نبوی منہج پر چل کر دوبارہ خلافت کی واپسی کی بشارت
حدیث نمبر 2
تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِذَا شَاءَ ، ثُمَّ تَكُونُ الْخِلاَفَةُ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا فَتَكُونُ مُلْكًا مَا شَاءَ اللَّهُ ، ثُمَّ يَرْفَعُهُ إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً ، ثُمَّ تَكُونُ خِلاَفَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ، ثُمَّ سَكَتَ
ترجمہ: ’’تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ اسے رکھنا چاہے گا پھر اللہ اس کو ہٹا لے گا جب اللہ چاہے گا پھر اسکے بعد نبوی طریقے پر خلافت ہوگی اور جب تک اللہ چاہے گا قائم رہے گی پھر اللہ اس کو ہٹالے گا جب اللہ چاہے گا پھراسکے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت ہوگی جب تک اللہ چاہے گا باقی بچے گی پھر اللہ اس کو ہٹالے گا جب اللہ چاہے گا پھر اسکے بعدجبری بادشاہت ہوگی جب تک اللہ چاہے گا باقی بچے گی پھر اللہ اس کو ہٹالے گا پھر اسکے بعد نبوی طریقہ پر خلافت قائم ہوگی‘‘ اس کے بعد آپ ﷺ نے خاموشی اختیار کرلی۔( رواہ احمدؒ)
خلاصہ وتشریح:
الف: حدیث یہ
ظاہر کرتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے چلے جانے کے بعد بھی حکومت کے نظام
میں کوئی بھی تبدیلی واقع نہیں ہوگی یعنی آپ ؐ کے بعد حکومت یعنی خلافت آپ ؐ کے
نبویؐ طریقے پر ہی ہوگی جو کہ آپؐ کے اُسوہ کی ہو بہو پیروی کرے گی چنانچہ اسلامی
شرعی احکام کو نافذ کرنے میں نبوی طریقہ اور خلفاء کا طریقہ ایک ہی رہاہے، نبوی
دور کے اسوہ(طریقہ )اور آپ ؐ کےخلفاء کے دور کے اسوہ میں فرق صرف اتنا ہے
کہ بعد میں وحی کے نازل ہونے کا سلسلہ ختم ہوا تھا جو کہ نبی کریم ﷺ کے اِس دنیا سے جانے سے قبل ہی بند ہوچکا
تھا۔
ب: ’کاٹ کھانے والی بادشاہت‘ سے مراد لوگوں سے بیعت (اطاعت کا عہد)حاصل کرنے کے
حکم کو غلط طریقہ پر انجام دینا ہے، جو پہلی خلافت راشدہ کے بعد جبراً حاصل کیا
گیا تھا اور پھر نبوی اسوہ ؐاور اوّلین چاروں خلفاء راشدین کا اسوہ جس میں لوگوں
کا حاکم کوقبول کرنے کی بناء پر بیعت حاصل کرنے کا جومثالی نمونہ ہمارے سامنے آتا ہے بعد کے دور میں
اِس نبوی نمونہ کے برخلاف جبراً بیعت حاصل کی گئی اور اس جبری بیعت کو بعدازاں نسل
در نسل بادشاہت کے ذریعے ہونے والی اقتدار کی منتقلی کے ساتھ منتقل کیا جاتا رہا۔
ت: ’جبری بادشاہت ‘ سے مرادوہ دور ہے جس میں مسلمانوں کا اقتدارایسے افراد کے
ہاتھوں میں رہا جو اسلام کی بنیاد پر حکومت تو کیا کرتے تھے لیکن وہ لوگوں پر
جبرکیا کرتے تھے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے جبر کے اس معاملہ کوکو دوسری روایتوں
میں بیان کیا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئیے کہ اپنے امیر کی اطاعت کریں چاہے وہ ان کی
پشت پر کوڑے برساتا ہو اور اس کی خلاف ورزی نہ کریں جب تک وہ انہیں گناہ کرنے کا
حکم نہ دے۔
ث: اس حدیث کا آخری حصّہ مسلمان امت کے لئے ایک خوشخبری ہے جس میں مستقبل کی ایک
خبردی گئی ہے کہ خلافت دوبارہ قائم ہوگی اور یہ خلافت اللہ کے ارادہ کے مطابق نبوی
طریقہ یا نبوی اسوہ پر قائم ہوگی۔
نبوی منہج پر چل کر دوبارہ خلافت کی واپسی کی بشارت
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
7:59 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: