح جدید ہوں یا نماز، روزے، حج اور زکاۃ کی طرح صدیقں قدیم ان تمام کے لئے ایک مجتہد قرآن و سنت
سے شرعی احکامات اخذ کرتا ہے۔
یہ ایک غلط
سوچ ہے
کہ اجتہاد اس مسئلے کے بارے میں
کیا جاتا ہے جو قرآن اور سنت میں بیان نہیں
کیا گیا بلکہ اجتہاد ہر اس
مسئلے میں در کار ہے جس میں شرعی نصوص
سے ایک سے زائد معنی نکل سکتے
ہوں۔ چنانچہ مجتہد غالب ظن کی بنیاد پر ان مسائل میں لوگوں
کی راہنمائی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز
اور روزے جیسے مسائل پر مجتہد ین نے اجتہاد کے ذریعے تفصیلی احکامات استنباط کئے
ہیں گو کہ مسلمان یہ ناسک رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے دور سے
ادا کرتے چلے آر ہے ہیں۔ لہذا آج پاکستان میں رہنے والے مسلمان زیادہ تر امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ
کے اجتہاد کے مطابق نماز، روزہ ، حج، زکاۃ ، وغیرہ ادا کرتے ہیں جبکہ مصر کے مسلمانوں کی اکثریت
امام شافعی کی مقلد ہے۔ اسلام غیر قطعی نصوص میں اجتہادی اختلافات کی اجازت دیتا ہےا ور تاریخ گواہ ہے کہ امت میں یہ کبھی بھی جنگ وجدل کا ا باعث نہیں بنے۔ موجودہ دور کی فرقہ واریت در حقیقت حکمرانوں نے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے خو پھیلائی ہے۔ چنانچہ اجتہا د کا مطلب وہ نہیں جو ہمیں آج کے مستشر قین اور ہمارے "ماڈریٹ" حکمران سکھار ہے ہیں یعنی جس چیز میں قرآن اور سنت خاموش ہیں وہاں اجتہاد کر لیا جائے ۔ قرآن اور سنت کسی بھی چیز میں خاموش نہیں بلکہ ایسا سمجھنا اسلام کو نا مکمل گرداننے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
وَنَزَّلۡنَا
عَلَيۡكَ ٱلۡكِتَـٰبَ تِبۡيَـٰنً۬ا لِّكُلِّ شَىۡءٍ۬
"اور ہم نے یہ
کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے۔"
(سورۃ النحل:۸۹)
ٱلۡيَوۡمَ
أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ
ٱلۡإِسۡلَـٰمَ دِينً۬ا
ۚ
"آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام
کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو
تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔"
(سورۃ المائدۃ:۳)
اسلام اقتصادی ، حکومتی ، معاشرتی، عدالتی ، تعلیمی نظام
اور خارجہ پالیس کے بارے میں واضح اور تفصیلی احکامات دیتا ہے چنانچہ مآ
خذ شرعیہ کے علاوہ کسی بھی دوسرے مذہب یا
نظر یہ حیات مثلاً سو شلزم یا سرمایہ دار
انہ نظریہ سے کوئی بھی قانون اخذ کرنے کی
اجازت نہیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
ومن اَحدَثَ فی امرنا ھذا مالیس منہ
فھو رَدُّ
"جو کوئی ہمارے
حکم(دین) میں کوئی ایسا حکم (قانون) داخل
کرتا ہے جو اس (دین) میں سے نہیں تو وہ
(قانون) مردود ہے"
اور فرمایا:
من
عمل عملا ً لیس علیہ اَمرنا فھو رَدَّ
"جو کوئی ایسا
عمل کرتا ہے جو ہمارے حکم سے
اجنبی ہو، تو وہ (عمل) مردود ہے۔"
اجتہاد کے
طریقہ کا رکو سمجھا
نے کے لئے اب ہم ایک ماڈل اجتہاد کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک جدید سائنسی مسئلے کلوننگ
پر شیخ عبدالقد یم ظلوم
مرحوم رحمتہ اللہ علیہ کا
اجتہاد ہے جو کہ حزب التحریر کے ۲۶ سال تک امیر ر ہے۔
کلوننگ کی حقیقت:
کلوننگ کسی جاندار جسیے پودے، جانور یا انسان کی ہو بہو نقل بنانے کو کہتے ہیں۔ پس
انسانی کلوننگ سے مرادایک انسان کی طرح کا
ہو بہودوسرا انسان بنانا ہے ۔ کسی مخصوص
انسان کی نقل بنانے کا طریقہ
یہ ہوتا ہے کہ اس شخص کا ایک
زندہ خلیہ لے کر اس کا مر کزہ نکالا جاتا ہے اور یہ کمرکزہ کسی عورت کی بیضہ دانی Eggکے
خلیے کے مرکزے کی جگہ جما Implantدیا جاتا ہے۔
یہ زر خیزیFertilization کے بالکل مشابہ طرقیے یا مصنوعی تخم سازیInsemination کے زریعے کیا جاتا ہے، جس میں مخصوص شخص کے خلیے سے لیا ہوا مرکزہ خاص کیمیکل اور برقی روکے ذریعے عورت کے بیضہ دانی میں داخل کیا جاتا ہے تا کہ اس خلیے کے مرکزے کو عورت کی بیضہ دانی سے ملایا جائے ۔ ان کو ملانے کے بعد یہ مخلوط بیضہ دانی مادررحمWomb میں رکھ دی جاتی ہےتاکہ اس کی افزائش اور بڑھوتری ہو سکے اور یہ ایک مکمل جنینFoetus کی شکل اختیار کر سکے۔
یہ زر خیزیFertilization کے بالکل مشابہ طرقیے یا مصنوعی تخم سازیInsemination کے زریعے کیا جاتا ہے، جس میں مخصوص شخص کے خلیے سے لیا ہوا مرکزہ خاص کیمیکل اور برقی روکے ذریعے عورت کے بیضہ دانی میں داخل کیا جاتا ہے تا کہ اس خلیے کے مرکزے کو عورت کی بیضہ دانی سے ملایا جائے ۔ ان کو ملانے کے بعد یہ مخلوط بیضہ دانی مادررحمWomb میں رکھ دی جاتی ہےتاکہ اس کی افزائش اور بڑھوتری ہو سکے اور یہ ایک مکمل جنینFoetus کی شکل اختیار کر سکے۔
قدرتی زچگی کے عمل
سے پیدا ہونے والا یہ بچہ اس مخصوص انسان کا ہو
بہو نقل ہوگا جس کے خلیے
کے مرکزے کو عورت کی بیضہ
دانی کے خلیے کے مر کزے
سے تبدیل کیا گیا تھا۔ انسانی کلوننگ
کے دوران انسانی جسم کے عام خلیوں کی منتقلی ہوتی ہے نہ
کہ جنسی خلیوں
کی۔ ہر انسا کے جسم میں لاکھوں ، کروڑوں بلکہ اربوں خلیے ہوتے ہیں۔ ہر خلیے میں
چھیا لیس(۴۶) کرو موسوم
ہوتے ہیں جو کہ انسان کی خاصیات کا
اصلGenetic Substance
ہیں۔ یہ کرو موسوم انسان کی تمام
موروثی خصوصیات سے مزین ہوتےہیں۔ یادر ہے کہ یہاں زیر بحث انسان کے عام
خلیے ہیں نہ کہ جنسی
خلیے جو کہ مرد کے مادہ منویہSperm اور عورت
کے بیضہ دانی Ovaryسے
حاصل ہوتے ہیں۔ جنسی خلیوں میں کرو موسوم کی تعداد باقی خلیوں کے مقابلے
میں نصف ہوتی ہے۔
قدرتی طریقہ
افزائش Fertilizationمیں
مرد کے جنسی خلیےSperm جس میں
تئیس(۲۳) کروموسوم ہوتے ہیں کا عورت
کے جنسی خلیے (Egg) جس میں بھی تئیس (۲۳) کرو
موسوم ہوتے ہیں کا باہمی اختلاط ہوتا
ہے۔ پس پیدا ہونے والے بچے
خلیوں میں چھیا لیس (۴۶)
کروموسوم ہوتے ہیں اور بچے کے
اندرمرد اور عورت دونوں کے موروثی خواص
پائے جاتے ہیں۔
دوسری طرف
کلوننگ کے طریقہ کا رمیں استعمال
ہونے والا خلیفہ ایک غیر جنسی
خلیفہ ہوتا ہے اور یہ ایک شخص سے لیا
جاتا ہے
پس اس کے اندر مکمل
چھیا لیس ۴۶ کرو موسوم ہوتے ہیں جس میں اس شخص کی تمام موروثی خصوصیات پائی جاتی ہیں اس لئے
پیدا ہونے والا بچہ
بالکل اس شخص ک کی طرح ہوتا ہے
جس کا خلیہ (یعنی
خلیے کا مرکزہ ) اس عمل
میں استعمال ہوا ہواور وہ بچہ اس
شخص کا ایسا اصلGenetic نقل ہوگا
جیسے کہ کسی رنگین صفے کی رنگین
فوٹو کاپی۔
قدرتی افزائش نسلFertilization نراور مادہ ک جنسی خلیوں سے ہی ہو سکتا ہے جبکہ کلوننگ میں مر کے بغیر بھی افزائش نسل ہو سکتی
ہے اور مرد کے ساتھ بھی
کیونکہ اس میں انسانی خلیے
استعمال ہوتے ہیں نہ کہ
جنسی خلیے۔ مرد کے
بغیر افزائش نسل کیلئے عام انسانی خلیہ
عورت سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس عمل سے پیدا
ہونے والا بچہ اس عورت
کی مکمل نقل
ہوگا جس سے انسانی خلیہ اخذ کیا
گیا تھا۔
پس اس طرح کے کلوننگ کے عمل
میں کسی بھی درجے میں کسی مرد کی شمولیت کی ضرورت نہیں پڑتی۔
قدرتی افزائش
نسل کے طریقے میں پیدا ہونے بچے کی خصوصٰات والدہ اور والد دونوں کی جانب سے
ہوئی ہیں نتیجہ بچے آپس میں مکمل طور پر ایک جیسے نہیں ہوئے۔ بچوں اور والد
ین اور بچوں کی آپس میں مشابہت
بلحاظ قد، رنگت ، خاکہ ، ذہنی استعداد،
قابلیت اور پیدائشی نفسیات مختلف
درجے کی ہوتی ہیں۔ کلوننگ کے ذریعے پیدا ئش میں اس شخص کی تمام خصوصیات بعینہ آگے منتقل ہوتی
ہے
جس کا عام خلیہ ( یعنی خلیے کا
مر کزہ) اس عمل میں استعمال ہوتا ہے خواہ وہ شخص مرد
ہویا عورت ۔ نوز ائیدہ بچہ اصل شخس
کی بلحاظ قد، رنگت، ذہنی
استعداد، قابلیت اور پیدائشی نفسیات
کے لحاظ سے مکمل طور پر نقل ہوگا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام پیدائش خواص میں وارث بنتا ہے نہ کہ وہ خواص جو ایک
انسان دور ان زندگی حاصل کرتا ہے پس اگر عام خلیہ کسی پائے
کے عالم ، عظیم مجتہد یانا مور سائنسدان سے لیا جائے تو نوزائیدہ بچےClone میں یہ خواص
موجود نہ ہو نگے کیونکہ یہ خواص دور ان زندگی حاصل
کئے گئے ہیں نہ کہ یہ لوگ
پیدائشی طور پر عالم مجتہد یا سائنسدان
تھے۔
کلوننگ کے عمل کی
دریافت نے اللہ سجانہ
وتعالیٰ کے ایک اور قانون کی نقاب کشائی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں اور جانوروں کے غیر جنسی عام خلیوں میں افزائش نسل کی طاقت رکھنے کے بارے میں ہے پس
کلوننگ کے عمل نے ثابت کیا کہ انسانوں
اور جانوروں کا کوئی بھی خلیہ بچہ پیدا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
یہ انسانی
کلوننگ کی حقیقت
ہے۔ تاہم ایک اور طرح کی انسانی
کلوننگ بھی موجود ہے جیسے
جنین کلوننگFoetal Cloning کہتے ہیں اس
کلوننگ میں مادررحم میں جنینFoetus کو
دویازیادہ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ اس عمل سے ایک شخص دوران رحمFoetal Period اپنے
بچوں کے نقلClones بنا
سکتا ہے مادررحم میں جنین Foetusکے
بننے کے عمل کے ابتدا میں ڈاکڑ نئے تشکیل
شدہ خلیےZygote کو دویا زیادہ حصوں میں تقسیم کر دیتے
ہیں۔
یوں ک ایک سے زیاد مخلوط خلیےZygotes وجود میں آتے ہیں جو کہ بعینہ پہلے خلیے کی
طرح ہوتے ہیں اور ان میں اسی طرح افزائش،
بڑھوتری اور نشوو نما کی صلا حیتیں ہوتی ہے۔ پس
جنین کلوننگ سے ایک سے زیادہ جڑواں بچوں کی پیدائش وقوع پذیر ہوتی ہے جو کہ ہو بہو ا یک جیسے
خاصیات کے مالک ہوتے ہیں۔
کلوننگ کے
زریعے افزائش نسل پودوں پر آزمائی جا چکی ہے اور حال ہی
میں جانوروں پر بھی کلوننگ کے تجربات کئے گئے ہیں۔ انسانی
کلوننگ کے بارے میں اگر چہ مصدقہ اطلاعات ابھی تک
نہیں آئیں لیکن سوال یہ ہے
کہ شریعت محمدی کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟
پودوں اور جانوروں میں
کلوننگ کا شرعی حکم:
پودوں اور جانوروں میں کلوننگ کا مقصدا چھی کو الٹی کی زیادہ پیدا وار حاصل کرنا اور عام بیمار یاں خصوصا وہ جو مہلک
ہیں، کا علا ج ڈھونڈنا ہے جس کا بصورت
دیگر کیمیائی ادویات سے علاج صحت
کیلئے نقصان وہ ہے۔
شریعت پودوں اور
جانور وں میں پیدا ورا کی بڑھوتری اور
کوالتی کی بہتری کو منع نہیں کرتی ۔ یہ مباحات
میں سے ہے۔
جبکہ بیمار یاں ، خصوصاوہ جو مہلک
ہے، سے بچاؤ کیلئے بھی جانوروں اور پودوں کی کلوننگ
اسلام سے نہ صرف جائز ہے بلکہ یہ
ایک مندوب (سنت) عمل ہے، کیونکہ
بیماری کا علاج کروانا اور علاج
کیلئے ادویات تیار کرنا ایک
مندوب عمل ہے۔ امام احمد حضرت انس
سے روایت کرتے ہیں کہ رسول
اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
"ان اللّٰہ
عزو جل حیث خلق الداء خلق الدواء
فتد اووا"
" بیماری اور علاج
اللہ ہی نے پیدا کئے پس علاج
کراؤ"
داؤد اور ابن ماجہ، اسامہ بن شارق رضي الله عنه سے روایت کرتے ہیں
کہ اس نے کہا کہ میں رسول صلى الله عليه وسلم کے پاس تھا جب ایک بدوآیا اور پوچھا
اے نبی صلى الله عليه وسلم کیا ہم
بیماری کا علاج کریں؟ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
"نعم یا عباد اللّٰہ
تداو اؤ، فان اللّٰہ عزو جل لم یضع داء
الا وضع لہ شفاء"
"ہاں اے اللہ کے بندے علاج کرو اللہ عزوجل نے کوئی
بیماری بغیر علاج کے پیدا نہیں
کی"
پس پودوں کی اچھی اقسام
پیدا کرنے اور پیدا بڑھا نے کیلئے کلوننگ کا عمل
جائز ہے، اس طرح جانوروں میں بھی
اعلیٰ اقسام کی نسلیں پیدا کرنے ، زیادہ
افزائش نسل کیلئے اور
بیماریوں خصوصا مہلک بیماریوں
سے بچاؤ کیلئے اس عمل کی
اباحت ہے۔ یہ جانوروں
اور پودوں کی کلوننگ کے بارے میں اللہ
سبحانه وتعال کا حکم ہے۔
انسانی کلوننگ:
جہاں تک انسانی
کلوننگ ، جس کے بارے میں مصدقہ اطلاعات
موجود نہیں، کے بارے میں حکم شرعی کا تعلق
ہے تو وہ یہ ہے۔
۱) جنین
کلونگFoetal Cloning میں مادررحم مین بننے
والا خلیہZygote
شوہر اور بیوی کے جنسی خلیوں یعنی
سپرم اور بیضے کے خلیے کے
اختلاط سے بنتا ہے ۔ یہ نیا بننے
والا خلیہ (Zygote) اس طرح تقسیم
کیا جاتا ہے کہ تقسیم شدہ خلیوں
میں پنپنے، بڑھوتری اور افزائش کی
خصوصیات باقی رہتی ہیں۔ یہ خلیہ
اس لئے تقسیم کیا جاتا ہے تا کہ تقسیم شدہ خلیے
بذات خودجنینFoetus بن
سکیں۔ جو کہ اصل جنین کی نقل
ہوتے ہیں پھر اگر ان خلیوں کو کسی
اجنبی عورت یا شوہر
کی دوسری بیوی کے رحم میں بڑھوتری ،
افزائش اور پنپنے کیلئے رکھا جائے
تو یہ دوشکلیں حرام ہیں کیونکہ یہ خونی
رشتوں کے اختلاط اور ضائع ہونے کا باعث نبے گا جو کہ اسلام سے
ممنوع ہے۔
دوسری جانب اگر ایک یا زائد مخلوط خلیےZygote بیوی کے رحم
میں ہی رکھے جائیں
تو اس صورت میں کلوننگ حلال ہے کیونکہ
یہ دراصل ایک جیسے جڑواں بچو کو پیدا کرنے کیلئے طبی
طریقے سے بیوی کے رحم میں موجود مخلوط خلیوں Zygotesکو
بڑھانےMultiply کاعمل
ہے۔ یہ جنین کلوننگ Foetal Cloningکے
بارے میں حکم شرعی ہے۔
۲) جہاں تک انسانوں
کی عام کلوننگ کا تعلق ہے تو اگر
چہ یہ اب تک عملی طور پر وقوع پذیر نہیں
ہواتاہم سائنسدانوں کے مطابق جانوروں کی
کلوننگ اسی سمت میں ایک قدم ہے۔ کلوننگ سے پیدا شدہ بھیڑ، ڈولی کے ساتھ
یہی معاملہ تھا۔ ایک بھیڑ کی
چھاتی کے خلیے سے مرکزہ
نکال کر اس سے چھاتی کے عناصر نکا
لے گئے اور اس کا مرکزہ ایک بھیڑ
کے بیضہEgg
میں اس کے مرکزے کی جگہ لگا دیا
گیا ، یہ مخلوط خلیہ
ایک بھیڑ کی بچہ دانی Wombمیں پنپنے کیلئے
منتقل کر دیا گیا تا کہ یہ ایک جنین
کی شکل اختیار کر سکے۔ پیدا ہنونے
والی بھیڑ، ڈولی اس پہلی بھیڑ کی نقل بمطابق
اصل تھی جس کی چھاتی سے خلیہ اخذ کیا گیا تھا۔
انسانی کلوننک ، خواہ وہ مرد کی ہویا عورت کی اس دنیا کی تباہی وبربادی کا موجب
بنےگا، اس کے تباہ کن اثرات میں کوئی شک نہیں خواہ اس کا مقصداچھی
نسل کے بچے جو ذہین، صحت مند،
بہادر، خوبصورت اور سمارٹ ہویا اس کا
مقصدریا ست کو مضبوط بنا نے کیلئے آبادی
بڑھانا ہو۔ یہ ایک شرہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ مندرجہ ذیل شرعی دلائل کی بنا پر یہ حرام ہے:
۱) بچوں
کی پیدائش کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کی طرف س انسانوں ک دیئے گئے
فطری طریقے سے مختلف ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے:
وَأَنَّهُ ۥ
خَلَقَ ٱلزَّوۡجَيۡنِ ٱلذَّكَرَ وَٱلۡأُنثَىٰ ، مِن نُّطۡفَةٍ إِذَا تُمۡنَىٰ
"اور اس (اللہ) نے نراور مادہ کے جوڑے بنائے ن،ظفہ سے جب وہ پکائی جاتی
ہے"
(سورۃ النجم:۴۶۔۴۵)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَلَمۡ يَكُ
نُطۡفَةً۬ مِّن مَّنِىٍّ۬ يُمۡنَىٰ ،ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً۬ فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ
، فَجَعَلَ مِنۡهُ ٱلزَّوۡجَيۡنِ ٱلذَّكَرَ وَٱلۡأُنثَىٰٓ
"کیا وہ ایک نطفہ نہیں تھا جو ٹپکائی جاتا ہے پھر وہ خون کا لوٹھڑ ابنا پھر اللہ نے
اسے بنایا اور درست کیا پھر اس سے دو قسمیں نر اور مادہ بنا دیں"
(القیامتہ۳۷:۳۹)
۲) وہ
بچے جو مادہ کی کلوننگ سے پیدا ہوتے ہیں
یعنی جس کلوننگ میں مرکا عمل دخل نہ ہو
بغیر والد کے ہوتے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ والدہ
سے بھی محروم ک رہیں گے
اگر کسی عورت سے اخذ کر دہ
خلیے سے مرکزہ نکال کر اس کو کسی
عورت کے
بیضےEgg کے
مرکزے کی جگہ منتقل کیا جائے ھر اس مخلوط
خلیے کو اس عورت کی جگہ کسی اور عورت کے رحم
میں پنپنے اور بڑھوتری کیلئے رکےھا
جائے جس کا خلیہ اس عمل میں استعمال کیا
گیا ہے۔ کیونکہ اس دوسری
عورت کے رحم یعنی بچہ دانی کا
مقصدا یک قیام گاہ کے سوا کچھ نہیں۔ یوں یہ ایک
ایسے انسان کی پیدائش پر منتج ہوگا جس کانہ تو والد ہونہ والدہ ۔ اور یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان کی نہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَـٰٓأَيُّہَا
ٱلنَّاسُ إِنَّا خَلَقۡنَـٰكُم مِّن ذَكَرٍ۬ وَأُنثَىٰ
"اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت
سے پیدا کیا"
(سورۃ الحجرات ۔۱۳)
سورۃ الا حزاب میں ارشاد ہے:
ٱدۡعُوهُمۡ لِأَبَآٮِٕهِمۡ
هُوَ أَقۡسَطُ عِندَ ٱللَّهِ
ۚ
"انہیں ان کے
والد کے نام سے پکارو کہ یہی اللہ کے ہاں
زیادہ مناسب ہے"
(سورۃ الاحزاب:۵)
۳)خونی رشتوں کا ناپید ہوتا: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے
خونی رشتوں کے تعلق کو قائم رکھنے
کو لازم قرار دیا ہے۔ ابن عباس رسول
اللہ صلى
الله عليه وسلم سے روایت کرتے
ہیں:"جس کسی نے اپنا پیدا
ائشی تعلق اپنے والد کے علاوہ کسی اور سے اور کوئی اور تعلق
سوائے کے کسی اور س منسوب
کیا جس سے اس کی نسبت ہے تو اس پر
اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام
لوگوں کی لغت ہو۔" (ابن ماجہ نے اس کو روایت کیا)
ابی عثمان النہدی
نے کہا کہ اس نے سعد اور ابوبکر دونوں
کو یہ کہتے سنا کہ انہوں
نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے یہ سنا اور سمجھا۔
"من ادعی الہی غیر ابیہ وھو یعلم انہ غیر ابیہ، فالجنتہ علیہ حرام"(ابن ماجہ نے اس کو روایت کہا)
"جو کوئی اپنے والد ے علاوہ کسی اور سے اپنے آپ کو منسوب کر ےجبکہ وہ یہ جانتا ہو کہ وہ اس کا والد نہیں، تو اس پر جنت حرام کر دی جاتی ہے۔"
ابو ہریرہ سے بھی
روایت ہے کہ لغت والی آیت کے نزول
کے وقت انہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کویہ کہتے سنا:
"ایما امرۃ ادخلت علی
قوم نسبالیس منھم فلیست من اللّٰہ
فی سئی ولن ید خلھا اللّٰہ الجنۃ وایما رجل جحد ولد وھو ینظر الیہ احتجب اللّٰہ
منہ وفضحہ علی رووس الا ولین والآ
خرین"
(الدرمی نے اس کو
روایت کیا)
"جب کوئی عورت لوگوں کے سامنے کسی شیر خوار بچے کو
اپنے آپ سے منسوب کرے جبکہ وہ اس کا بچہ نہ ہوتو
اسے اللہ سے کوئی سرو کار نہیں اور
نہ ہی وہ جنت میں داخل ہگی
اور کوئی شخس جو اپنے بیٹے کی طرف
دیکھتے ہوئے اس سے انکار کرے تو
اللہ اس پر اپنا ااپ ظاہر نہیں
کرے گا اور اےسے اگلی اور پچھلی نسلوں کے
سامنے رسوا کرے گا"
کلوننگ جس کا
مقصدایسے انسان پیدا کرنا ہے جو ذہانت ، طاقت، صحت اور خوبصورتی میں ممتازہو، کیلئے ایسے افراد (مردوعورت) چنے جاتے
ہیں جن میں یہ صلاحیتیں بدرجہ اتم
موجود ہو اور اس بات کو نظر انداز کیا
جاتا ہے کہ وہ شادی شدہ جوڑے ہیں کہ نہیں۔ پس عام خلیوں
مخصوص مر د یا عورت سے لئے جائیں
گے اور مخصوص عورتوں میں بڑھوتری
کیلئے جمائے implantجائیں
گے جو خونی رشتوں کے اختلاط اور ضائع ہونے
کا موجب ہوگا۔
۴) کلوننگ
کے ذریعے بچوں کی پیدائش بے شمار شرعی احکام کی نہیں اور منسوخی کے مترادف ہے جن میں
شادی ، بیوی کے نان نفقے ، ولدیت، فرزندی، وراثت، تحویل ، محارم اور اثبت سمیت بہت سے دیگر احکام شکامل ہیں۔ یہ حسب ونسبAffinity کے
اختلاط اور ضائع ہونے کا موجب ہوگا اور یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے قدرتی افزائش نسل کے طریقے
کے خلاف ہے، یہ ایک شرعمل ہے جو
معاشرے کی ساخت تبدیل
کر کے رکھ دے گا۔ اس لئے انسانی کلوننگ شرعی نقطہ نگاہ سے حرام اورممنوع
ہے۔
اللہ سؓھانہ وتعالیٰ نے شیطان لعین کے الفاظ دوہراتے ہوئے فرمایا:
وَلَأَمُرَنَّہُمۡ
فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلۡقَ ٱللَّهِۚ
"میں انہیں اللہ کی تخلیق بدلنے کا حکم دو نگا"
(سورۃ النساء :۱۱۹)
نسل انسانی کا بڑھانا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ نرکے مادہ
منویہ Spermاور عورت کے بیضہEgg کے اختلاط اور
زر خیز ی Fertilizationکے طریقے
سے نسل انسانی کی افزائش ہی اللہ
تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ودیعت کی ہو۴ی ہے اور اللہ کا قانون اس بارے میں یہ ہے کہ ایک جائز شرعی
معاہدے کے بغیر یہ عمل نہیں کیا
جاسکتا۔ کلوننگ کے ذریعے افزائش نسل
انسان کی فطرت نہیں۔ اسپر مستزاد
یہ کہ یہ عمل کسی جائز نکاح کے بغیر
سرانجام دیا جاتا ہے جو دونوں کوع آپس
میں بندھن میں باندھ سکے۔ مجھے امید ہے کہ یہ مضمون اجتہاد کی فکر کو کچھ حدتک ضرور واضح کرنے میں کا میاب ہو ا ہوگا۔
اجتہاد اور کلوننگ
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
3:01 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: