جہاد



جہاد

جہاد اسلامی شان و عظمت کی سربلندی اور معراج ہے اور یہی وہ طریقہ ہے جو اسلام نے اپنی دعوت کو بیرونِ ملک پھیلانے کیلئے متعین کیا ہے۔اسلامی کی دعوت کا پہنچایا جانا اسلامی ریاست کااتنا اہم کام ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامی احکام کو ریاست کے اندر مکمل نافذ و جاری کرنے کے بعد یہی اصل اور بنیادی کام ہے۔ 

کیونکہ جہاد اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی غرض سے اللہ کے راستے میں قتال کا نام ہے ،جس کیلئے ناگزیر ہے کہ ایک فوج ہو جس کی باقاعدہ تیاری،فوجی قیادت ہو،اُس کے مختلف ارکانِ جنگ کیلئے افسر اور سپاہی درکار ہوتے ہیں، جنہیں تربیت کی ضرورت ہوتی ہے،رسد ضروری ہوتی ہے اور ہتھیار درکار ہوتے ہیں جن کیلئے صنعت ازحد ضروری ہے۔لہٰذا صنعت فوج اور جہاد کیلئے ناگزیر ہے؛چنانچہ یہ واجب ہوجاتا ہے کہ ریاست کے تمام کارخانے جنگی ساز وسامان بنانے کیبنیاد پر قائم ہوں۔

اسی طرح ریاست کی داخلی صورتِ حال فوج کی قتال کے عزم پر اثرانداز ہوتی ہے؛اگر ملک میں امنِ داخلی پُر امن اور مستحکم(Stable ) نہیں ہو تو فوج کو جہاد سے قبل سے صورتِ حال سے نمٹنا پڑتا ہے اور اگر وہ جہاد کیلئے نکل بھی پڑیں اوراُ ن کے پیچھے داخلی امن بگڑ جائے تو یہ فوج کے جہاد پر قائم رہنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ مزید یہ کہ اسلامی ریاست کے خارجہ تعلقات کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ وہ دیگر ممالک میں اسلام کی دعوت کو پہنچائے۔

اس بنیاد پر یہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ چاروں محکمات؛یعنی فوج،امن داخلی، صنعت اور خارجہ امور، ایک ہی محکمہ کے ذیل میں ہوں جن پر خلیفہ ایک ہی امیر مقرر کرے،کیونکہ بہرحال اِن سب کا تعلق بنیادی طور پر جہاد سے ہے۔ البتہ اِن چاروں محکموں کو علیحدہ رکھنا بھی صحیح ہے جن پر خلیفہ الگ الگ مدیر(Directors) اور فوج کیلئے امیر یا قائد مقرر کرے، کیونکہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) فوج کیلئے امیر مقرر فرماتے تھے جنہیں مثلاً صنعت کے معاملات سے کوئی سروکار نہ ہوتا تھا بلکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) یہ ذمہ داری دوسروں کو سونپا کرتے تھے۔یہی صورت امنِ داخلی کی ہوگی جیسے شرطہ(Police )،گشت (Patrol ) ،راہزنی کی روک تھام اور چوریاں وغیرہ۔خارجی تعلقات بھی اسی دائرے

کا حصہ ہیں جیسے حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)نے بادشاہوں اور حکام کو مکتوبات ارسال فرمائے جو اس بات کی دلیل ہے۔
مندرجہ ذیل دلائل سے اِن چاروں محکموں کا علیحدہ علیحدہ ہونے اوراُن کا اپنا ذمہ دار ہونا ثابت ہوتا ہے:

۱۔۔۔ فوج:
حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)نے حضرت زید ابن حارثہ  (رضي الله عنه) کو مؤتہ کی جنگ میں امیر مقرر فرمایا اور ساتھ ہی اُن کے شہید ہوجانے کی صورت میں دیگر امراء بھی مقرر فرمائے،طبقات ابن سعدؒ میں روایت ہے کہ حضورنبی اکرم انے فرمایا:
((امیر النّاس زید ابن حارثۃ،فإن قتل فجعفر ابن ابی طالب،فإن قتل فعبد اللّٰہ ابن رواحۃ فإن قتل فلیرتض المسلمون بینھم رجلاً فیجعلوہ علیھم))

لوگوں کے امیرحضرت زید ابن حارثہ  (رضي الله عنه)  ہوں گے،اگر وہ شہید ہوجائیں تو جعفر ابن ابی طالب  (رضي الله عنه)  امیر ہوں گے اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو حضرت عبداللہ ابن رواحہ (رضي الله عنه) امیر ہوں گے اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو مسلمان اپنی رضا سے اپنے اوپر کسی کو امیر بنا لیں۔

بخاری شریف میں حضرت عبداللہ ابن عمر  (رضي الله عنه) سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں:’’غزوۂ مؤتہ میں حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت زید   (رضي الله عنه) کو امیر مقرر فرمایا‘‘۔ایسی ہی روایت بخاری شریف میں حضرت سلمہ ابن الاکوع (رضي الله عنه) سے مروی ہے وہ کہتے ہیں:’’میں حضرت زید   (رضي الله عنه) کے ساتھ لڑائی میں شریک تھا اور اُنھیں امیر بنایا گیا تھا‘‘۔نیز بخاری اور مسلم شریف دونوں میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضي الله عنهسے روایت ہے:

((بعث رسول اللّٰہ ا بعثاً وَّ اَمَّرَ علیھم اسامۃ بن زیدٍ فَطُعِنَ فی اِمارتہٖ فقال النبی اِن تَطعُنُوا فی اِمارتہٖ فَقَد کنتم تَطعُنون فی اِماَرۃ اَبیہٖ، وَ اَیمُ اللّٰہِ اِن کانَ لَخَلِیقًا،))

نبی اکرم ا نے ایک لشکر روانہ کیا اور اس کا امیر حضرت اسامہ ابن زید  (رضي الله عنه) کو مقرر فرمایا تو اُن کی امارت پر طعنہ زنی کی گئی تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا،کہ تم اس کی امارت پر طعن کرتے ہو،بلکہ تم تو اس سے پہلے اس کے والد ماجد کی امارت پر بھی طعن کرتے تھے، حالانہ وہ اللہ کی قسم امارت کیلئے موزوں آدمی تھا،

 صحابۂ کرام مؤتہ کی فوج کو امیروں کی فوج کہا کرتے تھے،مسلم شریف میں بردۃ کی روایت ہے کہ جب آپ (صلى الله عليه وسلم) کسی فوج یا لشکر پر امیر مقرر فرماتے تو اُنھیں ہدایات فرمایا کرتے تھے۔

vحضرت ابو بکر  (رضي الله عنه) نے مرتدین سے نمٹنے کیلئے یرموک کی لڑائی میں حضرت خالد ابن ولید (رضي الله عنه)کو تعینات کیا۔خلیفہؒ کہتے ہیں کہ حضرت خالد  (رضي الله عنه) کو تمام لوگوں کا عمومی امیر مقرر کیا گیا جبکہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس ص کو خصوصی طور پر انصار کا امیر بنایا گیا اور اُن سب کے اوپر حضرت خالد (رضي الله عنه) کو مقرر کیا گیا۔حضرت ابو بکر  (رضي الله عنه) نے شام کی فوجوں کو یرموک میں حضرت خالد  (رضي الله عنه) کی کمان میں رکھا۔علامہ ابن جریرؒ کہتے ہیں:’’اُنھیں پیغام بھیجا کہ وہ عراق سے شام جائیں اور وہاں کی فوجوں کے بھی وہی امیر ہوں گے‘‘۔اسی نہج پر حضرت عمر (رضي الله عنه) نے شام کی فوجوں کو حضرت ابو عبیدہ (رضي الله عنه)کی امارت میں کیا۔علامہ ابن عساکرؒ لکھتے ہیں:’’وہ یعنی حضرت ابو عبیدہ صپہلے شخص تھے جنھیں شام میں امیر الامراء کا نام دیا گیا‘‘۔

۲۔۔۔ داخلی امن :
امام بخاریؒ نے حضرت انس (رضي الله عنه) سے روایت کیا ہے :

((أن قیس ابن سعدص کان یکون بین یَدَي النبيابمنزلۃٖ صاحب الشُرَطِ من الأمیر))

قیس بن سعدص حضور (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ اس طرح رہتے تھے جیسے ایک امیر کے ساتھ شرطہ(پولیس)ہوتا ہے۔

یہ قیس بن سعد الانصاری الخزرجی (رضي الله عنه) تھے،نیز ترمذی میں روایت ہے :

((کان قیس بن سعدص من النبیا بمنزلۃ صاحب الشرطۃمن الأمیرِ۔ قال الأنصاری:یعنی مما یلي من امورہ))

قیس بن سعد(رضي الله عنه) حضور (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ اس طرح رہتے تھے جیسے ایک امیر کے ساتھ شرطہ(پولیس) ہوتا ہے۔الانصاری کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ امیر کے معاملات سنبھالا کرتے تھے۔

علامہ ابن حبانؒ نے اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

(احتراز المصطفی من المشرکین فی مجلسہٖ إذا دخلوا)

یعنی یہ شرطہ اس لئے تھا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی مجلس میں مشرکوں کے داخلہ کو روکا جاسکے۔
 
بخاری شریف میں حضرت علی ابن ابی طالب 
(رضي الله عنه) سے روایت نقل کی ہے:

(بعثنی رسول اللّٰہ ا أنا والزبیرص و مقداد ابن الأسودص قال:انطلقوا حتی تأتوا روضۃ حاج ھکذا قال ابو عوانۃ حاج، و فی روایۃٍ خاخ،فإن فیھا امرأۃ معھا صحیفہ من حاطب بن ابی بلتعۃ إلی المشرکین فأتوني بھا،، فانطلقنا علی افراسنا حتی أدرکناھا حیث قال لنا رسول اللّٰہا تسیر علی بعیر لھا و قد کان کتب إلی أھل مکۃ بمسیر رسول اللّٰہا إلیھم فقلنا أین الکتاب الذی معکِ؟ قالت:ما معي کتاب،فأنخنا بھا بعیرھا فابتغینا فی رحلھا فما وجدنا شیئاً فقال صاحباي،ما نری معھا کتاباً، فقلت:لقد علمنا ما کذب رسول اللّٰہ ا، ثم حلف علي،والذی یحلف بہ لتُخرجنَّ الکتاب أولأجردنَّک۔ فأھوت إلی حجزتھاوھی محتجزۃ بکساء،فأخرجت الصحیفۃفأتوا بھا رسول اللّٰہا۔۔۔الحدیث)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے،حضرت زبیرؓ اور حضرت مقداد بن اسودؓ کو بلوایا، ہم سب کے پاس گھوڑے تھے اور فرمایا کہ حاج کے باغ جاؤ،ابو عوانۃ کی روایت میں حاج آیا ہے جبکہ ایک اور روایت میں خاخ کا باغ آیا ہے، وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی جس کے پاس ایک تحریر ہوگی جو حاطب بن بلتعہنے مشرکوں کو لکھی تھی، وہ تحریر مجھے لاکر دو۔لہٰذا ہم لوگ نکلے اوراُس عورت تک جا پہنچے جیسا کہ رسول اللہ انے ہمیں بتایا تھا، وہ اپنے اونٹ پر تھی۔ہم نے اُس سے کہا کہ وہ تحریر کہاں ہے جو تمہارے پاس ہے؟،اُس نے کہا کہ میرے پاس کوئی تحریر نہیں ہے،ہم نے اسے اسکے اونٹ سے اتارا اور اُس کے سامان کو تلاش کیا لیکن ہمیں وہ تحریر نہیں ملی۔ میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں اُس کے پاس کوئی تحریر نہیں مل رہی۔میں کہا کہ ہمیں اللہ کے رسول ا نے بتایا ہے اور یہ جھوٹ ہو نہیں سکتا۔ پھر حضرت علی نے حلفاً کہا کہ تحریر دے دو ورنہ تمہاری جامہ تلاشی لیں گے، تو اُس عورت نے اپنی چوٹی میں سے وہ تحریر نکال کر دی جسے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔

۳۔۔۔ صنعت:
بیہقی نے سنن میں حضرت ابو عبیدہ (رضي الله عنه) سے نقل کیا ہے کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) نے منجنیق اور بکتر بند گاڑی بنانے کا حکم دیا ،وہ کہتے ہیں:

(ثم إن رسول اللّٰہ ا حاصر اھل طائف و نصب علیھم المنجنیق سبعۃ عشر یوماً)

پھر حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) نے طائف والوں کا محاصرہ کیا اور اُن پر منجنیق سترہ دن تک تان رکھی۔ 

ابو داؤدؒ نے المراسیل میں مکحول سے روایت کیا ہے:

(أن النبی نصب المنجیق علی أھل طائف)

کہ نبی اکرم ا نے اہل طائف پر منجنیق تان دی۔

علامہ صنعانیؒ نے اپنی کتاب سبل السلام میں اس روایت کے رجال کو ثقہ بتایا ہے۔
سیرۃ الحلبیہ کے مصنف لکھتے ہیں:

(أرشدہ إلیہ سلمان الفارسیص ،قال:کنا بأرض فارس ننصب المجنیقات علی الحصون،فنصیب من عدونا و یقال إن سلمان صھو الذی عملہ بیدہٖ)

حضرت سلمان الفارسی (رضي الله عنه) نے ہی حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) کو منجنیق کی تجویز پیش کی تھی اور کہا تھا کہ جب ہم ایران میں تھے تو اِن ہی کے ذریعہ قلعوں پر حملہ کرتے تھے اور دشمن پر نشانہ سادھتے تھے۔ کہا گیا ہے کہ حضرت سلمان ص نے ہی خود اپنے ہاتھوں سے یہ منجنیق بنائی تھیں۔
 
علامہ ابن قیمؒ اپنی کتاب زاد المعاد ؔ میں اور ابن ہشامؒ اپنی سیرۃ ابن ہشام ؔ میں ابن اسحٰقؒ سے روایت کرتے ہیں ’’ جس دن طائف کی دیوار کو اُڑایا گیا، توحضور اکرم (
صلى الله عليه وسلم)کے کچھ لوگ بکتر بند داخل ہوگئے اور دیوار کو جلانے کیلئے اُس کی طرف بڑھے، ثقیفؔ نے لوہے کی سلاخوں کے ذریعہ سے اُن پر آگ پھینکی اور وہ لوگ بکتر بند کے نیچے سے بھاگے، پھر ثقیفؔ نے اُن پر تیر برسائے اور ایک کو قتل کردیا۔

یہ حضرت سلمان ہی تھے جنھوں نے منجنیق کا رخ دیوا رکی جانب کیا تھا اور کہا گیا ہے کہ یہ منجنیقات بھی اُنھوں نے ہی بنائی تھیں،جو ظاہر ہے کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)کے حکم سے ہی بنائی گئی تھیں۔اب سیرۃ الحلبیۃ کے اس فقرہ کو دیکھئے (ارشدہ إلیہ)یعنی منجنیق کی یہ تجویز حضرت سلمان (رضي الله عنه) ہی ہی نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو دی تھی۔اس روایت آثار سے یہی مفہوم اخذ ہوتا ہے کہ اسلحہ سازی خلیفہ ہی کی ذمہ داری ہے، اور وہ اس کام میں اپنی مدد کیلئے جس کو چاہے مقرر کر سکتا ہے۔پھر یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے جس کیلئے کسی امیر کا ہونا ناگزیر ہو، بلکہ یہ کام کسی افسر کی کارکردگی میں ہو سکتا ہے،لہٰذا حضرت سلمان صفوجی صنعت کے امیر نہیں تھے بلکہ منجنیق سازی کے افسر تھے اور بہت ممکن ہے کہ یہ کام اُنھوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے انجام دیا ہو۔فوجی مصنوعات کیلئے کارخانے بنانا ایک فریضہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق دشمن کے دلوں میں رعب و دہشت ڈالنا مطلوب ہے:

(وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الخَیلِ تُرْھِبُونَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ وََاٰخَرِینَ مِن دُونِھِمْ ج لاَ تَعْلَمُونَھُمْج اللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ ط)

اور جو بھی تم سے ہو سکے ان کیلئے طاقت اور بندھے گھوڑے تیار رکھو تاکہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں اور ان کے علاوہ اور دوسروں پر بھی اپنی ہیبت قائم کر سکو جنہیں تم نہیں جانتے ،اللہ ان کو جانتا ہے۔( انفال:آیت ۶۰)
یہ رعب و دہشت بغیر استعداد اور تیاری کے ممکن نہیں اور ایسی تیاری کیلئے کارخانے ناگزیر ہیں،لہٰذا یہ آیت دلالتِ التزام کے تحت یہ لازم قرار دیتی ہے کہ ایسے کارخانے ہوں ۔ پھر مزید یہ کہ (مالا یتم الواجب إلا بہٖ فھو واجب)یعنی جس کے بغیر کوئی فریضہ پورا نہ ہوتا ہو ،تو وہ چیز بھی فرض ہوجاتی ہے،اس قاعدے کی رو سے بھی ایسے کارخانوں کا ہونا لازمی قرار پاتا ہے۔نیز جہاد کے فرض ہونے کے دلائل کی رو سے بھی ایسے کارخانے ناگزیر ہوجاتے ہیں۔

یہ کارخانے جن کا قائم کرنا اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے ،یہ محض عسکری نوعیت ہی کے نہیں ہیں،بلکہ اِن کے علاوہ دیگر کارخانے قائم کرنا بھی ریاست کا ذمہ ہوتا ہے۔کتاب (الأموال فی دولۃ الخلافۃ،یا ریاستِ خلافت کی مالیات) میں یوں وارد ہواہے:

کارخانے:عوامی مفاد کے پیشِ نظرریاست پر یہ واجب ہوتا ہے کہ وہ دو اقسام کے کارخانے قائم کرے:
پہلی قسم:وہ کارخانے جن کا تعلق ملکیتِ عام سے ہے یعنی معدنیات کے نکالنے،اُن کی صفائی اورپگھلانے سے ہے، یا خام تیل کے نکالنے اور اُس کی صفائی سے ہے۔ ایسے کارخانوں کےعام ملکیت ہوگی اور یہ اس پر منحصر ہوگی کہ وہاں کیا مواد بنائے جارہے ہیں؛اور کیونکہ عام ملکیت کے مالک تمام مسلمان ہوتے ہیں،لہٰذا ایسے کارخانوں کی ملکیت تمام مسلمانوں کی ہوگی جنھیں ریاست تمام مسلمانوں کی نائب ہونے کی حیثیت سے قائم کرے گی۔

دوسری قسم:وہ جو بھاری صنعت(Heavy Industry )سے اور اسلحہ سازی سے متعلق ہے۔اس دوسری قسم کے کارخانے انفرادی ملکیت کے ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ انفرادی ملکیت کی ہیں۔البتہ کیونکہ ایسے کارخانے اور صنعتوں کو کثیر مالیات درکار ہوتی ہیں جو افراد کیلئے جُٹا پانا دشوار ہوسکتا ہے، اور کیونکہ آج کے دور میں اسلحہ وہ اشیاء نہیں جو فردی نوعیت کی ہوں جیسا کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) کے یا آپ (صلى الله عليه وسلم)کے بعد خلفاء کے دور میں معاملہ تھا،بلکہ اب یہ ریاست ملکیت بن گئی ہیں،لہٰذا انھیں ریاست ہی مہیا کرے گی، کیونکہ عوامی مفاد کی پاسداری کا یہ تقاضہ ہے۔اور خاص طور پر اب جبکہ اسلحہ کی صنعت نے حیرت انگیز اور خوفناک ترقی کرلی ہے اور اس کے اجزاء نہایت مہیب الہیکل اور بے پناہ مہنگے ہیں۔اس لئے ریاست پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بھاری صنعت اور اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کرے،لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ افراد کو اِن کارخانوں کی ملکیت حاصل کرنے کی اجازت نہ ہو۔

ایسے کارخانے قائم کرنا ریاستی فریضہ ہوا یعنی یہ خلیفہ کے فرائض میں شامل ہے،جس کیلئے وہ کسی افسر کو متعین کرسکتا ہے جو اِن کی براہِ راست نگرانی کرے اور اُس کا کوئی اور نائب یہ کام انجام دے۔

۴۔۔۔بین الاقوامی تعلقات:
جیسا کہ ذکر گزرا ، یہ وزیر تنفیذ کے فرائض میں شامل ہے کہ جہاں تک عالمی تعلقات کا معاملہ ہے وہ خلیفہ اور دیگر ممالک کے درمیان ایک واسطہ ہوتا ہے۔

حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)کے عہد میں اور آپ (صلى الله عليه وسلم)کے بعدخلفائے راشدین ثکے دور میں،آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اور بعد میں خلفائے راشدین نے یہ ذمہ داری بذاتِ خود کاتب یعنی وزیرِ تنفیذکے توسط سے نباہی۔چنانچہ حضور اکرم نے صلح حدیبیہ کے مراسلات بذاتِ خود لکھوائے اور صلح کا معاہدہ کیا، یا جیسا حضرت عمر  (رضي الله عنه)کے بارے میں آتا ہے کہ جب کسریٰ کے نمائدے نے آکر اُن کے بارے میں دریافت کیا تو اُنھیں مدینہ منورہ کے داخلہ کے راستے میں پایا۔

البتہ جس طرح خلیفہ کو یہ اختیار ہے کہ وہ بین الاقوامی تعلقات براہِ راست ایک وزیرِ تنفیذ کے توسط سے سنبھالے، خلیفہ کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ اِس کام کیلئے کسی مستقل افسر کو متعین کرے جیسے کہ ریاست کے دوسرے محکمات کیلئے کیا جاتا ہے۔
لیکن بہرحال یہ ممکن ہے کہ یہ چاروں محکمات ایک ہی محکمہ یعنی امیر جہاد کے محکمہ کے ذیل میں رہیں کیونکہ یہ ایک دوسرے سے مرتبط ہیں۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ جیسا حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)کے عمل کے مطابق جیسا کہ اوپر واضح ہوا، ایک دوسرے سے علیحدہ رکھے جائیں۔
لہٰذا اِن محکمات کی فعالیت میں وسعت کی خاطر،خاص طور پر اِن ایام میں جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ عسکری اقسام میں اضافہ ہوتا جارہا ہے،داخلی مسائل،ممالک اور اُن کے ایجنٹوں کے سازشی حربے، سیاست دانوں کی جدا جدا اقسام،جرائم کے نت نئے روپ،بین الاقوامی تعلقات کی گتھیاں،صنعت کاری کی نئی اور متعدد اقسام،اور استعمال میں آنے والے تکنیکی وسائل(Technical Resources) کی پیچیدگیاں،وغیرہ؛اور پھر اس لئے کہ امیرِ جہاد کے اختیارات حد سے تجاوز نہ کرجائیں اور ریاست میں ایک اور قوت کا مرکز نہ بن جائے،جو تقوے کے ادنیٰ ہونے کی صورت میں ریاست کی کمزوری کا سبب بنے،اِن تمام وجوہات کی روشنی میں ہم یہ تبنی کرتے ہیں کہ یہ چاروں محکمات علیحدہ علیحدہ ہوں، اور مندرجہ ذیل نہج پر مستقل شعبوں کی حیثیت سے خلیفہ ہی سے وابستہ رہیں :
امیرِ جہاد:محکمۂ جنگ(فوج)
محکمۂ داخلی امن
محکمۂ صنعتvمحکمۂ عالمی تعلقات
امیرِ جہاد:محکمۂ جنگ (فوج)
محکمہ جنگ ریاست کے اداروں میں سے ایک ادارہ ہے جس کے امیر کو امیرِ جہاد کہا جاتا ہے ، یہ امیر محض افسرِ جہاد نہیں ہوتا،کیونکہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) فوج کے قائدوں کو امیر فرمایا کرتے تھے۔طبقات ابن سعد کی روایت ہے کہ:

((امیر النّاس زید ابن حارثۃ،فإن قتل فجعفر ابن ابی طالب،فإن قتل فعبد اللّٰہ ابن رواحۃ فإن قتل فلیرتض المسلمون بینھم رجلاً فیجعلوہ علیھم))

لوگوں کے امیرحضرت زید ابن حارثہ  (رضي الله عنه) ہوں گے،اگر وہ شہید ہوجائیں تو جعفر ابن ابی طالب  (رضي الله عنه)  امیر ہوں گے اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو حضرت عبداللہ ابن رواحہ (رضي الله عنه)  امیر ہوں گے اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو مسلمان اپنی رضا سے اپنے اوپر کسی کو امیر بنا لیں۔

بخاری شریف میں حضرت عبداللہ ابن عمر  (رضي الله عنه) سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں:’’غزوۂ مؤتہ میں حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت زید   (رضي الله عنه) کو امیر مقرر فرمایا‘‘۔ایسی ہی روایت بخاری شریف میں حضرت سلمہ ابن الاکوع (رضي الله عنه) سے مروی ہے وہ کہتے ہیں:’’میں حضرت زید   (رضي الله عنه) کے ساتھ لڑائی میں شریک تھا اور اُنھیں امیر بنایا گیا تھا‘‘۔نیز بخاری اور مسلم شریف دونوں میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضي الله عنهسے روایت ہے:

((بعث رسول اللّٰہ ا بعثاً وَّ اَمَّرَ علیھم اسامۃ بن زیدٍ فَطُعِنَ فی اِمارتہٖ فقال النبی اِن تَطعُنُوا ف اِمارتہٖ فَقَد کنتم تَطعُنون فی اِماَرۃ اَبیہٖ، وَ اَیمُ اللّٰہِ اِن کانَ لَخَلِیقًا،))

نبی اکرم ا نے ایک لشکر روانہ کیا اور اس کا امیر حضرت اسامہ ابن زید  (رضي الله عنه) کو مقرر فرمایا تو اُن کی امارت پر طعنہ زنی کی گئی تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا،کہ تم اس کی امارت پر طعن کرتے ہو،بلکہ تم تو اس سے پہلے اس کے والد ماجد کی امارت پر بھی طعن کرتے تھے، حالانہ وہ اللہ کی قسم امارت کیلئے موزوں آدمی تھا،

صحابۂ کرام مؤتہ کی فوج کو امیروں کی فوج کہا کرتے تھے،مسلم شریف میں بردۃ کی روایت ہے کہ جب آپ (صلى الله عليه وسلم) کسی فوج یا لشکر پر امیر مقرر فرماتے تو اُنھیں ہدایات فرمایا کرتے تھے۔

مسلح افواج سے متعلق تمام امور محکمہ حرب کے ذیل آتے ہیں؛فوج،فوجی آلہ جات،اسلحہ،اُن کی مہم،گولہ بارود وغیرہ،فوجی کالج،فوجی مِشن (Military Missions)،فوج اسلامی تربیت اور عام تربیتی ضروریات،نیزہر وہ چیز جو جنگ اور جنگ کی تیاری سے متعلق ہو اسی محکمہ ء حرب کے ضمن میں آتی ہے۔اسی طرح کافر جو جنگ پر آمادہ ہوں اُن کی نگرانی (Intelligence/ Reconnaissance)کیلئے مخصوص ادارہ قائم کرنا بھی اسی محکمہ کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس کے دلائل سیرت نبوی امیں کثرت سے آتے ہیں۔

یہ تمام ذمہ داریاں محکمہ حرب کے ضمن میں آتی ہیں اور یہی محکمہ اِن امور پر نگراں ہوتا ہے۔اس محکمہ کا نام ہی جنگ اور قتال سے متعلق ہے، جنگ کیلئے فوج کی ضروری ہے اور فوج کیلئے تیاری،آلہ جات، فوجی قیادت، افسران اور سپاہی ناگزیر ہوتے ہیں۔

فوج کیلئے جہاں آلہ جات ضرور ہوتے ہیں وہیں اُن کی جسمانی اور تکنیکی تربیت جن میں مختلف اسلحہ اور قتال کے فن کی تربیت ہوتی ہے جو نئی نئی ترقی اور ایجادات کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔لہٰذا تکنیکی اور عسکری تعلیم فوجیوں کا جزوِ لازم ہوتا ہے،نیز قتال کے مختلف اسلحہ کی تربیت ناگزیر ہوتی ہے۔

اللہ ل نے مسلمانوں پر یہ بڑا کرم کیا ہے کہ اُنھیں اسلام کی دعوت پہنچانے کی ذمہ داری سونپی اور پھر اُنھیں اس کا طریقہ بھی بتایا کہ یہ دعوت اور جہاد کے ذریعہ پہنچائی جائے۔ پھر جہاد کو مسلمانوں پر فرض قرار دیا اور فوجیوں کی تربیت لازم کی۔لہٰذا ہر مسلم مرد جس کی عمر پندرہ سال کو پہنچی، اُس پر لازم ہے کہ وہ جہاد کی تیاری کیلئے فوجی تربیت حاصل کرے،البتہ فوج میں شمولیت فرض علی الکفایہ ہے۔
اس فوجی تربیت کیلئے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلیل ہے:

(وَقَاتِلُوْھِمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہ، لِلّٰہِج)

اور تم اُن سے اس حد تک لڑو کہ کہ اُن میں فساد عقیدہ نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہو جائے۔
(انفال:آیت
۳۹)

اور اللہ کے رسول ا کا فرمان بھی دلیل ہے جسے سنن ابو داؤد میں حضرت انس (رضي الله عنه) سے نقل کیا گیا ہے:

((جاھدوا المشرکین بأموالکم و أنفسکم و ألسنتکم))

مشرکوں کے ساتھ جہاد کرو اپنی جانوں سے ،اپنے مال سے اور اپنی زبان سے۔

لہٰذا آج جب قتال کی نوبت آئے تو یہ ضروری ہے کہ قتال کیلئے صحیح مشق اور تربیت کی جائے تاکہ یہ شرعاًمطلوبہ نتائج برپا کرے یعنی دشمنوں میں قہر ڈال دے اور ممالک فتح ہوں۔شریعت کے اس قاعدے کی سے کہ مالا یتم الواجب إلا بہٖ فھو واجب،یعنی جس چیز کے بغیر کوئی فرض پورا نہ ہوتا ہو تو وہ چیز بھی فرض ہوجاتی ہے، جہاد کیلئے مشق و تربیت بھی جہاد ہی کی طرح عملاًفرض ہوجاتی ہے کیونکہ یہ قتال کے مطالبہ کا ہی حصہ ہے اور گزشتہ آیت میں قٰتِلُوھُم جو آیا ہے یہ عمومی ہے اور اس میں قتال کیلئے حکم کا صیغہ ہے اور جن چیزوں سے یہ پورا ہوتا ہو وہ بھی اس میں شامل ہیں۔اس کے ماسوا اللہ تعالیٰ کا نے فرمایا ہے:

(وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ )

چنانچہ مشق اور اعلیٰ فوجی مہارت اور تجربہقوت کا حصہ ہوئے کیونکہ قتال کے کما حقہ ہونے کیلئے یہ ضروری ہیں اور قوت ویسے ہیناگزیر ہے جس طرح جنگی آلہ جات اور مشقیں وغیرہ ضروری ہوتی ہیں۔

جہاں تک مستقل تجنید یعنی سپاہیوں کو فوج میں داخل کرنے کی بات ہے ، تو اس کے معنی سپاہیوں کو مسلح کرے اُنھیں مستقل طور پر جہاد اور اُس کے مطالبات کیلئے عملاً تیار رکھنا ہے جو فرض ہے کیونکہ جہاد ایک دائمی اور متواتر فریضہ ہے خواہ دشمن نے ہم پر حملہ کیا ہو یا نہیں۔لہٰذا تجنید جہاد ہی کے ضمن میں فرض ہوجاتی ہے۔

رہی بات اس کیلئے پندرہ سال کی عمر ہونا، تو بخاری شریف میں نافع (رضي الله عنه) سے حدیث مروی ہے:

(حدثنی ابن عمر  (رضي الله عنه) أن رسول اللّٰہ ا عرضہ یوم أحد وھو ابن أربع عشرۃ سنۃ،فلم یجزني ،ثم عرضني یوم الخندق وأنا ابن خمس عشر سنۃ فأجازني)

حضرت ابن عمر  (رضي الله عنه) نے مجھے بتایا کہ اُنھیں حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) کے سامنے (جہاد میں شرکت کیلئے)پیش کیا گیا جب اُن کی عمر چودہ سال کی تھی،تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے (شرکت کی )اجازت نہیں دی۔پھر اُنھیں جنگ خندق کے موقع پر پیش کیا گیا جب وہ پندرہ سال کے تھے تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اجازت دے دی۔

اس روایت کے راوی حضرت نافع (رضي الله عنه) کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر ابن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے تو میں اُن کے پاس گیا اور اُنھیں یہ حدیث سنائی اور اُنھوں نے فرمایا:’’یہ عمر بڑے اور چھوٹے کے درمیان حدِّ فاصل ہے ،پھر اُنھوں نے اپنے عمّال کو لکھا کہ وہ ہر پندرہ سال سے بڑے شخص کیلئے یہ فرض کردیں‘‘،یعنی دفترِ تجنید میں اُن کیلئےنوکری طے کردیں۔

لہٰذا ہم یہی تبنی کرتے ہیں کہ جس کی عمر پندرہ سال کو پہنچے اُس پر عسکری تربیت لازم ہوگی۔

فوج کی قسمیں:
فوج کی دو اقسام ہوتی ہیں:ایک احتیاطی فوج، جس میں ہر وہ شخص شامل ہوتا ہے جوہتھیار اُٹھا سکتا ہو اور دوسری قسم دائمی فوج کی ہوتی ہے جس میں شامل لوگوں کی ریاست کے میزانیہ (بجٹ)میں ریاستی ملازمین کی طرح ہی تنخواہیں مخصوص کی جاتی ہیں۔

یہ جہاد کے فریضہ سے ہی ماخوذ ہے،لہٰذا ہر مسلمان پر جہاد اور اُس کی مشقی تربیت لازم ہے۔اس لئے ہر مسلمان احتیاطی سپاہی ہوتا ہے کیونکہ اُن پر جہاد فرض ہے۔رہی بات ایک دائمی قسم کی فوج کی تو اس کی دلیل بھی اُسی شرعی قاعدے کی بنیاد پر ہے جس کی رو سے ہر وہ چیز جس کے بغیر کوئی فرض مکمل نہ ہوتا ہو، وہ چیز بھی فرض ہوجاتی ہے یعنی، ما لا یتم الواجب إلّا بہٖ فھو واجب؛کیونکہ دائمی جہاد کا فریضہ اور کفار سے مسلمانوں کی آبرو کی حفاظت اور اسلام کی حمایت ایک مستقل فوج کے بغیر ممکن نہیں،چنانچہ خلیفہ یا امام کیلئے یہ لازمی ہوگا کہ وہ ایک مستقل فوج قائم کرے۔

اب رہی اِن فوجیوں کیلئے ملازمین تنخواہیں مخصوص کرنے کی بات، تو یہ تنخواہیں غیر مسلموں کیلئے ہونا تو ظاہر ہے کیونکہ جہاد کا اُن سے مطالبہ نہیں ہوتا لیکن اگر وہ خود سامنے آئیں تو اُن کی پیشکش قبول کرلی جاتی ہے؛اور جیسا کہ ترمذی میں زہری کی روایت ہے، انھیں اس کے عوض مال بھی دیا جاتا ہے:

(أنَّ النبیا أسھم لقوم من الیھود قاتلوا معہ)

کہ نبی اکرم انے اُن یہودیوں کو مال دیا جنھوں نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ مل کر قتال کیا۔

اسی طرح ابن ہشام کی روایت ہے:

(أنَّ صفوان ابن أمیۃ خرج مع النبیا إلی حنین وھو علی شرکہٖ فأعطاہ مع المؤلفۃ قلوبھم من غنائم حنین )

کہ صفوان ابن امیہ جو اس وقت مشرک تھا،آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ جنگِ حنین کیلئے نکلا ،آپ (صلى الله عليه وسلم)نے اُسے تألیف قلب کیلئے حنین کے مالِ غنیمت میں سے مال عطا کیا۔

لہٰذا کافر کا اسلامی فوج میں شامل ہونا صحیح ہوا اور اُس کے فوج میں ہونے کے سبب اُسے مال دیا جانا بھی صحیح ہوا۔اس کے علاوہ لفظ اجرت کی تعریف کو دیکھیں کہ یہ کسی منفعت کا عقد ہے، تو یہ بھی دلیل ہوئی کہ اجرت پر رکھنے والے کیلئے اجرت پر رکھے گئے شخص سے استفادہ حاصل کرکے اسے اس کے عوض اجرت دینا صحیح ہے۔فوجی سپاہی کو ایسی اجرت دینا اسی کے ضمن میں آتا ہے اور یہاں اجرت پر رکھنے والے کیلئے منفعت قتال ہے۔اجرت کی اس عمومی دلیل کا کافر کیلئے اسلامی فوج میں قتال کیلئے داخلہ اور اس کیلئے اسے اجرت دیا جانا اسی دلیل کے عموم میں داخل ہے۔

یہ بحث تو غیر مسلم کیلئے ہوئی ،اب رہی بات مسلم کیلئے جبکہ اُس کیلئے جہاد ایک عبادت ہے اس کے باوجود یہ ایک مسلمان کو جہاد اور قتال کیلئے فوج میں اجرت پر رکھنا صحیح ہے کیونکہ اجرت کی دلیل مخصوص نہیں بلکہ عمومی نوعیت کی ہے؛اور عبادت کیلئے اجرت، جبکہ عبادت کے کرنے والے کیلئے علیحدہ نفع ہے،جائز ہے کیونکہ اللہ کے رسول انے فرمایا ہے:

((إنّ َ أحق ما أخذتم علیہ أجراً کتاب اللّٰہ))

بے شک،سب سے زیادہ مستحق اجرت جو تم لیتے ہو وہ اللہ کی کتاب کی اجرت ہے۔(صحیح بخاری،بَرِوایت حضرت ابن عبّاس (رضي الله عنه))

جبکہ اللہ کی کتاب کی تعلیم دینا ایک عبادت ہے ، تو جس طرح اللہ کی کتاب کی تعلیم ،امامت ،اذان جو کہ عبادات ہیں اِن کیلئے اجرت صحیح ہے ،اسی طرح جہاد اور فوجی کیلئے اجرت، گو کہ یہ عبادت ہے،لیکن صحیح ہے گو کہ عبادت کے کرنے والے کیلئے اجر اس کے علاوہ ہے۔مسلمان کو جہاد کیلئے اجرت دینا اور اسی کام کیلئے اسے مقرر کرنے کیلئے یہ دلائل صریح احادیث میں وارد ہوئے ہیں،سنن ابو داؤد میں حضرت عبداللہ ابن عمرو (رضي الله عنه) سے روایت ہے کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:

((للغازي أجرہٖ و للجاعل أجرہٖ و أجر الغازي))

غازی کیلئے اجر ہے اور جاعل(وہ شخص جو کسی اور کو اپنی طرف سے یا اپنے علاوہ جہاد میں اجرت دے کر بھیجے)کیلئے اپنا اجر اور (مزید)غازی کا اجر ہے۔

یہاں غازی وہ ہے جو بذاتِ خود جہاد میں شامل ہو جبکہ جاعل وہ شخص ہے جو اجرت دے کر کسی اور کو اس کام پر متعین کرے۔ چنانچہ اس حدیث کی رو سے واضح ہوگیا کہ کسی شخص کیلئے کسی اور شخص کو اجرت دے کر اپنے عوض جہاد پر بھیجنا صحیح ہے۔بیہقی میں جبیر ابن نفیر (رضي الله عنه) سے حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) کی حدیث منقول ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:

((مثل الذین یغزو من امتي و یا خذونَ الجُعل، و یتقوون علی عدوھم مثل ام موسی ترضع ولدھا و تاخذ أجرھا))

میرے امتیوں میں سے جو جہاد کرتے ہیں اور اجرت(بھی) لیتے ہیں، اور خود کو دشمن کیلئے قوی بناتے ہیں،ان کی مثال (حضرت) موسیٰ کی والدہ کی طرح ہے جو اپنے ہی بیٹے کو دودھ بھی پلا دیتی تھیں اور اسکی اجرت بھی اُنہیں مل جاتی تھی۔

اِن احادیث میں اجر سے مراد اجرت ہے لہٰذا فوجیوں کیلئے ملازمین کی طرح تنخواہیں مخصوص ہونا صحیح ہوگا۔

مسلمان سپاہی گو کہ یہاں اپنی اجرت لیتا ہے لیکن اُس کا اجر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، کیونکہ جیسا ابھی بخاری شریف کی حدیث میں گزرا کہ اللہ کی کتاب کی تعلیم پر اجرت لینا صحیح ہے جبکہ یہ اللہ کی عبادت ہے،یعنی اُس کا اجر قرآن پڑھانے والے کی نیت کے بموجب اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔

اسلامی فوج ایک متحد فوج ہوتی جس کے ذیل میں متعدد افواج ہوتی ہیں؛اِن کے یا تومعیِّن عدد طے کر دئے جاتے ہیں مثلاً فوج ایک، یا فوج تین وغیرہ یا پھر اِنھیں ریاست کی مختلف ولایات(صوبہ)یا مختلف عمالات(اضلاع)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مثلاً فوجِ شام،فوجِ مصر فوجِ صنعاء وغیرہ۔ 

اسلامی افواج کو مخصوص معسکرات (
Barracks )میں رکھا جاتا ہے اور ہر معسکر میں فوجیوں کی کچھ تعداد رکھی جاتی ہے جو ایک ،دو یا متعدد اقسام کی افواج کے فوجی ہو سکتے ہیں۔ایسے معسکرات کیلئے البتہ مناسب ہوگا کہ یہ مختلف ولایات میں پھیلے ہوئے ہوں اور اِن میں سے بعض معسکر فوجی اڈوں پر ہوں جبکہ بعض دیگر معسکر دائمی طور پر متحرک (Mobile Barracks)ہوں جو ہمیشہ جارحیت کیلئے مستعد رہیںReady for Actionہوں۔ہر ایک معسکر کیلئے مخصوص نام ہو جیسے معسکرِ حبانیہ وغیرہ اور ہر معسکر کا پنا پرچم ہو۔

یہ تمام امور جیسے افواج کے نام عدد یا ریاست کی ولایات پر رکھنا جو کہ اعمالِ مباح میں آتے ہیں اور یہ خلیفہ کی اپنی رائے اور اجتہاد پر چھوڑ دئے جاتے ہیں؛یا پھر ایسے امور ہوتے ہیں جو اُس شرعی قاعدہ کے زمرے میں آتے ہیں جن کی رو سے ہر وہ چیز جس کے بغیر کوئی فرض پورا نہ ہوتا ہو،وہ بھی فرض ہوجاتی ہے جو ریاست کی حمایت و حفاظت کے اعتبار سے ناگزیر ہیں،مثلاً حملوں کے وقت فوج کی کیا ترتیبات ہوں،اُنھیں ایسے معسکرات میں رکھنا جوریاست کی حفاظت کے تدبّر(Strategy) کے لحاظ سے موزوں ہوں وغیرہ۔

حضرت عمر بن الخطاب (رضي الله عنه) نے فوجوں کوولایات کے نام پر تقسیم کیا تھا ، یوں ایک فوجِ فلسطین تھی،ایک موصلؔ کی فوج تھی اور ایک فوج کو وہ ریاست کے مرکز میں رکھتے تھے جبکہ ایک فوج اپنے پاس محفوظ موام پر اس طرح تیار رکھتے تھے کہ وہ پہلا اشارہ پاتے ہی قتال کیلئے نکل پڑے۔

خلیفہ ہی فوجوں کا قائد ہوتا ہے:
خلیفہ فوج کا قائد ہوتا ہے اور خلیفہ ہی فوج کے افسرِ خاص (Chief of Staff) ہر ایک لواء (Brigade) کے امیر،نیز فوج کے ہر ایک فِرَق (Division/Company) کے قائد بھی خلیفہ ہی مقرر کرتا ہے۔البتہ فوج کے باقی مراتب(Ranks) کا تقرر اُن کے قائدین یا لواء کے امیر کرتے ہیں۔افسرِ خاص کے ذیل افسران کا تقرراُن کی عسکری تربیت کی بنیاد پر افسرِ خاص کے ذریعہ ہوتی ہے۔خلیفہ ہی کے فوجی قائد ہونے کا سبب یہ ہے کہ خلافت تمام عالم کے مسلمانوں کی امارتِ عام ہے؛جس کا مقصد اسلام کے احکام کو قائم و نافذ کرنا اور تمام عالم میں اس کی دعوت پہنچانا ہے جس کا بنیادی طریقہ جہاد ہے لہٰذا یہ ناگزیر ہوا کہ خلیفہ ہی جہادکا نگراں ہو،کیونکہ خلافت کا عقد خلیفہ پر ذاتی طور سے ہے،لہٰذا یہ جائز نہیں کہ یہ ذمہ داری کوئی اور انجام دے،چنانچہ یہ ضروری ہوا کہ خلیفہ ہی کیلئے جہاد کے امور خاص ہوں نہ کہ کسی اور کیلئے ،گو کہ تام مسلمان ہی جہاد میں شامل ہوتے ہیں۔جہاد میں شامل ہونا ایک بات ہے اور جہاد کے امور کی ذمہ داری اور نگرانی اس سے مختلف شئے ہے۔جہاد ہر ایک مسلمان پر فرض ہے لیکن جہاد کے امور کی نگہداشت خلیفہ ہی کیلئے خاص ہے نہ کہ کسی اور کیلئے۔البتہ خلیفہ کے اس فریضہ کی ادائیگی کیلئے اُس کی نگرانی (Supervision)اورزیرِ اطلاع نیابت صحیح ہوتی ہے ،لیکن ایسی نیابت جائز نہیں جو مطلق اور خودمختار ہو جو خلیفہ کو اطلاع اور اُس کی نگرانی کے بغیر جہاد کے اعمال انجام دے۔یہاں خلیفہ کی اطلاع سے مراد ایسی اطلاع محض مقصود نہیں ہے جو معاون کے ضمن میں آئی ،بلکہ یہ کہ جو نائب اس کام کیلئے مخصوص کیا جائے وہ خلیفہ کے اشراف(Supervision)اورماتحتی میں جہاد کے مطلوبہ افعال انجام دے یعنی (Execute) کرے۔فوج کی قیادت کیلئے بھی یہی قید ہوتی ہے کہ وہ خلیفہ ہی کی ماتحتی اور اشراف میں رہے اور خلیفہ جسے چاہے اس قیادت کیلئے مقرر کرسکتا ہے۔اس کے برعکس خلیفہ کے اشراف اور ماتحتی کے بغیر یہ کام انجام دیا جانا جائز نہیں ہوتا اور نہ یہ جائز ہوتا ہے کہ یہ اشراف اور ماتحتی محض برائے نام ہو کیونکہ خلافت کا عقد تو خلیفہ پر بحیثیت ذاتی ہوتا ہے،لہٰذا جہاد کے امور کی کارکردگی اور نگرانی اُس پرلازم آتی ہے۔اس کے مدِّ نظر جو دوسرے غیر اسلامی نظاموں میں جہاں ریاست کا سربراہ فوج کا قائدِ اعلیٰ تو ہوتا ہے، لیکن محض برائے نام اور ایک مستقل اور خود مختار قائد مقرر کیا جاتا ہے، تو یہ اسلام میں باطل اور شریعت کے مخالف ہے،بلکہ شریعت یہ واجب قرار دیتی ہے کہ فوج کا عملاً قائد اعلیٰ یعنی (Executive Supreme Commander)خلیفہ ہی ہو۔البتہ افواج کی فنی اور انتظامی قیادت وغیرہ جسے مقرر کرنے کا اختیار خلیفہ کو ہے،اُن کیلئے ایسی قید نہیں ہوتی کہ وہ براہِ راست ہی خلیفہ کی نگرانی میں ہو۔

مزید یہ کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بذاتِ خود فوج کے قائد رہے اور غزوات میں بھی فعلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی قیادت فرماتے اور جن فوجی دستوں یا ٹکڑیوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتال کیلئے بھیجتے اُن پر خود ہی قائد مقرر فرماتے تھے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس اِن دستوں یا سرایا کے ہمراہ نہیں ہوتے تھے۔اِن سرایا پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم خود قائد مقرر فرماتے اور بعض اوقات اس احتیاط کے زیرِ نظر کہ اگر ایک قائد قتل کردیا جائے تو اُس کے بعد کیلئے آئندہ قائد بھی طے فرمادیتے تھے، یہی غزوۂ مؤتہ کے وقت پیش آیا، چنانچہ امام بخاری ؒ نے حضرت عبداللہ ابن عمر (رضي الله عنه) سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں:

(أمَّرَ رسول اللّٰہ ا فی غزوۃ مؤتۃ زید ابن حارثۃ۔فقال رسول اللّٰہ ا إن قُتِلَ زید فجعفرفإن قُتِلَ جعفر فعبداللّٰہ ابن رواحۃ )

اللہ کے رسول ا نے غزوۂ مؤتہ کے وقت حضرت زید ابن حارثہ  (رضي الله عنه) کو قائد مقرر کیا اور فرمایا کہ اگر زید قتل ہوجائیں تو جعفر(رضي الله عنه) قائد ہوں گے اور اگر وہ بھی قتل کردئے جائیں تو عبداللہ ابن رواحہ (رضي الله عنه) قائد ہوں گے۔

لہٰذا خلیفہ ہی فوج کے قائد اور لواء یعنی Brigades کے امیروں کا تقرر کرتا ہے اور اُنھیں لواء بمعنی Bannersعطا کرتا ہے،نیز فِرَق یعنی Companies/Legions کے بھی قائدین کا تقرر کرتا ہے۔وہ فوجیں جو جانبِ شام بھیجی گئی تھیں،مثلاً مؤتہ کی فوج یا حضرت اسامہ (رضي الله عنه) کی فوج، تو اُن کی نوعیت لواء یا Brigades کی طرح تھی کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلمنے اُنھیں لواء یا Banner عطا فرمایا تھا،نیز وہ سرایا یا رسالہ Squadrons/Units جو جزیرۂ عرب کے مختلف حصوں میں لڑائی کیلئے جایا کرتے تھے،مثلاً حضرت سعد ابن ابی وقاص کا رسالہ جو مکہ کی جانب بھیجا گیا تھا،اُن کی حیثیت فِرَق کے مانند تھی؛جو اس بات کیلئے دلیل ٹھہری کہ لواء کے قائد اور رسالوں کے امیر کا تقرر خلیفہ ہی کی جانب سے ہوتا ہے۔البتہ لواء کے قائد اور رسالوں کے امیر کے ماسوا افراد کا تقرر حضور (صلى الله عليه وسلم) کی جانب سے کیا جانا ثابت نہیں ہوتا ہے؛جو اس بات کیلئے دلیل ہوئی کہ غزوات اِن کی تقرری اِن کے مقرر کردہ امیروں پر چھوڑ دی جاتیتھی۔رئیس الارکان یا  Chief of Staff جو فنی اموریا Technical Mattersکا نگراں ہوتا ہے، اسے فوج کے قائد کی طرح خلیفہ ہی مقرر کرتا ہے، یہ رئیس الارکان اپنے کام کو خلیفہ کی نگرانی میں انجام دیتا ہے البتہ اُس پر خلیفہ کی مداخلت براہِ راست نہیں رہتی گو کہ بھی خلیفہ ہی کے ماتحت ہوتا ہے۔

جہاد جہاد Reviewed by خلافت راشدا سانی on 1:25 AM Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.