حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک عظیم الشان سیاست داں
سیاست اسلام کا ناگزیر
حصہ ہے۔ اسلام سیاست سے بالکل الگ نہیں ہے۔ ‘سیاست’
لفظ عربی کا لفظ ہے جس کے معنی ہے ؛لوگوں کے معاملات کی
دیکھ بھال کرنا؛ ایک حدیث میںیہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے۔ حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم)
نے ارشاد فرمایا :
كَانَتْ
بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ
نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ
قَالُوا : فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ
أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ
؛بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے
اور میری امت کی سیاست خلفا ء کریں گے اور وہ کثرت سے ہو ں گے (یعنی ایک کے بعد ایک کئی خلیفہ ہو
نگے)’’۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ آپ (صلى الله عليه وسلم)
نے ارشادفرمایا : تم ان کی اطاعت
کرنا اور ایک کے بعد دوسرے کو بیعت دینا
آپ (صلى
الله عليه وسلم) کی سیرت (جیونی) سے ہمیں یہ پتہ چلتا
ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم)
نے کس طرح ایک نظریاتی ریاست کے سماجی ،معاشی اور سیاسی معاملات کو چلایا۔ آپ نے
مدینہ شہر میں ایک حکمراں کی طرح داخل ہوتے ہی مندرجہ ذیل کام کئے ۔
مسلم امت کے پہلے حکمراں
کی حیثیت سے اسلامی حکومت کو مضبوط کیا:
اول ) : حضرت
محمد مصطفٰے (صلى الله عليه وسلم)حقیقت
میں ایک حاکم تھے اور اس بات کا ثبوت 47 دفعا
ت والا دستاویز تھا جسے آپ نے خود تیار کروایا تھا۔ یہ دستاویز مدنی سماج پر حکومت
کرنے کے لئے (دستور) تھا جس میں مہاجرین، انصار اور یہودی رہتے تھے۔ اس صحیفے کے
خاص نقاط اس طرح تھے:
)الف) سارے مومن ایک قوم ہیں۔۔۔۔۔
(ب
(وہ
یہودی جو ہمارے قانون کو تسلیم کرتے ہیں وہ ہماری مدد اور برابری کے حقدار ہیں اور
انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا ،اور ان کے دشمنوں کو کوئی مدد نہیں
دی جائے گی۔ (ج) جب مومن (مسلم)
اللہ کی راہ میں جہاد کر رہیں ہو ں گے تو مدنی سماج کا کوئی بھی حصہ الگ سے کوئی
معاہدے نہیں کرے گا۔
(دوم)) : آپ (ﷺ)نے ان سبھی پڑوسی
قبیلوں سے معاہدے کئے جس سے ریاست اسلامی کو اندرونی یا خارجی(باہری) کسی قسم کا
خطرہ ہو سکتا تھا۔ یہ معاہدے باہمی فائدے کی بنیاد پر کئے جاتے تھے۔
(سوم:(وہ
صحیفہ دستاویز (اقرارنامہ) کی شرطوں سے بندھے ہوئے تھے اور کسی بھی قسم کا اختلاف
پیدا ہونے پر آپ کی طرف لوٹنا پڑتا تھا۔ یعنی (صلى
الله عليه وسلم)آپ اس پر آخری فیصلہ فرماتے تھے۔
تقریباً دس یہودی قبیلے اور دوسرے غیر مسلم قبیلے اس اقرارنامے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔
) چہارم:(یہ
دستاویز اس بات پر روشنی ڈالتا تھا کہ:
) الف) اسلامی قانون کے مطابق اسلامی ریاست میں رہنے والے شہریوں کے
بیچ تعلقات کی بنیاد کیا ہے؟
) ب) خلافت کے اپنے پڑوسی حکومتوں سے تعلقات کن بنیادوں پر بنیں گے۔
) ب) خلافت کے اپنے پڑوسی حکومتوں سے تعلقات کن بنیادوں پر بنیں گے۔
ایک مستقل سماجی نظام کا
قیام:
اسلامی ریاست (خلافت) کے
نظام کو سمجھنے سے پہلے یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ اسلامی ریاست (خلافت) یوٹوپیا (Utopia) یا تصوراتی ریاست نہیں
ہوتی جس میں لوگوں سے گناہ نہیں ہوتا اور جس میں صرف مسلم سماج کے لوگ ہی رہتے
ہوں۔ بلکہ اس میں کافر (غیر مسلم)، منافق (پاکھنڈی) اپنے اپنے قانونی حقوق کے تحت
ایک شہری کی طرح حکومت کے کاموں میں حصے دار ہوتے ہیں۔
حضرت محمد (صلى
الله عليه وسلم)نے اسلامی سماجی نظام کا قیام مندرجہ
ذیل بنیادوں پر کیا:
) الف) ۔۔۔۔ مسلمانوں کے رشتوں کی بنیاد اسلامی عقیدے پر قائم کی
گئی تاکہ مدنی سماج کا سماجی ڈھانچہ مضبوط ہو سکے۔ آپ نے مہاجرین اور انصار کو ‘مواخاۃ’ (اسلامی بھائی چارہ) کا رشتہ
بنانے کی طرف آمادہ کیا۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ انصار بھائیوں نے اپنے
مہاجربھائیوں کو اپنی جائداد کا آدھا حصہ دے دیا اور ایک سے زیادہ بیوی ہونے پر
دوسری بیوی کو طلاق دے کر انکا نکاح اپنے مہاجر بھائی سے کروا دیا۔
اس
اسلامی اخوت کے نتیجے میں صدیوں پرانی قبائلی نا اتفاقیوں کا حل ہو گیا۔
) ب) ۔۔۔۔ آپ (صلى
الله عليه وسلم) بڑی حکمت سے منافقوں اور مدینے کے
پرانے حکمرانوں سے نپٹتے تھے جو اسلامی ریاست اور اس کے نظام کی جڑیں کھوکھلی کرنے
پر تلے ہوئے تھے۔
(ج)۔۔۔۔۔ وہ عرب جو اسلام قبول کر لینے کے بعد اسلامی ریاست کی پناہ میں آ گئے تھے اور وہ نہ تو انصار تھے نہ ہی مہاجر، انہیں آپ اپنی نگرانی میں لے لیا کرتے تھے۔ ان کو اصحاب صفہ (اہل صفہ) کہا جاتا ہے۔
(ج)۔۔۔۔۔ وہ عرب جو اسلام قبول کر لینے کے بعد اسلامی ریاست کی پناہ میں آ گئے تھے اور وہ نہ تو انصار تھے نہ ہی مہاجر، انہیں آپ اپنی نگرانی میں لے لیا کرتے تھے۔ ان کو اصحاب صفہ (اہل صفہ) کہا جاتا ہے۔
اسلامی ریاست کا ڈستھانچہ:
اس کی مختصر تفصیل مندرجہ
ذیل ہے:
) الف) ریاست کا حکمراں (خلیفہ یا امام):
آپ (صلى الله عليه وسلم)
نے مسلم اور غیر مسلم دونو ں پر حکومت فرمائی ، آپ (صلى
الله عليه وسلم) نے یہودیوں اور قریش کے بت پرست
قبیلوں جیسے الجبرا ا ور عذرا کے ساتھ معاہدات پر دستخط فرمائے ۔
) ب) امام کے نائب یا وزیر (secretary): حضرت عمرؓ اور حضرت ابو
بکرؓ آپ (صلى الله عليه وسلم)
کے دو وزیر تھے۔ خلافت مے وزراء کو سرمایہ دارانہ نظام کی طرح کسی ایک ڈپارٹمینٹ
کے لئے خاص نہیں کیا جاتا۔ بلکہ ان وزیروں کو پاور آ ف اٹرنی یعنی ہر طرح کے
معاملے میں خلیفہ کے سفیر کی طرف سے کار وائی کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔
)ج
) ہتھیار بند یا مسلح فوج کا سپہ سالار: فوج کی کمان آپ (صلى الله عليه وسلم)کے
ہاتھ میں ہوتی تھی۔ آپ (صلى الله عليه وسلم)سپہ
سالار کا انتخاب کرتے تھے جیسے عبداللہ ابن جحشؓ، سلمہ ابن عبدلاسد وغیراہ کا کیا۔
(د) والی یا گرونر: اسلامی ریاست کی حدود بڑھ جانے کے بعد
آپ (صلى الله
عليه وسلم)نے اصل حاکم (حکمران)
کی حیثیت سے ہر خطے میں گورنر یا والیوں کو اور ہر شہر میں عامل منتخب کئے ۔ مکہ
کے فتح ہونے کے بعد آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
حضرت اسیدؓ کو مکہ کا والی، بدن ابن ساسان کویمن کا والی، معاذ ابن جبل الخزرجی کو
الجند کا والی، زید ابن لبید ابن ثعلبہ انصاری کو حضر موت کا والی مقرر کیا۔
آپ (صلى الله عليه وسلم)مثالی
لوگوں کو والی مقرر فرماتے تھے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم)ٹیکس
اکٹھا کرنے کا کام بھی سونپتے تھے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم)سچے
لوگوں کے ساتھ نرم رویہ اور جھوٹے اور باغی لوگوں کے ساتھ سخت رویہ رکھنے کی تاکید
کرتے تھے۔
)ہ( عدالت: آپ (صلى الله عليه وسلم)قاضیوں(judges)کا ابھی انتخاب کرتے تھے جیسے آپ (صلى الله عليه وسلم)نے حضرت علیؓ یمن کے لئے، عبداللہ ابن نوفلؓ کو مدینہ کے لئے اور ابو موسٰی العشریؓ کو یمن کے لئے قاضی مقرر کیا۔ آپ (صلى الله عليه وسلم)نے حاکموں اور قاضیوں کے خلاف شکائتیں سننے کے لئے شکایت ٹربیونل بھی قائم کیے۔
)و ( انتظامیہ :
آپ (صلى الله عليه وسلم)لوگوں
کے ہر طرح کے معاملات کا انتظام کرتے تھے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
علی بن ابی طالبؓ کومعاہدے کو لکھنے کی ذمہ داری سونپی۔ حضرت حارث ابن عوفؓ کو
اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم)کی
دفتری مہر کا ذمہ دار بنایا، حضرت مقیب ابن ابی فاطمہؓ کو مال غنیمت کا ذمہ دار
مقرر کیا۔ حذیفہ ابن یمانؓ کو پورے حجاز کے علاقے میں پھلوں اور فصلوں کی پیداوار
کا اندازہ لگانے کی ذمہ داری سونپی۔ زبیر ابن عوامؓ کو صدقات کا ذمہ دار بنایا۔
المغیرہ ابن شعبہ کو لون (قرض حسنہ) اور تجارت کے معاہدوں کو لکھنے کی ذمہ داری
سونپی۔ سرقبیل ابن حسنہ کو بادشاہوں کو بھیجے جانے والے پیغامو ں کو لکھنے کی ذمہ
داری سونپی۔
)ز)
مجلس شوریٰ (مشاورتی کو نسل) : آپ
(صلى الله
عليه وسلم)نے خاص کوئی مشاورتی کو نسل کا قیام نہیں
کیا لیکن جب بھی آپ (صلى الله عليه وسلم)مناسب
سمجھتے تھے تو صحابہؓ سے مشورہ کر لیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
احد کی جنگ اور دوسرے موقعوں پر صحابہؓ سے مشورہ کیا۔ آپ (صلى الله عليه وسلم)اکثر
صحاب کو بلاکر مشورہ کیا کرتے تھے۔ یہ وہ صحابہ ہوتے تھے جن کی حیثیت اپنے قبیلو ں
میں سردار کی ہوتی تھی جیسے حضرت حمزہؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابو بکرؓ،حضرت علی ؓ
وغیرہ
)ح)
حکومت کا محاسبہ (accountability) : آپ
(صلى الله
عليه وسلم)حکومت اور انتظامیہ کے ذمہ داروں کے کاموں
کی جانچ کرتے اور نگرانی رکھتے تھے۔ انکے بارے میں بھیجی گئی رپورٹ کو سنتے۔ آپ(صلى
الله عليه وسلم)نے بحرین کے عامل (گورنر) حضرت
الاعلیٰ ابن الحزرمی کو عبد قیس کے ایک وفد کی شکایت پر گورنر کے عہدے سے ہٹا دیا
تھا۔
شرعی قانون کو سماج پر
لاگو کیا :
آپ (صلى الله عليه وسلم)شرعی
قانون کے اللہ کی طرف سے نازل ہوتے ہی اسے فوراً لاگو کر دیتے تھے۔ اسکی چند
مثالیں: (الف) تعزیراتی قوانین (penal laws) : اللہ
کے رسول (صلى الله عليه وسلم)نے
ارتداد (دین اسلام سے پلٹ جانا) اور زنا جیسے کئی قوانین کو لاگو کیا۔ امام بہقیؒ
فرماتے ہیں‘کسی کو بھی بنا ریاست کی اجازت کے حدود کو لاگو کرنے کا حق نہیں ہے’’۔
اس سے پتہ چلتا ہے کی آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
ایک ریاست کے حاکم کی حیثیت سے حدود کو لاگو کیا۔
)ب)
معاشی قوانین (Economic Laws): آپ
(صلى الله
عليه وسلم)ایک قاضی کی حیثیت سے بازار کے لین دین کے
معاملات اصولوں کے تحت چلاتے تھے۔ اسکی ایک مثال وہ واقعہ ہے کہ ایک بار آپ جب
بازار سے گزر رہے تھے کی آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
دیکھا کہ ایک شخص کھجوریں بیچ رہا تھا اور وہ کھجوریں نم تھیں اور انکے ڈیر کے
نیچے پانی بھرا ہوا تھا تو آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
ان کھجوروں کو اونچائی پر رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا، ‘‘جو کوئی بھی لوگوں کو
دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے’’۔
vاحادیث اور سیرت کی کتابوں میں ایسے کئی
واقعات وارد ہوئے ہیں جن میں اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم)نے
لوگوں کو زکوٰۃاکٹھا کرنے اور تقسیم کرنے کے لئے متعین کیا۔
vآپ (صلى الله عليه وسلم)نے
ایک خاص قسم کے نظام زر (monitory system ) کی
بنیاد ڈالی اور سونا اور چاندی کو نظام زر کی بنیاد قرار دیا۔
vآپ (صلى الله عليه وسلم)نے
ایسے قانون کی بنیاد ڈالی جو نجی اور عوام کی ملکیت میں فرق کرتا ہے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
فرمایا: ‘‘لوگ (اسلامی ریاست کی عوام) تین چیزو ں میں شریک
(partner) ہے: آگ، پانی اور چاراگاہیں۔’’ اس حدیث سے
اسلامی اقتصادی نظام کے ایک بہت اہم اصول کی بنیاد پڑتی ہے۔
(ث)
سماجی قوانین:
آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
شراب اور جوا پر پابندی لگا دی۔ اسکے علاوہ تمام سماجی قوانین جیسے پردہ، نکاح
طلاق وغیرہ کو لاگو کیا اور لوگوں کے درمیان سماجی اختلاف کا فیصلہ کیاا۔ سماج کی
تعمیر میں عورت اور مرد کی ذمہ داریوں کو متعین کیا۔
یہ تمام قوانین اس لیے
نازل کیے گئے کہ انہیں سماج میں، مسلم اور غیر مسلم، کے درمیان زمین کے قانون کے
طور پر نافذ کیا جائے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
اس بات کا پورا خیال کیا کی ان قوانین کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم)کے
ذریعے قائم کیا گیا سیاسی ڈھانچہ ان کو قائم کرنے کا آلئہ کار
تھا۔ شریعت کے قوانین اور آج مسلم سر زمینوں میں لاگو ہونے والے قوانین کے درمیا ن
کوئی میل نہیں ہے۔ کیا ہم اس بارے میں فکرمند ہیں؟
اسلام کی طرف دعوت
دارالاسلام کی خارجی (foreign) پا لسی اسلام کی طرف لوگوں
کو بلانا ہے۔ یہ کوئی مشنری کام نہیں ہے۔ اس کو بغیر ریاست کے انفرادی طور پر حاصل
نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ (سبحانہ و تعالیٰ) فرماتا ہے:
وہی ہے جس نے اپنے نبی کو رہنمائی اور دین مبین (اسلام) کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اسے سارے دینوں پر حاوی کردے اگرچہ مشرکین کو کتنا ہی برا لگے(ترجمہ معانئ قرآن ، سورہ توبہ: 33)
آپ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا: ‘‘اللہ تعالیٰ نے میرے لئے دنیا کے دونو ں کو نوں کو ملا دیا ہے۔ میں نے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا ہے۔ میری امت کا غلبہ ان دونوں کونوں تک پھیل جائے گا جنکو میرے سامنے لایا گیا ہے، اور مجھے لال اور سفید خزانے عطا کیے گئے۔’’ (صحیح مسلم(
وہی ہے جس نے اپنے نبی کو رہنمائی اور دین مبین (اسلام) کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اسے سارے دینوں پر حاوی کردے اگرچہ مشرکین کو کتنا ہی برا لگے(ترجمہ معانئ قرآن ، سورہ توبہ: 33)
آپ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا: ‘‘اللہ تعالیٰ نے میرے لئے دنیا کے دونو ں کو نوں کو ملا دیا ہے۔ میں نے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا ہے۔ میری امت کا غلبہ ان دونوں کونوں تک پھیل جائے گا جنکو میرے سامنے لایا گیا ہے، اور مجھے لال اور سفید خزانے عطا کیے گئے۔’’ (صحیح مسلم(
اسلامی دعوت کا راز
اسلامی ریاست ہے
آپ (صلى الله عليه وسلم)کی
مکہ میں تیرہ سال کی کٹھن جدوجہد کے نتیجے میں تقریباً 100 لوگوں نے اسلام قبول
کیا تھا۔ اور جب آپ (صلى الله عليه وسلم)آٹھ
سال بعد مکہ واپس لوٹے تو آپ (صلى الله عليه وسلم)کے
ساتھ دس ہزار مسلمان تھے اور حجۃالوداع کے دن (10 سال بعد)
تقریباً ایک لاکھ مسلم موجود تھے۔
اسلامی ریاست کی خارجہ
پالسی اسلام کی طرف دعوت ہے۔ یہ مقصد بین الاقوامی تعلقات اور جہاد فی سبیل اللہ
کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اسلام کی دعوت اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک دنیا سے ہر
قسم کی ناانصافی ختم نہ ہو جائے۔ اللہ) سبحانہ و تعالیٰ)
فرماتا ہے :
وَقَـٰتِلُوهُمۡ
حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتۡنَةٌ۬ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ لِلَّهِۖ فَإِنِ ٱنتَہَوۡاْ فَلَا عُدۡوَٲنَ إِلَّا
عَلَى ٱلظَّـٰلِمِينَ
ان سے اس وقت تک لڑوجب تک
فتنہ ختم نہ ہو جائے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لئے ہو جائے۔ لیکن اگر وہ باز آ
جائیں تو انکے اوپر زیادتی نہ کی جائے سوائے ان کے جنہوں نے زیادتی کی
(ترجمہ معانئ قرآن
: بقرہ: 193(
اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم)نے
فرمایا: ‘‘مجھے حکم ملا ہے (اللہ سے) کہ میں اس وقت تک لڑتا رہوں جب تک لوگ یہ
گواہی نہ دے دیں کہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ
اور نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں۔ تو اگر انہو ں نے ایسا کیا تو انہوں نے اپنی جان
اور مال مجھ سے محفوظ کر لی، سوائے اسلامی قوانین کے، اور اللہ یوم الجزاء کوان کا
حساب لے گا ’’ (صحیح بخاری(
حالانکہ اسلام قبول کرنے
کے معاملے میںیہ صاف اصول ہے کہ ‘‘دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے’’۔ اوپر
دی گئی حدیث کے معانی سلف صالحین نے یہ بیان کیے ہیں کہ دعوت اور جہاد کے ذریعہ آپ
(صلى الله عليه
وسلم)نے ہر اس اقتدار (authority)
کو راستے سے ہٹا دیا جو انسانو ں پر کفر کے نظام کا
نفاذ کر رہا تھا۔ ہر مبداء (ideology) کا
یہ مقصد ہوتا ہے کی وہ دوسرے تمام مبدا ء پر حاوی ہو جائے۔ چونکہ اسلام ایک حقیقی
مبداء ہے جو کہ سارے عالم کے رب کی طرف سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم)اسلام
کا غلبہ قائم کرنے کے لئے فوجی مہمات بھیجا کرتے تھے۔ جنگ بدر ہونے سے پہلے آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
تقریباً آٹھ چھوٹی فوجی مہمات بھیجیں۔ ان میں سے کچھ کی کمان آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
خود سبنھالی۔ ان فوجی مہمات کا مقصد دشمن قریش کے دلو ں میں ڈر بٹھانا، فوجی نقئء
نظر سے علاقوں کا جائزہ لینا، اور دوسرے قبیلوں کے ساتھ اتحاد بنانا ہوتا تھا۔
فوجی معاہدے
آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
بنی دامرۃکے قبیلے سے فوج کشی سے گریز کا معاہدہ کیا۔ یہ سیاسی طور سے بہت قیمتی
معاہدہ تھا کیونکہ اس سے ایک ایسے قبیلے کو بے اثر کر دیا گیا تھا جو قریش کے ساتھ
مل کر مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔
حازف ابن کثیر کے مطابق
آپ (صلى الله
عليه وسلم)نے 19 غزوات میں حصہ لیا اور ان میں سے 11
کی قیادت فرمائی ۔ اسکے علاوہ ایسی اور کئی جنگیں تھیں جن کی آپ نے منصوبہ بندی کی
اور ان میں فوجی افسر متعین کیے۔
v
مدینے کی طرف آپ (صلى الله عليه وسلم)کا
ہجرت کرنا کوئی محفوظ جگہ کی طرف کوچ کرنا نہیں تھا۔ آپ (صلى الله عليه وسلم)کا
ہر عمل شروع سے کفارمکہ کو اشتعال دلانے والا تھا۔ آپ ان سے اسلام کے معاملے میں کسی
بھی طرح سمجھوتہ کرنے والے نہیں تھے۔ قریش کے قافلوں پر باربار حملہ کرنا اس بات
کی طرف اشارہ کرتا ہے کی آپ (صلى الله عليه وسلم)قریش
کے لمبے وقت سے چلے آ رہے اقتدار کو چیلینج کر رہے تھے۔ جنگ بدرمیں فتح ہونے کے
بعد مسلمانوں کی مکہ اور مدینے کے ا طراف میں دھاک بیٹھ گئی اور قریش کی نمائند ہ
حیثیت کو بہت ٹھیس پہنچی۔ بدر کی شکست کے بعد قریش کو یہ احساس ہوا کہ اس علاقے
میں ان کا اقتدار خطرے میں ہے اس لیے انہوں نے فوراً مسلمانوں کو دوبارہ احد اور
احزاب میں جنگ کی دعوت دی۔
vان جنگوں کے درمیان دوسرے دشمن قبیلے جیسے
بنو ثعلبہ ، بنو مہرب وغیرہ نے اسلامی ریاست کی حیثیت میں ابھرتی ہوئی اس نئی
ریاست کو چیلینج دینے کی کوشش کی۔
vابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کی
مسلمانوں کا کفار سے جنگ احد میں سامنا ہوا۔ اللہ کے رسول کی اطاعت سے کوتاہی کرنے
کے سبب مسلمانو ں کو ایک سخت مقابلہ درپیش ہوا اس جنگ میں کچھ خاص صحابہ بھی شہید
ہو گئے۔ مسلمانوں نے ہمت دکھائی اور دشمنوں کو پیچھے کی طرف پلٹنے پر مجبور کر دیا
اور احدسے تقریباً آٹھ میل تک انکا پیچھا کیا۔ انکا اس طرح سے پیچھا کرنا یہ ثابت
کرتا ہے کی وہ اپنے غلبے کے دعویدار ہیں اور ایسے مشکل ترین حالات میں بھی اپنے
ہاتھ سے کوئی موقع نہیں جانے دینا چاہتے۔
vخوف کی حالت میں کفار قریش نے مسلمانوں سے
احزاب میں لڑنے کے لئے دوسرے قبیلوں کے ساتھ فوجی اتحاد بنایا۔ اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم)نے
اس سے مقابلہ کرنے کے خندق کھدوائی جو کہ اس دور کی جنگ کی جدید ترین اسلوب میں سے
تھی۔ اللہ کے رسول (صلى
الله عليه وسلم)نے کافروں کے کیمپ میں پھوٹ ڈالنے کے
لئے جاسوس بھی بھیجے اور ایسی تدبیرے اپنائی کہ کفار دھوکہ کھا جائیں۔
vجنگ احزاب سے فارغ ہوتے ہی آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
بنو قریظہ کو اسلامی ریاست کے ساتھ عہد شکنی کی سزا دینے کے لئے فوج کی ٹکڑی
بھیجی۔ انکے بچوں اور عورتوں کو چھوڑ کر سارے مردوں کو سزاء موت دی جاتی ہے۔ یہ اس
لئے کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ریاست اسلامی کے ساتھ دھوکہ کیا تھا۔
سیاست کاری اور جہاد
(فوجی جدوجہد(
کفار قریش کو مزید
مسلمانو ں کے خلاف سازشیں کرنے سے روکنے اور ریاست اسلامی کے وجود کو مکے کے کفار
سے منوانے کی غرض سے اللہ کے رسول صلح حدیبیہ کرتے ہیں جو اسلامی ریاست کے لئے بہت
کامیاب ثابت ہوتی ہے اور مسلمانوں کو سب سے بڑے قریبی دشمن (مکہ کے قریش) سے عارضی
طور پر راحت مل جاتی ہے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم)اس
موقعے کا فائدہ اٹھا کر اپنی طاقت بٹورتے ہیں اور حجاز کے دوسرے قبیلوں کی طرف
توجہ دیتے ہیں۔
vآپ
(صلى الله
عليه وسلم)بنو قلب کے سردار کے پاس حضرت عبداللہ بن
عوف کی کمانڈرشپ میں ایک سر یہ (فوج کی ٹکڑی) روانہ کرتے ہیں۔
v صلح حدیبیہ کے 15 دن بعد
ہی جنگ خیبر پیش آتی ہے۔ حضرت علیؓ اس بات کی عہد کرتے ہے کی وہ دشمنوں سے اس وقت
تک لڑیں گے جب تک وہ اسلام قبول نہیں کر لیتے۔ اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم)حضرت
علیؓ کو نصیحت کرتے ہیں: ‘‘ان کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا، اور انہیں اسلام کی
طرف بلانا اور انہیں اللہ کی طرف سے ان پر عائدفرض کے بارے میں بتانا۔ میں اللہ کی
قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اگر تمہارے ذریعے سے ایک بھی ہدایت پا جائے تو یہ سو سرخ
اونٹوں سے بہتر ہے’’۔
vجب
خیبر کا قلعہ گرا دیا جاتا ہے اور یہودی اپنی جان اور امن و سلامتی کی درخواست
کرتے ہیں تو انہیں امان دے دی جاتی ہے اور خیبر کو دارالاسلام کا حصہ بنا لیا جاتا
ہے۔ یہاں تک کی خیبر میں پیدا ہونے والی آدھی فصل انہیں دیدے دی جاتی ہے اور آدھی
ٹیکس کے طور پر ریاست کے حصے میں آتی ہے۔ اس فتح کے بعد ایک اور فدک نام کا یہودی
قبیلہ سرینڈر (اطاعت قبو ل کر لیتا ہے)کر دیتا ہے۔
v
پھر آپ (صلى الله عليه وسلم)اپنا
رخ نجد علاقے کے قبائل کی طرف کرتے ہیں جنہوں نے اسلامی ریاست کے خلاف فوجی اتحاد
کیا تھا۔ ان قبیلوں کو فتح کرنے اور حدیبیہ کی صلح کے بعد جزیرہ نما عرب (Arab sub۔continent)
میں اسلامی دعوت کو پھیلانے کے لئے مناسب ماحول تیار ہو
چکا ہوتا ہے۔
vجب
مسلمان جنگ موتہ سے واپس لوٹے تو قریش کو یہ گمان ہوا کہ مسلمان کمزور پڑ گئے ہیں
تو انہوں نے عہد شکنی کر دی اور مسلمانوں کے ایک حلیف قبیلے پر حملہ کروا دیا۔ اس
عہد شکنی کو دیکھ کر اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم)نے
مکہ کو فتح کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول (صلى
الله عليه وسلم)کے سب سے بدترین دشمنوں نے بھی اسلام
قبول کر لیا۔ لوگ اسلام میں جوق در جوق شامل ہونے لگے۔ یہ اللہ کے رسول کی صلح
حدیبیہ کی شان دار حکمت عملی اور پھیلتی ہوئی اسلامی ریاست کی فوجی طاقت کے ذریعے
ممکن ہو سکا۔
حجاز کے باہر اور بین
الاقوامی سطح پر اسلام کی دعوت اللہ
کے رسول (صلى الله عليه وسلم)حجاز
کی سرزمین پر اسلام کے غلبے سے فارغ ہو کر اب بین الاقوامی
(international) پیمانے پر اسلام کی دعوت پہنچانے کی
تدبیر کرتے ہیں۔
vآپ
(صلى الله
عليه وسلم)بہت سارے سفارتی مشن ریاستو ں کے لیڈروں،
جس میں اس دور کی سوپرپاور (بڑی طاقت) ممالک جیسے روم، فارس وغیرہ بھی شامل ہوتیں
ہیں، بھیجتے ہیں اور انہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔
vآپ
(صلى الله
عليه وسلم)اپنے نمائندوں کو حبش کے نیگس، مصر کا نائب
مقوقس، بحرین کے گورنر منظر، اور یمن، اومان، اور دمشق کے بادشاہ کے پاس بھیجتے
ہے۔
vایک
ریاست کا دوسری ریاست کو دعوت دینا کا کیا مفہوم ہو سکتا ہے وہ ان خطوط کو پڑھنے
سے پتہ چل سکتا ہے جو آپ (صلى الله عليه وسلم)حکمرانوں
کے نام لکھتے تھے۔ جیسے روم کے حکمران سیزر کو مخاطب کرتے ہیںآپ (صلى الله عليه وسلم)فرماتے
ہیں: ‘‘۔۔۔ اگر تم نے اس پیغام سے پیٹھ موڑی تو تمہاری پوری رعایا کی گمراہی کی
ذمہ داری تمہارے اوپر ہوگی’’۔
جب یمن کے حکمراں منزر نے
اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم)کو
خط لکھا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن اسکی رعایا میں سے صرف کچھ ہی لوگوں
نے اسلام قبول کیا ہے تو آپ نے جواب دیا: ‘‘بحرین کے
لوگوں میں سے جو کوئی بھی اپنے یہودی مذہب پر چلنا چاہتا ہے تو ان سے جز یہ دینے
کے لئے کہا جائے’’۔
vاللہ کے رسول(صلى
الله عليه وسلم)خارجی پالیسی کی حکمت عملی کے ساتھ
ہمیشہ ریاست اسلامی کی طاقت اور قوت کامظاہرہ کرتے تھے۔
vسیزر،
جو کہ اس دور کی سوپرپاور ملک کا سربراہ تھا، کے انکار کرنے پر اسے موتہ کے میدان
میں چیلینج کیا گیا۔ اللہ کے رسول نے روم کے ایک لاکھ فوجیوں کے مقابلے میں تین
ہزار لوگوں کا لشکر بھیجا اور وہ اپنے دشمن اور ان کے فوجیوں کے دلو ں میں ڈر پیدا
کرنے میں کامیاب ہوئے ء اور انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس سے مسلم فوج کی
بہادری کو بہت شہرت حاصل ہوئی اور اسکا رعب پڑوسی حکمرانوں کے دلو ں پر بیٹھ گیا
جو بعد میں ان ممالک کو دارالا سلام بنانے میں بہت مددگار ثابت ہوا۔
اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم)نے اس دنیائے فانی سے پردہ فرما لیا تو صحابہ کرام کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ یہ پیش آیا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم)کے بعد آپ کے منصب حاکمیت کا جانشین کون ہوگا؟۔ اس سب سے بڑے فریضے کی اہمیت صحابہ کرام کے عمل سے اس اس طرح ظاہر ہوئی کی تین دن اور دو را توں تک آپ کے جسم اطہر کو دفنایا نہیں گیا جب تک کہ اللہ کے رسول کے جانشین یعنی مسلمانوں کے خلیفہ کو چن نہیں لیا گیا۔
یہ خلیفہ کا منصب وہی
منصب تھا جو اللہ کے رسول کی ان تمام سنتوں پر عمل پیرا ہونے کا ذمہ دار اور ذریعہ
ہوتا ہے جن کو حضرت محمد مصطفٰے (صلى الله عليه وسلم)نے
خود ایک حاکم کے روپ میں کر کے دکھایا تھا۔ یہی وہ نظام تھاجس میں اسلام کے قوانین
کو لاگو کیا جاتا تھا اور اسکے نتیجے میں مسلمانوں نے تمام عالم میں سربلندی حاصل
کی تھی اور ساری دنیا کی تقریباً 1300 سال سے زیادہ ایک سوپر پاور کے حیثیت سے
قیادت کی۔
خلافت کی سنت ایک ایسی
سنت ہے جو تمام فرائض کی ماں کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ شریعت کے تمام قوانین کا
لاگو ہونا اس پر منحصر کرتا ہے۔ آج اس خلافت کے ختم ہو جانے کی وجہ سے مسلمان سب
طرح کی پریشانیوں اور ذلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس لئے جب تک ہم اللہ کے
رسول (صلى الله عليه وسلم)
کی سیرت طیبہ کے اس پہلو کو زندہ نہیں کریں گے ، اللہ کی مدد اور اسکے رسول کی
محبت کے ہم حقدار نہیں بن سکیں گے۔ اللہ (سبحانہ
و تعالیٰ) فرماتا ہے :
هُوَ
ٱلَّذِىٓ أَرۡسَلَ رَسُولَهُ ۥ بِٱلۡهُدَىٰ وَدِينِ ٱلۡحَقِّ
لِيُظۡهِرَهُ ۥ عَلَى ٱلدِّينِ ڪُلِّهِۦ وَلَوۡ ڪَرِهَ ٱلۡمُشۡرِكُونَ‘‘
وہی
ہے جس نے اپنے نبی کو رہنمائی اور دین مبین (اسلام) کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اسے
سارے دینوں پر حاوی کر دے اگرچہ مشرکین کو کتنا ہی برا لگے’’
(ترجمہ معان�ئقرآن،
سورہ توبہ: 33)
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک عظیم الشان سیاست داں
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
12:14 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: