زیر نظر مضمون میں خلافت
کی اِن شاء اللہ واپسی سے متعلق صحیح احادیث اور اُن کی اسناد کو جمع کیا گیا
ہے۔اسلامی خلافت کی واپسی سے مومنوں کے سینے سکون وقرار سے لبریز ہوجاتے ہیں اور
خاص طور اُن مسلمانوں کیلئے جو ایک اسلامی ریاست کے قیام کی کوششوں میں جٹے ہیں، یہ
بشارتیں مزید اخلاص اور زیادہ سنجیدگی سے کام میں لگ جانے کی محرّک ہوتی ہیں۔اِن
شاء اللہ تعالیٰ اُن کی محنتوں کے صلہ میں خلافت اسلامیہ کا قیام عمل میں آئے گا
اور اُنھیں دنیا اور آخرت کی ابدی زندگی میں اس کا اجز عظیم عطا ہوگا؛اس دنیا میں
فتح اور آخرت میں بہترین ٹھکانہ۔
یہ احادیث جن میں فتح و
کامرانی کی بشارتیں ہیں،ہمارے سلف الصالحین کیلئے محرک تھیں۔ گو کہ یہ احادیث
ہمارے لئے بھی محرک ہیں ،تاہم ہمارے لئے یہ مناسب نہیں کہ ہم اُن پرمکمل تکیہ کرکے
خاموش بیٹھ کر اُن بشارتوں کے پورا ہونے کا انتظار کریں۔قسطنطنیہؔ کو فتح کرنے
والی افواج نے اُس شہر کے فتح ہونے کی بشارتوں کو ایسے ہی سمجھا اور اِن بشارتوں
سے اُن کے حوصلے بڑھے۔خلفاء اور اُن کے سپاہی قسطنطنیہ
ؔ
فتح کرنے کیلئے بے تاب رہتے تھے تاکہ وہ اُن لوگوں میں شامل ہوسکیں جن کیلئے اللہ
سبحانہ و تعالیٰ کے نزدیک خاص عزت کا مقام ہے۔یہ سرخروئی کا مقام بالآخر عثمانی
خلیفہ محمد الفاتح ؒ کے حصہ میں آیا،اور یہ شہرجو ہرقل ؔ کے نام سے جانا جاتا
تھا،اب ’’اسلام بول‘‘ (یعنی
اسلام کا شہر)ہوا اور اسلامی ریاست کا صدر مقام بن گیا،بعد میں اسے اسطنبولؔ کہا
جانے لگا۔اِن احادیث کو اس کام کیلئے تحرک کے طور پر ہی سمجھنا چاہئے تاکہ مزید
اخلاص سے اس کام میں جٹ جائیں اور اُس عزت و کامرانی میں حصہ دار بن جائیں جن کی
اِن احادیث میں فتح کی بشارت ہے اور دونوں جہانوں میں اس کا اجر ملے جو فی الحقیقت
عظیم کامیابی ہے۔
اس موضوع کی شروعات کرنے
سے پہلے کہ کیا واقعی خلافت آنے والی ہے یا یہ نیک اور متقی لوگوں کا محض خواب
ہے،بہتر ہوگا کہ ہم خلافت کی تعریف اور خلیفہ کی تقرری کے حکم اور اس کے دلائل پر
بالاختصارنظر ڈال لیں:
خلافت مسلمانوں کی عمومی
دنیوی قیادت ہے جو اسلامی شریعت کو نافذ کرتی ہے اور سارے عالم میں اس کی دعوت کو
عام کرتی ہے،لہٰذا یہ عاومی قیادت ہوئی نہ کہ ذاتی۔خلیفہ مومنین کا امیر اور نبی
اکرم ا کااسلام کے نافذ کرنے کرنے والے کی حیثیت سے، نہ کہ اس کے ابلاغ کے لحاظ سے
جانشین ہوتا ہے،چنانچہ خلافت دنیوی قیادت ہوئی نہ کہ مذہبی قیادت۔خلیفہ نہ تو اللہ
گ کی جانب سے مقرر کیا جاتا ہے اور نہ ہی وہ اللہ کا پیغام پہنچانے والا ہوتا
ہے،بلکہ خلیفہ کو مسلمان مقرر کرتے ہیں تاکہ وہ دارالاسلام کی حدود میں اسلام کو
نافذ کرے اور سارے عالم میں اس کی دعوت پہنچائے۔
خلیفہ کی تقرری مسلمانوں
پر فرضِ کفایہ ہے،یعنی ہر مسلمان اس کا مکلف ہے اور جب تک کہ یہ کام انجام نہیں
پاتا یا اس کیلئے کما حقہ کوشش نہیں کی جاتی،اس کا گناہ زائل نہیں ہوسکتا۔بالفاظِ
دیگر تاوقیکہ کہ خلافت قائم نہیں کرلی جاتی ،کوئی بھی اس گناہ سے بری نہیں ہو سکتا
اگر وہ مکمل تندہی اور سنجیدگی سے خلافت قائم کرنے کی محنت میں مشغول نہیں
ہوجاتا۔اللہ کے رسول انے بذاتِ خودپہلی بار اسلامی ریاست قائم کرکے اس کام کے کرنے
کا طریقہ متعین فرما دیا ہے،البتہ اس طریقہ کی تفصیلات ایک مختلف مضمون ہیں۔
اس کام کی فرضیت کے دلائل
قرآن،سنت اور صحابۂ کرام کے اجماع سے ماخوذ ہیں۔سب سے پہلے ہم قرآن مجید سے ماخوذ
دلائل پر غور کرلیں، جس میں مندرجہ ذیل آیات ہیں :
)فَاحْکُمْ
بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآءَ ھُمْ عَمَّ جَآءَ کَ
مِنَ الْحَقِّط(
پس لوگوں کے درمیان تم اس
کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے اور جو حق تمہارے پاس آچکا
ہے،اسے چھوڑ کر ان کی
خواہشات کی پیروی نہ کرنا۔
)ترجمہ
معانئ قرآن ِکریم:
سورۂ المائدۃ: آیت:۴۸(
(فَلاَ وَرَبِّکَ
لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ
یَجِدُواْ فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْما) پس تمہیں تمہارے ربّ کی قسم!یہ مومن
نہیں ہو سکتے ،جب تک کہ اُن کے درمیان جو نزاع ہو ،اُس میں یہ تم سے فیصلہ نہ
کرائیں، پھر تم جو فیصلہ کر دو اس پر یہ اپنے دل میں کوئی تنگی بھی نہ پائیں،اور
پوری طرح تسلیم کرلیں۔ (ترجمہ معانئ قرآن
ِکریم:نساء:۶۵)
(وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْاص)
اور سب مل کر اللہ کی
رسّی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ (ترجمہ معانئ قرآن ِکریم:آلِ عمران:۱۰۳)
مندرجہ بالا آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ ل کا خطاب حضور نبی اکرم ا سے ہے جو درحقیقت تمام امت سے خطاب ہوتا ہے تاوقتیکہ کہ اس کی مستقل تخصیص نہ کردی گئی ہو۔پھر یہ کہ اللہ لکے نازل کردہ احکام سے حکومت کرنا ایک حاکم ہی کا کام ہے،دوسری آیت کے حکم کی تکمیل بھی ایک حاکم ہی کرسکتا ہے اور کسی فرض کو پورا کرنے کیلئے جو چیز ناگزیر ہو،وہ خود بھی فرض ہوتی ہے۔تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ ہمیں ایک متحدہ جماعت کی شکل میں رہنے اور تفرقہ سے باز رہنے کا حکم دیتا ہے،چونکہ جماعت کا وجود خلیفہ کے بغیر ممکن ہی نہیں،اور یہ بات جماعت سے متعلق دلائل و شواہد سے واضح ہوجاتی ہے،لہٰذا اس طرح بھی خلیفہ مقرر کئے جانے کی فرضیت سابقہ آیات سے ماخوذ دلائل کے ساتھ ایک مزید دلیل ٹھہری۔
اس کے بعد ہم خلافت کے
دلائل کیلئے سنتِ نبوی ا پر غور کریں،مسلم شریف میں حضرت عبداللہ ابن عمرص سے
روایت نقل ہے کہ اُنھوں نے حضور نبی اکرم اسے سنا:
(من خلع یداً من طاعۃ لقي اللّٰہ یوم القیامۃ لا
حجۃ لہ و من مات ولیس في عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیۃ)
جس نے (امیر کی) اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا،وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اُس پر کوئی حجت نہیں ہوگی۔اور جو کوئی اس حال میں مر ا کہ اُس کی گردن پر خلیفہ کی بیعت کا طوق ہی نہ ہو،تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
اس حدیث میں مسلمانوں پر
یہ فرض مقرر کیا گیا ہے کہ اُن کی گردن پر خلیفہ کی بیعت کا طوق ہو،نہ کہ یہ کہ وہ
بذاتِ خود خلیفہ کو بیعت دیں، بیعت کا طوق ہونے کیلئے خلیفہ کا وجود کافی ہوتا ہے
خواہ کسی مسلمان نے شخصی طور پر بیعت دی ہو یا نہ دی ہو۔لہٰذا یہ حدیث خلیفہ کی
تقرری کیلئے دلیل ہے کیونکہ بیعت خلیفہ کے سوا کسی اور کو نہیں دی سکتی۔اسی طرح
حضرت ابو ہریرہ ص سے مروی ہے کہ آپ انے فرمایا
:
(إنَّمَا الإمام جُنّۃ یُقَاتَلُ مِن وراۂٖ و یتقی بہٖ)
(إنَّمَا الإمام جُنّۃ یُقَاتَلُ مِن وراۂٖ و یتقی بہٖ)
بے شک امام ایک ڈھال ہے
جس کے پیچھے لڑا جاتا ہے اور اپنا بچاؤ کیا جاتا ہے۔
یہ حدیث گو کہ بنیادی طور
پر صیغۂ اخبار میں ہے لیکن تاہم اس خبر میں قصدِ حکم ہے کہ یہ ڈھال موجود ہو۔مسندِ
احمدؒ ،ترمذیؒ ،نسائی اورطیالسی میں حارث الاشعری سے نقل کیا گیا ہے کہ حضور نبی
کریم نے فرمایا:
’’
’’
۔۔۔اور میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں
جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے:جماعت میں رہنا،سننا،اطاعت کرنا، دار الاسلام کی
طرف ہجرت کرنا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنا،کیونک جو بھی کوئی جماعت سے بالشت
بھر بھی باہر ہوا،اُس نے اسلام کا طوق اپنی گردن سے اُتار پھینکا تاوقتیکہ کہ وہ
رجوع نہ کرلے۔‘‘
جماعت کا وجود ایک شخص کے
اُس پر امام ہوئے بغیر ممکن نہیں جیسا کہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے جو حضرت حذیفہ
بن الیمان ص سے مسلم شریف میں روایت کی گئی کہ نبی کریم ا نے فرمایا:
’’تم مسلمانوں کے جماعت اور اُن کے امیر کے ساتھ رہنا۔‘‘
’’تم مسلمانوں کے جماعت اور اُن کے امیر کے ساتھ رہنا۔‘‘
یہی بات ایک اور حدیث سے
بھی ثابت ہوجاتی ہے جسے مسلم شریف میں حضرت عرفجہ ص سے نقل کیا ہے:’’ جب تم ایک
شخص (خلیفہ)کے تحت متحد ہو اور کوئی دوسرا آکر تم میں تفرقہ پیدا کرنا چاہے اور
تمہارے اتحاد کو توڑنا چاہے تو اس کو قتل کردو۔‘‘اسی طرح مسند احمد اور بیہقی میں
فضالہ ابن عبیدص سے مروی ہے کہ آنحضرت ا نے فرمایا:’’تین لوگوں کے بارے نہ
پوچھو(کہ وہ بدبخت ہیں)ایک وہ جو جماعت سے علیحدہ ہوا،دوسرا وہ جس نے امام کی
نافرمانی کی اور وہ شخص جو اسی نافرمانی کی حالت میں فوت ہوگیا۔‘‘اس طرح حضور اکرم
انے ہمیں جماعت میں رہنے کا حکم دیا ہے اور یہ واضح کردیا ہے کہ جماعت کیلئے امام
کا ہونا لازمی ہے۔لہٰذا جیسا کہ شریعت کا اصول ہے کہ جس چیز کے بغیر کوئی فرض پورا
نہ ہوتا ہو تو وہ چیز بھی فرض بن جاتی ہے (ما لا یتم الواجب الا بہ فھو واجب)۔اس
طرح بھی چونکہ ایک خلیفہ کے بغیر جماعت کا تصور نہیں،اس لئے خلیفہ کی تقرری فرض
ہوجاتی ہے۔
اب قرآن اور سنت کے بعد ہم صحابۂ کرام کے اجماع پر نظر ڈالیں ۔صحابۂ کرام کا اس بات پر اجماع رہا کہ خلیفہ کا تقرر تین دن کے اندر اندر ہوجانا چاہئے اور یہ اس قدر مستحکم اجماع ہے کہ اس میں مزید کسی تفصیل کی حاجت نہیں۔لہٰذا خلافت کو قائم کرنا فرض ہوا اور یہ ایسا فرض ہے جس پر دیگر فرائض کا دار ومدار ہے۔خلافت کا قائم ہوجانا اور اس کی فرضیت دونوں علیحدہ اشیاء ہیں اور جن پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے اُن کیلئے یہ قطعاً جائز نہیں کہ وہ اللہ کے علم پر پر تکیہ کرکے اور اسے حیلہ بنا کر خود اس کام سے تغافل برتنے کا جواز بنا لیں۔
اس کی
مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی شخص پر مثلاً اپنے اہلِ خانہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے
مال میسر نہ ہو تو وہ مال نہ ہونے کے سبب خاموش رہے ، بلکہ اُس پر یہ لازم اور فرض
ہوتا ہے کہ وہ محنت کرکے مال جٹائے اور اُن کی کفالت کرے۔ایک حدیث سے بات واضح
ہوجاتی ہے:’’ایک شخص کیلئے یہ گناہ کافی ہے کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کی حاجات کو
فراموش کرے جن کی مالی اعانت اُس کی ذمہ داری ہے۔‘‘اس بات کی اجازت نہیں کہ کوئی
اللہ تعالیٰ کے رازق ہونے کا حیلہ بنا کر کام نہ کرے اور خاموش بیٹھا رہے۔
خلافت کے قائم ہونے سے
فتح و کامرانی نیز رزق، دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے،وہی ہے جو فتح بخشتا ہے
اور رزق عطا کرتا ہے،اس میں اللہ کے بندے کا کوئی دخل نہیں۔اللہ کے بندے کا کام یہ
ہے کہ وہ محنت کرے اور اپنے واجبات کو پورا کرے اور خلافت قائم کرنے کیلئے محنت
کرے۔اللہ تعالیٰ کسی پر ایسا بوجھ نہیں ڈالتا جو اُس کی طاقت سے باہر ہو۔ امریکہ
اور دوسرے ممالک کا بہت بڑی طاقت ہونے کو ہم بہانہ بنا کر اس کام سے غافل نہیں
بیٹھ سکتے۔ جب تک ہم پر یہ فرض عائد ہے ہمیں اس کیلئے کوشش کرتے رہنا ہے،رہی فتح
تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔اللہ لنے اس موضوع سے متعلق اپنے علم کا کچھ حصہ
نازل فرمایا ہے جو یہ بات قطعیاً ثابت کرتا ہے کہ خلافت دوبارہ قائم کی جائے گی
اور یہ بات ہمارے لئے آنے والے عدل و انصاف کی امید ہے۔ہمارے ایمان،عزم اور
سنجیدگی کو اس علم سے تقویت ملنا چاہئے کیونکہ یہ روایات اپنے معانی کے اعتبار سے
متواتر ہیں اور خاموش بیٹھنے یا اِن پر شبہہ کا اب کوئی جواز نہیں رہتا۔اس کے
دلائل حسب ذیل ہیں:
سب سے پہلے عین منہج نبوی
پر خلافت دوبارہ قائم ہونے کے بارے میں حدیث:
مسندِ احمد میں نعمان ابن
بشیر ص سے روایت ہے کہ ہم مسجدِ نبوی میں بیٹھے تھے، بشیرص (یعنی
راوی کے والد)کم گفتار شخص تھے،وہاں ابو ثعلبہ ص آئے اور کہا کہ اے بشیر ابن
سعد،کیا تمہیں حاکموں کے بارے میں اللہ کے نبی اکے اقوال یاد ہیں؟حضرت حذیفہاس ص
نے کہا کہ ہاں مجھے یاد ہے، چنانچہ ابو ثعلبہص وہاں بیٹھ گئے اور حضرت حذیفہ ص نے
کہا کہ حضور اکرم انے فرمایا:
تم میں اُس وقت تک نبوت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی کہ نبوت رہے،پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گاپھر عین نبوت ہی کی طرز پر خلافت ہوگی تو وہ رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی،پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھر کاٹ کھانے والی بادشاہت ہوگی تو وہ رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی،پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھرجبری اور استبدادی حکومت ہوگی تو وہ رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی،پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھر عین نبوت ہی کی طرز پر خلافت ہوگی۔پھر آپ انے سکوت فرمایا۔
تم میں اُس وقت تک نبوت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی کہ نبوت رہے،پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گاپھر عین نبوت ہی کی طرز پر خلافت ہوگی تو وہ رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی،پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھر کاٹ کھانے والی بادشاہت ہوگی تو وہ رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی،پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھرجبری اور استبدادی حکومت ہوگی تو وہ رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی،پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھر عین نبوت ہی کی طرز پر خلافت ہوگی۔پھر آپ انے سکوت فرمایا۔
دوسری حدیث:
دوسری حدیث اسلام کے دنیا
کے ہر گھر میں داخل ہونے سے متعلق ہے۔مسندِ احمد میں تمیم الداری صسے روایت ہے ،
وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم انے فرمایا:
’’ بے
شک یہ (یعنی اسلام) ہر اُس جگہ پہنچے گا جہاں دن اور رات ہوتے ہیں،مٹی سے بنا کوئی
گھر یا کھال سے بنا کوئی خیمہ ایسا نہ ہوگا جسے اللہ اس دین میں نہ لے آئے،خواہ وہ
عزت والوں کی طرح عزت سے ہو یا ذلیل ہو کر،عزت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ اسلام سے دے
اور رسوائی وہ جو اللہ تعالیٰ کفرسے دے۔‘‘
ہیثمیؒ کہتے ہیں کہ یہ حدیث مسند احمد اور طبرانی میں
نقل ہے اور مسند احمد کے راوی رجالِ صحاح ہیں۔اسی حدیث کو حاکمؒ نے اپنی مستدرکؔ
میں روایت کیا ہے اور اسے شیخین کی شرط پرصحیح بتایا ہے، حاکم ؒ کی مستدرک صحیح
احادیث کا ذخیرہ ہے جو بخاریؒ اور مسلمؒ کی شرط پر کھرا ہے۔البتہ یہ احادیث بخاری
اور مسلم میں نقل نہیں کی گئیں ہیں۔یہی حدیث سنن بیہقی ؔ میں بھی روایت کی گئی ہے
لیکن اُس کے اختتامی الفاظ یوں ہیں:’’ یا وہ اُنھیں ذلیل کردے گا اور وہ اُس کی
اطاعت قبول کرلیں گے۔‘‘حضرت المقداد ص سے روایت اس حدیث کو مسند احمد اور طبرانی ؒ
کی الکبیر میں بھی روایت کیا گیا ہے،ہیثمیؒ کہتے ہیں کہ طبرانی کی اس روایت کے
راوی صحاح ہیں،نیز ابن حبانؒ نے اسے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔حاکم ؒ نے ابو
ثعلبہ ص سے روایت کیا ہے کہ جب آنحضرت ا کسی غزوے سے لوٹتے تو پہلے مسجدِ نبوی جا
کر دو رکعت نماز ادا کرتے ،پھر اپنی بیٹی کے گھر جاتے اور پھر اپنی ازواجِ مطہرات
کے گھر جاتے تھے۔ ایک بار جب آپ ا لوٹے تو نماز ادا کرنے کے بعد حضرت فاطمہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر پہنچے جہاں وہ دروازے پر تھیں،وہ روتی جا رہی تھیں اور آپ
ا کا بشر ۂ مبارک چوم رہی تھیں کہ آپ ا نے دریافت کیا کہ بیٹی کیوں روتی ہو؟کہا کہ
آپ ا کے پھٹے کپڑے اور آپ ا کی یہ حالت دیکھ کر رونا آتا ہے،آپ ا نے فرمایا:’’ رو
مت، اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ ا کو ایسا کام دیا ہے کہ دنیا بھر میں مٹی یا کھال
سے بنا کوئی بھی گھر ایسا نہ ہوگا کہ اللہ (کا حکم) اُن میں داخل نہ ہو،چاہے عزت
سے یا اُنھیں ذلیل کرکے، اور یہ وہاں تک ہوگا جہاں تک رات پہنچتی ہے۔حاکمؒ کہتے
ہیں کہ اس کی اسناد صحیح ہیں البتہ اسے شیخین نے روایت نہیں کیا ہے۔اس حدیث کو
طبرانی ؒ اور مسند الشامیین نے بھی روایت کیا ہے۔
اس حدیث کو تین صحابۂ کرام نے روایت کیا ہے اور تین تابعین تک پہنچی ہے۔ تابعی وہ ہوتا ہے جو صحابۂ کرام ثسے تو ملا ہو لیکن حضور اسے نہ ملا ہو،پھر اسے نو تبع تابعین نے روایت کیا ہے، تبع تابعی وہ ہوتا ہے جو تابعین سے ملا ہو لیکن صحابۂ کرام ثسے نہ ملا ہو۔اس میں کہا گیا ہے کہ اسلام دنیا کے ہر گھر میں داخل ہوگا،آج مغربی یورپ کے بیشتر حصوں ،شمالی اور جنوبی امریکہ اور افریقہ کے ایک بڑے حصے میں اسلام نہیں پہنچا ہے۔ یہاں اسلام میں داخل ہونے سے مراد اُن کا مسلم ہوجانا یا اسلامی ریاست کی اطاعت قبول کرلینے کے معنوں میں ہے اور یہ اُن پر حکومت کئے بنا ممکن نہیں۔
حاکم ؒ کی روایت کے علاوہ
مندرجہ بالا تمام احادیث ،لوگوں کے اسلام قبول کرلینے کی بات کرتی ہیں ،اس حدیث سے
مفہوم یہ ہے کہ گو وہ لوگ اسلام میں اعتقادی طور پر داخل نہ ہوں، لیکن اُنھیں جزیہ
دینے اور اسلام کی اطاعت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے گا۔اس طرح اس روایت کا
سیاق و سباق دیگر روایات سے جدا ہے۔مزید یہ کہ کسی کا اسلام کی اطاعت قبول کرلینے
کیلئے ناگزیر ہے کہ اسلامی ریاست کا وجود ہو،لہٰذا اس حدیث میں اسلامی ریاست کے
لوٹ آنے کی خبر ہے جس کا اقتدار تمام عالم پر ہوگا۔
تیسری حدیث:معلقہ نصوص کی حدیث:
حاکمؒ نے اپنی مستدرکؔ
میں حضرت عمر صسے نقل کیا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم ا کے ساتھ بیٹھے تھے کہ
آپ انے پوچھا:’’ سب سے اعلیٰ ایمان رکھنے والے کون ہیں؟‘‘ حضرت عمر صنے جواب دیا
کہ وہ فرشتے ہیں،آپ ا نے فرمایا:’’ وہ
ایسے ہیں اور یہ اُن پر حق ہے، جو اللہ نے اُنھیں مرتبہ دیا ہے تو پھر اُنھیں کیا
چیز اس سے روک سکتی ہے، لیکن بہترین ایمان والے کوئی اور ہیں۔‘‘ حضرت عمر صنے جواب دیا کہ وہ اللہ کے
انبیاء علیہم السلام ہیں،آپ ا نے فرمایا:’’ وہ ایسے ہیں اور یہ اُن پر حق ہے، جو
اللہ نے اُنھیں مرتبہ دیا ہے تو پھر اُنھیں کیا چیز اس سے روک سکتی ہے، لیکن
بہترین ایمان والے کوئی اور ہیں۔‘‘آپ ا نے فرمایا:’’ وہ لوگ وہ قوم ہیں جو پیٹوں
میں ہیں اور میرے بعد آئیں گے ، اُنھوں نے گو کہ مجھے دیکھا نہیں ہے لیکن اُنھیں
مجھ پر ایمان ہوگا،اُنھیں وہ نصوص ملیں گی جو معلق ہوں گی اور وہ اُس کے مطابق عمل
کریں گے، اُن کا ایمان بہترین ایمان ہے۔‘‘
اسی مضمون کی ایک حدیث
مسند البزّارؔ میں حضرت عمر صہی کی روایت کردہ ہے جس میںآپ انے فرمایا:’’۔۔۔وہ
قیامت کے دن بہترین ایمان اور بہترین درجات والے ہوں گے۔‘‘اس حدیث کے روایوں میں
ایک صحابی،تین تابعین اور تین تبع تابعین ہیں اور اس میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ
ریاستِ خلافت ختم ہوجانے کے بعد دوبارہ وجود میں آئے گی، یہ اشارہ ’’اور وہ اُن کے
مطابق عمل کریں گے‘‘یہاں لفظ ’’ما‘‘ استعمال کیا گیا ہے جو اس کی عمومیت پر دلالت
کرتا ہے،یعنی اُن نصوص میں جو کچھ بھی ہے اُس کے مطابق۔ اس میں ایک فرد کے تمام
فرائض شامل ہیں جیسے صوم و صلوٰۃ،ریاست کے فرائض، دعوت کا پہنچانا ، معاہدے کرنا
اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام نافذ کرنا جس کا ذمہ ریاست کو دیا گیا ہے۔پھر اس
میں یہ اشارہ بھی مضمر ہے کہ یہ کام خلافت کے مٹا دیا جانے کے بعد ہوگا، کہا گیا
کہ’’ اُُُنھیں وہ نصوص ملیں گی جو معلق (Hanging)ہوں
گی ‘‘یہاں ورقِ معلق سے
مراد قرآن اور سنت ہیں،جو صحابہ کرام ث کے زمانے میں موجود تھے۔عام طور پر یہ آیات
ورق پر لکھ کر دیواروں پر معلق تھیں اور یہی سلسلہ تابعین کے دور میں رہا۔ اُن کے
گھروں میں یہ آیات معلق تھیں اور اُن کے سامنے ایک ریاست تھی جو اِن آیات کو نافذ
کر رہی تھی، البتہ آج ہمیں یہ آیات تو ملتی ہیں لیکن اِنھیں نافذ کرنے والی ریاست
کا کوئی وجود ہمارے سامنے نہیں ہے،لہٰذا ہم اُس ریاست کو قائم کرنے کیلئے اِن آیات
کے مطابق کام کرتے ہیں۔اب اس حدیث کی رو سے ہمیں وہ اوراق ملے ہیں جو پوری طرح
معلق (Hanging & Suspended)ہیں۔لہٰذا
یہاں قوی ترین ایمان کی بشارت اُن لوگوں کیلئے ہے جو اِن متروکہ احکام کو
عملاًنافذ کریں گی۔
اس حدیث کے تعلق سے ایک
نکتہ کی وضاحت اہم ہے ، وہ یہ کہ لوگوں کا گروہ ملائکہ یا انبیاء سے بہتر نہیں ہے
کیونکہ جب ملائکہ اور انبیاء کا جواب دیا گیا توحضور انے فرمایا کہ ہاں وہ تو
ہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء اور ملائکہ کا ایمان اِس گروہ سے یقیناًاعلیٰ ہے،
لوگوں کا یہ گروہ انبیاء اور ملائکہ کے بعد سب سے ا علیٰ ایمان رکھتا ہے۔ مزید یہ
کہ اس اعلیٰ ایمان کے باوجود اُن کا درجہ صحابہ سے اونچا نہیں ہوسکتا ، کیونکہ
حضور انے اس گروہ کی برتری کو صرف ایمان کے تعلق سے اعلیٰ بتایا ہے ، جبکہ برتری
ایمان،تقوے اور اعمال سب کی ہوسکتی ہے۔اس گروہ کی برتری صرف ایمان کی حد تک اعلیٰ
بتائی گئی ہے کیونکہ وہ نبی ا کو دیکھے بغیر اِن معلق اوراق پر عمل کریں گے۔اگر
اِن تمام پیمانوں سے برتی کو دیکھا جائے تو بغیر کسی شبہ کے صحابۂ کرام ث سب سے
اعلیٰ تھے۔
چوتھی :خلافت کا ارضِ
القدسؔ میں آنا:
سنن ابی داؤد ؔ میں ابن
زغبی العیادی سے روایت ہے کہ علی عبداللہ بن حوالہ الازدی ص نے اُنھیں بتایا کہ
حضور اکرم انے اُنھیں مالِ غنیمت وصول کرنے کیلئے بھیجا اور انھیں مال نہیں ملا،
جب یہ حضورا کے پاس واپس پہنچے تو آپ انے اُن کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار دیکھے اور
اُٹھ کرکھڑے ہوئے اور دعا کی کہ اے اللہ تو اِنھیں میرے حوالہ نہ کر کیونکہ میں
اِن کی دیکھ بھال کیلئے کمزور ہوں،نہ ہی اِنھیں اِن ہی کے حال پر چھوڑ دے کیونکہ یہ
اپنی دیکھ بھال نہیں کر سکتے،نہ ہی تو اِنھیں لوگوں کے حوالہ کر کیونکہ لوگ بہترین
اشیاء اِنھیں نہ دے کر اپنے لئے رکھ لیں گے‘‘پھر اُن کے سر یا پیشانی پر اپنا دستِ
مبارک رکھا اور فرمایا:’’ اے ابن حوالہ جب تم دیکھو کہ خلافت ارضِ مقدس(القدس)آگئی
ہے تو زلزلہ ،آفات اور عظیم واقعات ہوں گے۔اُس وقت قیامت لوگوں سے اِس سے قریب
ہوگی جتنا میرا ہاتھ تمہارے سر سے ہے۔‘‘اسی روایت کو حاکمؒ نے بھی روایت کیا ہے
اور اس کی اسناد کو صحیح بتایا ہے۔ مسندِ
احمد اور حاکمؒ کی اسناد
یکساں ہیں،البتہ اسے شیخین نے روایت نہیں کیا ہے۔اگر یہ ابن زغبی ؔ عبداللہ(صحابی)
ہیں تو اس روایت میں دو صحابہ ہوئے، اور اگر یہ ان زغبی عبدالرحمٰن(تابعی) ہیں تو
روایت میں ایک صحابی اور دو تابعی ہوئے، دونوں صورتوں میں تین تبع تابعین ہیں۔
اس حدیث میں اشارہ ہے کہ
خلافت القدس آئے گی،اس سے بیشتر جو حضرت عمرا کے دور میں جبخلافت القدس پہنچی تھی
وہ دوسرا معاملہ تھا کیونکہ اس وقت زلزلہ وغیرہ کا حادثہ پیش نہیں آیا تھا۔یعنی
وہاں خلافت پھر آئے گی اور اِن واقعات کا ظہور ہوگا۔
پانچویں حدیث:دارالسلام
کے شام میں ہونے سے متعلق:
ابن حبانؒ نے اپنی صحیح
میں روایت کیا ہے کہ قیامت کے قریب مسلمانوں کا اصل مرکز (عقر) شام ؔ ہوگا،شام سے
مراد،اردنؔ ،سیریاؔ ،لبنانؔ ،فلسطینؔ اور عراقؔ کا کچھ حصہ ہے۔اس روایت کو ابو
نواس سمعان نے روایت کیا ہے۔اسی کو مسندِ احمد ؒ میں بھی سلمہ بن نفیل سے روایت
کیا ہے کہ ’’ بے شک مسلمانوں کا عقر شام ہوگا‘‘۔طبرانیؔ نے بھی اسے اِنھیں اسناد
سے روایت کیا ہے اور اس کے رجال کو ثقہ بتایا ہے۔اس کی اسناد میں دو صحابہ،دو
تابعین اور پانچ تبع تابعین آئے ہیں۔کیونکہ احادیث میں خطاب حضور اکرم ا کا ہوتا
ہے جس کی صداقت بالائے شبہ ہوتی ہے، یہ کہا جائے گا کہ پہلے جب خلافت شام میں تھی،یہاں
اُس کا ذکر نہیں ہے کیونکہ اُس وقت خلافت کا اصل مرکز مدینہ منورہ تھا، یعنی ان
احادیث میں بھی خلافت کے دوبارہ قیام کا اشارہ ہے اور اسلامی ریاست کے یہاں قائم
ہونے کا ثبوت ہے۔
چھٹی حدیث:عدل و انصاف کے متعلق:
چھٹی حدیث:عدل و انصاف کے متعلق:
مسند احمد ؒ میں معقل ابن
یسارصسے روایت ہے:
میرے بعدناانصافی دیر تک
خاموش نہیں بیٹھا رہے گا،یہ سر اُٹھائے گا۔جب جس قدر ناانصافی پیدا ہوگی ،اُس قدر
انصاف ختم ہوگا اور لوگ اسی بے انصافی کی دنیا میں پیدا ہوں گے اور اُنھیں اس
ناانصافی کے سوا کچھ نہ پتہ ہوگا،پھر اللہ تعالیٰ انصاف لائے گا،اس میں جس قدر انصاف
کیا جائے گا ،اس قدر ناانصافی ختم ہوتی جائے گی اور لوگ عدل کے عالم میں پیدا ہوں
گے اور اُنھیں اس عدل کے سوا کچھ نہ معلوم ہوگا۔
اس حدیث کے راویوں میں
ایک صحابی،ایک تابعی اور دو تبع تابعین ہیں اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ
کے نازل کردہ احکام سے روگردانی کی حکومت کے بعد پھر اسلام کی حکومت ہوگی۔ہم نے
دیکھ لیا کہ لوگ نانصافی کی دنیا میں پیدا ہورہے ہیں جنھیں صرف نانصافی ہی معلوم
ہے۔اللہ تعالیٰ جلد انصاف لائے گا اور اسلامی ریاست قائم ہوگی ہی اللہ تعالیٰ کے
نازل کردہ احکام نافذ ہوں گے جن پر غیر اسلام کا ذرا بھی اثر نہ ہوگا۔
اس حدیث سے یہ مطلب اخذ
کرنا صحیح نہیں ہوگا کہ عدل و انصاف بتدریج آئے گا اور اس درمیان ایک ہی جگہ عدل
اور بے انصافی ساتھ ساتھ رہے گی اور پھر عدل بے انصافی سے آزاد ہوجائے گا۔یہ اس
لئے صحیح نہیں ہے کہ عدل اور نانصافی ساتھ ساتھ نہیں رہتے اور نہ ہی اِن کے مرکب
کو عدل کہا جاتا ہے۔جو حاکم عوامی ملکیت کو غصب کرے اور پھر چور کے ہاتھ کٹوائے
اسے عادل حاکم نہیں کہا جاسکتا؛جو حاکم انفرادی اعمال کیلئے دعوت دینے والے گروہ
کو کام کرنے کی چھوٹ دے اور ایسے اسلامی تہذیب پر کتب چھاپنے کی تو اجازت دے لیکن
اسلام پر مبنی سیاسی جماعتوں کی بیج کنی کرے وہ بھی عادل حاکم نہیں ہو سکتا۔نہ ہی
وہ حاکم منصف ہو سکتا ہے جو بیرونی ممالک سے تو اسلحہ خریدے لیکن ریاست کے اندر
اُن کے بنائے جانے کی صنعت نہ بننے دے۔
ایسا حاکم بھی عادل نہیں ہو سکتا جو بنجر
زمین پر کھتی کیلئے سودی قرضہ کی اجازت دے۔ایسا حاکم جو مرد اور عورتوں کے کھلے
اختلاط کی اجازت دے اور پھر زنا کے مرتکب کیلئے حدود عائد کرے وہ بھی عادل نہیں
ہوسکتا۔لہٰذا اس حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہوگا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں ناانصافی
ہوگی اور ایک ایک حصہ کرکے وہاں انصاف قائم ہوتا رہے گا۔جیسے جیسے ایک حصہ اسلامی
ریاست میں شامل ہوتا جائے گا وہاں انصاف قائم ہوتا جائے گا۔
ساتویں حدیث:ہجرتِ
ابراہیمی اورہجرۃ بعد الہجرۃ کے متعلق:
سنن ابی داؤد میں حضرت
عبداللہ بن عمرو صسے روایت ہے کہ آنحضرت ا نے فرمایا:
ہجرت کے بعد ایک اور ہجرت
ہوگی،پس سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو حضرت ابراہیم ں کی ہجرت والی زمین (شام)کی طرف
ہجرت کریں گے۔
اس حدیث کو موسی ابن علی
ابن رباح نے اپنے والد پھر حضرت ابو ہریرہص،اور پھر حضرت عبداللہ ابن عمروص سے
روایت کیا ہے ،حاکم نے اس روایت کو شامل کیا اور شیخین کی شرط پرصحیح بتایا ہے گو
کہ شیخین نے اسے شامل نہیں کیا ہے۔نیز مسند احمد میں بھی مروی ہے۔اس کی اسناد میں
کم از کم پانچ تبع تابعین،تین تابعین اور دو صحابۂ کرام ہیں۔اس حدیث میں مدینہ کی
ہجرت کے بعد شام کی جانب ہجرت کیلئے اشارہ ہے جس کا مقصد دارالکفر کو چھوڑ کر دار
الاسلام کو ہجرت کرنا ہے،اور اس حدیث سے شام کے عقر ہونے والی حدیث کی تائید بھی
ہوتی ہے۔
آٹھویں حدیث:اجنبیوں کے
بارے میں:
حضرت ابو ہریرہ صسے صحیح
مسلم شریف میں نقل ہے کہ آنحضرت انے فرمایا:
(اِنَّ
الدِّیْنَ بَدَاء غَرِیْباً و سیعود غریباً فطوبی للغرباء)
بے شک دینِ اسلام اجنبی
حیثیت سے شروع ہوا اور یہ پھر اجنبی بن جائے گا،تو خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے۔
اسی حدیث کو سنن ابن ماجہ میں حضرت انس ابن مالک ص سے روایت کیا گیا ہے،ایک اور روایت حضرت عبداللہ سے نقل کی ہے جس میں آتا ہے:
اسی حدیث کو سنن ابن ماجہ میں حضرت انس ابن مالک ص سے روایت کیا گیا ہے،ایک اور روایت حضرت عبداللہ سے نقل کی ہے جس میں آتا ہے:
بے شک دینِ اسلام اجنبی
حیثیت سے شروع ہوا اور یہ پھر اجنبی بن جائے گا،تو خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے۔پوچھا
گیا کہ یہ اجنی کون ہیں؟ فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے قبیلوں سے علیحدہ ہو گئے
ہیں۔
اسے ترمذیؒ نے بھی مختلف اسناد سے نقل کیا ہے اور حسن صحیح بتایا ہے۔کثیر ابن عبداللہ اپنے والد اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ا نے فرمایا:
اسے ترمذیؒ نے بھی مختلف اسناد سے نقل کیا ہے اور حسن صحیح بتایا ہے۔کثیر ابن عبداللہ اپنے والد اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ا نے فرمایا:
دینِ اسلام سِمٹ کر حجازؔ
میں اس طرح آجائے گا جیسے سانپ اپنے بِل میں سمٹ جاتا ہے،اور دین حجاز سے اس طرح
جڑا ہوگا جیسے بکریاں پہاڑوں کی چوٹیوں سے۔
اسی روایت کو مسند احمد
میں حضرت ابو ہریرہ ص سے نقل کیا گیا ہے۔اس کی اسناد میں سات صحابۂ کرام،نو تابعین
اور نو تبع تابعین ہیں۔ یہاں یہ خبر دی گئی ہے کہ اسلام بحیثیت ریاست کے پھر لوٹ
کر اسی طرح آجائے گا جس طرح پہلی بار ایا تھا۔
ان تمام احادیث پر مجموعی
نظر ڈالیں تو ریاست اسلامی کی واپسی کی روایات اپنی کثرت کے باعث متواتر
ہیں۔مجموعی طور پر ان کی روایت میں ۲۵
صحابۂ کرام ثنے ان روایات کو ۳۹
تابعین تک پہنچایا اور اُنھوں نے ۶۲
تبع تابعین کو نقل کیں،جس میں تواتر قائم ہوتا ہے اور کسی قسم کے شک کی گنجائش
نہیں رہ جاتی۔ان کے علاوہ اور بھی متعد احادیث اس تواتر کو قوی تر کرتی ہیں جو
یہاں نقل نہیں کی گئیں ،مثلاً حاکمؒ نے ابی شریح سے نقل کیا ہے کہ میں نے سنا ہے
کہ بارہ پرچم ہوں گے اور ہر ایک پرچم تلے بارہ ہزار آدمی ہوں گے جو اپنے امام کے
ساتھ بیت المقدس میں جمع ہوں گے۔اس روایت کو حاکمؒ نے صحیح بتایا ہے۔ایک اور روایت
ابن عساکر نے مسیرہ ابن جلیس سے نقل کی ہے کہ حضور انے فرمایا:
’’یہ معاملۂ خلافت
میرے عد مدینہ میں جاری رہے گا پھر شام پہنچ جائے گا ،پھر جزیرۂ عرب آجائے گا،پھر
عراقؔ ،بلد(شہر)،پھر بیت المقدس جو اس کا ٹھکانہ ہوگا۔پھر جو لوگ اس کے مرکز کو
ہٹا دیں گے،اُنھیں اس کا مرکز پھر کبھی حاصل نہ ہوگا۔‘‘یہاں بلد سے غلباً شہرِ
ہرقل یا اسطنبول مراد ہے۔نیز ابن عساکر ؒ نے عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ المزنی سے
نقل کیا ہے کہ:’’پھر بیت المقدس میں (صحیح)بیعت ہوگی۔‘‘حاکمؒ نے حضرت ابو ہریرہ ص
سے نقل کیا ہے کہ حضور اقدس نے فرمایا:’’اگر ایک سنگین جنگ ہوئی تو دمشق سے بہترین
گھڑ سوار عربوں کا ایک جھنڈ آئے گا جو اسلحہ میں ماہر ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اُن
سے دین کی مدد لے گا۔حاکمؒ نے ایک اور روایت حضرت عبداللہ بن عمرو ص سے نقل کی ہے
اور اسے صحیح بتایا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ’’ ایک وقت ایسا آئے گا جب ایک بھی مومن
ایسا نہ ہوگا جو شامؔ کا رخ نہ کرے۔‘‘
لہٰذا بشارت ہے اُن لوگوں کیلئے جو پورے اخلاص کے ساتھ
اُن لوگوں کے ساتھ کام کریں جو ریاستِ اسلامی کو صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے
دوبارہ قائم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔وہ اس لئے اس کام میں لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ
اس کا شمار اُن اجنبیوں میں کرلے جو اپنے قبیلہ سے ہٹے اور اللہ تعالیٰ نے اُن سے
اس دین کی خدمت لی۔بدبخت ہے وہ جو کفار اور منافقوں کا ساتھ دے جو اس کام میں روڑے
کھڑے کرتے ہیں۔ بے شک خسارے میں وہ ہے کو خاموش تماشہ بین کی طرح دیکھتا ہے کہ ہوا
کا رخ کس طرف ہے اور اپنی خواہشات کے پیچھے لگا ہے۔
خلافت واپسی کی بشارتیں
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
10:53 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: