حدیث نمبر7
أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ، وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ ، وَيُقِيمُوا الصَّلاَةَ ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ.
ترجمہ: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال (لڑائی) کروں جب تک وہ شہادت نہ دے دیں کہ اللہ کے سواء کوئی ا لہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ نمازقائم کریں اور زکوۃ اداء کریں۔
خلاصہ وتشریح:
الف: اس بات کی قطعی اجازت نہیں دی گئی ہے کہ ریاست کی بنیاد وں کی تعمیر کے لئے کسی بھی چیز(حکم وغیرہ) کو اسلامی عقیدہ کے علاوہ کسی دوسرے ذریعہ(مبداء) سے حاصل کیا جائے، لہذایہ لازم ہے کہ ریاست کا دستور اور اس کے قوا نین شرع سے حاصل کئے گئے ہوں۔
ب: پہلی روایت اسی نقطہ کےمتعلق دلیل ہے کیونکہ حکومت کا اسلامی عقیدہ سے ہٹ جانے کی بناء پر ہی یہ حدیث حکومت کے خلاف بغاوت کو جائز ٹھہراتی ہے، دوسرے الفاظ میں شرع کی رؤ سے ایسی حکومت کا جاری رہنا نا جائز ہوجاتا ہے جب حکومت ایسے قوانین کو نافذکرنا شروع کردیتی ہے جو اسلامی عقیدہ سے حاصل نہ کئے(اخذ کردہ) گئے ہوں۔
ت: اسی قسم کی دیگر دوسری روایتیں ظاہر کرتیں ہیں کہ حکمران کے خلاف تلوار نہ اٹھائی جائے جب تک وہ نماز قائم کرتے ہوں یا جب تک کھلم کھلا واضح کفر نہ کرتے ہوں یاپھر وہ اللہ سبحانہ وتعالی کے خلاف کھلم کھلا گناہ کا ارتکاب نہ کرتے ہوں ، یہ تمام روایات بتلاتی ہیں کہ ان کا اسلام پر پابندی کرنا اور حکومت کے ذریعے اسلام کا نفاذ کرنااُن کا وہ عمل ہے جو اُن کی حکومت کو جائز ٹھہراتا ہے۔
ث: امام نووی ؒ بیان کرتے ہیں کہ کھلم کھلا کفر سے مراد ایسا کھُلا گناہ جو اِسلام کے دلائل کی رؤ سے قائم ہوتا ہے اور گناہ کی تصدیق ہوکر جرم ثابت ہوچکا ہو۔
ج: علماء کے درمیان اس معاملہ میں مختلف رائیں ہیں کہ یہ کب فرض ہوتا ہے کہ حاکم کو بزورقوت معزول کیا جائے؟، قاضی عیادؒ سے متعلق روایت ہے کہ ان کی رائے یہ ہے کہ اگر کھلم کھلا کفر اور شرع کو بدلنے اور بدعات کے ظاہر ہونے کے واضح ثبوت موجود ہو ں تب مسلمانوں پر فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اس حکمران کو ہٹائیں اور اسکی جگہہ عادل حکمران کو اقتدار میں لائیں۔
چ: یہ بات قابل غور ہے کہ یہ تمام روایات ایسے جابر حکمران کے لئے ہیں جو اصلاً ابتداء سے اسلام کے تحت جائز حکمران تھااور اس کی حکو مت بعد میں فاسد حکومت میں تبدیل ہوگئی یا ایسے نظام میں جو بنیادی طور پر اسلامی نظام حکومت ہو لیکن اس میں حاکم کی اصلاح کرنے کی ضرورت پیش آجائے، دوسرے الفاظ میں یہ تمام روایات اسلامی ریاست میں حاکم کی اصلاح کرنے کے متعلق ہیں جب کہ وہ گمراہ ہوجائے، یہ تمام احادیث ہرگز آج کے اِن حکمرانوں کے تعلق سے نہیں ہے جنہوں نے اسلامی بنیاد پر کبھی حکومت کی ہی نہیں اور ان کے نظام حکومت اُن کے اقتدار کی شروعات سے اصلاً غیر اسلامی ہیں ۔
ح: اس حاشیہ کی دوسری روایت ظاہر کرتی ہے کہ اقتدار اور حکومت کی بنیا د میں صرف اسلامی عقیدہ ہی نہیں ہے جیسا کہ یہاں نبی کریم ﷺ نے صرف اس عقیدہ کے بیان کرنے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ آپﷺ نے یہاں جہاد کے احکام بتلائے اور تمام مسلمانوں پر جہاد کو لازم کیا تا کہ مسلمان جس اسلامی عقیدہ کی پابندی خود کیا کرتے ہیں اسے وہ تمام انسانوں تک پہنچائیں اور امن وسلامتی کو قائم کریں۔
اسلامی عقیدہ ہی ریاست اور اس کی توسیع کی بنیاد ہے2
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
8:59 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: