اسلام میں اقتصادی نظام کے





 اسلام میں اقتصادی  نظام  کے                                   
احکامات

 

 
حزب التحریر نے کتاب "اسلام  کا اقتصادی  نظام" کے لیے ایک طویل  مقدمہ  مرتب  کیا ہے۔ جس میں  خصوصی طور پر سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام  کے افکار کا توڑ کیا گیا  ہے۔ اس طرح کمیونزم اور اشتراکیت کے اقتصادی  افکا رکی خرابیوں  کو بھی بیان کیا گیا  ہے۔ اسی طرح  ان کے اسلام  کے اقتصادی  نظام  اور اس کے احکام وافکار کے ساتھ اختلاف اور تضاد کو بھی  واضح کیا گیا  ہے۔  ذیل  میں ہم اسلام  کے اقتصادی  نظام  کے بعض  افکا روا حکام بیان  کریں  گے ۔

اسلام  کی اقتصادی  پالیسی (اصول):
اسلام  کی اقتصادی پالیسی ہر فرد کی تمام بنیادی  ضرور  یات پورا کرنے کی ضمانت دیتی  ہے۔ مزید برا آں جس اسلامی معاشرے  میں وہ فرد رہتا  ہے، اس کے اعتبار سے اس کی بعض حاجات کو پورا کرنے کی بھی ضمانت دیتی  ہے اور جس کا    اپنا ایک  خاص انداز ہوتا ہے۔ چنانچہ  شریعت کے احکامات ہر فرد کو اس کی بنیادی  ضرور یات  مثلاً کھانا پینا ، مکان، لباس کو پورا پورا  مہیا کرنے  کی ضمانت  دیتے ہیں۔ 

اور یہ اس طرح  سے ہوگا کہ جو  فرد کام  کرنے کے قابل ہے، اس  کا فرض  ہے کہ وہ اپنی  اور ان لوگوں  کی بنیادی  ضرور یات پوری  کرے، جن کا نفقہ اس  شخص پر فرض  ہو۔  والد پر فرض  ہے کہ وہ اپنی  اولا دکی کفالت کرے۔ اگر کوئی فرد کام  کرنے کے قابل  نہیں تو اس کی ذمہ  داری  اس کے وارث  پر عائد   ہو تی  ہے۔ لیکن  اگر کو ئی ایسا فرد موجود نہیں ہے جس پر اس  شخص کا نفقہ فرض  ہو، تو پھر یہ ذمہ داری  بیت  المال  کی ہے۔ اسی طریقے  پر اسلام  نے انسان  کی بنیادی  ضرور یات کو پورا کرنے کی ضمانت دی  ہے۔

اقتصادی  مسئلہ  اسلام  کی نظر میں:
یہ اموال  اور منا فع  کو رعایا کے تمام  افراد  پر تقسیم  کرنے کا مسئلہ  ہے۔ دوسرے لفظوں میں اقتصادی  مسئلہ  دولت  کی تقسیم  کا ہے،  نہ کہ دولت پیدا  کرنے کا ۔

ملکیت ِ  مال  کا اصول (قانون):
 بنیادی  طور پر مال اللہ  کی ملکیت  ہے اور اللہ تعالیٰ نے نبی  نوع انسان  کو اس کے بارے میں ذمہ دار بنایا ہے۔ اس ذمہ داری یا جانشینی  کی وجہ  سے ان کو یک گونہ حق ملکیت حاصل  ہو گیا۔  اور اللہ تعالیٰ  ہی نے فرد کو اس مال  پر قبضے  کی  اجازت دی  ہے۔ یہ خاص  اجازت  ہے۔ اس خاص اجازت کی وجہ  سے یہ بالفعل  اس کا مالک متصور ہوا۔  ارشاد  ر بانی  ہے:

وَءَاتُوهُم مِّن مَّالِ ٱللَّهِ ٱلَّذِىٓ ءَاتَٮٰكُمۡ
 ۚ
"اور ان کو اس مال  میں سے دو  جو اللہ تعالیٰ نے تہیں  دیا 

اللہ تعالیٰ  نے مال  کی نسبت  اپنی طرف  کی۔ دوسری  جگہ ارشاد ہے:
 
وَأَنفِقُواْ مِمَّا جَعَلَكُم مُّسۡتَخۡلَفِينَ فِيهِ

"اور اس میں سے خرچ کرو ،  جس میں اس نے تمہیں  جانشین  بنایا  ہے۔"
(الحدید:۷)

پس اللہ  تعالیٰ  نے مال میں لوگوں کو اپنا نائب  بنایا ہے۔ 

ملکیت  کی اقسام:
ملکیت  کی تین  اقسام ہیں: انفرادی ملکیت ، عام ملکیت، ریاست ک کی ملکیت 

اول:انفرادی ملکیت:
یہ شارع  کی جانب  سے انسان  کو عین  (اصل ) ، یا اس کی منفعت، یا اس کے متبادل  کو خرچ  کرنے کی  اجازت  ہے۔ اسلام  نے فرد کے لیے انفرادی  ملکیت کو ایک شرعی  حق قرار  دیا ہے۔ چنانچہ  وہ اموال  منقولہ  مثلاً چو پائے ، نقد،  گاڑیاں اور کپڑے وغیرہ اور اموال  غیر منقولہ  مثلاً ازمین،  گھر، فیکٹری وغیرہ کا مالک  ہو سکتا ہے۔ شریعت نے فرد کو  اپنی ملکیت  میں تصرف کا حق بھی دیا ہے۔ البتہ شریعت  نے ان سباب  کا تعین  کیا ہے، جن سے کوئی فرد مال کا مالک  ہو سکتا ہے، اس مال  کو بڑھا سکتا ہے۔ اور اسی طرح  اس کو خرچ  کرنے کی بھی شریعت  نے ایک حدمقرر کردی  ہے۔ 

ملکیت  کے اسباب:
 شارع نے ان اسباب  کو متعیّن کر دیا ہے، جن سے انسان  مال کا مالک  بن سکتا  ہے، یا مال  کی نشوونما کر سکتا ہے۔ لہذا اپنا  یا کسی کا کام  خود کرنے  کو یا دوسروں  کے ذریعے  کروانے  کو ملکیت کا سبب قرار دیا ہے۔  بنجر زمین  کو  قابل کا شت  بنانے اور زمین  کے اندر سے معد نیات  نکالنے ، ایجنٹ  اور دلال  بننے  کو بھی  ملکیت  کا سبب  قرار  دیا ہے۔ اسی  طرح مضار بہ اور مساقت (پانی  دینا) کو بھی ملکیت  کا سبب قرار  دیا۔ 

مزید  براآں شارع  نے میراث، بقدر کفاف (زندگی کو برقرار رکھنے  کی خاطر) مال  لینے، ریاست   کی جانب  سے رعایا کو مال دینے ، اور ان اموال کو، جوافراد بغیر  کسی  مشقت کے حاصل  کرتے  ہیں ، جیسے ہبہ ، ہدیہ، وصایا، عطیہ، دیت، مہراور لقطہ (راستے  میں ملی  ہوئی چیز) وغیرہ  کو بھی ملکیت کا  سبب قرار دیا ہے۔  اسی طرح  شارع  نے زراعت، تجارت  اور صنعت کو مال  کی بڑھوتری کا سبب قرار  دیا ہے۔ جس طرح  کسب کو اور مختلف طریقوں سے مال کے نشوونما کی کیفیت کو بھی متعین کیا ہے، اسی طرح  ان طریقوں  کو بھی متعین  کیا ہے،  جن سے ایک مسلمان  اموال نہیں  بڑھا سکتا، یا ان کو اپنے کسب کا وسیلہ  نہیں بنا سکتا۔  چنانچہ  مندرجہ  ذیل  طریقوں  سے مال کمانے اور اس کو بڑھانے سے منع  کیا:

سرمایہ دارانہ حصہ  دار کمپنیاں (شیئر ہو لڈر کمپنیاں):
یہ شراکتی  کمپنیاں اسلام  میں حرام  ہیں۔ اسلام ان  کی بالکل  اجازت نہیں دیتا۔ کیونکہ  یہ انعقاد  اور "صحتِ بیع" کی ان  تمام شرائط کو ورا نہیں  کرتیں جو نصوص میں مذکور ہیں۔ ان کمپنیوں  کے شیئڑ ز میں عقد  کے ارکان ، یعنی  ایجاب  و قبول بھی نہیں  ائے جاتے ۔ یہ ایک  طرف سے پورے  ہوتے ہیں، جو صڑف ایک حصہ  دار ہے۔  وہ اس  طرح کہ کوئی  شخص صرف کمپنی  کی شرائط  پر  پورا اترے، تو وہ شریک  بن جاتا ہے۔ اسی طرح صرف  ایک حصہ  کے خرید  نے سے کوئی  شخص کمپنی کا حصہ  دار بنجا تا ہے۔  سرمایہ داروں کے نزدیک  یہ صرف  ارادہ  ہے۔ اس کمپنی  کے شیئرز میں دو عاقد (بائع  و مشتری ) نہیں ہوتے ، بلکہ  صرف ایک متصرف ہوتا ہے۔ 

اسی طرح اس میں ایجاب  وقبول  بھی نہیں ہوتا، بلکہ   صرف  قبول  ہے ۔  اور اس  میں مال  اور بدن نہیں ہوتا، بلکہ  فقط مال ہوتا ہے۔ شریعت  میں کمپنی  کے لیے یہ شرط  ہے  کہ اس میں دو عاقدوں(بائع ومشتری) کی جانب  سے ایجاب وقبول ہوتا ہے ۔ جیسا  کہ تجارت ، کرایہ اور اس جیسے  دوسرے  عقود میں ہے،  اور یہ شرکت بھی صڑف دوبدنوں کے  درمیان  یا بدن اور مال  کے درمیان  ہو سکتی  ہے۔ بدن  کے بغیر  مال میں شرکت  جائز نہیں۔  چنانچہ سرمایہ  دارانہ  شراکتی  کمپنی  کا عقد ہی نہیں ہوتا  کیونکہ  اس میں عقد  کے ارکان  ہی نہیں  پائے جاتے ۔ لہٰذا یہ  باطل  اور حرام  ہے۔ شرع کی مخالفت ہے، اور اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا  ہے۔ اس میں اللہ  کے اَمر کی مخالفت  ہے ۔ کیونکہ  اللہ  تعالیٰ  نے انعقاد  کی شرط کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کو پورا  نہ کرنے سے اللہ اور اس کے حکم  کی مخالفت نظر آتی  ہے:

فَلۡيَحۡذَرِ ٱلَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنۡ أَمۡرِهِۦۤ أَن تُصِيبَہُمۡ فِتۡنَةٌ أَوۡ يُصِيبَہُمۡ عَذَابٌ أَلِيمٌ

"جو اس (محمد صلى الله عليه وسلم) کے حکم کی مخالفت  کرتے ہیں انہیں اس بات  سے ڈرنا چا ہیے  کہ وہ کسی  فتنہ  یا در ناک  عذاب  میں مبتلا نہ ہو جائیں۔"
(النور:۶۳)

اسی طرح شارع نے سود، ذخیرہ اندوزی، جوا، ملاوٹ ، دھوکا، غبن ، فحش ، شراب کی خرید وفرو خت ، خنزیر کی  تجارت  یا مردار  کے  بیچنے  اور خرید  نے کو ، صلیب کی لکڑی کے بیچنے ، میلاد  کی خوشی کے درخت، چوری اور جیب  تراشی ، لوٹ مار، اور شوت یا خیانت کے ذریعے مال کمانے اور بڑھا نے سے منع  کیا ہے۔ 

دوم :عام  ملکیت:
ملکیت  کی اقسام  میں سے دوسری قسم  "ملکیتِ عام" ہے۔ یہ  اعیان (نقداموال)  ہیں،  جنہیں  شارع نے تمام مسلمانوں  کی ملکیت  میں دیا،  اور ان کو مسلمانوں کے درمیان مشترک  قرار دیا ۔ اور ان  سے نفع  اٹھانے کو افراد کے  لیے مباح  قرار دیا اور انفرادی  ملکیت میں لینے  سے منع  فرمایا  ہے۔  بنیادی طور پر ان اعیان  کی تین  اقسام  ہیں:
۱۔ جماعت کی عام روز مرہ  ضرور  یات زند گی ، جن کے بغیر زندگی ناممکن  ہے۔ مثلاً پانی، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے  فرمایا:

اَلنَّاسُ شُرَ کَاءُ فَی ثَلاثٍ اَلمَاءُ وَالکِلَا ءُ وَالنَّارُ

"تین  چیزوں  میں تمام  لوگ شریک ک ہیں: پانی، چارہ  اور آ گ۔
 بات ان تین  چیزوں تک محدود نہیں، بلکہ  اس میں ہر وہ چیز داخل  ہے جو جماعت کی ضرورت ہے۔ لہذاوہ تمام  آلات بھی اس میں شامل  ہیں جو جماعت  کی ضرورت ہیں۔ جیسے  پانی  نکالنے  یا چھڑ کنے کے آلات اور اس کو  پہنچا نے کے لیے پائپ ، بجلی  پید اکرنے کے آلات، مثلاً اس میں پانی کے گرنے  کے آلات، ستون اور تارو غیرہ۔ 
 
۲۔ وہ اعیان ، جو اپنی طبعی اور تکوینی خصوصیت  کی وجہ سے انفرادی  قبضہ  میں نہیں ہو سکتے۔ مثلاً سمندر، دریا، عام  میدان، مساجد ، عام راستے  وغیرہ ۔ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :

مَنَّی مُنَا خٌ مَن سَبَقَ

"جو پہل کرے ہماری  طرف سے راہ  ہموار ہے۔"(یعنی پہلے  آئیے پہلے پائیے۔)
 ان کے علاوہ  کئی  اور چیزیں، مثلاً ریل  گاڑی، بجلی  کے کھمبے ، پانی کی پائپ لائنز اور پانی کے وہ نلکے  ، جو عام راستوں  میں  لگے ہوئے  ہیں، بھی عام ملکیت میں شامل  ہیں۔ کیونکہ یہ عام راستوں میں لگے  ہوئے ہیں  اور عام  راستے  عام ملکیت  ہیں۔  کوئی فردان  کو اپنے لیے خاص نہیں کر سکتا اور نہ اس چیز  سے لوگوں کو منع  کر سکتا ہے، جو عام  ہے۔ رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :

لَا حِمَی اِلاّٰ اللّٰہ  وَرَسُو لِہٖ

"اللہ  اور  اس کے رسول  کے علاوہ کسی کے  لیے چراگاہ نہیں ہے۔"
 چنانچہ  ریاست   کے علاوہ  کوئی بھی ان چیزوں سے منع  نہیں کر سکتا ۔
۳۔ وہ بے شمار معد نیات، جو منقطع  نہ ہوتی  ہوں۔
 یہ بہت  سی معد  نیات، جو بہت کثرت سے ہوتی ہیں،  یہ تمام مسلمانوں کی ملکیت  ہیں۔  کسی خاص فرد کیا کمپنی  کے لیے ان  کی ملکیت جائز نہیں ۔  لٰہذا انہیں  نکالنے  ، بنانے  اور ذخیرہ  کرنے یا تقسیم  کرنے کے لیے کسی خاص  فرد یا کمپنی  کی  ملکیت میں  دنیا  جائز نہیں ۔  بلکہ ان کو تمام  مسلمانوں  کی ملکیت  میں رہنا  ضروری  ہے۔ اس میں تمام  مسلمان شریک  ہوں گے۔  اور مملکت انہیں خود نکالے گی، یا کسی  اور ذریعے  سے، یا مسلمانوں کے  نمائندے کی حیثیت سے انہیں بیچ  کر ان  کی  آمدنی بیت المال میں  رکھے گی۔ 

یہ معادن چاہے ظاہر ی ہوں یا زیر زمین ، ان میں کوئی  فرق نہیں ۔ مثلاً نمک، سرمہ  وغیرہ  (جو ظاہری معدنیات ہیں۔)  اسی طرح  زیر زمین معادن ، جن کو بڑی مشقت  سے نکالا جاتا ہے، مثلاً سونا ، چاندی  ، لو ہا، پیتل، تانبا، یورینیم ، پڑول  وغیرہ۔ ایس کی دلیل  ابیضؓ  بن حمال  المازنی کی حدیث  ہے:

اَنَّہُ اِستَقطَعَ رَسُولَ اللّٰہ اَلمِلحَ بِمَآ ءٍٍ رِبَ فَقَطَعَہُ لَہُ فَلَمَّا وَلّٰی قِیلَ یاَرَسُولَ اللَّہ :اَتَدرِی مَا قَطَعتَ لَہُ؟ اِنَّمَا  اَقطَعتَہُ المَاءَ العَدِ قَالَ، فَر جِعہُ مَنہُ

"انہوں (ابیض بن حمال) نے رسول اللہ سے مارب میں نمک  توڑلینے  کی اجازت چاہی  تو آپ  نے ان  کے لیے توڑا۔ جب وہ واپس  ہوئے تو رسول  اللہ سے کہا  گیا: اے  اللہ کے رسول  ! کیا آپ کو معلوم  ہے کہ آپ نے   ان کے لیے کیا توڑا؟  آپ  نے اس کے لیے بے شمار پانی (معد نیات)  توڑا۔ آپ نے فرمایا: "اس سے واپس  لے لو۔"

 جہا ن تک ان چھوٹی اور مقدار میں محدود  معد نیات  کا تعلق  ہے، جیسے سونے اور چاندی کا عرق، تو ان کا کوئی  خاص فرد بھی  مالک  ہو سکتا  ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے  بلال رضي الله عنه بن الحارث المزنی کو حجاز میں الفرع کی طرف "معادن القبیلۃ"  کا مالک  بنایا۔ بلا ل نے رسول ا للہ صلى الله عليه وسلم سے ان کو توڑ  نے کا سوال کیا تو  آپ صلى الله عليه وسلم نے ان  کے لیے  تڑوایا، اور اس کا مالک  بھی بنایا۔ 

عام ملکیت سے نفع اٹھانے کی کیفیت :
چونکہ ملکیت  عامہ تمام  مسلمانوں  کی ملکیت  اور ان کے درمیان  مشترک ہے، لہٰذا ہر فرد اس سے فائدہ  اٹھا سکتا ہے۔  اگر اس ملکیت  کے اعیان ایسے ہوں، جن سے انسان  خود آسانی  سے نفع  اٹھا سکتا ہے،  تو اٹھا ئے۔ مثلاً  پانی  ، چارہ، آگ، عام راستے  دریا اور سمندر وغیرہ ۔  اور اگر ان سے خود آسانی سے فائدہ  اٹھانا  ایک فرد کے لیے سہل نہ ہو، مثلاً   پٹرول اور دوسری معد نیات وغیرہ، تو مملکت ان کو زمین  سے نکالے  گی اور ان کی آمدنی بیت المال  میں رکھے  گی۔ 

خلیفہ  ان میں سے حسب ِ موقع مسلمانوں  کے فائدے  کے لیے خرچ کرتے گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس کی آمدن  کو مندرجہ  ذیل  طریقے  سے تقسیم  کرے:

۱۔   اعیان  کو زمین  سے نکالنے کے محکمے  پر خرچ  کرے۔ یعنی  اس کی تعمیر ات، متعلقہ افسروں ، مشیروں، ماہر ین وآلات اور کار خانوں  وغیرہ  پر۔   

۲۔ ان مسلمانوں پر خرچ کرے، جو ان ملکیاتِ عامہ  کے حق  دار  ہیں۔  یعنی خلیفہ  انہیں  مسلمانوں  میں تقسیم  کر دے گا، جیسے پٹرول، پانی ، بجلی وغیرہ  مفت دے گا، یا ان سے حاصل ہونے والی  آمدنی کو مسلمانوں  کے مفادات اور  موقع ومحل  کے اعتبار سے ان کی بھلائی کے کاموں  میں خرچ کرے گا۔ 

۳۔  جہاد  اور اس کے لیے اسلحہ  اور فوج  کی تیاری  میں ان کو خرچ  کرنے سے منع کرے گا۔  اور اسی طرح بیت المال  کے ان مصارف   میں بھی خرچ نہیں کرنے دے گا، جن پر خرچ کرنا مال ہونے یا نہ ہونے  کی صورت میں بہر  حال بیت  المال  پر واجب  ہے۔  بیت المال  میں مال  نہ ہونے  کی صورت  میں اس کے لیے خرچ کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔

سوم:مملکت  کی ملکیت:
ملکیت کی تیسری  قسم "مملکت کی ملکیت" ہے۔  اس میں  ہر وہ عین  شامل ہے ، جو زمین یا مکان  کی صورت  میں  عام  مسلمانوں  سے تو متعلق  ہے مگر ملکیت  عامہ  میں داخل  نہیں۔ مملکت  کی ملکیت  وہ اعیان   ہیں، جو انفرادی  ملکیت کی  اہلیت  بھی رکھتے  ہیں، مثلاً زمین، مکان اور منقولہ اشیاء وغیرہ لیکن جب یہ عام  مسلمانوں  سے متعلق ہوگئے ، تو ان  کی تدبیر ان مسلمانوں کا معاملہ  ہے۔ جہاد تک تصرف کی بات ہے تو یہ مملکت کی ذمہ  داری ہے۔ کیونکہ  مملکت  ہی  ان  چیزوں کو بہتر  طریقے  س صرف کر سکتی  ہے جو عام  مسلمانوں  سے متعلقہ  ہیں۔  مثلا صحرا، پہاڑ، بندرگا ہیں، ایسی   بنجر زمین، جو کسی خاص شخص کی ملکیت نہ ہو، عمارات ، پانی پینے  کی جگہیں(کنوئیں  وغیرہ)۔ 

 اسی طرح وہ اعیان ،جن کو مملکت  خرید لے یا تعمیر  کرے یا جنگ میں دشمن سے چھین  لے، مثلاً دفاتر  کی عمارات ۔ اسی طرح مدارس، ہسپتال  وغیرہ۔ مملکت  ان املاک  کی مالک بی ہو سکتی  ہے جن کے مالک  افراد ہو سکتے  ہیں،  مثلاً  زمین  مکان وغیرہ۔ پھر خلیفہ  ان کو افراد کی ملکیت میں بی دے سکتا ہے، چاہے  یہ  منفعت کے اعتبار سے ہو یا اصل (عین ) کے اعتبار سے، یا پھر دونوں اعتبار  سے ۔ یعنی منفعت کا اصل  یا  بنجر زمین انہیں دے دے، تا کہ وہ اس کو آباد کریں اور مالک  بن جائیں۔ اور اس کے ساتھ  اس  میں ایسا  تصرف کریں جو مسلمانوں  کے مفاد ہیں ہو۔

زمینیں:
 زمینوں  کا رقبہ  اور منفعت دو چیزیں  ہیں۔ اس کا رقبہ اس کی اصل  ہے اور منفعت  سے مرادزراعت  وغیرہ  میں اس کا استعمال  ہے۔ اسلام  نے اس کے اور منفعت  دونوں کی ملکیت  کو مباح کر دیا   ۔ لیکن دونوں کے لیے  مخصوص احکام وضع کیے  ہیں۔

 زمینوں  کی اقسام:
 زمینوں  کی دواقسام ہیں:(۱)عشرہ زمین (۲)خراجی زمین

اول:عشری  زمین:
یہ وہ زمین ہے جس کے رہنے والے وہاں رہتے  ہوئے مسلمان ہوئے۔ جیسے انڈونیشیا اور  جزیرہ  عرب کی  زمین، اور وہ  بنجر زمین،  جسے انسان  خود آباد کرے۔
عشری  زمین  کے اصل  اور نفع دونوں  کا مالک بنا جاسکتا ہے اور اس میں زمین کی پیدا   اوار پر زکوٰ ۃ ہے۔ اگر زمین  بارانی  ہو تو ز کوٰۃ کے  بجائے  عشر ہے۔ اگر زمین کو آلات کی مدد سے سیرات  کیا جائے تو اس میں نصف  عشر ہے۔

دوم:خراجی  زمین:
  یہ وہ زمین  ہے جو جہاد یا صلح  کے ذریعے فتح  کی    گئی  ہو۔ جزیرہ عرب میں اس کی مثال  عراق، شام، مصر   اور دوسرے  ممالک، جو بزورِ شمشیر فتح  کیے  گئے ہیں۔ خراجی زمین کی اصل  (عینِ زمین) مسلمانوں کی ملکیت ہے ۔ مملکت اس ملکیت میں مسلمانون  کی نائب  ہے۔ افرا د کے لیے  اس کی منفعت کی ملکیت بھی ایک جائز امرہے۔ 

اور  خراجی  زمین پر خراج لینا  فرض ہے، اور اس کی مقدار وہ ہوگی   جو مملکت  اس پر مقرر کرے۔ اسی طرح  خراج  نکالنے  کے  بعد اگر اس کی پیدا وار نصاب کو پہنچے  تو اس پر زکوٰ ۃ بھی  لی جائے گی۔ چنانچہ ہر فرد کو عشری زمین سے نفع  اٹھا نے کا حق حاصل  ہے۔ بایں معنی  کہ وہ اس کو نیچ سکتا ہے، اس کو میراث اور ہبہ میں لے دے سکتا ہے۔ اسی طرح  فرد کو خراجی زمین  سے بھی نفع اٹھانے  کا حق  حاصل ہے۔ یعنی وہ اس کو بیچ  یا خرید  سکتا ہے، اور دوسرے اموال کی طرف میراث  کے  ذریعے اس کا مالک بھی ہو سکتا ہے۔

کارخانے:
 کار خانوں کا بھی کسی فرد کی ملکیت میں ہونا جائز  ہے۔ مثلاً گاڑیوں کے کار خانے، فرنیچر وغیرہ کے کار خانے  یا ٹیلر نگ ہاؤ س یا کھیلوں کے سامان  وغیرہ  کے کار خانے، جن کے افراد مالک ہوتے  ہیں۔  اسی طرح مملکت  بھی مختلف  کار خانوں کی مالک  ہو سکتی ہے، مثلاً اسلحہ  ساز فیکٹریاں یا تیل نکالنے  کے کارخانے یا معد نیات نکالنے  کے کارخانے  وغیرہ ۔ علاوہ ازیں  کا رخانے اور فیکٹریاں عام ملکیت  میں بھی ہو سکتے  ہیں، اگر وہ عام اشیاء پیدا کر رہے ہوں، مثلاً لوہا، پیتل، سونا اور چاندی  کے کار کانے ۔ اسی طرح عام  ملکیت  کے اعیان  نکالنے  کے کار خانے، مثلاً پٹرول وغیرہ  ۔ ان کا ر خانوں  کی ملکیت ان  کی پیداوار کی  ملکیت  کے تابع  ہوگی۔ کیونکہ قاعدہ  ہے:

اِنَّ المَصنَعَ یَا خَذَ حُکمَ مَایُنتِج

"(یعنی ) کار خانے کا وہی حکم ہے جو اس کی پیداوار کا ہے۔"

بیت  المال:

بیت المال کی آمدنی:
۱۔ انفال،  غنائم، مال فے، خمس
۲۔ خراج
۳۔ جزیہ
۴۔ عام ملکیت کی آمدنی کی مختلف اقسام  ۔ ان کو خاص مد  میں رکھا  جائے گا۔
۵۔زمین یا مکانات  کی ملکیت  کے ذریعے  مملکت کی آمدنی
۶۔شہروں کی حدود میں لیا جانے  والا عشر
۷۔معدن، خمس اور رکاز(مدفون خزانہ)
۸۔ٹیکسنر (الضرائب)
۹۔زکوٰۃ کے اموال، ان کو بھی  خاص مدات  میں رکھا  جائے گا۔ 

نفقد کے سونا یا چاندی  ہونے کا وجوب:
رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم کے زمانے میں لوگ صرف سونا چاندی  کو نقدی  کی بنیاد سمجھتے تھے۔ وہ ہر جگہ  اس ہی استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ بازنیطنی  دینا  ر اور کسروی درہم  بھی اپنے پاس نقد کی صورت میں رکھتے  تھے ۔ رسول  اللہ  صلى الله عليه وسلم کے زمانے سے لے کر عبدالملک  بن مرو ان کے زمانے  تک  کسی خاص قسم کے نقدی سکے  نہیں  بنائے  گئے۔ عبدالملک  نے اپنے عہد  میں ایک خاص قسم کا سکہ ، اسلامی  نقدی بنائی اور اسے ایک خاص  طرز اور معّین   شکل  میں بنوایا۔ اس میں خالصا سلامی نقش ونگار کیا اور اسے صڑف ونے چاندی  کی بیاد ہی پر رکھا۔ یعنی شرعی  دینا ر اور  درہم  کے وز کے برابر۔ 

 سونے اور چاندی  کے سونا  اور چاندی   ہونے کے اعتبار سے ، اور نقداور  عملہ  (سکہ)  ہونے کے اعتبار سے، اسی طرح اشیاء  کی قیمت اور مخت کی اجرت ہونے کے اعتبار سے ، اسلام کے بہت  سے شرعی احکامات  ہیں۔ چنانچہ ان کا  جمع  کرنا (افراط زر) حرام  ہے۔ ان سے متعلقہ  ایسے احکامات بھی ہیں جو کبھی تبدیل نہیں ہوتے ۔ لہٰذا ان میں زکوٰ ۃ ان  کے نقدر ہنے کے اعتبار سے ہے۔ اسی طرح اشیاء  کی قیمتیں ہونے کے اعتبار سے، سونے کے دیناروں اور چاندی  کے  درہم سے ان اشیاء  کے لیے ایک نصاب متعّین کیا۔ اور اگردیت  بھی فرض ہو تو اس میں بھی یہ دونوں  دی جا سکتی ہیں۔  اس کے لیے سونا اور چاندی  سے ایک متعین  مقدار مقرر کی گئی، جو  سونے  میں ہزار دینا  اور چاندی  میں بارہ ہزار درہم  ہیں۔  جب چوری  میں  ہاتھ  کاٹنے  کو فرض  قرار دیا تو اس میں اس مقدار کا تعین  کیا، جس  پر ہاتھ  کا ٹاجائے  گا۔ یعنی  سونے  میں ربع  دینا  ر (دینا ر کا چوتھا ئی حصہ) اور چاندی  میں تین درہم  ۔ اور جب شرع  نے نقدی  معاملات میں تصرف کے احکامات مقرر کیےم تو سونا اور چاندی  ہی  کو اس میں معتبر ٹھہر ایا۔ 

لہٰذا معلوم  ہو اکہ اسلام نے اِن تمام شرعی  احکامات کو سونے اور چاندی  کے ساتھ  بحثیت نقد اور "سکہ  رائج  الوقت" کے مر بوط کیا ہے۔ اور انہی کو چیزوں کی قیمت  قرار  دیا ہے۔ اور اس کو خود رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے متعّین  کیا ہے  کہ سونا  اور چاندی  ہی صرف نقد کے پیمانے ہیں، جن سے سامان  کی قیمت  لگائی  جاتی  ہے، اور محنت  کی مزدوری دی  جاتی ہے۔  یہ اس بات کی بہت  بڑی  دلیل  ہے کہ اسلام نے بطور   نقدی  صرف سونا اور چاندی  کا اعتبار کیا ہے۔ کیونکہ  نقدی  ے جتنے  احکامات  ہیں وہ سونے اور چاندی  سے مربوط  ہیں۔ 

اس بناء  پر مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان کی نقدی  سونے اور چاندی  کی شکل  میں ہو اور  خلیفہ  کو بھی چاہیے  کہ وہ نقدی میں صرف سونا اور چاندی  کا اعتبار کرے۔ اور سونا اور چاندی  کے اس قاعدے  پر چلے، جو رسول  اللہ  صلى الله عليه وسلم اور خلفائے راشدین  کے زمانے  میں تھا۔  اور خلافت کیحکو مت پر یہ   بھی لازم آتا ہے کہ وہ ایک متعین شکل  اور خاص طرز پر  دینا  ر اور درہم کے  سکے  بنائے۔ اور دینار  کا وزن شرعی دینا  ر کے وزن  کے برابر  ہو، یعنی 4.25 گرام ایک دینار   کے  لیے،  جو مثقال کا وزن  ہے۔ا ور چاندی کے درہم  کا وزن شرعی درہم  کے وزن  کے برابر ہو گا، جسے " وزن بیع" بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی  ہر دس در ہم سات مثقال  وزن کے برابر ہوں گے۔ اور 2.975 گرام  وزن  کے برابر   درہم کا سکہ بنایا  جائے گا۔ 

 یہ سونے  اور چاندی کا قاعدہ  ہی ہے، جس کے ذریعے  نقدی کی مشکلات  پر قابوپایا جا سکتا ہے ، اور افراط  زرکی اس عالمی  شدت میں، جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا  ہوا ہے، نقدی  کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ قیمتوں میں استحکام  او رعالمی تجارت کو ترقی دی جاسکتی  ہے۔ سونے  چاندی  کے قاعدے کے ذریعے ہی سے بین  الا قوامی کرنسی پر امریکہ   کے تسلط  کوختم  کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بین الا قوامی تجارت اور عالمی  اقتصاد پر  امر یکی قبضے کو اس قاعدے سے ختم  کیا جا سکتا ہے۔ پس سونے  کے قاعدے  کی طرف  رجوع  ہی سے دنیا میں ڈالر کا اثرورسوخ  اور اس کی قیمت مفقود ہوگی ۔
(یہ اقتباس کتابچہ  حزب التحریر  سے  لیا گیا ہے)



اسلام میں اقتصادی نظام کے اسلام میں اقتصادی  نظام  کے Reviewed by خلافت راشدا سانی on 3:52 AM Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.