اللہ اور اس کے رسول سے محبت



 اللہ اور اس کے رسول سے محبت

امام زہری ؒ فرماتے ہیں :’’بندے کی اللہ اور رسول سے محبت کے معنی ان کی فرماں برداری اور ان کے احکام کی تابعداری ہے ۔‘‘ علامہ بیضاوی ؒ فرماتے ہیں :’’محبت اطاعت کا نام ہے۔‘‘ابن عرفہؔ کہتے ہیں :’’اہل عرب کے نزدیک محبت کے معنی کسی چیز کا ارادہ کرنا اور اس کا قصد کرناہے۔‘‘الزجّاجؔ فرماتے ہیں :’’انسان کی اللہ اور اس کے رسول سے محبت کے معنی ان کی اطاعت وفرماں برداری کرنا اور جن چیزوں کا رب العزت نے حکم دیااور جو چیزیں رسول اکرم
  (صلى الله عليه وسلم)لے کر آئے ہیں ان سے راضی بہ رضا ہونا ہے ۔‘‘

اس کے برعکس اللہ کا اپنے بندوں سے محبت کرنے کا مطلب اپنے بندے کو معاف کرنا اور اس سے راضی ہونا اوراسے ثواب و نیک بدلہ عطا کرنا ہے۔امام بیضاوی ؒ فرماتے ہیں :یحببکم اللہ بغفرلکم(اللہ تم سے محبت کرتا ہے اور تم کو بخشتا ہے یعنی تم سے راضی ہوتا ہے)۔امام زہریؔ کہتے ہیں :’اللہ کا اپنے بندں سے محبت کرنے کے معنی ان کے گناہوں کو معاف کرکے ان پر انعام واکرام کرنا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتاہے

((فَإِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ الْکَافِرِیْن))

اللہ کافروں کو ناپسند کرنا ہے۔‘‘(آل عمران:۳۲)

سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں :یحبب کم اللہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تم کو اپنی قربت نصیب کرے گا، اور محبت بمعنی قربت ہے محبت ہی اصل میں قربت کا نام ہے ۔اور اللہ نافرمانوں سے محبت نہیں کرتا یعنی ان کو قربت عطا نہیں کرے گا۔‘‘امام بغویؔ محبت ا لٰہی کے تعلق سے کہتے ہیں :اللہ کامومنوں سے محبت کرنا یعنی مومنین کی تعریف کرنا ، ان کو ثواب دینا اوران کے گناہوں کو معاف کرنا ہے ۔‘‘الزجّاج کہتے ہیں :’’اللہ اپنی مخلوق سے محبت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ ان کی خطاؤں کو معاف کرتا ہے، اپنی رحمتوں کا انعام کرتا ہے ، ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور بہترین تعریف کرتاہے ۔‘‘

یہاں جو محبت مقصود ہے وہ بندے کا اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنا ہے اور مذکورہ معنوں کے مطابق یہ محبت بندے پر فرض ہے ۔یہ محبت ایک طبعی میلان ہے جس سے نفس انسانی مرکب ہے ۔یہ میلان یا تو جبلّی ہوسکتے ہیں جیسے ملکیت کی چاہت ،اپنی بقاء کا احساس ، انصاف پسندی اور اپنے اہل و عیال سے محبت وغیرہ جیسے فطری رجحانات جو کسی مخصوص فکر سے جڑے ہوئے نہیں ہیں،یا پھریہ میلا ن کسی خاص تصور یا فکر سے مربوط ہو سکتے ہیں جو اس میلان کی نوعیت متعین کرتے ہیں۔مثلاً امریکہ کے اصلی باشندے (Red Indians) یوروپ کے مہاجرین کو ناپسند کرتے تھے،جبکہ مدینے کے انصار مکہ کے مہاجرین سے بھائیوں جیسی محبت کرتے تھے۔اللہ اور اس کے رسول سے محبت کو شریعت نے ایمان کا حصہ بتایا ہے اور اسے فرض قرار دیا ہے، اس کی دلیل قرآن حکیم کی یہ آیات ہیں:

(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّونَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓ اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ)

’’اور لوگوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مد مقابل بناتے ہیں اوران کے ایسے گرویدہ ہیں جیسی اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے حالانکہ اہل ایمان سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔‘‘
(البقرۃ:آیت ۱۶۵)

(قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ ِ ناقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبُّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَالْفٰسِقِیْنَ خ )

’’اے بنی !آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہا رے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں تم کو اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں جہاد سے عزیز تر اور محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔‘‘ (توبہ:آیت۲۴)

اور احادیث نبوی میں بھی اس کی صراحت موجود ہے،حضرت انس سے مروی ہے کہ :

((أن رجلاً سأل النبی اعن الساعۃ، فقال: متی الساعۃ؟ قال: وماذا أعددت لھا؟ قال: لا شيء، إلا أني أحب اللہ ورسولہ، فقال أنت مع من أحببت۔قال انس ص فما فرحنا بشئیٍ فرحنا بقول النبیا أنت مع من احببت ۔ قال انس ص فأنا احب النبیا و أبا بکر و عمر ث و أرجوا أن اکون معھم بحبي إیاھم و إن لم أعمل بمثل أعمالھم))۔

ایک شخص نے نبی  (صلى الله عليه وسلم)سے قیامت کے بارے میں سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی؟آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا:’’تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے ۔‘‘اس نے جواب دیا کہ :’’کچھ نہیں ،مگر میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں ‘آپ   (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا :’’تم ان کے ساتھ ہوگے جن سے محبت کرتے ہو۔‘‘ حضرت انسؓ کہتے ہیں ہم کسی چیز سے اتنا خوش نہیں ہوئے جتنا اآپ اکے اس فرمان سے ہمیں خوشی ہوئی ۔میں نبی ا ،حضرت ابو بکرؓ ؓ اور عمرؓ سے محبت کرتا ہوں اور امید کرتاہوں کہ اس محبت کی بناء پر میں آخرت میں ان کے ساتھ ہوں گا،اگرچہ میں نے ان کے جیسے اعمال اور کارنامے انجام نہیں دئیے۔‘‘(متفق علیہ)

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہآپ   (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا :
))  ثلاثۃ من کن فیہ، وجد حلاوۃ الإیمان: من کان اللہ ورسولہ أحب إلیہ مما سواھما، وأن یحب المرء لا یحبہ إلا اللہ، وأن یکرہ أن یعود في الکفر کما یکرہ أن یقذف في النار)) 
’’ جس شخص کے اندر تین چیزیں موجود ہوں اس نے حلاوتِ ایمانی کا مزہ چکھ لیا:ایک وہ جس کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول دوسروں سے زیادہ محبوب ہوں ،اور دوسرے وہ جس کی محبت صرف اللہ کے لیے مخصوص ہوتیسرے وہ جوکفر میں لوٹنے کو ایسے ہی ناپسند کرتا ہو جیسے کہ آگ میں ڈالے جانے کو۔‘‘ (متفق علیہ)

حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ انے فرمایا:

((لا یؤمن عبد حتی أکون أحب إلیہ من أھلہ ومالہ والناس أجمعین))

’بندہ مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے گھر والوں ،اس کے مال ودولت اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
اصحاب رسول اس فرض کی ادائیگی کے لیے دیوانہ وار لپک پڑتے تھے اور اس منزلت کو حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ ان کا شمار ان لوگوں میں سے ہو جائے جن سے اللہ اور  رسول اللہ   (صلى الله عليه وسلم)محبت کرتے ہیں۔

(لما کان یوم أحد، أنھزم الناس عن النبی ا و أبو طلحۃ بین یدي النبی ا مجوّب بہٖ علیہ بحجفۃ لہ، وکان أبو طلحۃ رجلاً رامیاً شدید القدّ،یکسر یومئذٍ قوسین أو ثلاثاً، وکان رجل یمر،معہ جعبۃ من النیل،فیقول انشرھا لأبی طلحۃ۔ فأشرف النبی ا ینظر الی القوم،فیقول ابو طلحۃ: یا نبي اللہ بأبی و أمي،لا تشرف یصیبک سھم من سھام القوم، نحري دون نحرک۔۔۔)

حضرت انس کہتے ہیں :غزوۂ احد کا دن تھا اورآپ   (صلى الله عليه وسلم) کے پاس سے لوگ منتشر ہو کر ادھر ادھر بکھر گئے تھے ، صرف ابو طلحہؓآپ   (صلى الله عليه وسلم)کے ساتھ تھے جو کہ اپنی ڈھال کے ذریعہ آپ کو دشمنو ں سے بچا رہے تھے۔اور ابو طلحہ ماہر تیر انداز تھے۔اس دن ان کے ہاتھوں دو یا تین کمانیں ٹوٹ گئیں تھیں ۔جب کوئی تیروں کا ترکش لئے پاس سے گزرتاتوکہتے :ابو طلحہ کے لیے تیروں کو پھیلا دوآپ   (صلى الله عليه وسلم) لوگوں کی جانب جھانک رہے تھے تو ابو طلحہ نے کہا اے اللہ کے رسول ا میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں ان کی جانب نہ دیکھیں کہیں کوئی تیر آپ کو نہ لگ جا ئے میرا سینہ آپ کے سینے کے آگے رہے۔ (متفق علیہ)

قیس سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو طلحہ کے وہ ہاتھ دیکھے جو احد کے دنآپ 
 (صلى الله عليه وسلم)کی حفاظت کر رہے تھے،وہ ہاتھ شل ہو چکے تھے۔(بخاری)

((۔۔۔حتی إذا طال علي ذلک من جفوۃ الناس،مشیت حتی تسورت جدار حائط أبی قتادۃ،وھو ابن عمي،اأحب الناس إلي،فسلمت علیہ فواللّٰہ ما رد علي السلام،فقلت: یا أبا قتادۃ، أنشدک باللّٰہ، ھل تعلمنی أحب اللّٰہ ورسولہ؟ سکت فعدت لہ فنشدتہ،فسکت،فعدت لہ فنشدتہ،فقال: اللّٰہ و رسولہ أعلم،ففاضت عیناي،وتولیت حتی تسورت الجدار))

کعب بن مالکؓ کی حدیث (وہ مشہور حدیث جس میں ۳ افراد کا ذکر ہے جو کہ غزہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے اور جن کے معاملہ کو موخر کر دیا گیا تھا، کعب بن مالک ان میں سے ایک ہیں ۔)جس میں کعب فرماتے ہیں :جب لوگوں کی قساوت بڑھ گئی تو میں چلا اور ابو قتادہ کے باغ کی دیوار پرچڑھ گیا ، ابو قتادہ میرے چچا کے لڑے تھے اور میرے نزدیک بہت محبوب تھے ۔چنانچہ میں نے ان کو سلام کیا ، اللہ کی قسم انہوں نے سلام کا جواب نہ دیا ، میں نے ان سے کہاَ :اے ابو قتادہ اللہ کا واسطہ دیتا ہوں تم نہیں جانتے کہ میں اللہ و رسول کو محبوب رکھتا ہوں ‘‘وہ خاموش رہے میں نے پھر پوچھا اور اللہ کا واسطہ دیا ،وہ چپ رہے میرے مزید اللہ کا واسطہ دے کر پوچھنے پر وہ بولے :’’اللہ اور اس کے رسول زیاد ہ بہتر جانتے ہیں ۔‘‘یہ سن کر میرے آنسو نکل پڑے میں واپس مڑا اور دیوار پھاند کر نکل آیا ۔ (متفق علیہ)
سہل بن سعدؓ نے ابو حازم کو خبر دیتے ہوئے کہا :

أن رسول اللہا قال یوم خیبر:  
((حدثنا قتیبۃ بن سعید حدثنا یعقوب بن عبد الرحمٰن عن أبي حازم قال أخبرني سھل بن سعد رضی اللہ عنہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال یوم خیبر لأعطین ھذہ الرایۃ غداً رجلاً یفتح اللہ علی یدیہ یحب اللہ ورسولہ ویحبہ اللہ ورسولہ قال فبات الناس یدوکون لیلتھم أیھم یعطاھا فلما أصبح الناس غدوا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کلھم یرجو أن یعطاھا فقال أین علی بن أبي طالب فقیل ھو یا رسول اللہ یشتکي عینیہ قال فأرسلوا إلیہ فأتي بہ فبصق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في عینیہ ودعا لہ فبرأ حتی کأن لم یکن بہ وجع فأعطاہ الرایۃ فقال علی یا رسول اللہ أقاتلھم حتی یکونوا مثلنا فقال أنفذ رسلک حتی تنزل بساحتھم ثم ادعھم إلی الإسلام وأخبرھم بما یجب علیھم من حق اللہ فیہ فو اللہ لأن یھدی اللہ بک رجلاً واحداً خیر لک من أن یکون لک حمر النعم))

خیبر کے دن رسول اللہ انے فرمایا :میں یہ پرچم کل ایسے شخص کو دوں گا جس کے ذریعہ اللہ فتحیابی عطا فرمائے گا ۔جو اللہ اور اس کے رسول سے بے انتہا محبت رکھتا ہے۔‘‘، حضرت سہل فرماتے ہیں کہ وہ رات لوگوں نے بڑی بے چینی سے گزاری کہ پرچم کس کو دیا جائے گا ، صبح کے وقت لوگ  رسول اللہ
   (صلى الله عليه وسلم)کے پاس گئے اور تمام لوگوں کی یہی خواہش تھی کہ یہ عَلَم ان کو ملے۔آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا :علی بن ابی طالب کہاں ہیں۔‘‘تو لوگوں نے کہا ان کی آنکھوں میں تکلیف ہےآپ   (صلى الله عليه وسلم) نے ان کو بلوا بھیجا چنانچہ حضرت علی کو لایا گیاآپ  (صلى الله عليه وسلم)نے حضرت علی کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اور دعا کی ، حضرت علی کی آنکھیں ایسے ٹھیک ہو گئیں جیسے ان میں کوئی تکلیف ہی نہ رہی ہو۔آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے حضرت علی کو علم فتح عطا کیا۔حضرت علی نے کہا :اے اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم)!میں ان سے اس وقت تک جہاد کرتارہوں گا جب تک وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں توآپ   (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا :اپنے لشکر کو لے جاؤاور ان کے میدانوں میں اترو پھر ان کو اسلام کی دعوت د واور اس بات کی خبر دو کہ اللہ کے حق میں ان پر کیا چیزیں فرض ہوتی ہیں ، اللہ کی قسم اگر اللہ تمہارے ہاتھوں کسی ایک شخص کو بھی ہدایت دے تو تمہارے لیے سرخ اونٹ سے بہتر ہے ۔‘‘(متفق علیہ)

روی ابن حبان في صحیحہ:(۔۔۔ فرجع عروۃ بن مسعود إلی أصحابہ،فقل: أی قوم،واللّٰہ وفدت إلی الملوک، ووفدت إلی کسری و قیصر والنجاشی،واللّٰہ ما رأیت ملکاً قط یعظمہ أصحابہ ما یعظم أصحاب محمد محمداً، و واللّٰہ إن یتنخم نخامہ إلا وقعت فی کف رجل منھم،فدلک بھا وجھہ وجلدہ،وإذا أمرھم ابتدروا أمرہ،و إذا توضأ اقتتلوا علی وضوۂ،و إذا تکلم خفضوا أ(صواتھم عندہ، وما یحدون إلیہ النظر تعظیماً لہ۔۔۔
 
ابن حبان نے اپنی صحیح میں ذکر کیاہے کہ حضرت عروۃ بن مسعودؓ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آئے اور کہا:کونسی قوم ہے، اللہ کی قسم میں بادشاہوں کے دربار میں گیا قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں حاضری دی نجاشی کے دربار میں گیا مگر اللہ کی قسم ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کے حواری اور ساتھی اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد کے ساتھی محمد کی کرتے ہیں اور قسم خدا کی اگر وہ تھوکتے بھی ہیں تو آدمی ان کو اپنے ہاتھوں میں لے کر چہرے اور جسم پر مل لیتے ہیں ،جب کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو اس کی تعمیل کے لیے لپک پڑتے ہیں جب وہ وضو کرتے ہیں تو لوگ وضو کے قطرات پر چھپٹ پڑتے ہیں اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو ان کے ساتھیوں کی آواز پست ہوتی ہے ، عزت و احترام کا یہ معاملہ ہے کہ نظر بھر کر دیکھتے بھی نہیں ۔‘‘

محمد ابن سیرین قال:تذاکر رجال علی عھد عمر ص فکأنھم فضلوا عمر علی ابی بکر ث،قالفبلغ ذلک عمر بن الخطاب ص، فقال: واللّٰہ للیۃ من أبي بکر خیر من آل عمر، لقد خرج رسول اللّٰہ لینطلق إلی الغار و معہ ابو بکر،فجعل یمشی ساعۃ بین یدیہ و ساعۃ خلفہ حتی فطن لہ رسول اللّٰہ ا فقال:یا أبا بکر مالک تمشي ساعۃ بین یدي و ساعۃ خلفي: فقال:یا رسول اللّٰہ أذکر الطلب فأمشي خلفک ثم أذکر الرصد فأمشي بین یدیک،فقال:یا أبا بکر لو کان شیء أحببتَ أن یکون بک دوني؟ قال: نعم،والذي بعثک بالحق ما کانت لتکون من ملمۃ إلا أحببتُ أن تکون بي دونک،فلما انتھیا ألی الغار،قال أبو بکر: مکانک یا رسول اللّٰہ،حتی أستبريء لک الغار،فدخل واستبراہ،حتی إذا کان في أعلاہ،ذکر أنہ لم یستبريء الجحر، فقال:مکانک یا رسول اللّٰہ حتی أستبريء الجحر، فدخل وأستبراہ ثم قال: انزل یا رسول اللّٰہ ،فنزل،فقال عمر ص:والذي نفسي بیدہ،لتلک اللیلۃ خیر من آل عمر۔(الحاکم فی المستدرک وقال صحیح الإسناد علی شرط الشیخین لولا إرسال فیہ) و ھذا مرسَل مقبول۔
محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ :’’حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں لوگ ایسی گفتگو کیا کرتے تھے گویا کہ وہ عمرؓ کو حضرت ابو بکرؓ پر فضیلت دے رہے ہوں ۔جب یہ بات عمرؓ فاروق کو معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا :’’اللہ کی قسم!ابوبکر کی ایک رات عمرؓ کے خاندان سے بہتر ہے۔جب رسول اللہا حضرت ابو بکرؓ کے ساتھ(ہجرت کے موقع سے)غار ثور کی طرف نکلے تو حضرت ابو بکرؓ کبھی آپ کے آگے چلتے پھر کچھ دیر بعد آپ کے پیچھے چلنے لگتے۔رسول اللہا نے اس بات کو محسوس کیا اور کہا :’’اے ابوبکر !کیابات ہے کہ کبھی تم میرے آگے چلنے لگتے ہو اور پھر پیچھے ہو جاتے ہو ۔‘‘ تو حضرت ابو بکرؓ نے کہا:’’اے اللہ کے رسول !جب مجھے یاد آتاہے کہ لوگ آپ کے تعاقب میں ہوں گے تو میں آپ کے پیچھے چلنے لگتا ہوں ،پھر جب مجھے خیال آتا ہے کہ لوگ آپ کی گھات میں آگے چھپے ہوئے ہوں گے تو میں آپ کے آگے چلنے لگتا ہوں ۔‘‘آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے پوچھا :’’اے ابو بکرؓ کیا تم پسند کرو گے کہ کوئی چیز تمہیں ایسی مل جائے جو مجھے نہ ملے ؟‘‘آپ ؓ  نے فرمایا:’’بیشک ! کیوں نہیں ،قسم ہے اس ذات کی جس نے آ پ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا،اگر آپ پر کوئی مصیبت آئے تو میں چاہوں گا کہ آپ کے بجائے وہ مصیبت مجھ پر آجائے ۔‘‘جب دونوں غار ثور پہنچے تو ابو بکرؓ نے کہا :’’اے رسول اللہ !آپ یہیں ٹھہرئیے میں آپ کیلئے غا ر کو صاف کر دوں ۔‘‘چنانچہ ابو بکرؓ غار میں داخل ہوئے اور اس کی صفائی کی ۔پھر جب ابو بکرؓ بالائی حصے کو پہونچے تو یاد آیا کہ انہوں نے ایک بِل کی صفائی نہیں کی ہے تو کہا :’’اے اللہ کے رسول !آپ یہیں ٹھہرئیے میں ا س بل کو صاف کر دو ں۔‘‘پھر ابو بکر غار کے اندر داخل ہوئے اور اس بل کو صاف کیا ۔پھرکہا :’’اے اللہ کے رسول !اند ر آ جائیے۔‘‘پھر  رسول اللہ   (صلى الله عليه وسلم)غار کے اندر تشریف لے گئے۔پھرعمرؓ فرماتے ہیں :قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے !وہ رات عمرؓ کے خاندان سے بہت بہتر ہے۔(حاکم نے اس کو مستدرک میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے اگر اس میں ارسال نہ پایا جاتاتو یہ حدیث صحیح ہوتی شیخین کی شرط پر ہونے کی وجہ سے)یہ مرسل مقبول ہے ۔
انسؓ بن مالک فرماتے ہیں کہ :

 ((أن  رسول اللہ   (صلى الله عليه وسلم)أفرد یوم أحد في سبعۃ من الأنصار، ورجلین من قریش، فلما رھقوہ قال: من یردھم عنا ولہ الجنۃ، أو ھو رفیقي في الجنۃ، فتقدم رجل من الأنصار، فقاتل حتی قتل، ثم رھقوہ أیضاً، فقال: من یردھم عنا ولہ الجنۃ، أو ھو رفیقي في الجنۃ، فتقدم رجل من الأنصار، فقاتل حتی قتل، فلم یزل کذالک حتی قتل السبعۃ، فقال  رسول اللہ   (صلى الله عليه وسلم)لصاحبہ: ماأنصفنا أصحابنا))۔

احد کے دن  رسول اللہ   (صلى الله عليه وسلم)کے ساتھ صرف سات انصار اور دو قریش کے لوگ رہ گئے (بقیہ صحابہؓ بکھر گئے تھے )جب کفار مکہ نے آپ پر حملہ کیا توآپ   (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا :کون ہے جو ان کو مجھ سے دور کرے وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘ایک انصاری صحابی آگے بڑھے اور ان سے قتال کیا یہاں تک کہ شہید کر دےئے گئے۔کفار نے پھر حملہ کیاآپ   (صلى الله عليه وسلم) نے پھروہی بات دہرائی تو ایک اور انصاری صحابی آگے بڑھے اور وہ بھی شہید کر دئے گئے اس طرح ایک ایک کرکے تمام انصاری صحابہ شہید ہوگئے ،  رسول اللہ   (صلى الله عليه وسلم)نے اپنے قریش ساتھیوں سے فرمایا :ہم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔
 
((کنا مع النبیا ، وھو آخذ بید عمر بن الخطاب، فقال لہ عمر: یا رسول اللہ لأنت أحب إلي من کل شيء إلا من نفسي، فقال النبي ا: لا، والذی نفسی بیدہ، حتی أکون أحب إلیک من نفسک، فقال لہ عمر: فإنہ الآن، واللہ لأ أحب إلي من نفسي، فقال النبی ا: الآن یاعمر))

عبد اللہ بن ہشام کہتے ہیں کہ :ہم رسول اللہ اکے ساتھ تھے اور آپ عمرؓ بن خطاب کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے ،عمرؓ نے آپ سے کہاَ اے رسول اللہ آپ میرے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میری جان کے۔‘‘آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا نہیں اے عمرؓ !جس ذات کے ہاتھوں میں میری جان ہے یہاں تک میں تمہاری جان سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘تو عمرؓ نے فوراً کہا قسم اللہ کی آپ میری جان سے زیادہ محبوب ہیں ۔‘‘آپ  (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا :اے عمر!اب تمہارا ایمان مکمل ہو!‘‘(بخاری)

امام نووی ؒ شرح مسلم میں ابو سلیمان الخطابی سے حب رسول کا معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم میری محبت میں سچے اور کھرے نہیں ہو سکتے ہو جب تک کہ تم اپنی جان کو میری اطاعت میں قربان نہ کر دو میری مرضی اور خواہش کو اپنی چاہتوں پر مقدم رکھو گرچہ اس میں تمہاری ہلاکت ہی کیوں نہ ہو ‘‘
 
ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے عبیدہ سے کہا:
عن ابن سیرین قال: قلت لعبیدۃ: 

((عندنا من شعر النبي ا، أصبناہ من قبل أنس أو من قبل أھل أنس، فقال: لأن تکون عندی شعرۃ منہ أحب إلي من الدنیا وما فیھا))۔

ہمارے پا س نبی اکر م کا موئے مبارک ہے جو کہ ہمیں انس صیا انس کے گھر والوں سے حاصل ہوا ہے ۔تو عبیدہ نے کہا :اگر میرے پاس رسول اکرم   (صلى الله عليه وسلم) کا موئے مبارک ہوتا تو وہ مجھے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیا دہ محبوب ہوتا ۔‘‘ (بخاری)
حضرت عائشہؓؓ ؓ سے مروی ہے کہ ابو بکرؓ ؓ نے فرمایا :
(فتکلم أبو بکر فقال:

 والذی نفسي بیدہ، لقرابۃ  رسول اللہ   (صلى الله عليه وسلم)أحب إلي أن أصل من قرابتي)

جس ذات کے ہاتھوں میں میری جان ہے  رسول اللہ   (صلى الله عليه وسلم)کے قرابت دارمجھے اس سے زیادہ محبوب ہیں کہ میں اپنے قرابت داروں سے رشتہ جوڑوں(بخاری)
عائشہؓ نے کہا :ہند بنت عتبہ  رسول اللہ
   (صلى الله عليه وسلم)کے پاس آئیں اورکہا:
عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت:
 
عن طارق بن شھاب قال: 

 ((سمعت ابن مسعود یقول: شھدت مع المقداد بن الأسود مشھداً لأن أکون صاحبہ أحب إلي مما عدل بہ، أتی النبيا وھو یدعو علی المشرکین، فقال: لا نقول کما قال قوم موسی (اذھب أنت وربک فقاتلا)، ولکنا نقاتل عن یمینک، وعن شمالک، وبین یدیک، وخلفک، فرأیت النبيا أشرق وجھہ وسرہ، یعنی قولہ))
حضرت طارق ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں ایک موقع پر المقداد بن الاسود کے ساتھ تھا اور اُن کا یہ ساتھ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب تھا۔المقداد حضور ا کے پاس پہنچے جو کفار کو ملامت کر رہے تھے۔ مقدادبن اسود نے حضور ا سے کہا: ہم یہ نہیں کہیں گے جو کہ موسی سے ان کی قوم نے کہاتھا(اِذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلا)(تم اور تمہارے رب جائیں اور لڑیں)بلکہ ہم آپ کے دائیں سے آپ کا دفاع کریں گے آپ کے بائیں جانب سے بھی لڑیں گے ۔آپ کے سامنے سے بھی لڑیں گے اور آپ کی پشت پر بھی آپ کی حفاظت کریں گے ۔‘‘تو میں نے آپ کے چہرۂ مبارک کی جانب دیکھا جو خوشی سے کھل اُٹھا تھا۔
 
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ حضرت سعدؓ نے فرمایا:
(اللھم إنک تعلم أنہ لیس أحد أحب إلي أن أجاھدھم فیک، من قوم کذبوا رسولک ا وأخرجوہ ۔۔۔)
اے اللہ !تو جانتا ہے کہ اس قوم (کفار مکہ )سے زیادہ کسی اور قوم سے جنگ کرنا میرے نزدیک اتنا محبوب نہیں ہے جتنا کہ کفار مکہ سے کیونکہ ا نہوں نے تیرے رسول کی تکذیب کی اور ان کو اپنے وطن سے نکالا۔۔۔۔‘’(متفق علیہ)
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ثمامہ بن اثال نے کہا :
((یامحمد، واللہ، ماکان علی الأرض وجہ أبغض إلي من وجھک، فقد أصبح وجھک أحب الوجوہ إلي۔ واللہ، ماکان من دین أبغض إلي من دینک، فأصبح دینک أحب الدین إلي، واللہ، ماکان من بلد أبغض إلي من بلدک، فأصبح بلدک أحب البلاد إلي ۔۔۔))
’’اے محمد (صلى الله عليه وسلم)!اللہ کی قسم میرے نزدیک اس روئے زمین پر آپ کے چہرے سے زیادہ ناپسندیدہ چہرہ کسی اور کانہ تھا مگر اب تمام چہروں سے زیادہ آپ کا چہرہ محبوب ہے ۔اللہ کی قسم آپ کے دین سے زیادہ ناپسندیدہ کوئی اوردین نہ تھا مگر اب آپ کا دین تمام ادیان سے زیادہ مجھے محبوب ہے ۔اللہ کی قسم مجھے سب سے زیادہ نا پسندیدہ شہر آپ کا تھا مگر اب سب سے زیادہ پسند یدہ آپ کا ہی شہر ہے۔۔۔‘‘
(متفق علیہ)

اللہ اور اس کے رسول سے محبت اللہ اور اس کے رسول سے محبت Reviewed by خلافت راشدا سانی on 7:56 AM Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.