قبل اس سے
کہ ریاستِ خلافت کے اداروں کی تفصیل پر بحث ہو،یہ ناگزیر ہوگا کہ مندرجہ ذیل امور
بیان کر دئے جائیں۔
إ یہ کہ
اسلامی نظامِ حکومت میں اللہ تعالیٰ نے جو طریقہ فرض قرار دیا ہے وہ خلافت کا
طریقہ ہے جس میں خلیفہ کو کتاب اللہ اور سنت رسول پربیعت دے کر اللہ تعالیٰ کے
نازل کردہ احکام سے حکومت کرنے کیلئے نصب کیا جاتا ہے۔اس بات کے دلائل کثرت سے
وارد ہیں جوکتاب اللہ،سنتِ رسول ااور اجماع صحابہ ثسے ماخوذ ہیں۔
کتاب اللہ
کو دیکھیں تو اللہ د حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم)سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے:
(فَاحْکُمْ
بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآءَ ھُمْ
عَمَّ جَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّط)
پس لوگوں کے
درمیان تم اس کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے اور جو حق تمہارے پاس
آچکا ہے،اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرنا۔( سورۂ المائدۃ: آیت:۴۸)
(وَاَنِ احْکُمْ
بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ ولَا تَتَّبِعْ اَھْوَآءَ ھُمْ وَاحْذَرْھُمْ
اَنْ یَفْتِنُوْکَ عَنْم بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَ)
اور یہ کہ
تم ان کے درمیان وہی فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے،اور ان کی خواہشات کی پیروی
نہ کرنا،اور ان سے بچتے رہو کہ مبادہ تمہیں فریب میں ڈال کراس کے کسی حصہ سے منحرف
کر دیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کیا ہے۔(سورۂ المائدۃ: آیت:۴۹)
اللہ تعالیٰ
کا حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) کو یہ حکم کہ اللہ کے نازل کردہ
احکام سے ہی فیصلے کئے جائیں فی الحقیقت حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)
کی پوری امت سے خطاب ہے۔ اس سے یہ مفہوم ثابت ہوتا ہے کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)کے بعد ایسا حاکم متعین کیا جائے جو
اللہ کے نازل کردہ احکام سے امت پر حکومت کرے۔اس خطاب میں امر کا صیغہ اس امرکو
حتمی حکم بنادیتا ہے کیونکہ خطاب کے موضوع میں فرضیت ہے جو کہ اس حکم کی قطعیت پر
دلالت کا قرینہ ہے جیسا کہ شریعت کے اصول میں ہے۔
نیز یہ کہ جو حاکم حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)کے بعد امت پر اللہ تعالیٰ کے نازل
کردہ احکام سے حکومت کرے وہ خلیفہ ہی ہے اور یہ کہ جو ایسی حکومت کا نظام ہو وہ
نظامِ خلافت ہے۔یہ دلیل اس کے علاوہ ہے کہ حدود اور تمام احکامِ شرع کا قائم کیا
جانا ویسے بھی فرض ہے اور یہ تمام ایک حاکم ہی نافذ کرسکتا ہے،نیز یہ شریعت کا
مسلمہ قاعدہ ہے کہ (ما لا یتم
الواجب إلا بہ فھو واجب)
یعنی جس چیز کے بغیر کوئی فرض پورا نہ ہوتا ہو اُس چیز کو انجام دینا بھی فرض
ہوجاتا ہے۔یعنی ایسے حاکم کا نصب کیا جانا فرض ہوتا ہے جو شریعت کو قائم کرے۔ایسے
حاکم کو خلیفہ کہتے ہیں اور ایسے نظامِ حکومت کو خلافت۔
حضرت نافع صؓ
سے حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کی روایت نقل ہے کہ اُنہوں نے حضور اقدس (صلى الله عليه وسلم)
سے سنا:
((من خلع
یداً من طاعۃ لقي اللّٰہ یوم القیامۃ لا حجۃ لہ و من مات ولیس في عنقہ بیعۃ مات
میتۃ جاھلیۃ))
جس نے (امیر
کی) اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا،وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے
گا کہ اُس پر کوئی حجت نہیں ہوگی۔اور جو کوئی اس حال میں مر گیا کہ اُس کی گردن پر
خلیفہ کی بیعت کا طوق ہی نہ ہو،تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔(مسلم شریف)
لہٰذا حضور نبی
کریم (صلى الله عليه وسلم)نے یہ فرض قرار دیا کہ ہر ایک مسلمان
کی گردن پر بیعت ہو اور جو ایسا نہ ہو تو اُس کی موت کو جاہلیت کی موت سے تعبیر
فرمایا۔نیز حضور اکے بعد سوائے خلیفہ کے کسی اور کیلئے نہیں ہوسکتی۔لہٰذا یہ حدیث
اسے فرض قرار دیتی ہے کہ بیعت کا طوق ہر ایک مسلم کی گردن پر ہویعنی خلیفہ کے وجود
سے ہر مسلم کی گردن پر بیعت ہونے کا حکم پورا ہو جاتا ہے۔امام مسلمؒ نے الاعرج سے
اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ (رضي
الله عنه) سے روایت کیا ہے کہ حضور اقدس (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:
((إنَّمَا
الإمام جُنّۃ یُقَاتَلُ مِن وراۂٖ و یتقی بہٖ))
بے شک امام
ایک ڈھال ہے جس کے پیچھے لڑا جاتا ہے اور اپنا بچاؤ کیا جاتا ہے۔
مسلم شریف میں ابی حازمؓ کی روایت نقل کی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال حضرت ابو ہریرہؓ کے ساتھ رہا اور اُن سے حضور (صلى الله عليه وسلم) کے بارے میں سنا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:
((کانت بنو إسرائیل تسوسھم
الأنبیاء‘کلما ھلک نبیٌ خلفہ نبي‘ و إنہ لا نبي بعدي‘و ستکون خلفاء فتکثر‘قالوا
فما تأمرنا؟قال: فوا ببیعۃ الأول فالأول‘و أعطوھم حقھم‘فإن اللہ سائلھم عما
استرعاھم۔))
بنی اسرائیل
پر انبیاء علیہم السلام حکومت کیا کرتے تھے،جب ایک نبی کاانتقال ہوجاتا تو دوسرا
اسکی جگہ لے لیتا تھا،لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا،خلفاء ہوں گے اور بہت سے
ہوں گے۔پوچھا گیا کہ ہمارے لئے تب کیا حکم ہے؟ فرمایا:اُن سے اپنی بیعت پوری کرو
اور اُن کو اُن کا حق دو،اللہ (خود) اُن سے اس بارے میں محاسبہ کریگا جو اُن کے
ذمہ کیا تھا۔
ان احادیث
میں خلیفہ کا یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک ڈھال یا بچاؤ ہے۔نیز یہ کہ حضور
اکرم (صلى الله عليه وسلم) کا خلیفہ کو ڈھال فرمانا در اصل
صیغۂ مدحت میں ہے یعنی اس کی تعریف کی گئی ہے اور اس تعریف میں مطالبہ پوشیدہ
ہے؛کیونکہ یہ خبر اللہ اور اُس کے رسول اکی طرف سے ہے اور اگر اس خبر میں کسی بات
کو مذموم بتایا گیا ہو تو وہ اُس بات کے ترک کردینے کا حکم شمار ہوتا ہے ،یا اگر
ایسی خبر میں تعریفی بات ہو تو پھر یہ حکم کے صیغہ میں گردانا جاتا ہے۔
نیز اگر
ایسے مطلوبہ فعل پر حکم شرعی کے قائم ہونے کا دار ومدار ہو،یا ایسے امتناعی حکم پر
کسی حکم شرعی کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو،تو ایسی صورت میں یہ حکم ،ایک قطعی حکم کے
زمرے میں آجاتا ہے۔ان احادیث میں بھی اُن لوگوں کو جو مسلمانوں کے امور اور سیاست
کی نگہداشت کرتے ہیں ،خلیفہ بتایا ہے اور اُن کو قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بہرحال حضور اقدس (صلى الله
عليه وسلم) نے خلیفہ کی اطاعت اور جو کوئی اُن
کی خلافت سے تنازعہ کرے اُس سے قتال کا حکم دیا ہے جو خلیفہ کے قائم کرنے اور
خلافت کی ہر اُس شخص سے قتال کرکے حفاظت کرنے کے حکم کے مترادف ہوا۔مسلم شریف میں
حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
((و مَن بایع إماماً فأعطاہ صفقۃ یدہ،و
ثمرۃ قلبہ فلیطعہ إن استطاع ۔فإن جاء آخر ینازعہ،فاضربوہ عنق الآخر))
جوکوئی ایک
امام کے ہاتھ پر ،دل سے بیعت دے،پھر وہ اسکی اطاعت حتی الامکان کرے، اور اگر کوئی
دوسراا آکر خلیفہ سے تنازعہ کرے،تو اسکی گردن اُڑا دو۔
لہٰذا خلیفہ کی اطاعت کا حکم اُس کے قائم کرنے کے مترادف ہوا
اورخلیفہ سے تنازعہ کرنے والے سے لڑنے کا حکماس بات پر حتمی قرینہ ہوا کہخلیفہ
ہمیشہ ایک ہی ہو۔
اس ضمن میں اجماعِ صحابہ کی جانب غور کریں تو یہ واضح ہے کہ صحابۂ
کرام ک نے حضور اقدس (صلى الله عليه وسلم) کی وفات کے وقت اس
بات پر مکمل اتفاق کیا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم)کے بعد آپ (صلى الله عليه وسلم) کا خلیفہ ہونا لازم ہے۔نیز اس کے بعد
بھی حضرت ابو بکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان ث کی وفات کے وقت اُن کے جانشین خلیفہ
کے انتخاب میں حاباکرام کا اجماع ثابت ہے۔ صحابۂ کرام ک ثکے اس اجماع پر تاکید کا
اندازہ اس بات سے اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اُنہوں نے حضور اقدس (صلى الله عليه وسلم)
کی وفات کے بعد خلیفہ کے نصب کرنے کے کام کو حضور اکی تجہیز و تدفین پر
مقدم رکھا اور تدفین میں تاخیرکرکے خلیفہ نصب کرنے میں مشغول رہے،جبکہ وفات کے بعد
میت کی تدفین فرض ہے۔وہ صحابۂ کرام ک جن پر تدفین کا کام فرض تھا،اُن میں سے بعض
اس کام کو چھوڑ کر خلیفہ کے نصب کرنے کے کام میں مشغول رہے اور بعض دوسرے اس پر
خاموش رہے اور دو راتوں کی تاخیر میں شریک رہے ،جبکہ وہ اس بات پرقادر تھے کہ ایسی
تاخیر میں شرکت سے انکار کرکے ازخود تدفین کو انجام دے دیں۔
حضور اقدس (صلى الله عليه وسلم)
کی وفات پیر کی صبح واقع ہوئی،پھر پورا دن گزرنے کے بعد رات اور اگلا دن
منگل کا بھی پورا گزر گیا ،پھر حضرت ابو بکر صپر بیعت ہوئی اور اگلی رات کے وسط
میں تدفین عمل میں آئی۔یعنی تدفین میں دو راتوں کی تاخیر کی گئی اور حضرت ابو بکر
(رضي الله
عنه)کی بیعت آپ
(صلى الله
عليه وسلم)
کی تدفین سے پہلے مکمل کر لی گئی۔چنانچہ یہ تاخیر ،تدفین کو چھوڑ کرخلیفہ کے نصب
کرنیکے عمل پر صحابۂ کرام ک کا اجماع ٹھہرا،مزید یہ کہ ایسا اسی وقت ہو سکتا تھا
جب خلیفہ کا نصب کیا جانا میت کے دفن سے بڑا فرض ہو۔نہ صرف یہ بلکہ تمام صحابہ
اپنی تمام عمر خلیفہ کے نصب کئے جانے کی فرضیت پر متفق رہے ،گو کہ اُن کے درمیان
اس بات پر اختلافِ رائے رہا کہ خلیفہ کون بنے لیکن خلیفہ نصب کئے جانے پر مطلقاً
اختلاف نہیں ہوا؛نہ حضور (صلى الله عليه وسلم) کی وفات کے بعد اور نہ ہی خلفاء
راشدین میں سے کسی کی وفات کے وقت۔لہٰذا خلیفہ کے نصب کئے جانے پر یہ صحابۂ کرام ک
کا یہ اجماع مضبوط اور صریح دلیل ٹھہری۔
إ دوسری یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ اسلام کے نظامِ حکومت
یعنی خلافت ،اپنی مخصوص شکل و ہیئت کے اعتبار سے دنیا کے موجودہ تمام حکومتی
نظاموں سے جداگانہ حیثیت کا حامل ہے؛خواہ اُس بنیاد کے لحاظ سے جن پر یہ نظام قائم
ہے؛ یااپنے مخصوص افکار،مفاہیم،معیار اور احکام کے تعلق سے ،جن سے اِس نظام میں
معاملات و امور کی نگہداشت ہوتی ہے؛یا پھر اپنے آئین اور قوانین کے اعتبار سے جو
منطبق یا نافذ کئے جاتے ہیں؛یاپھراپنی خاص شکل کے لحاظ سے جو ریاست خلافت کی ہوتی
ہے اور سارے عالم کے تمام دیگر نظام ہائے حکومت سے ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔
خلافت کوئی بادشاہت کا نظام نہیں ہے، اور نہ ہی یہ اُس سے
مطابقت یا مشابہت ہی رکھتا ہے ، کیونکہ بادشاہت میں بادشاہ کا بیٹا اُس کے
بعداقتدار کا وارث ہوتا ہے اور اس میں امت کو کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس
نظامِ خلافت میں وراثت نہیں ہوتی بلکہ امت کی جانب سے بیعت دیا جانا ہی خلیفہ کے
نصب کرنے کا طریقہ ہوتا ہے۔پھر بادشاہت کے نظام میں بادشاہ کو ایسے امتیازی حقوق
حاصل ہوتے ہیں جو اُس کے سوا رعیت کے کسی اورفرد کو حاصل نہیں ہوتے اور یہ
امتیازات بادشاہ کو قانون سے بالاتر حیثیت عطا کرتے ہیں نیز بادشاہ کے نام سے ملک
پہچانا جاتا ہے۔
بعض نظاموں میں بادشاہ کا وجود تو ہوتا ہے لیکن وہ حکومت نہیں
کرتے،اور بعض دیگر نظاموں میں بادشاہ کو مکمل تصرف حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنی مرضی
سے ملک اور عوام پر حکومت کرتے ہیں اور اُن کی ذات کو نہیں چھوا جا سکتا خواہ وہ
کتنا بھی ظلم کریں یا برائی ہو۔البتہ نظامِ خلافت میں خلیفہ کو رعایا سے کسی بھی
طرح فوقیت حاصل نہیں ہوتی جیسی کہ بادشاہ کو اُن کے نظام میں حاصل ہوتی ہے اور نہ
ہی قضاء کے معاملات میں کوئی ایسے امتیازی حقوق حاصل ہوتے ہیں کہ وہ عوام سے کسی
بھی جدا یا بالاتر ہو؛نیز خلیفہ بادشاہت کے نظام کی طرح اِس ریاست کاامتیازی نشان
بھی نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس خلیفہ حکومت و اقتدار کے معاملہ میں امت کا نائب ہوتا
ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی شریعت نافذ کرنے کیلئے چُن کر بیعت دی گئی ہے۔ نیز خلیفہ
اپنے تمام تصرفات اور احکام اورعوام کے معاملات کی نگہداشت اور اُن کے مفاد میں
شریعت کے احکام کا پابند ہوتا ہے۔
خلافت کوئی شہنشاہت کا نظام نہیں ہے، کیونکہ شہنشاہت کا نظام
اسلام سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔اسلامی نظام میں خواہ کتنے ہی علاقہ ہوں جن میں
مختلف قومیں آباد ہوں ،وہ تمام ایک ہی مرکز سے منسلک ہوتی ہیں اور اُن پر شہنشاہت
کی طرح حکومت نہیں کی جاتی بلکہ اس کے عین خلاف کی جاتی ہے؛کیونکہ شہنشاہت میں
تمام علاقوں کو برابری یا مساوات سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ مرکز کے ساتھ
حکومتی،مالیاتی اور اقتصادی امور میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
جبکہ حکومت میں اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ ریاست کے تمام حصوں
کو،اُن کی مختلف قومیتوں کے باوجود کسی عصبیت کے بغیر مساویانہ سلوک کیا جائے۔نیز
اس ریاست میں آباد غیر مسلموں کو جو اس ریاست کی شہریت رکھتے ہوں،اُن کے حقوق اور
واجبات میں احکامِ شرع کی رُو سے عام شہریوں جیسا ہی سلوک کیا جائے۔چنانچہ اُن کے
حقوق مسلمانوں ہی کے برابر ہوں گے اور اُن پر وہی واجبات ہوں گے جو مسلمانوں پر
ہوں۔اس سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھی عدالت میں رعایا کے کسی بھی فرد کو،خواہ وہ کسی
بھی مذہب کا ہو،کوئی ایسے امتیازی حقوق حاصل نہیں ہوتے جو کسی اور شہری کوخواہ وہ
مسلم ہی ہو،حاصل نہ ہوں۔
اس مساواتی سلوک کے لحاظ سے خلافت کا نظام شہنشاہت سے
مختلف ہوتا ہے،اس میں مختلف علاقوں یا صوبوں کی حیثیت شہنشاہت کی طرح نوآبادیات (Colonies)کی نہیں ہوتی
جن کا استحصال (Exploitation)کیا جاتا ہو
اور نہ ہی ایسے چشموں کی طرح دیکھے جاتے ہیں جن سے مرکز کی سیرابی مقصود ہو۔بلکہ
یہ تمام علاقہ خواہ اِن کے درمیان کتنا ہی فاصلہ ہو،یا اُن میں علیحدہ علیحدہ
قومیں آباد ہوں،ہر ایک اقلیم بس ایک وحدت (Unit) کی طرح ہوتی
ہے جو اس ریاست کے جسم کے اعضاء کے مانند ہوں۔اِن علاقوں اور اقالیم میں کے لوگوں
کو وہی حقوق و مراعات حاصل ہوتی ہیں جو مرکز کے عوام یا کسی دوسری اقلیم کے لوگوں
کو میسر ہوں۔نیز حکومت کا اقتدار،نظام اور قانون سازی تمام اقالیم کیلئے یکساں
ہوتے ہیں۔
خلافت کوئی وفاقی(Federal) نظام نہیں ہے،
جہاں مختلف اقالیم اپنی مقامی حکومت کے معاملے میں خودمختار ہوں اور محض مرکزی
اقتدار کے اعتبار سے متحد ہوں۔اس کے برخلاف خلافت ایک متحدہ نظام ہوتا ہے جہاں
مثلاً مغرب میں مراکش ہے اور مشرق میں خراسان ؛اور مثلاً اگر اسلامی ریاست کا پایۂ
تخت قاہرہ ہو تو الفیومؔ اُس کا ضلع تصوّ ر کیا جائے گا۔نیز تمام اقالیم یا صوبوں
کی مالیات اور اُن کا بجٹ(Budget)ایک ہی
ماناجائے گا،جو تمام عوام کی بہبود اور مفاد کیلئے صرف کئے جانے کیلئے ہے خواہ یہ
عوام کسی بھی صوبے یا اقلیم سے تعلق رکھتے ہوں۔
لہٰذا اگر کسی صوبہ کی آمدنی اُس کی
ضروریات سے دوگنی ہو تو بھی اُس پر جو خرچ کیا جائے گا وہ اُس صوبے کی ضروریات کے
تناسب سے ہوگا نہ کہ اُس کی آمدنی کے لحاظ سے؛اس کے برعکس اگر کسی صوبے کی آمدنی
اُس کی ضروریات کے بقدر نہیں ہو تو اس کا لحاظ نہیں کیاجائے گا اور اُس صوبے پر
عام بجٹ سے اُس کی ضروریات کے بقدر خرچ کیا جائے گاچاہے اُس صوبے کی آمدنی اس کی
ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہوں نہ ناکافی۔
خلافت کوئی جمہوری نظام نہیں ہے، جمہوری نظام کا آغازبادشاہت کے نظام سے بغاوت کاردِّ عمل تھا،جہاں بادشاہ اپنے ملک اور عوام پر اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق حکومت و تصرف کیا کرتا تھا،وہ اپنی مرضی سے قوانین وضع کرتا تھا۔پھر جمہوری نظام آیا اور اقتدار و بالادستی عوام کو منتقل کردی گئی اور اس نظام کو جمہوری نظام کہا گیا۔اب عوام قوانین وضع کرنے لگے اور حلال و حرام طے کرنے لگے اور چیزوں کی اچھائی یا برائی مقرر کرنے لگے ۔جمہوریت میں حکومت کا اقتدار صدرِ جمہوریہ اوراُس کے وزراء کے ہاتھوں میں آگیا یا پارلیمانی جمہوریت میں یہ اقتداروزراء کی کابینہ کو منتقل ہو گیا۔اس طرحوزراء کی مجلس کے بااقتدار ہونے کی مثال بادشاہت کے نظام میں بھی وہاں نظر آتی جہاں بادشاہ حکومت کے تمام اختیارات وزراء کی مجلس کو منتقل کردیتا ہے اور وہ خود برائے نام بادشاہ رہتا ہے۔
رہی بات اسدلام کی تو اس میں قانون سازی کا اختیار عوام کو نہیں ہوتا بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے،اور اُس کے سوا کسی اور کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ حلال اور حرام طے کرے۔قانون سازی کا حق انسانوں کو دے دینا اسلام میں کبیرہ گناہ ہے۔جس وقت سورۂ توبہ کی یہ آیت نازل ہوئی:
(اِتَّخُذُْوْآ
اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ)
انہوں نے اللہ سے ہٹ کر اپنے فقہا اور راہبوں کو اپنے ربّ بنا
لئے۔(سورۂ توبہ:آیت:۳۱)
جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور اقدس (صلى الله عليه وسلم) نے اس کی تفسیر یوں فرمائی کہ اُن
کے فقہا اور راہب اُن کیلئے قانون وضع کرتے تھے اور حلال کو حرام نیز حرام کو حلال
قرار دیتے تھے،پھر لوگ اپنے فقہا اور راہبوں کی اس معاملے میں اطاعت بھی کرتے
تھے؛اُن لوگوں کا یہی عمل اپنے فقہا اور راہبوں کو اپنا ربّ بنا لینے کا عمل
ہوا۔جیسا کہ حضور اقدس (صلى الله عليه وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں بیان فرمایا ،اس طرح اللہ کے حکم کے
بخلاف حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنا گناہ عظیم ہونے کی دلیل ہوئی۔ترمذی شریف
میں میں حضرت عدي ابن حاتم ص سے حدیث روایت کی ہے کہ :
((أتیت النبيا و فی عنقي صلیب من ذھب فقال: یا عدی اطرح عنک
ھذا الوثن وسمعتہ یقرأ في سورۃ البراء ۃ:(اِتَّخُذُْوْآ اَحْبَارَھُمْ
وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ)قال:أمَا اِنَّھُم لم یکونوا
یعبدونھم ولکنھم کانوا إذا احَلّوا لھم شیئاً اسْتَحَلُّوہ وإذا حَرَّمُواعلیھم
شیئاً حرموہ))
میں حضور نبی کریم (صلى الله عليه وسلم)کے پاس حاضر ہوا اور میرے گلے میں
سونے کی صلیب (Cross)تھی،آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:اے عدی،اس بُت کو اُتار
پھینکو؛پھر میں نے سنا آپ (صلى الله عليه وسلم) سورۂ توبہ کی یہ آیت تلاوت فرما رہے
تھے: (انہوں نے اللہ سے ہٹ کر اپنے فقہا اور راہبوں کو اپنے ربّ بنا لئے۔)پھر
فرمایا:وہ لوگ اپنے رابوں کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے،لیکن جب اُن کے راہب کوئی
چیز اُن کیلئے حلال کر دیتے تو وہ اُس کو حلال سمجھتے اور جب وہ راہب کوئی چیز کو
حرام قرار دے دیتے تو وہ لوگ اُسے حرام مان لیتے تھے۔
اس کے علاوہ اسلامی نظامِ حکومت میں
اقتدار نہ تو وزراء کی کابینہ کو حاصل ہوتا اور نہ ہی وزراء کو ایسے خصوصی
اختیارات حاصل ہوتے ہیں کہ اُن کے اپنے محکمہ کا علیحدہ بجٹ ہو یا اُنہیں کسی خاص
محکمہ کی ذمہ داری سونپ دی جائے۔ایسے علیحدہ بجٹ میں اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ
کسی ایک مد میں مصارف کم ہوں اور دوسرے میں مصارف بجٹ شدہ تخمینہ سے زیادہ ہوں اور
ایسی حالت میں رقوم کو ایک مد سے دوسری مد میں منتقل کرنے کیلئے تاخیر طلب
کارائیوں کی کرنا پڑیں جو عوامی بہبود کے کاموں میں روڑے بن جائیں۔پھر اس پر مزید
یہ کہ کسی ایک بہبودی کام کیلئے ایک سے زیادہ وزارت یا محکمہ کی دخل اندازی
ہو،جبکہ بہتر یہ تھا کہ کسی بھی ایک کام کیلئے ایک انتظامی ادارہ نگراں ہو اور وہ
اُس کام کے تمام پہلؤں پر نگراں ہو۔ جمہوری نظامِ حکومت میں اقتدار مختلف وزارات
میں تقسیم ہوجاتا ہے اور مجلسِ وزارت کو اجتماعی شکل میں اختیارات حاصل ہوتے
ہیں۔جبکہ اسلامی نظام میں جمہوری نظام کے برخلاف ایسی مجلسِ وزراء ہی نہیں ہوتی جس
کے پاس اجتماعی اختیارات ہوں بلکہ امت خلیفہ کو اِس بات پر بیعت کرتی ہے کہ اللہ
کی کتاب اور رسول اللہ اکی سنت کے ذریعہ حکومت کرے اور پھر خلیفہ اپنے لئے معاونین
یا وزراء تفویض (DesignatedAssistants)مقرر کرتا ہے
جو خلافت کی ذمہ داریاں نباہنے میں خلیفہ کی معاونت کرتے ہیں۔چنانچہ یہ معاونین
بھی لغوی معنوں میں وزراء ہی ہوئے یعنی ایسے امور میں خلیفہ کی معاونت کرنے والے
جو اُن کے سپرد کئے جائیں۔
اسلام کا نظامِ حکومت جمہوریت کے حقیقی معنوں میں جمہوری نظام
نہیں ہوتا کیونکہ جمہوریت میں قانون سازی کا اختیار عوام کے پاس ہوتا ہے یعنی وہ
حلال وحرام؛اچھا اور برا طے کرنے میں احکامِ شریعت کے پابند نہیں ہوتے کیونکہ ایسی
پابندی آزادی کی راہ مسدود کرتی ہے۔کفار اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ
جمہوریت کو اس کے حقیقی معانی کے ساتھ مسلمان کبھی اسے قبول نہیں کریں گے ،اسی لئے
مغربی دنیا کے کے کافر مستعمرین(Colonialists)اور اِس دور
میں بالخصوص امریکہ اس جمہوریت کو مسلم ممالک میں رواج ڈالنے کیلئے اسے دلکش بنا
کر پیش کر رہے ہیں اور اس کے ذریعہ فریب میں ڈال رہے ہیں کہ جمہوریت محض حاکم کو
منتخب کرنے کا اسلوب ہے۔اس طرح اُنہیں دیکھوگے کہ وہ اسے بس حاکم کے چننے کا طریقہ
بتا کر مسلمانوں کو اصلیت سے بھٹکا رہے ہیں اور اُن کے جذبات کو حقیقت سے موڑ رہے
ہیں؛جیسے کہ جمہوریت میں اصل بات بس حاکم کا انتخاب ہی ہے۔ مسلم ممالک ایسے حالات
سے دوچار ہیں جہاں اُن پرظلم اور حملہ ہو رہے ہیں،زبانیں بزورِ طاقت بند کی جارہی
ہیں اور اُن پر جابرانہ حکومتیں مسلط ہیں؛خواہ وہ بادشاہی نظام ہوں یا جنہیں
جمہوریت کا نام دیا جارہا ہو۔
چونکہ مسلم ممالک اِن حالات میں مبتلا ہیں لہٰذا
کفار کیلئے جمہوریت کو دلفریب بنا کر فروغ دینا یہ کہہ کرآسان ہورہا ہے کہ جمہوریت
تو حاکم کو چُننے کا طریقہ ہے؛ اور یہ کفار اِسی جمہوریت کی اصلیت کو گول کر جاتے
ہیں جو جمہوریت کی فی الحقیقت بنیاد ہے؛یعنی قانون وضع کرنا،حلال و حرام طے کرنا
انسان کا حق ہے نہ کہ انسان کے ربّ کا۔اب یہ بات اس قدر گھر کرتی جارہی ہے کہ کئی
مسلمان اور بعض مشائخ تک اس فریب کو یا تو حسنِ نیت سے یا سؤ نیت سے قبول کر نے
لگے ہیں۔
جب آپ (صلى
الله عليه وسلم)ن
سے جمہوریت کے بارے میں دریافت کرو تو وہ اُس کے جائز ہونے کی بات یہ کہہ کر کرتے
ہیں کہ یہ تو اپنے حاکم کو منتخب کرنے کا طریقہ ہے،نیز جو لوگ اِس جمہوریت کو بری
نیت سے تسلیم کرتے ہیں اُن کا حال یہ ہے کہ اپنی لچھے دار باتوں میں یہ لوگ
جمہوریت کی وہ اصلیت چھپا جاتے ہیں جو خود اس نظام کے وضع کرنے والوں کے نزدیک اس
کی حقیقت ہے کہ جمہوریت میں قانوں سازی کا اختیار عوام کے پاس ہوتا ہے اور وہ جو
چاہیں اکثریتِ رائے سے قانون وضع کر سکتے ہیں۔؛حلال وحرام طے کریں یا کسی چیز کا
اچھا یا برا ہونا طے کر دیں؛نیز یہ کہ اس نظامِ جمہوریت میں فرد اپنے افعال و
تصرفات میں خود مختار ہے؛وہ چاہے تو شراب پئے،ٹھیک سمجھے تو زنا کرے،چاہے مرتد ہو
جائے،مقدسات کی حرمت کو پامال کرے؛جمہوریت و آزادی کے نام پر اُسے اِن سب کا
اختیار ہے۔یہی جمہوریت ہے اور یہی اُس کا مقصد ہے۔پھر ایک مسلمان جو اسلام کو
مانتا ہے ،کیسے جرأت کرسکتا ہے کہ وہ جمہوریت کے جائز ہونے یا جمہوریت کے اسلامی
ہونے کی بات کرے؟ !
رہی بات حاکم کے امت کی جانب سے منتخب کئے جانے کی تو یہ
معاملہ نصوص سے ثابت ہے۔اسلام میں بالادستی یعنیSovereignty شریعت کی ہوتی
ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسی کے خلیفہ بننے کیلئے یہ بنیادی شرط ہوتی ہے کہ اُسے
لوگوں کی طرف سے بیعت کی جائے۔اسلام میں خلیفہ کے انتخاب کا طریقہ اُس وقت سے
عملاً رائج ہے جبکہ سارا عالم جبریت اور باغی بادشاہتوں کے اندھیروں میں تھا۔جس
کسی نے بھی خلفائے راشدین کے انتخاب کئے جانے کے عمل کا بغور مطالعہ کیا ہوگا،وہ
دیکھ سکتا ہے کہ حضرت ابو بکر،حضرت عمر،حضرت عثمان اور حضرت علی کا اہلِ حل و عقد
اور مسلمانوں کے نمائندوں کی جانب سے اُن پر کس طرح بیعت پوری کی گئی اور تب ہی وہ
ایسے خلیفہ بنے جن پر تمام مسلمانوں کی جانب سے اطاعت فرض ہوئی۔حضرت عبدالرحمٰن
ابن عوف (رضي
الله عنه)،جنہیں
یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ مسلمانوں کے نمائندوں (یعنی اہلِ مدینہ)کی رائے
معلوم کریں،وہ ہر ایک سے رائے لیتے تھے،ایک گھر سے دوسرے گھر چکر لگاتے تھے،عورتوں
اور مردوں سے دریافت کرتے تھے کہ وہ لوگ امیدواروں میں سے کس کو خلافت کیلئے پسند
کرتے ہیں،وہ اسی کام میں جٹے رہے یہاں تک کہ اُنہیں لوگوں کی رائے معلوم ہوگئی اور
پھر حضرت عثمان (رضي الله عنه) پر بیعت ہوئی۔
مختصر یہ کہ جمہوریت کفر کا نظام ہے،اس لئے نہیں کہ جمہوریت
میں حاکم کا انتخاب کیا جانا ہوتا ہے؛یہ تو اصل موضوع ہی نہیں ہے؛بلکہ اس لئے کہ
جمہوریت میں قانون سازی کا اختیار عوام کا ہوتا ہے نہ کہ عوام کے ربّ کا۔اللہ
گفرماتا ہے:
(اِنِ
الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ)
فیصلہ کا اختیار تو بس اللہ ہی کو ہے۔(سورۂانعام:آیت:۵۷)
اسی طرح اللہ گ فرماتا ہے:
(فَلاَ
وَ رَبِّکَ لَا یُؤمِنُوْنَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُم ثُمَّ
لَا یَجِدُوْا فیٓ اَنْفُسِھِم حَرَجَاً مِمَّا قَضَیتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسلِیمًا)
پس تمہیں تمہارے ربّ
کی قسم!یہ مومن نہیں ہو سکتے ،جب تک کہ اُن کے درمیان جو نزاع ہو ،اُس میں یہ تم
سے فیصلہ نہ کرائیں، پھر تم جو فیصلہ کر دو اس پر یہ اپنے دل میں کوئی تنگی بھی نہ
پائیں،اور پوری طرح تسلیم کرلیں۔ (انساء:۶۵)
نیز یہ کہ تشریع یا قانون سازی کے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ
کیلئے خاص ہونے کے اثبات میں دلائل متعد د ہیں اور معروف ہیں۔
اس پہلو سے الگ ہٹ کر پھر جمہوریت میں شخصی آزادی کا تصوّ ر ہے
کہ مرد و عورت حرام و حلال کا لحاظ کئے بغیر جو جی چاہے فعل کر سکتے ہیں؛پھر مذہبی
آزادی کا معاملہ ہے جس کے تحت کوئی مذہب چھوڑ سکتا ہے اور بغیر کسی شرط کے اپنا
مذہب تبدیل کر سکتا ہے؛پھر مِلکیت کی آزادی کی بات ہے،جس کے ذریعے قوی تمام تر
وسائل اختیار کرکے کمزور کا استحصال کرتا ہے اور نتیجتاً دولتمند کی دولت میں اور
مفلس کی مفلسی دونوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے؛نیز اظہارِ رائے کا حق حاصل ہوتا ہے
نہ کہ حق بات کہنے کا،بلکہ یہ بات امت کے مقدسات کے عین خلاف ہے اور اسلام سے
گستاخی اور اس کی اہانت بھی اظہارِ رائے کے نام پر جائز ہوجاتی ہے اور اس کا
ارتکاب کرنے والوں کی ’’ادبی صلاحیتوں‘‘ کو سراہا جاتا ہے اور اُن کے سامنے انعام
واکرام کے انبار لگا دئے جاتے ہیں۔
لہٰذا جیسا اوپر ذکر ہوا،اسلام کا نظامِ حکومت یعنی خلافت،نہ
تو تو بادشاہت کا نظام ہے نہ شہنشاہت کا نہ یہ وفاقی ہے اور نہ ہی خلافت کوئی
جمہوری نظام ہے۔
إ تیسرے یہ کہ نظامِ خلافت کے اعضاء یا حکومتی محکمات موجودہ
تمام نظامو ں سے مختلف ہوتے ہیں،خواہ بظاہر کچھ باتیں ایک دوسرے سے مشابہ ہی ہوں۔
ریاستِ خلافت کے ادارے و محکمات وہ ہوتے ہیں جن کا استفادہ حضور اقدس (صلى الله عليه وسلم)
سے کیا گیا جب آپ (صلى الله عليه وسلم) نے مدینہ منوّرہ ہجرت کرنے کے بعد
وہاں اسلامی ریاست قائم فرمائی اور اُس کی نشو نما کی اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کے بعد خلفائے راشدین نے بھی وہی
اختیار کیا۔
اس موضوع سے متعلق نصوص کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاستِ
خلافت میں اقتدار اور انتظامیہ کے محکمے اور ادارے حسبِ ذیل ہوتے ہیں:
۱۔خلیفہ
۲۔معاونین(وزراء تفویض)
۳۔وزراء تنفیذ
۴۔والی
۵۔امیر جہاد(فوج)
۶۔داخلی امن
۷۔خارجی تعلقات
۸۔صنعت
۹۔قضاء
۱۰۔عوامی مفاد وبہبود
۱۱۔بیت المال
۱۲۔ذرائع ابلاغ
۱۳۔مجلسِ شوریٰ(مشورے اور محاسبہ کیلئے)
آئندہ ابواب و صفحات میں اِن اداروں کی تفصیلات اور اُن کے
دلائل پر بحث کی جائے گی،اللہ گ سے اس دعا کے ساتھ کہ وہ ہمیں اپنی مدد و نصرت سے
نوازے،اور ہمیں خلافتِ راشدہ دوبارہ قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے اسلام
اور مسلمانوں کی عزت اور وقار قائم ہو اور اللہ تعالیٰ کا انکار کرنے رسوا ہوں نیز
خیر و بھلائی سارے عالم کے کونے کونے میں پھیل جائے۔
(اِنَّ
اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖط قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا خ)
یقیناً اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔اللہ نے ہر ایک چیز کا
ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔
(سورۂ طلاق: آیت:۳)
(سورۂ طلاق: آیت:۳)
اللہ تعالیٰ ہی مدد پہنچانے والا ہے اور اسی پر ہمارا اعتماد
ہے۔
خلافت کے اداروں کا تعا رف
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
10:48 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: