قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام




قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام

 

قرآن کریم اللہ رب العزت کا کلام ہے جو لفظاً اور معناً بذریعہ وحی حضرت جبرائیل حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کے پاس لائے اس کی تلاوت عبادت ہے ، یہ کلام معجز ہ ہے اور تواتر کے ساتھ منقول ہے۔


(لَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ م بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ ط تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ )

باطل اس تک نہ اس کے آگے سے آسکتا ہے نہ اس کے پیچھے سے؛ تنزیل ہے اس کی طرف سے جو نہایت حکمت والا،ستودۂ صفات ہے۔

(فصِّلت: آیت:۴۲)

اور اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ لے رکھا ہے چنانچہ فرمایا:

(اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِکْرَ وَ اِنَّا لَہ، لَحٰفِظُوْنَ خ)

یہ یاد دہانی ہم نے نازل کی ہے، اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔( الحجر: آیت:۹)

قرآن کریم مردہ لوگوں کے لیے آب حیات اور پژمردہ دلوں کیلئے طمانیت بخش ہے۔ لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے تاریکی سے روشنی کی طر ف لاتا ہے اور راہ مستقیم پر گامزن کرتا ہے ۔جس کا قول قرآن کے مطابق ہے وہ صادق ہے،جو اس کے احکامات پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ کامیاب ہے ،جو اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے وہ عادل اور انصاف پرور ہے اور جو قرآن کی جانب دعوت دیتا ہے وہ صراط مستقیم کی طرف دعوت دینے والاہے ۔

یہی ایک مسلم کا زاد راہ ہے جو داعی کیلئے اور بھی ضروری ہوجاتا ہے جس سے قلوب کو تقویت حاصل ہوتی ہے، اس سے ایک مسلم کے بازو مضبوط ہوتے ہیں اور حاملین دعوت طاقت و قوت کے پہاڑ بن جاتے ہیں اللہ کی راہ میں دنیا ان کے سامنے ہیچ ہو جاتی ہے پھر وہ حق بات کہتے ہیں اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے ۔وہ شخص جس کو ہوا پتوں کی مانند ہلا دیا کرتی ہے قرآن کے ذریعہ اللہ کے نزدیک احد کے پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہو جاتا ہے اس لیے کہ وہ قرآن کی تلاوت کرنے والا ہے اس کی زبان پر قرآن جاری و ساری رہتا ہے ،یہی صحابہ کرامؓ کا طرۂ امتیاز تھا کہ وہ دنیا میں ایسے زندگی بسر کرتے تھے گویا جیتا جاگتا قرآن ہوں وہ قرآنی آیات میں غور و فکر کرتے تھے اور حقیقی معنوں میں اس کی تلاوت کرتے تھے ، اس کے مطابق اپنی زندگی گزارتے تھے،اور اس کی ہی طرف دعوت دیتے تھے ، عذاب کی آیتوں سے ان کے دل دہل جاتے تھے ، اور رحمت کی آیتوں سے ان کے دن روشن اور معمور ہو جاتے تھے۔ قرآن کے اعجاز اور اس کی عظمت کے خوف سے ان کی آنکھیں اشکبار ہو جاتیں تھیں۔

انہوں نے قرآن نے بذات خود پیغمبر عالم ا سے حاصل کیا تھا چنانچہ قرآن کی آیات ان کے دلوں میں رچ بس گئیں تھیں اور وہ قدم قدم پر ان سے ہدایت حاصل کرتے تھے اسی لیے وہ دنیا میں باعزت ہوئے اور دنیا کی سیادت کے حقدار بنے بلند درجات پر فائز ہوئے اور دونوں جہاں کی کامیابی سے سرفراز ہوئے ،رسول اکرم ا کی وفات کے بعد وہ قرآن پر ایسے ہی جمے رہے جس طرح آپ ا نے ان کو وصیت کی تھی چنانچہ یہی لوگ قرآن کے حقیقی محافظ قرار پائے ۔ صحابہ معروف کا حکم دیتے اور منکر سے روکتے تھے۔در حقیقت حامل قرآن ہی نیکی کے کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں اور اللہ کی راہ میں آنے والی پریشانیوں کو برداشت کرنے والے بھی حامل قرآن ہی ہوتے ہیں۔مسلمانوں کیلئے عمومی طور پر اور داعی کے لیے خصوصی طورسے یہ ضروری ہے کہ قرآن سے ان کے دلوں میں شادابی رہے قرآن ان کی زندگی کا ہمسفر ہو ، ہر خیر کی طرف رہنمائی کرنے والا ہوقدم بہ قدم منزل بہ منزل ان کے درجات کی بلندی کا باعث ہو۔
یہاں چند آیات و احادیث کا تذکرہ کیا جا تا ہے جن کا تعلق نزول قرآن سے ہے جن کے اندر اس کی حفاظت اور اس کے ذریعہ ہدایت حاصل کرنے کا بیا ن ہے جن میں تلاوت قرآن کے فضائل کا ذکر ہے جن کے اندر باران رحمت کے چشمے جاری ہیں جن سے خیر کی ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں اورجن کے ارد گرد فضل و احسان کے گھٹائیں سایہ فگن ہیں :

(نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ لا خ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ خ )

’’اسے (قرآن)امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے آپ کے دل پر اتارا ہے تاکہ آپ آگاہ کر دینے والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘

(الشعراء: آیت:۱۹۴،۱۹۳)

(اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِکْرَ وَ اِنَّا لَہ، لَحٰفِظُوْنَ خ)

یہ یاد دہانی ہم نے نازل کی ہے، اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔( الحجر: آیت:۹)

(لَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ م بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ ط تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ )

باطل اس تک نہ اس کے آگے سے آسکتا ہے نہ اس کے پیچھے سے؛ تنزیل ہے اس کی طرف سے جو نہایت حکمت والا،ستودۂ صفات ہے۔

(فصِّلت: آیت:۴۲)

(اِنَّ ھٰذا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا خ)

’’یقینایہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوش خبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے ۔‘‘
(بنی اسرآئیل: آیت:۹)

( قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْن مِنَ الْکِتٰبِ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍ ط۵ قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَ کِتٰبٌ مُبِیْنٌ لاخ یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہ، سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلٰی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَیَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ خ) المائدۃ (۱۵۔۱۶)۔

’’یقیناًتمہارے پاس ہمارے رسول اآ چکے ہیں ، جو تمہارے سامنے کتاب اللہ کی بہ کثرت باتیں ظاہر کر رہے ہیں جنہیں تم چھپا رہے ہو اور بہت سی باتوں سے درگزر کر تے ہیں ، تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آ چکی ہے ، جس کے ذریعہ سے اللہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہ بتاتا ہے جو رضاء الٰہی کے درپے ہوں اور اپنی توفیق سے اندھیروں سے نکال کر نور کی طر ف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔‘‘

(المائدۃ: آیت:۱۶،۱۵)

(اآرٰ قف کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخِرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ لا۵ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ لا خ )

’’یہ کتاب ہے جس کو ہم نے تمہا ری طرف نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو تاریکی سے روشنی کی طرف نکالواپنے رب کے حکم سے اس ذات کے راستے کی طرف جو غالب اور قابل تعریف ہے (ابرٰھیم: آیت:۱)

(اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوْبُ)

’’سن لو!اللہ کے ذکر ہی سے دلو ں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔‘‘ (الرعد: آیت:۹)

(اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرَ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتُلَافًا کَثِیْرًا)

’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے ؟اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے نازل ہوا ہوتا تو یقیناًاس میں بہت اختلاف پاتے۔‘‘ (النساء: آیت:۸۲)

امام بخاری ؒ حضرت عثمان بن عفانؓ سے روایت کرتے ہیں کہ  رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا

((خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ))

تم میں سے سب سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔

عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ  رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا :

((من قرأحرفاً من کتاب اللہ فلہ بہ حسنۃ والحسنۃ بعشر أمثالھا لا أقول أ لم حرف، ولکن ألف حرف، ولام حرف، ومیم حرف))

’’جس نے کتاب اللہ سے ایک حرف بھی پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے میں یہ نہیں کہتا کہ اآم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔‘‘(ترمذی )

حضرت عائشہؓؓ ؓ فرماتی ہیں:

((الماھر بالقرآن مع السفرۃ الکرام البررۃ، والذي یقرأ القرآن وھو یتعتع فیہ وھو علیہ شاق لہ أجران))

’’قرآن کا ماہر برگزیدہ اور قرآن لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے مگر اس کے ساتھ لکنت ہے اور پریشانی ہوتی ہے ایسے شخص کے لیے دو اجر ہیں ۔(مسلم)

((إن الذی لیس في جوفہ شيء من القرآن کالبیت الخرب)) 

یقیناًوہ شخص جس کے پا س قرآن نہیں ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک ویران عمارت۔‘‘(ترمذی)

ابو امامہ الباہلی سے مسلم شریف میں روایت ہے کہ :

((إقرأوا القرآن فإنہ یاتي یوم القیامۃ شفیعاً لصاحبہ))

قران کی تلاوت کیاکر وکیونکہ آخرت میں یہ اپنے پڑھنے والے کی شفاعت کرے گا۔‘‘(مسلم) ابن حبان میں حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ :

((القرآن شافع مشفع، وماحل مصدق، من جعلہ أماتہ قادۃ إلی الجنۃ ومن جعلہ خلفہ ساقہ إلی النار))

’’قرآن شفاعت کرنے والا ہے،جھگڑا کرے گا اور تصدیق کرے گا ، جس نے اس کو اپنے سامنے رکھا (اس کی تلا وت کرتا رہا )اس کی جنت کی طرف رہنمائی کرے گا، اور جس نے اس کو پس پشت ڈال دیا ان کو جہنم میں ڈھکیل دے گا۔‘‘(ابن حبان )

((إن اللہ یرفع بھذا الکتاب أقواماً ویضع بہ آخرین))

اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ قوموں کو سربلندی عطا کرتا ہے اور اسی کے ذریعہ قوموں کو زوال سے دوچار کرتا ہے۔(مسلم)

 رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا:

((یقال لصاحب القرآن إقرأ وارتق ورتل کما کنت ترتل في الدنیا، فإن منزلتک عند آخر آیۃ تقرؤہا))۔

’’صاحب قرآن سے کہا جا ئے گا قرآن پڑھتے جاؤاور درجات پر چڑھتے جاؤاور اس ترتیل سے پڑھو جس طرح دنیا میں پڑھا کرتے تھے ، بیشک تمہارا مقام وہاں ہوگا جہاں پر تمہارا پڑھنا ختم ہو جائے گا ۔‘‘(ابو داود ترمذی)

عبدالرحمن بن شبلؓ سے مروی ہے کہ :

((إقرأوا القرآن واعلموا بہ ولا تجفوا عنہ ولا تغلوا فیہ ولا تأکلوا ولا تستکثروا بہ))

قرآن کی تلاوت کرو اور اُس پر عمل پیرا رہو، اسے ترک نہ کر دو اور نہ اُس میں غلو کرو اور نہ ہی اسے کھانے کمانے کا ذریعہ بناؤ۔

ابو موسی اشعری سے مروی ہے کہ

((مثل المؤمن الذی یقرأ القرآن مثل الأترجۃ طعمھا طیب وریحھا طیب، ومثل المؤمن الذی لایقرأ القرآن مثل التمرۃ طعمھا طیب ولاریح لھا، ومثل المنافق الذی یقرأ القرآن مثل الریحانۃ ریحھا طیب وطعمھا مر، ومثل المنافق الذی لا یقرأ القرآن کمثل الحنظلۃ طعمھا مر ولا ریح لھا))

 :’’اس مؤمن کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے اس پھل (اترجہ)کی مانند ہے جو ذائقہ دار اور خوشبو دارہوتا ہے ،اس مؤمن کی مثال جو قرآن کی تلاوت نہیں کرتا کھجور کی مانند ہے جو کہ ذائقہ دار تو ہے مگر اس میں خوشبو نہیں ہوتی ، اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ایسے پھل (ریحان)کی مانند ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے مگر مزہ کڑوا ہوتاہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس ایلو کے پھل کی طرح ہے جس کامزہ بھی کڑوا ہے اور اس میں خوشبو بھی نہیں ہوتی ۔‘‘(بخاری ، مسلم )

((تعاھدوا القرآن فوالذی نفس محمد بیدہ لھو أشد تفلتاً من الإبل في عقلھا))

قرآن کی تلاوت کیا کرو،قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے،قرآن کو فراموش کردینا اس سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے کہ ایک اونٹ اپنی رسی چھڑا کر بھاگ جائے۔

یہ آیات اور احادیث قرآن کے عظیم مرتبہ اور منزلت کو بیان کرتی ہیں اورقرآن کے پڑھنے والے کے عظیم الشان درجات کو بیان کرتی ہیں ، جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے ، اس میں غور و فکر کرتا ہے اس پر عمل کرتا ہے حضر و سفر میں اس کو ساتھ رکھتاہے چنانچہ نیکی کی راہ میں وہ ایک زبردست طاقت بن کر سامنے آتا ہے ، قرآن کو طاق کی زینت نہیں بناتا ہے کہ اس پر گردوغبار کی تہہ جم جائے یا اس کو خوب آرائش کے ساتھ رکھے او رخوبصورت غلاف میں قید کر دے اور پھر اس کو بھلا دیا جائے معاذاللہ ایسا شخص خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔

اے میرے بھائیو!قرآن کو مضبوطی سے پکڑو ،تلاوت کا حق ادا کر و او ر اور اس میں تدبر و غور کرو ، اس پر عمل کر و اس کو لاز م کرلو تاکہ تمہاری بھی مثال اس پھل کی طرح ہو جائے جو ذائقہ دار بھی ہو اور خوشبودار بھی ، پھر تم دنیا کے اندر داعیانِ اسلام کی پہلی صف میں ہوگے اور آخرت میں بھی جنتیوں کی پہلی صف میں تمہارا نام ہوگا اور تم سے کہا جائے گا ’’قرآن کو پڑھتے جاؤ اور جنت کی بلندمنزلوں پر چڑھتے جاؤ‘‘اس طرح اللہ کی رضا اور اس کی مدد تمہارے ساتھ ہوگی اور کامیابی تمہا رے قدم چومے گی۔

(وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ)

اہلِ ایمان کو بشارت دے دو۔

(الصف: آیت:۱۳)





قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام Reviewed by خلافت راشدا سانی on 11:50 AM Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.