شریعت کا فوری ا لتزام

اللہ تعالی فرماتا ہے :

(وَسَارِعُوْا اِلٰی مَغْفَرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ لا اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ خ)

’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی و سعت زمین و آسمان جیسی ہے اور وہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے مہیا کی گئی ہے۔‘‘
(آل عمران آیت:۱۳۳)
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاط وَاُوْلٰٰءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ خ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ، وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُوْلٰءِکَ ھُمُ الْفَآءِزُوْنَ خ)

’’ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کریں تو وہ کہیں ہم نے سنا اور اطاعت کی ۔ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور کامیاب وہی ہیں جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کریں اور اللہ سے ڈرتے رہیں اور اس کی نافرمانی سے بچیں۔‘‘
(النور: آیت:
۵۲،۵۱)
ایک دوسرے مقام پر مومن مرد و مومن عورت کی صفات کو یو ں بیان کیا گیا ہے:

(وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ،ٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخیْرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ط وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُلَہ، فَقَدْ ضَلَّ ضَلَٰلًا مُّبِیْنًا خ)

کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملہ کا فیصلہ کر دیں تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جوکوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔
(الاحزاب: آیت:۳۶)
قرآن میں اللہ تعالی مزید فرماتاہے:

(فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِم حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْ تَسْلِیْمًا)

’’ہرگز نہیں ،اے محمد !تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں تم کو یہ فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں،پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سر تسلیم خم کر دیں۔‘‘ )النساء: آیت:۶۵)
اور فرمایا:

(یٰآیّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْ اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلآءِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُؤْمَرُوْنَ خ)

اے لوگو جو ایمان لائے! بچاؤ اپنے کو اور اپنے اہل عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جوکبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیاجاتاہے اسے بجالاتے ہیں‘‘۔
(التحریم: آیت:۶(

(فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی لا۵ فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی خ وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہ، مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَعْمٰی خ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْٓ اَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًاخ قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَھَا ج وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی خ )

’’اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا، اور نہ ہی بدبختی میں مبتلا ہوگا اور جومیرے ذکر (درس نصیحت ) سے منھ موڑے گا اس کے لیے دنیا کیلئے زندگی تنگ ہو گی اور قیامت کے روزاسے ہم اندھا اٹھائیں گے ۔وہ کہے گا’’اے میرے رب! دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا ،یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا ؟‘‘اللہ تعالیٰ فرمائے گا’’جب ہماری آیات تمہارے پاس آئی تھیں تو تم نے انکوبھلا دیا تھا ۔اسی طرح آج تو بھی بھلا دیا جارہا ہے۔‘‘
(طہ: آیت:۱۲۶۔۱۲۳)
مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرۃ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول فرماتے ہیں:

’بادروا بالاأعمال تنا کقطع اللیل المظلکم بصبح الرجل مؤمنا و تمسی کافرا ، ویمسی مؤمنا و یصبح کافرا یبیع دینہ بعرض من الدنیا۔‘‘

’نیکی کے کاموں کو کرنے میں جلدی کرو ان فتنوں سے پہلے سخت تاریک رات کے حصہ کے مانند ہوں گے،آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا تو شام کفر کی حالت میں ہوگی اور شام ایمان کی حالت میں ہوگی تو صبح کفر کی حالت میں کرے گا۔دنیا کی چیزوں کے لیے وہ اپنے دین کا سودا کرے گا۔‘‘
جو لوگ مغفرت الٰہی کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں اور حنت کی طلب اور نیکی کے اعمال کرنے میں سبقت کر تے ہیں ،ایسے لوگ نبی آخر الزماں اکے زمانے میں بھی پائے جاتے رہے ہیں اور بعد کے ادوار میں بھی ملتے ہیں ،امت میں ایسے لوگ ہر زمانے میں پیدا ہوتے رہے ہیں جو اپنے رب کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور اپنے رب کی رضا اور خوشنودی کے لیے اپنی جانوں تک کا سودا کر لیتے ہیں۔
چنانچہ صحیح بخاری شریف اور صحیح مسلم شریف میں حضرت جابرؓ کی ایک حدیث ہے ،وہ فرماتے ہیں:
 
((قال رجل للنبی ا یوم أحد: إن قتلت فأین أنا؟ قال: في الجنۃ فألقی تمرات فيیدہ ثم قاتل حتی قتل))

’غزوۂ احد کے دن ایک شخص نے کھجوریں کھاتے ہوئے رسول اللہ سے دریافت کیا کہ:’’اگر میں قتل کر دیا جاؤں تو آپ مجھے کہاں دیکھتے ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’جنت میں‘‘ یہ سن کر اس شخص نے اپنی کھجوریں پھینک دیں اور شریک جہاد ہو کر جام شہادت نو ش کر گیا۔

صحیح مسلم میں حضرت انس سے حدیث روایت ہے :

)(فانطلق  رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)و اصحابہ حتی سبقوا لامشرکین الیٰ بدر و جاء المشرکون ،فقال رسول اللہ ا:’’قوموا الی جنۃ عرضھا السماوات والأرض ،قال یقول عمیر بن الحمام الأنصاری :’’یا رسول اللہا!جنۃ عرضھا لسماوات و الأرض قال :نعم ،قال بخ بخ ،فقال  رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم):ما یحملک علی قولبخ بخ ؟،قال لا واللہ یا رسول للہ الا رجاء ۃ أن أکون من أھلہا قال فانک من أھلھا ،فأخرج تمرات من قرنہ ، فجعل اأکل منہن ،ثم قال :لئن أنا حییت حتی آکل تمراتي ھذہ انھا لحیاۃ طویلۃ ،قال :فرمی بما کان معہ من التمر ،ثم قاتلھم حتی قتل)(

’’رسول اللہا اور صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین غزوہ بدر کے لیے نکلے اور مقام بدر میں مشرکین سے پہلے پہونچ گئے پھر مشرکینِ مکہ پہنچے،،رسول اللہ انے فرمایا:’’اس جنت کے لیے تیار ہو جاؤ جس کی وسعت زمین و آسمان جیسی ہے۔‘‘حضرت عمیر بن حمام الانصاری فرماتے ہیں:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!کیا واقعی ایسی جنت ہے جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ہے؟‘‘آپ نے فرمایا ’’ہاں‘‘حضرت عمیر نے یہ سن کر کہا:’’بخ بخ(واہ ! کیا بات ہے) ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ :’’آخر تم نے ایسا کیوں کہا؟‘‘تو انہوں نے جواب دیا کہ :’’اے اللہ کے رسول ا: خدا کی قسم ایسی کوئی بات نہیں بلکہ میں صرف یہ چاہتاہوں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے ہو ں جن کے لیے یہ تیار کی گئی ہے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا :’’تم ان لوگوں میں سے ہو۔‘‘اس کے بعد حضرت عمیر نے اپنی کھجور نکالیں اور کھانے لگے ۔پھر انہوں نے کہ :’’اگر میں اسی طرح جتنی دیر کھجوریں کھاتا رہا تواتنی دیر تک زندہ رہوں گا اور میری زندگی اتنی ہی لمبی ہوگی۔راوی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی کھجوریں پھینک دیں اور جنگ میں شریک ہو کر جام شہادت نوش فرمایا۔‘‘

حضرت انسؓ سے مروی ایک متفق علیہ حدیث ہے:

((غاب عمي أ نس بن نضر عن قتال بدر ، فقال :’’یا رسول اللہا! عبت عن أول قتال المشرکین ،لئن اللہ أشھدني قتال المشرکین لیریناللہ ما أصنع ’’فلما کان یوم أحد ،وانکشف المسلمون قال :’’اللھم اني أعتذر الیک مما صنع ھؤلاء یعنی الصحابۃ ،وأبرأالیک مما صنع ہؤلاء یعنی المشرکین‘‘،ثم تقدم فا ستقبلہ سعدبن معاذ ، فقال :’’یا سعد بن معاذ! الجنۃ ورب النضر اني أجد ریحھا من دون أحد قال سعد فما استطعت یا رسول اللہا ما صمع ،قال منس فوجدنا بہ بضعا ثمانین ضربۃ بالسیف أو طعنۃ برمح أو رمےۃ بسھم و وجدناہ قد قتل ،و قد مثل بہ الشرکین فما عرفہ أحد الا أختہ ببنانہ ‘‘قال أنس کنا نری أو نظن أن ھذہ الآےۃ نزلت فیہ و فی أشباھہ (من المؤمنین رجال صدقوا ما عھدوا اللہ علیہ)الیٰ آخر الآےۃ))

’’حضرت انس فرمانے ہیں کہَ :’’میرے چچا حضرت انس بن نضر غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے ، تو انہوں نے کہا:’’ یا رسول اللہ ا! میں مشرکین کے ساتھ ہوئی پہلی جنگ میں حاضر نہ ہو سکا اگر اللہ تعالیٰ نے بعد میں کسی جنگ میں شریک ہونے کا موقع دیا تو میں دکھا ؤں گا کہ میں کیا کارنامے انجام دیتاہوں ‘‘چنانچہ احدکے دن مسلمانوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تو انس بن نضرؓ نے کہا : ’’اے اللہ !میں ان (صحابہ) کی کارکردگی سے تیری معافی طلب کرتا ہوں اور ان (مشرکین)کی کارستانیوں سے برأت کا اظہار کرتا ہوں ‘‘پھر حضرت سعد بن معاذ سے ان کی ملاقات ہوئی تو کہا: ’’اے سعد ! میں اس احد کی وادی میں جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں ۔‘‘سعد نے فرمایا اے اللہ کے رسول میں وہ نہیں کر سکا جو انھوں نے کر دکھایا۔ انس کہتے ہیں کہ ہم نے ان کے جسم پر ۸۰ سے زائد زخم دیکھے یا تو وہ تلوار کے تھے یا نیزوں کے یا تیروں کے ۔ ان کو شہید کر دیا گیا تھا اور مشرکین نے ان کا مثلہ کیا ہوا تھا ۔ان کوہم میں سے کوئی نہیں پہچان سکا سوائے ان کی بہن کے جنہوں نے ان کی انگلیوں کے ذریعہ ان کی شناخت کی ۔اس کے بعد حضرت انس فرماتے ہیں کہ انہیں لوگوں یا ان جیسے لوگوں کے تعلق سے قرآن کی یہ آیت نازلہ ہوئی۔ 

 (مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج) 

 (بعض اہل ایمان ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے اپنے وعدوں کو پورا کر دکھایا)( الاحزاب: آیت:۲۳)

عن أبي سروعۃ قال :’’صلیت وراء النبي صلی اللہ علیہ وسلم بالمدینۃ العصر فسلم، ثم قام مسرعا ، فتخطی رقاب الناس الیٰ حجر نساۂ ، ففڑع الناس من سرعہ ، جخرج علیہم ، فرأی أنھم قد عجبوا من سرعہ ، فقال :’’ذکرت شےئا من تبر عندنا ، فکرھت أن یحسبني ،فأمرت بقسمتہ ، ‘‘وفي رواےۃ لہ:’’کنت خلفت في البیت تبرا من الصدقۃ ، فکرھتأن أبیتہ ، ‘‘

ابو سروعۃ سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :’’میں نے  رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)کے پیچھے عصر کی نماز ادا کی ،پھر آپ انے سلام پھیرا اور تیزی سے کھڑے ہوئے اورلوگوں کی گردنوں کو پھلانگتے ہوئے اپنی بیوی کے کمرے کی طرف گئے ، لوگوں کو اس پر بڑا تعجب ہوا ، پھر آپ (صلى الله عليه وسلم)آئے اور لوگوں کے حیرت و استعجاب کو دیکھ کر فرمایا :’’مجھے یاد آیا کہ میرے پاس کچھ سونا پڑا ہوا ہے تو مجھے یہ ناگوار گزراکہ وہ مجھے روک لے لہٰذا میں نے اس کو تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔‘‘ابو سروعۃ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا کہ:’’میں اپنے پیچھے صدقہ کا کچھ سونا چھوڑ آیا تھا ، تو مجھے ناپسند ہوا کہ میں اس کے ساتھ رات گزاروں۔‘‘
یہ واقعہ مسلمانوں کی رہنمائی کرتاہے کہ اللہ رب العزت کے واجبات کی ادائیگی میں کس قدر جلدی اور سرعت سے کام لینا چاہیے۔

عن البراء قال:’’لما قدم  رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)المدینۃ صلی نحو بیت المقدس ستۃ عشر اأو سبعۃ عشر شہرا و کان یحب أن یوجہ الی الکعبۃ فأنزل اللہ تعالیٰ (قد نری تقلب وجھک في السماء فلنولینک قبلۃ ترضاھا)فوجہ نحو الکعبۃ و شلی معہ رجل العصر ثم خرج فمر علی قوم من الأنصار فقال ھو یشہد أنہ شلی مع النبي ا وأنہ قد وجہ الی ٰ الکعبۃ فانحرفوا وہم رکوع في صلاۃ العصر۔

حضرت امام بخاریؒ نے حضرت براءؓ سے روایت نقل کی ہے حضرت براءؓ فرماتے ہیں کہ :’’جب رسو ل اللہ ا مدینہ تشریف لائے تو بیت المقدس کی جانب رخ کرکے ۱۶ یا ۱۷ ماہ تک نماز ادا کی اور آپ (صلى الله عليه وسلم)کی شدید خواہش تھی کی قبلہ کا رُخ کعبہ کی جانب کر دیا جائے۔چنانچہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی

 (قد نری تقلب وجھک في السماء فلنولینک قبلۃ ترضاھا

چنانچہ قبلہ خانۂ کعبہ کی جانب منتقل کر دیا گیا۔ ایک شخص نے آپ (صلى الله عليه وسلم)کے ساتھ عصر کی نماز ادا کی ۔پھر وہ باہر نکلا تو اس کا گزر انصار کی ایک جماعت کے پاس سے ہوا۔اس نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ اس نے  رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)کے ساتھ خانۂ کعبہ کی جانب رخ کر کے نماز پڑھی ہے چنانچہ انصار کی جماعت نے رکوع کی حالت ہی میں اپنا رخ موڑ لیا اوریہ عصر کی نماز کا وقت تھا۔

عن ابن أبي أوفیؓ یقول:’’أصبتنا مجاعۃ لیالي خیبر فلما کان یوم خیبر وقعنا في الحمر الأھلےۃ فانتحرنا ھا فلما غلت القدور نادی منادي  رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)أکفؤا القدور فلا تطعموا من لحوم الحمر شےئا قال عبد اللہ فقلنا انما نہی النبي ا لأنھا لم تخمس قال و قال آخرون حرمھا البتۃ و سألت سعید بن جبیر فقال حرمھا البتۃ

’’ حضرت ابن ابی اوفی ٰ فرماتے ہیں کہ جنگِ خیبر کے وقت ہم شدید بھوک کی حالت میں تھے، جب خیبر فتح ہوگیا اور مال عنیمت میں گدھے بھی آئے تو ہم نے ان کو ذبح کردیا جب ہانڈیوں میں گوشت ابل رہا تھا تو رسو ل اللہ ا کے منادی نے اعلان کیا کہ ہانڈیوں کا گوشت الٹ دو اور گوشت بالکل مت کھاؤ۔(ایک شخص )عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے کہا رسول اللہ انے اس لیے منع فرمایا ہے کیونکہ ان کا خمس نہیں نکالا گیا ہے، اور بعض کاکہنا تھا کہ نہیں ان کو مکمل حرام قرار دے دیا گیا ہے ہم نے سعید بن جبیر سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ اس کو مکمل حرام قرار دے دیا گیا ۔‘‘(بخاری)

عن أنس بن مالکؓ قال :’’کنت أسقي أبا طلحۃ الأنصاري و أبا عبیدۃ بن الجراح ب أبي بن کعب شرابا من فضیخ و ہو تمر فجاء ہم آت فقال ان الزمر قد رحمت فقال أبو طلحۃ یا أنس قم الی ہذہ الجراد فاکسرہا قال أنس فقمت الی مہراس لنا فضربتہا بٖسفلہ حتی انکسرت ۔‘‘

امام بخاری حصرت انس بن مالکؓ سے رویات کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ :’’میں ابو طلحہ انصاری اور ابو عبیدہ بن الجراح کو اور ابی بن کعب کو فضیخ (کھجور کی ایک قسم)کی بنی ہوئی شراب پلا رہاتھا تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا :’’ شراب کو حرام قرار دے دیا گیا ہے۔‘‘چنانچہ ابو طلحہ نے کہا :’’انس ان صراحیوں کو توڑ دو ‘‘لہٰذا میں نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور ان کے نچلے حصے سے ان پر مارنا شروع کیا اور ان تمام کو توڑ دیا ۔‘‘

عن عائشۃؓ قالت:’’وبلغنا أنہ لما أنزل اللہ تعالیٰ أن یردوا الی المشرکین ما أنفقوا علی من ہاجر من أزواجہم و حکم علی المسلمین أن لا یمسکوا بعصم الکوافر أن عمرؓ طلق امرأتین‘‘

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت امام بخاری نے نقل کی ہے کہ آپؓ فرماتی ہیں کہ:’’جب ہم کو یہ خبر پہنچی کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ نازل کر دیا گیا ہے کہ ۔۔۔مسلمانوں کو یہ حکم ہوا ہے کہ وہ کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھیں تو حضر ت عمرؓ نے دو عورتوں کو طلاق دے دی۔‘‘

وروی البخاري عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت :’’یرحم اللہ نساء المھاجرات الأول لما أنزل اللہ (ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن)سققن مروطھن فاختمرن بھا۔‘‘

بخاری میں ایک روایت ہے جس میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ :’’اللہ تعالیٰ مہاجرین عورتوں پر رحم فرمائے جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ (ولیضربن بخمرہن علی جیوبہن)تو انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر اپنا دوپٹہ اور اوڑھنی بنا لیا۔‘‘

أخرج أبو داؤو عن صفےۃ بنت شیبۃ عن عائشۃؓ أنھا دکرت نساء الأنصار فأثنت علیھن و قالت :’’ لما نزلت سورۃ النور عمدن الی حجور فسققنہن فاختخدنہ خمرا۔

ابو داؤد حضرت صفیہ بنت شیبہ سے حضرت عائشہؓؓ ؓ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓؓ ؓ کے سامنے انصار کی عورتوں کا تذکرہ کیا گیا تو آپؓ نے ان کی تعریف کی اور کہا :’’جب سورۃ النور نازل ہوئی تو انصار کی عورتیں اپنے گھروں کو گئیں اور اپنی چادروں کو پھاڑکر پردہ بنا لیا۔‘‘

قال ابن اسحاق:...و قدم علی  رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)الأشعث بن قیس في وفد کندۃ ۔فحدٹني الزہري أنہ قدم في ثمانین راکبا من کندۃ ، فدخلوگ علی  رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)مسجدہ ، قد رجلوا جممہم(جمع جمۃ وہي شعر الرأس الکثیف)و تکحلوا ،علیہم جبب الحبرۃ قد کففوہا بالحریر ، جلما دخلوا علی  رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)قال لہم :’ألم تسلموا‘قالو :بلی ۔قال جما بال ہذٓ الحریر في أعناقلم ؟ قال فشقوہ منہا فألقوہ۔

صاحب المغازی حضرت ابن اسحاق کہتے ہیں کہ :’’۔۔۔ کندہ کے وفدکے ساتھ اشعث بن قیس محمد ا کے پاس آئے ، پھر حضرت اسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے زھری نے بیان کیا کہ کندہ کے اس وفدمیں ۸۰ افراد تھے۔ یہ  رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)کے پاس آئے اور آپ (صلى الله عليه وسلم)مسجد میں تشریف فرما تھے انہو ں نے اپنے گھنے بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی اور سرمہ لگا رکھا تھا اور یمنی لباس پہن رکھا تھا اور کاندھوں پر ریشم کی چادر تھی چنانچہ جب آپﷺ کے سامنے آئے تو آپ انے فرمایا :’’کیا تم اسلام نہیں لائے؟‘‘انہوں نے جواب دیا :’’کیوں نہیں اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم)! ‘‘پھر آپ نے ارشاد فرمایا :’’آخر کیا بات ہے کہ تمہارے شانوں پریہ ریشم کیوں پڑے ہیں ؟‘‘یہ سننا تھا کہ انہوں نے فورًہی ریشم کو پھاڑ ڈالا اور اتار کر پھینک دیا۔
ابن جریر حضرت ابی بردۃ سے روایت کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے والد سے اور ان کے والد نے اپنے والد سے نقل کیاہے کہ :’’ہم اپنے مئے خانہ میں بیٹھے ہوئے تھے (وہ ریت کا ایک ٹیلہ تھا)ہماری تعداد تقریبا ۳یا ۴ تھی اور ہمارے پاس شراب کا ایک بڑا برتن تھا اور ہم شراب نوشی کر رہے تھے ،اس وقت شراب حلال تھی پھر میں رسول اللہا کے پاس گیا اور اس وقت شراب کی حرمت نازل ہو چکی تھی ۔

(ےأیہاا لذین آمنوا انما الخمر و المیسر...فہل أنتم منتہون)

پھر میں اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان پر ان آیات کی تلاوت کی اس حال میں کہ ان کے ہاتھوں میں ابھی جام تھے اور انہوں نے شراب پی لی تھی اورکچھ برتن میں بچی ہوئی تھی اور ان کے جام ان کے ہونٹوں سے لگے ہوئے تھے جیسے سینگی لگانے والا کرتا ہے ، آیات سننے کے بعد انہوں نے اپنے برتنوں کی شراب بہا دی اور کہا :’’ہمارے پرودگار نے ہم کو روک دیاہے۔‘‘

غسیل الملائکہ حضرت حنظلہ  بن ابی عامر ؓ (ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی ) نے جب غزوہ احد میں شرکت کی ندا سنی تو لیبک کہتے ہوئے تیزی سے میدان کار زار کی طرف روانہ ہوئے اور جام شہادت نوش کیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ  رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا کہ:’’ تمہارے ساتھی کو فرشتے غسل دے رہے ہیں ذار اس کے اہل خانہ سے دریافت کرو کہ آخر کیا بات کیا ہے ؟ ‘‘چنانچہ ان کی بیوی سے پوچھا گیا کہ تو انہوں نے جواب دیا کہ:’’ جب ا نہوں نے آواز سنی تھی اس وقت وہ جنبی تھے اور اسی حالت میں وہ نکل گئے تھے ۔‘‘ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)فرماتے ہیں :’’اسی لیے فرشتے ان کو اپنے ہاتھوں سے غسل دے رہے ہیں ۔‘‘

امام احمد ،رافع بن خدیجہ سے روایت کرتے ہیں کہ رافع نے کہا کہ:’’ہم عہد رسالت میں کاشتکاری کیا کرتے تھے ،اور اس کو چوتھائی یا تہائی یا متعین غلہ کے عوض بیچ دیا کرتے تھے ایک دن ہمارے ایک چچا ہمارے پاس آ ئے اور کہنے لگے کہ  رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)نے اس چیز سے ہمیں منع فرمایا دیا ہے جو کہ ہمارے لیے مفید تھی، اللہ اور رسول کی اطاعت اس سے زیادہ نفع بخش ہے ۔ہم کو منع کر دیا گیا ہے کہ ہم کھیتی کریں اور اس کو ثلث ، ربع یا متعین غلہ کے عوض کرائے پر دیں اور زمین کے مالک نے یہ حکم دیا ہے کہ کہ یا تو ہم خود کھیتی کریں یا کسی کو دے دیں ،کرائے پر دینے کو نا پسند کیا ہے ۔
 

شریعت کا فوری ا لتزام شریعت کا فوری   ا لتزام Reviewed by خلافت راشدا سانی on 10:37 AM Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.