والی
والی وہ شخص ہوتا ہے جسے
خلیفہ ریاستِ خلافت کی کسی ولایت پر حاکم اور امیر مقرر کرتا ہے۔ریاستِ خلافت اپنے
پورے ملک کو مختلف حصوں میں منقسم کرتی ہے اور ہر ایک حصہ ایک ولایت کہلاتا
ہے،جبکہ ہر ایک ولایت مزید حصوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کو عمالہ کہا جاتا ہے۔ہر وہ
شخص جو کسی ولایت پر مقرر کیا جاتا ہے وہ امیر یا والی کہلاتا ہے جبکہ وہ شخص جو
کسی عمالہ پر متعین ہو وہ عامل یا حاکم کہلاتا ہے۔
ہر عمالہ انتظامی کاکردگی
کیلئے مزید منقسم کی جاتی ہے اور اِن وحدات کو قصبہ کہا جاتا ہے،پھر ہر قصبہ مزید
انتظامی وحدات میں تقسیم ہوتا ہے جن کی وحدات کو حي (Precints)کہا جاتا ہے۔اِن
قصبوں اور حي پر جوذمہ دار متعین کئے جاتے ہیں اُنھیں مدیر(Directors)کہا جاتا ہے جن کے
کام کی نوعیت انتظامی ہوتی ہے۔
چنانچہ والی حکام ہوئے
اور اُن کا والی ہونا یعنی وِلایت حکومت ہوئی۔قاموس المحیط میں ہے:’’جس کو کسی جگہ
کی وِلایت دی گئی،یعنی واؤ کے نیچے زیر کے ساتھ،تو گویا اُسے حکومت و اقتدار دیا
گیا‘‘۔چونکہ والی حاکم ہوتے ہیں لہٰذا اُن کیلئے وہی شرائط ہوں گی جو حاکم کیلئے
ہوتی ہیں،یعنی والی مَرد ہو،مسلم ،آزاد، بالغ،عاقل،عادل اور لائق ہو۔ والی کیلئے لازمی
ہے کہ خلیفہ یا اُن کا کوئی مخصوص نائب والی کی تقرری کرے،کیونکہ کسی والی کی
تقرری ایک خلیفہ ہی کرسکتا ہے۔وِلایت و امارت یا والی اور امیر کی حقیقت دراصل حضور
اکرم (صلى الله عليه وسلم)
کا عمل ہے،آپ (صلى الله عليه وسلم)سے
شہروں پر والی مقرر کیا جانا اور اُنھیں اپنے علاقوں پر حکومت کا حق دیاجانا ثابت
ہے۔آپ (صلى الله عليه وسلم)نے حضرت معاذ ابن
جبل (رضي
الله عنه) کو الجَندؔ پر مقرر فرمایا،زیاد ابن لبید
کو حضرموت پر اور حضرت ابو موسیٰ الاشعری ص کو عدن ؔ اور زبیدؔ کے مقامات پر مقرر
فرمایا تھا۔
حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم) کا یہ طریقہ تھا کہ آپ (صلى
الله عليه وسلم) جن لوگوں کو بحیثیت والی مقرر فرماتے
،اُنھیں ایسے لوگوں میں سے چنتے جن میں حکومت کی صلاحیت ہوتی، اہلِ علم ہوتے اور
جن میں تقویٰ ہوتا اور نیک نام ہوتے۔آپ (صلى الله عليه
وسلم) والیوں کو ایسے لوگوں میں سے پسند فرماتے
جو اُن کے سپرد کئے ہوئے کاموں کو بحسن و خوبی انجام دیتے اور لوگوں کے دلوں میں
ایمان جگائے اور ریاست کیلئے وفاداری پیدا کرے۔مسلم شریف میں سلیمان ابن بریدہ
اپنے والد سے نقل کرتے ہیں:’’ جب حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم)کسی کو فوج یا کسی فوجی کمان کا امیر مقرر
فرماتے تو اسے خاص طور پر اللہ کے تقوے کی نصیحت فرماتے اور اپنے مسلمان ساتھیوں
سے بھلے سلوک کی تلقین فرماتے تھے‘‘۔والی چونکہ ایک ولایت کا امیر ہوتا ہے لہٰذا وہ بھی
اسی حدیث کے مصداق ہوا۔
والی کی معزولی خلیفہ کی
صوابدید پر منحصر ہوتی ہے،یا جب اُس ولایت کے عوام یا اُن کے نمائندے اُن سے اپنی
ناپسندیدگی یاناراضی کا اظہار کریں تو والی کو برطرف کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا ہم یہ
تبنی کرتے ہیں کہ اہلِ ولایت کی نمائندگی کیلئے اُس ولایت کی ایک مجلسِ ولایت
منتخب ہو جس کے دو اہم مقاصد ہوں:ایک تو یہ کہ یہ نمائندے کیونکہ اس ولایت کے رہنے
والے ہیں،وہ وہاں کے حالات کو بہتر سمجھتے ہیں چنانچہ وہ والی کو وہاں کے حالات
سمجھنے میں مدد کرسکتے ہیں اور اپنی واقفیت کی بناء پراعمال کی کارکردگی کو بہتر
بنانے میں والی کی معاونت کرسکتے ہیں۔دوسرے یہ کہ جب والی کیلئے اس مجلس کی رائے
حاصل کرنا لازم ہو تو وہ مجلس سے مشاورت کرے۔جب اس مجلس اپنی اکثریت سے والی سے
ناراضی کا اظہار کرے تو خلیفہ والی کو برطرف کردے۔آنحضرت انے بحرین میں اپنے والی العلاء
بن الحضرمی (رضي
الله عنه)کو اس لئے معزول کردیا تھا کیونکہ عبد
قیسؔ کے وفد نے اُن کی شکایت کی تھی۔نیز خلیفہ کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ
والی کو بغیر کسی سبب کے برطرف کردے؛حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم)نے حضرت معاذ ابن جبل (رضي الله عنه)
کو بغیر کسی سبب کے یمن ؔ کے والی کی حیثیت سے معزول کردیا تھا اور حضرت عمر (رضي الله عنه)بھی
والیوں کو کبھی کسی سبب پر یا کبھی بے سبب برطرف کر دیا کرتے تھے۔آپ (رضي
الله عنه) نے زیاد ابن ابی سفیان کو معزول کیا اور
کوئی سبب بھی طے نہیں کیا،پھر آپ (رضي الله عنه)
نے حضرت سعد ابن ابی وقاص (رضي الله عنه)
کواس لئے برطرف کیا کہ لوگوں نے اُن کی شکایت کی تھی اور اس بارے میں فرمایا:’’ کہ
میں نے اُنھیں کسی خیانت یانااہلی کی بنیاد پر معزول نہیں کیا ہے‘‘۔یہ اس بات کی
دلیل ہوئی کہ خلیفہ کو اختیار ہے کہ وہ جب چاہے والی کو برطرف کرسکتا ہے نیز یہ کہ
اُس پر واجب ہے کہ وہ اُ س ولایت کے لوگوں کی شکایت پر والی کو برطرف کردے۔
ابتدائی دور میں وِلایت
کی دو قسمیں ہوا کرتی تھیں:وِلایتِ صلاۃ اور وِلایتِ خراج؛لہٰذا تاریخ کی کتابوں
میں دو علیحدہ فقروں کا استعمال سامنے آتا ہے:ایک امارتِ علی الصلاۃ اور دوسرا
امارتِ علی الصلاۃ والخراج،یعنی ایک امیر یا تو صلاۃ اور خراج دونوں کا امیر ہوگا
یا صرف صلاۃ ،یا صرف خراج کا امیر ہوگا۔یہاں وِلایت یا امارت میں صلاۃ سے مراد یہ
نہیں ہے کہ وہ شخص صرف لوگوں کی نماز میں امامت کا امیر ہوا،بلکہ یہ کہ وہ سوائے
امورِ مالیات کے ہر امور میں اُن کا والی ہے۔لفظِ صلاۃ کا اطلاق سوائے اموال کی
وصولی ہر شعبہ میں حکومت پر ہوتا تھا۔جب کوئی والی صلاۃ و خراج دونوں کا والی ہوتا
، تو وہ والئ عام کہلاتا ،لیکن اگر اُس کی وِلایت صرف صلاۃ یا صرف خراج پر ہوتی تو
وہ والئ خاص کہلاتا تھا۔وِلایتِ خاص کے یہ تمام امور خلیفہ کی اپنی ترتیب اور
صوابدید پر منحصر ہوتے ہیں کہ وہ مناسب سمجھے توکسی والی کو خراج پر مخصوص کردے یا
قضاء کیلئے مخصوص کرے،یا کسی والی کو مالیات ،قضاء اور عسکری امور کے ماسوا دیگرمعاملات کیلئے
متعین کرے۔خلیفہ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ ریاستِ خلافت یا اُس ولایت کے بہتر
انتظام کیلئے جس ترتیب کو مناسب سمجھے اُس کے مطابق عمل کرے کیونکہ شریعت نے والی
کیلئے بعض افعال چے کئے ہیں لیکن یہ لازم نہیں کیا کہ وہ تمام حکومتی معاملات کا
ہی ذمہ دار ہو۔شریعت نے امیر یا والی کیلئے یہ کام طے کر دیا ہے کہ وہ حکومت و
اقتدار کا ذمہ دار ہے، خلیفہ کا نائب ہے اور اُس کا دائرۂ عمل ایک مخصوص مقام ہے،
جیسا کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)
کے عمل سے ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس شریعت نے خلیفہ کیلئے یہ اختیار رکھا ہے کہ
وہ ولایتِ عام یا ولایتِ خاص جیسا وہ مناسب سمجھے ، کسی والی کو سونپے اور یہی حضور
اکرم (صلى الله عليه وسلم)کے
عمل سے عیاں ہوتا ہے:آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
والئ عام مقرر کئے جیسے حضرت عمرو بن الحزم ص کو یمن کاوالئ عام بنایا،اسی طرح آپ (صلى
الله عليه وسلم)نے والئ خاص مقرر فرمائے، چنانچہ حضرت
علی ابن ابی طالب (رضي
الله عنه) کو یمن میں قضاء کا والئ خاص بنایا۔سیرت
ابن ہشام میں آتا ہے کہآپ (صلى الله عليه وسلم)نے
فروۃ بن مسیَک کو قبایلِ مراد249 زبید اور مذحج پر اور اُن کے ساتھ خالد ابن سعید
بن العاص کو صدقات پر مقرر فرمایا، نیز یہ بھی وارد ہوتا ہے کہ آپ (صلى
الله عليه وسلم)نے زیاد ابن لبید الانصاری کو حضرموت
کے صدقات پر مقرر فرمایا۔اسی طرح حاکم نے روایت کیا ہے کہ حضرت علی ابن علی طالب
(رضي الله عنه)کو نجران سے صدقات اور جزیہ کی وصولی پر مامور فرمایا نیز اُنھیں
یمن کا قاضی بھی بنایا۔استعیاب میں مذکور ہے کہ آپ (صلى
الله عليه وسلم)نے حضرت معاذ ابن جبل (رضي الله عنه)
کو لوگوں کو قرآن سکھانے،شریعتِ اسلامی کی تعلیم دینے اور لوگوں کے فیصلے کرنے
کیلئے مقرر فرمایا اور اُنھیں وہاں کے عمّال سے صدقات وصول کرنے کا اختیار بھی
سونپا۔
گو کہ خلیفہ کو یہ اختیار
ہے کہ وہ کسی والی کو وِلایتِ عام یا وِلایتِ خاص دے،لیکن عباسی خلافت کے دوران جب
کمزوریاں پیدا ہوگئیں تو یہ بات واضح ہوئی کہ وِلایتِ عام کا دیا جانا صوبوں کی
خود مختاری کا سبب بنا، یہاں تک کہ خلیفہ کا اقتدار سِمٹ کر محض دعاؤں میں اُس کا
نام لیا جانا اورسِکّوں پر اُس کا نام کنداں کیا جاننے تک محدود ہو کر رہ
گیا۔بالفاظِ دیگر وِلایتِ عام دیا جانا اسلامی ریاست کیلئے نقصان دہ ثابت ہوا۔
لہٰذا کیونکہ وِلایتِ
عامہ دیا جانا اور وِلایتِ خاص دیا جانا جائز ہے ہے اور کیونکہ وِلایتِ عام دیا
جانا ریاستِ اسلامی کیلئے ضرر اور خطرے کا باعث بنا ،چنانچہ ہم یہ تبنی کرتے ہیں
کہ کسی والی کو وِلایتِ خاص ہی دی جائے اور اس میں وہ امور شامل نہ ہوں جو کوئی
والی اپنے ناقص تقوے کے باعث خلیفہ سے خود مختاری کا سبب بنیں؛حقیقتِ حال کے بموجب
یہ امور فوج،قضاء اور مالیاتی امور ہیں۔یہ محکمات دیگر محکمات سے جدا ہوں اور
خلیفہ خود اُن کی نگرانی کرے اور والی کا اِن امور میں دخل نہ ہو، جس طرح وہ ریاست
کے دیگر محکمات کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
والی کا تبادلہ ایک ولایت
سے دوری ولایت نہیں ہوتا بلکہ اُس کو ایک ولایت سے برخواست کرکے دوبارہ کسی اور
ولایت کا والی بنایا جاتا ہے؛کیونکہ حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم)والیوں کو برطرف تو فرماتے تھے لیکن اُن
سے کسی والی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جانا منقول نہیں ہے۔پھر مزید یہ کہ
وِلایت ایک عقد ہوتا ہے جس کیلئے متعین اور صریح الفاظ ہیں،اور اس عقد میں والی کو
کسی مقام پر متعین کیا جاتا ہے تو اُس مقام کو مخصوص کردیا جاتا ہے جہاں اسے حکومت
کرنا ہے۔ والی کا یہ اختیار اُس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک خلیفہ اُسے معزول نہ
کردے249یعنی جب تک وہ معزول نہ کردیا جأے وہ والی بنا رہتا ہے۔اگر کسی والی کو اُس
کے پہلے مقام سے برطرف کئے بنا دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے اور اِس نئے مقام
کیلئے اُس کی تقرری نہ کی جائے جہاں اُس کا تبادلہ کیاجانا مطلوب ہے،جبکہ اُس کے
پہلے مقام سے اسے علیحدہ کرنے کیلئے صریح الفاظ میں اُس کو ولایت سے برطرف کرنا
ضروری ہے اور نئے مقام کیلئے نئے سرے سے صریح الفاظ میں اس نئے مقام کو متعین کرکے
اُس کی تقرری کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا اس سے یہ بات ماخوذ ہوتی ہے کہ والی کو ایک مقام
سے دوسرے مقام منتقل نہیں کیا جائے،بلکہ اسے سابقہ مقام سے معزول کرکے نئے سرے سے
دوسری جگہ کیلئے مقرر کیا جائے۔
خلیفہ پر لازم ہے کہ وہ
والیوں کے کام سے واقف رہے:
خلیفہ کیلئے یہ ضروری ہے
کہ وہ اپنے والیوں کے کام کاج سے واقف رہے اور اُن کی کارروائیوں پر گہری نظر (Monitoring)رکھے،خواہ وہ یہ
بذاتِ خود کرے یا اِس تفتیش کیلئے اپنے نائب مقرر کرے۔اسی نہج پر معاون کی بھی یہ
ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جن ولایات پر مامور ہے ،وہاں کے والیوں کے کام پر نظر رکھے
اور خلیفہ کو والیوں کے احوال سے آگاہ کرے۔اس طرح خلیفہ اپنے والیوں کے احوال سے
آگاہ رہتے ور اُن کے افعال کی نگرانی کرتے ہیں۔نیز خلیفہ کو چاہئے کہ وہ وقتاً
تمام فوقتاً والیوں کو یا بعض والیوں کوجمع کرے اور عوام کی شکایات کی سنوائی ہو۔
حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم)سے ثابت ہے کہ آپ (صلى
الله عليه وسلم) والیوں کو جانچتے اور پرکھتے تھے،
جیسا کہ حضرت معاذ ابن جبل (رضي
الله عنه) اور حضرت ابو موسی الاشعری ص کے ساتھ
فرمایا،نیز اُنہیں اُن کام کی نہج سمجھاتے جیسا کہ حضرت عمرو بن الحزم کے ساتھ
ہوا، یاُ نھیں اُن کے اہم امور کی یاد دہانی فرماتے ہیں جیسا کہ ابان ابن سعید کو
بحرین کا والی مقرر کرتے وقت اُنھیں ہدایت کی:
((استوص بعبد القیس خیراً و أکرم سراتھم۔))
خبر
ملی کہ حمصؔ میں اُن کے عامل عمیر ابن سعد نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا:
(لا یزال الإسلام منیعاً ما اشتدَّ السلطان، و لیست شِدَّۃ السلطان
قتلاً بالسیف أو ضرباً بالسوط،ولکن قضاءً بالحق و أخذاً بالعدل)
اسلام
اس وقت تک مضبوط رہیگا جب تک اس کا اقتدار مضبوط رہے۔مضبوط اقتدار تلوار سے قتل
کرنے اور کوڑے سے مارنے میں نہیں ،بلکہ حق کوقائم رکھنے اور عدل سے فیصلے کرنے میں
ہے۔
حضرت
عمر (رضي
الله عنه)نے یہ سن کر فرمایا:
(وددت لو أن لي رجلاً مثل عمیر بن سعد أستعین بہ علی
أعمال المسلین)
کاش
میرے پاس کوئی عمیر بن سعد جیسا ہوتا جو مسلمانوں کے کام میں میری مدد کرتا ۔
والی
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
12:39 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: