ہر انسان کے اندر اس کی اپنی شخصیت ہوتی ہے، جو دو عناصر سے مرکب ہوتی ہے ۔ایک اس
کی فکر و سوچ ،دوسرے اس کی ذہنیت و نفسیات۔ اس میں اس کی شکل و صورت ،جسم و ہےئت
اور اس کی وضع قطع کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔اِن کی حیثیت سطحی ہوتی ہے ۔ اِن کے بارے
میں یہ گمان رکھنا کہ شخصیت کے بنانے میں ان کا بھی ہاتھ ہے یا شخصیت کی ارتقاء
میں یہ اثر انداز ہوتی ہیں، تو یہ گمان لاحاصل اور رائیگاں ہوگا ۔
عقلیہ یافکر
اس کیفیت کا نام ہے جس کے تحت اشیاء کو جانا اور سمجھا جاتا ہے یعنی ان معین اور
طے شدہ قوانین کے تحت چیزوں پر حکم لگایا جاتا ہے ،جن قوانین پر آدمی کو اطمینان
ہوتا ہے ، لہٰذا چیزوں پر حکم لگانے کے سلسلے میں اگر کسی کی فکر اسلامی اساس اور
اسلامی عقیدہ پر قائم ہے تو اس کی فکر اور سوچ اسلامی ہوگی ورنہ غیر اسلامی۔
نفسیہ(ذات)
اس کیفیت کانام ہے ،جس کے مطابق آدمی کی جبلت کی آسودگی اور اس کی جسمانی ضروریات
کی تکمیل ہوتی ہے یعنی انسان کی جسمانی حاجات کی تکمیل اُس طے شدہ معیار کے مطابق
ہوتی ہے جس میں انسان کا یقین ہوتا ہے ۔ لہٰذا اگر اس کی ضرورتیں اور نفس کی خواہش
اسلامی عقیدہ اوراساس کے مطابق انجام پاتی ہیں تو اس کی نفسیہ اسلامی ہے۔لیکن اگر
آسودگی کا طریقۂ کار اسلام کے بتائے ہوئے اصولو ں کے خلاف ہے تو اس کی نفسیہ غیر
اسلامی ہوگی۔
اگرایک شخص
کی عقلیہ (فکر) و نفسیہ کا معیارایک ہی ہے تو اس کی شخصیت ممیز اور منظم ہوگی
۔لہٰذا کسی کی فکر او ر نفسیات کا مدار اسلامی اصول و ضوابط ہیں تو وہ ایک اسلامی
شخصیت کا مالک ہے اور اگر اس کی فکر و ذہنیت غیر اسلامی قواعد پر رواں دواں ہے تو
اس کی شخصیت غیر اسلامی ہوگی۔
چنانچہ صرف
یہی کافی نہیں ہوگا کہ اس کی عقلیہ اسلامی ہو اور وہ چیزوں اور کاموں پر شریعت کے
احکامات کے مطابق حکم لگائے اور احکام مستنبط کرے ،حلال اورحرام کو پہچانے اور ان
میں فرق کر سکے، اپنے شعور اور فکر میں پختہ ہو ،بلیغ اور مدلل گفتگو کرے، واقعات
کا صحیح تجزیہ کرے بلکہ اس کی نفسیہ بھی اسلامی ہونی چاہئے تاکہ وہ اپنی جسمانی
ضرورتوں اور حاجتوں کو اسلامی بنیادوں پر پوراکرے ،نماز پڑھے، روزے رکھے ،زکوۃ دے،
حج کرے، حلال کاموں کو انجام دے، حرام سے اجتناب کرے ، جس طرح اللہ تعالیٰ پسند
کرتا ہے کہ بندہ رہے اسی انداز میں اپنی زندگی گزارے۔فرائض و واجبات کی ادائیگی کے
ذریعہ اللہ گ کا تقرب حاصل کرے،نوافل کا دلدادہ و حریص ہو تاکہ اللہ گ سے زیادہ سے
زیادہ قریب ہو سکے،واقعات کے تعلق سے مخلصانہ اور درست موقف اختیار کرے اور اُن
میں وہ نیکی کا حکم دے ،برائی سے روکے ،اس کی محبت اللہ کے لئے ہو اور نفرت بھی
کرے تو اللہ کے لئے کرے اور لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت سے پیش آئے۔
اسی طرح یہ
بھی کافی نہیں ہے کہ صرف اس کی نفسیہ ہی اسلامی ہو اور اس کی عقلیہ یا فکر اسلام
کے مطابق نہ ہو، اور وہ ناواقفیت اور نادانی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا رہے جس
کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ راہ راست سے بھٹک جائے ۔ مثلاً حرام دنوں میں روزے
رکھے،مکروہ اوقات میں نماز پڑھے ،غلط روش پر چلنے والوں اور منکر افعال کو انجام
دینے والوں کو روکنے کے بجائے ان کے سامنے لاغر او رکمزور بن جائے،سودی معاملات
کرے اور اس خوش فہمی میں رہے کہ سودی مال کو صدقات و خیرات میں صرف کرکے اللہ کا
تقرب حاصل کر لے گا۔جس وقت وہ یہ کام انجام دے رہا ہوگا نادانستہ طور پر وہ خو د
اپنے گناہوں کے دلدل میں گر رہا ہوگا۔ یعنی وہ کر تو رہا ہے گناہ اور سمجھ رہا ہے
کہ وہ نیکی کے کام انجام دے رہا ہے اس صورت میں اس کی ضروریات کی تکمیل اللہ اور
اس کے رسول محمد ا کے احکام اور ان کے بتائے ہوئے طریقوں کے خلاف ہو رہی ہے ۔
معاملہ اسی
وقت درست رہ سکتا ہے جب اسکی عقلیہ یا فکر بھی اسلامی ہو ،دین کے ضروری احکام کا
علم ہو اور حتی الامکان زیادہ سے زیادہ شرعی علوم سے آراستہ ہو۔اس وقت اس کی نفسیہ
اسلامی ہو تاکہ وہ شریعت کے احکام کے مطابق اپنے معاملا ت کو انجام دے اور یہ علم
صرف معلومات میں اضافے کی غرض سے نہ ہو بلکہ وہ اپنے علم پر عمل پیرا ہو ،اپنے
تمام معاملات میں ان کو جاری کرے اپنے خالق کے ساتھ ،خود اپنے ساتھ ،دوسروں کے
ساتھ ان امور کو ملحوظ رکھے جن کو اللہ پسند فرماتا ہے اور جن سے راضی ہوتا ہے
لہٰذا جب اسکی عقل و فہم (عقلیہ)اور نفسیہ اسلام سے مربوط ہوگی تواس کی شخصیت بھی
اسلامی ہوگی جو بھیڑ بھاڑ اور بھاگ دوڑ کے ماحول میں خیر کا راستہ بنا لے گی اور
اللہ کی راہ میں ملامت کرنے والوں کی پرواہ نہیں کرے گی۔
البتہ اسکے
یہ معنی نہیں ہیں کہ اس سے غلطیاں سرزد نہ ہوں،بلکہ یہ کہ اس کی غلطیاں اس کی
شخصیت کو متاثر نہ کریں کیونکہ جب تک یہ غلطیاں اس کے اعمال میں مستثنیٰ کی حیثیت
سے ہونگی اور اصل کی حیثیت اختیار نہ کر لیں گی تو یہ غلطیاں اس کی شخصیت پر اثر
انداز نہیں ہو سکتیں۔ انسان فرشتہ نہیں ہے بلکہ اس سے غلطیوں کا امکان ہے لہٰذا وہ
توبہ و استغفار کرتا ہے اور حق کو پہنچتا ہے ،اللہ کے فضل اور احسان اور اس کی
ہدایت پر حمد و ثناء کرتا ہے۔
ایک مسلمان
اپنی عقلیہ کو پروان چڑھانے کے لیے جتنا اسلامی ثقافت سے آراستہ ہوگا ، اپنی نفسیہ
کی نشو نما کے لیے جتنے زیادہ اطاعت کے کام کرے گا اور بلندی کی جانب گامزن ہوگا ،
اس کے لیے اتنا ہی بلند مقام ہوگا بلکہ وہ اس سے ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز ہو
سکتاہے ۔اس صورت میں بشرطیکہ وہ مومن ہے ، وہ زندگی کے حقوق مکمل طور سے ادا کر
سکتا ہے اور اپنی کوششوں اور محنتوں سے آخرت کی بھلائی حاصل کر سکتا ہے اس طرح وہ
ایک بہادراور ایک مجاہد بن سکتا ہے ۔ ایک بندے کی بنیادی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ
اپنے خالق ،اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو۔
اس مضمون
میں ہم مسلمانوں خصوصاً دعوت کے علمبرداروں کے لیے اسلامی نفس کی تقویت کے فارمولے
پیش کر رہے ہیں تاکہ وہ علم دعوت کے حاملین کے لیے دلیل و حجت بن سکیں اور وہ قیام
خلافت کے لیے کام کریں۔اس کی زبان ذکر الہٰی سے تر رہے۔ اللہ کے تقوی سے اس کا دل
معمور ہو ،اس کے اعضا و جوارح سے نیکیوں کے چشمے جاری ہوں ،قرآن کی تلاوت کرے اور
اس پر عمل پیرا ہو، اللہ اور ا س کے رسول سے محبت کرے ،محبت ہو تو صرف اللہ کے لیے
،نفرت ہو تو صرف اللہ کے لیے،رحمت الٰہی کا امیدوار ہو ،عذاب الٰہی سے خوف زدہ
رہے، صابر اور محاسبہ کرنے والا ہو، توکل علی اللہ کاپیکر بنے اور مخلص ہو ۔حق پر
پہاڑ کی مانند مضبوطی سے ڈٹا رہے ،مومنوں کے تعلق سے رحم وکرم اور نرمی کا معاملہ
کرے اور کافروں کے تئیں سخت ہو ،اللہ کی راہ میں ملامت سے خوف محسوس نہ کرے، اخلاق
حسنہ کا جیتا جاگتا نمونہ ہو ،خوش کلام ،مدلل بات کہنے والا ہو ، معروف کا حکم
دینے والا وار منکرات سے باز رکھنے والاہو ،زندگی تو دنیا میں گزارتا ہو مگر
نگاہیں جنت کی جانب مرکوز ہوں جس کی لمبائی چوڑائی زمین وآسمان کو محیط ہے اور
جومخلص اور متقیوں کے لیے تیا ر کی گئی ہے۔
اس موقع پر داعیوں کی یاد دہانی کیلئے جو اسلامی خلافت کے قیام کے لیے اور اللہ کی زمین میں اسلامی زندگی کی از سرِ نو بحالی کیلئے کوشاں ہیں یہ ضروری ہے کہ وہ ان حالات و حقائق سے بھی واقف ہوں جن میں وہ اپنے مقصد کے حصول کی طرف بڑھ رہے ہیں کہ وہ اللہ کے دشمنوں کے تیز و تند طوفان میں گھرے ہوئے ہیں۔ اور وہ جب رات کی تاریکی میں اور دن کی روشنی میں اللہ کی مدد کے بغیر کیسے ان طوفانوں میں اپنی راہیں تلاش کرپائیں گے ؟کیسے اپنے مقصد کو پا سکتے ہیں ؟کیونکر بلندیوں کو چھو سکتے ہیں ؟آخر کیسے؟
مبلغین اور
داعیان حضرات کے لیے ان دو حدیثوں کو ذکر کیا جاتا ہے جو ان کے لیے مشعل راہ ہیں
تاکہ وہ ان کی روشنی میں اپنے مقصد کو حاصل کر سکیں:
((اول
دینکم نبوۃ ورحمۃ ثم خلافۃ علی منھاج النبوۃ ۔۔۔ثم تعود خلافۃ علی منھاج النبوۃ))
اس حدیث میں
یہ مژدہ سنایا جارہاہے کہ اللہ کے حکم سے خلافت دوبارہ قائم ہوگی اور وہ پہلی
خلافت کی طرح ہوگی ،خلفاء راشدین اور اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے منہج
پر ہوگی ،چنانچہ جو شخص خلافت کو دوبارہ قائم کرنے کا خواہش مند ہے، اس کے قیام کا
متمنّی ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنی کوششوں کو ایک مومنِ صادق کی طرح مسلسل جد وجہد
کرے تاکہ اصحاب رسول کی طرح بن سکے۔
دوسری حدیث :
دوسری حدیث :
((ان
اللہ سبحانہ تعالیٰ قال :من اہان لی ولیا فقد بارزنی فی العداوۃ ،ابن آدم لن تدرک
ما عندی الا باداء ما افترضتہ علیک ،ولا یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احبہ
،فاکون قلبہ الذی یعقل بہ و لسانہ الذی ینطق بہ ،و بصرہ الذی یبصر بہ ، فاذا دعانی
اجبتہ ، واذا سالنی اعطیتہ واذا استنصرنی نصرتہ واحب عبادۃ عبدی الی النصیحۃ ))
اللہ تعالی
فرماتاہے: ’’جس شخص نے میرے کسی ولی یا امیر کی اہانت کی گویا اس نے مجھ سے دشمنی
مول لی ۔اے ابن آدم !تو ان چیزوں کو نہیں حاصل کر سکتا جو کہ میرے پاس ہیں الا کہ
تجھ پر جو فرائض میں نے عائد کیے ہیں ان کو ادا کرتا ہو،میرا بندہ نوافل کی
ادائیگی کے ذریعہ میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتاہے یہاں تک کہ میں اس سے
محبت کرنے لگتا ہوں لہٰذا میں اس کا دل بن جاتاہوں جس سے وہ سوچتا ہے ،میں اس کی
زبان بن جاتاہوں جس سے وہ بولتاہے ، میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا
ہے ،چنانچہ وہ جب مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا ہوں ،جب میرے سامنے دستِ
سوال دراز کرتا ہے اس کی مانگیں پوری کرتا ہوں اور جب مدد طلب کرتا ہے تو اس کی
مدد کرتا ہوں ۔‘‘
اس حدیث میں
اس راستے کو بیان کیاگیا ہے جس پر چل کر اللہ کی نصرت اور مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ
کے تقرب اور اس سے استعانت طلب کرکے اس کی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔
پس اللہ تعالیٰ ہی تمام معاملات پر غالب ہے جس کی وہ مدد کرتا ہے اس کو کوئی شکست نہیں دے سکتا اور جس کو شکست سے دو چار کرنے کاارادہ کرلے اسے کوئی مدد نہیں دے سکتا،بندہ جب جب اپنے رب کو پکارتا ہے وہ اپنے بندوں کے قریب ہوتاہے اور ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے ،وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ،ان پر رحم کرنے والا ہے اور ان کے حالات سے باخبر ہے۔
برادران
اسلام! اللہ کی خوشنودی اور رضامندی کی طرف آؤ،اس کی مدد اور مغفرت طلب کرو ،جنت
کے خواہش مند بنو اور اس کی نصرت اور حمایت کے امیدوار بنو ، دونوں جہاں کی
کامیابی کے طلبگار رہو۔
(وَفِیْ
ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ)
اور اسی میں
سبقت کرنے والوں کو سبقت کرنی چاہیے۔
(المطففیْن: آیت:۲۶)
۲۱ ط ۱۴۲۴ ھ مطابق ۱۲ فروری ۲۰۰۴
ء
نفسیہ کیا ہے
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
12:01 PM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: