خلیفہ




خلیفہ کی حیثیت حکومت ،اقتدار اور شریعت کے احکام کے نفاذ میں امت کے نائب کی ہوتی ہے،کیونکہ اسلام میں اقتدار وحکومت امت کیلئے مخصوص ہوتے ہیں جن میں وہ شخص جو اُن کا نمائندہ ہو،نائب کی حیثیت رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اُس پر یہ فرض کیا ہے کہ وہ شریعت کے تمام احکام کو نافذ کرے۔

کیونکہ خلیفہ کو مسلمان نصب کرتے ہیں اور وہ حکومت و اقتدار اور احکامِ شرع کے نفاذ میں اُن کا نائب ہوتا ہے؛لہٰذا کسی کے خلیفہ ہونے کیلئے یہ ناگزیر ہے کہ امت اُس پربیعت کرے،خلافت کیلئے اِس بیعت سے وہ شخص امت کا نائب بن جاتا ہے اور اس بیعت سے اُس کی خلافت کے انعقاد ہوجانے سے اُسے اقتدار حاصل ہوتا ہے اور ساتھ ہی امت پر اُس کی اطاعت فرض و جاتی ہے۔

خلیفہ یعنی وہ جس کے ذمہ مسلمانوں کے معاملات ہوں،اُس کیلئے یہ ناگزیر ہے کہ اُسے امت کے اہلِ حل و عقد اپنی مرضی و اختیار سے بیعت ِ انعقاد کریں اور اُس شخص میں خلافت کے انعقاد کی تمام شرائط موجود ہوں نیز یہ کہ وہ اپنی خلافت کا انعقاد ہوتے ہی شریعت کے احکام نافذ کرنے کیلئے اقدام کرے۔

لقب:
خلیفہ کو جس نام سے پکارا جاتا ہے وہ خلیفہ،امام یا امیر المؤمنین ہوسکتا ہے۔یہی القاب صحیح احادیث اور صحابۂ کرام کے اجماع سے ثابت ہوتے ہیں اور یہی خلفائے راشدین کے بھی القاب رہے ہیں۔مسلم شریف میں حضرت ابو سعید الخدری (
رضي الله عنه)سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا:

((إذا بویع للخلیفتین فاقتلوا الآخر منھما))

جب بیعت دو خلفاء پر ہو جائے تو دوسرے کو قتل کر دو۔

نیز مسلم شریف میں ہی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رضي الله عنه)سے نقل ہے کہ اُنھوں نے حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) سے سنا:
((من بایع إماماً فأعطاہ صفقۃ یدہٖ و ثمرۃ قلبہٖ فلیطعہ۔۔۔))

جو کسی امام کے ہاتھ پر اپنے دل سے بیعت کرے، تو چاہئے کہ وہ اُس کی اطاعت کرے۔۔۔
 
نیز حضرت عوف ابن مالک (
رضي الله عنه) سے مسلم شریف میں حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) سے روایت نقل ہے:

((خیار أیمتکم الذین تحبونھم و یحبّونکم،وتصلّون علیھم و یصلّون علیکم))

تمہارے بہتر امام وہ ہوں گے جو تم سے محبت رکھیں اور تم اُن سے؛تم اُن کیلئے دعائیں کرو اور وہ تمہارے لئے۔
 
ان احادیث میں حاکم جو شریعت کے احکام نافذ کرتا ہے ،اُس کیلئے خلیفہ یا امام کے القاب آئے ہیں۔
اِن القاب کے علاوہ خلیفہ کیلئے امیر المؤمنین کا جو لقب وارد ہوتا ہے،وہ حاکمؔ کی مستدرکؔ میں ابن شہاب کی روایت سے ثابت ہوتا ہے جسے امام ذہبیؒ نے صحیح بتا یا ہے اور طبرانی ؒ نے بھی نقل کیا ہے جس کے روایوں کے بارے میں امام ہیثمیؒ فرماتے ہیں کہ وہ صحیح ہیں،مستدرک میں اِن الفاظ سے نقل ہے:

ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز نے ابو بکر بن سلیمان بن حثمہ سے دریافت کیا:’’حضرت ابو بکر (
رضي الله عنه)کے عہد میں خطوط میں لکھا جاتا تھا (منجانب خلیفۃ رسول اللہ ا) پھر حضرت عمر  (رضي الله عنه)اپنے ابتدائی دور میں لکھتے تھے(من خلیفۃ ابی بکر) ؛تو پہلا شخص کون تھا جس نے امیر المؤمنین لکھنا شروع کیا؟ اس پر ابن شہاب سے جواباً کہا:مجھے حضرت شفاء رضی اللہ تعالیٰ عنہانے بتایا جو کہ پہلی چند مہاجروں میں سے تھیں،کہ حضرت عمر بن خطاب (رضي الله عنه) نے عراق کے عامل کو لکھا تھا کہ وہ دو اشخاص بھیجے جواُنھیں عراق اور وہاں کے عوام کے احوال بتائیں۔ 

چنانچہ عاملِ عراق نے حضرت لبیدابن ربیعہ اور حضرت عدي بن حاتم کو روانہ کیا۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچے اور مسجد میں داخل ہوئے تو حضرت عمر وبن العاص ص سے ملاقات ہوئی اور اِنھوں نے حضرت عمرو (رضي الله عنه)سے کہا کہ وہ اُنھیں امیر المؤمنین سے ملوائیں۔حضرت عمرو (رضي الله عنه)نے اُن لوگوں سے فرمایا کہ تم نے تو اُن کا نام ہی رکھ دیا؟ہم مؤمنین ہیں اور وہ امیر ہیں۔پھرحضرت عمرو (رضي الله عنه)بھاگ کر حضرت عمر  (رضي الله عنه)کے پاس پہنچے اور کہا:السلام علیکم اے امیر المؤمنین! حضرت عمر  (رضي الله عنه)نے فرمایا کہ اے ابن العاص ، یہ کیا نام رکھ دیا؟میرا رب جانتا ہے کہ جو نام تم نے دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔حضرت عمروبن العاصص نے جواب دیا کہ دابن ربیعہ اور حضرت عدي بن حاتم میرے پاس پہنچے اور کہا کہ ہمیں امیر المؤمنین سے ملوا دیجئے، بخدا یہ نام اُن ہی کا دیا ہوا ہے۔ہم مؤمنین ہیں اور آپ ہمارے امیرہیں۔بس اُس ہی دن سے کتابت میں یہ لقب استعمال ہونے لگا۔حضرت شفاء دراصل حضرت ابو بکر بن سلیمان کی دادی تھیں۔ 

پھر اِس لقب کا اطلاق بعد کے خلفاء پر ہونے لگا اور صحابۂ کرام کے بعد بھی یہی جاری رہا۔

خلیفہ کیلئے شرائط:
خلیفہ کیلئے یہ ضروری ہے کہ اُس میں سات شرائط پائی جاتی ہوں جن سے وہ خلافت کا اہل ہوتا ہے اور جن سے خلافت کیلئے بیعت کا انعقاد ہوسکتا ہے۔ یہ سات شرائط انعقاد کی شرطیں ہیں اور اِن میں ایک کے بھی نقص ہونے سے خلافت کا انعقاد نہیں ہوتا۔

انعقاد کی شرائط:
پہلی شرط یہ ہے کہ خلیفہ مسلم ہو۔ یہ مطلقاً صحیح نہیں کہ کافر خلیفہ بنے اور نہ ہی یہ کہ اُس کی اطاعت کی جائےؒ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا خع )

اور اللہ کبھی کفار کو اہلِ ایمان کے مقابلے میں کوئی راہ نہیں دے گا۔(انساء:۱۴۱)

پھر یہ تو اظہر من الشمس ہے کہ کسی کی حکومت ہی محکوم پر سب سے مضبوط سبیل ہوتی ہے۔مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں لفظ’لن‘ فرمایا ہے جوکافر کی مسلمان پر حکم کی حرمت کیلئے حتمی اور قطعی ہے،خواہ یہ حکم خلافت کا ہو یا دیگر۔جب اللہ تعالیٰ نے کافر کو مسلمان پر سبیل ہی نہیں دی تو مسلمانوں پر یہ حرام کر دیا کہ وہ حکومت کیلئے کسی کافر کا انتخاب کریں۔

مزید یہ کہ خلیفہ ولی امر ہوتا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ شرط رکھ دی ہے کہ اُن کا ولی امر مسلم ہی ہو۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُواْ الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو اور اُن کی جو تم میں صاحبِ امر ہیں۔(:انساء:۵۹)

(وَ اِذَا جَآ ءَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖط وَ لَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِِلیٰٓ اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْن یَسْتَنْبِِطُوْنَہ، مِنْھُمْ ط)

جب اُن کے پاس بے خوفی یا خوف کی کوئی بات پہنچتی ہے،تو اسے پھیلا دیتے ہیں حالانکہ اگر وہ اسے رسولؐ اور اپنے ذمہ داروں تک پہنچاتے تو ایسے لوگوں کے علم میں آجاتی جو اُن کے درمیان اس کی تحقیق کر سکتے ہیں۔( انساء:۸۳)

قرآن حکیم میں جہاں بھی کہیں اولی الامر آیا ہے،اسی قرینہ کے ساتھ آیا ہے کہ اولی الامر مسلمانوں میں سے ہو، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ولی امر مسلمانوں ہی میں سے ہو۔جب کہ احوال یہ ہے کہ خلیفہ ہی وہ ولی امر ہوتا ہے جو دیگر اولی الامر مقرر کرتا ہے جیسے معاونین،والی (Governor)اورعامل(Mayor)،لہٰذا خلیفہ کیلئے اُس کا مسلم ہونا شرط ہے۔

دوسری شرط یہ ہے کہ خلیفہ مرد ہو،یہ جائز نہیں کہ وہ عورت ہو،یعنی یہ لازمی ہے کہ وہ مرد ہی ہو ،اُس کا عورت ہونا صحیح نہیں ہے۔بخاری شریف میں ابی بکرہ ص سے روایت ہے کہ جب حضور اقدس (صلى الله عليه وسلم) کو اہل فارس کی یہ اطلاع پہنچی کہ اُنھوں نے کسریٰ کی بیٹی کو ملکہ بنا لیا ہے ، تو فرمایا:

((لَن یفلح قومٌ ولّوا أمرھم امرأۃ))

وہ قوم فلاح نہیں پائے گی جو اپنے اوپر عورت کو ولی امر بنا لے۔ 

یہاں حضور اقدس کا یہ خبر دینا کہ کہ جو قوم اپنے اوپر عورت کو ولی امر بنا لے وہ فلاح یاب نہیں ہوگی،عورت کے ولی امر بننے کی نفی ہے،کیونکہ یہاں مطالبے کا صیغہ آیا ہے۔اسی خبر میں یہ بات بھی مضمر ہے کہ جو قوم ایسا کرے اُس کے فلاح یاب نہ ہو سکنے سے اُس قوم کی مذمت تعبیر ہے۔چنانچہ یہ عورت کے ولی امر بننے کی حرمت کیلئے قرینہ ہے کہ یہاں اسے ترک کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو عورت کے ولی امر ہونے کی تحریم کو قطعیت سے ثابت کرتاہے۔عورت کے ولی ہونے سے یہاں مراد اُس کا خلافت یاکوئی ایسے عہدے پر فائز ہونا ہے جو حاکمیت سے مت صف ہو؛کیونکہ یہاں حدیث کا موضوع کسریٰ کی بیٹی کو ملکہ بنائے جانے سے متعلق ہے نہ کہ محض کسریٰ کی بیٹی کی ولایت سے۔ نیز یہاں موضوع عام نوعیت کا بھی نہیں ہے کہ اُس میں ہر چیز شامل ہو ۔ یہ صرف حاکمیت کیلئے مخصوص ہے نہ کہ دیگر امور پر جیسے قضاء سے متعلق یا عورت کے مجلسِ شوریٰ میں یا محاسبہ یا حاکم کے انتخاب کیلئے۔ اس کے برعکس عورت کیلئے یہ تمام چیزیں جائز ہیں۔

تیسری شرط خلیفہ کا بالغ ہوناہے۔حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) کی سنن ابو داؤد میں حضرت علی ابن ابی طالب  (رضي الله عنه) سے مروی اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ نابالغ نہیں ہو سکتا:

((رُفع القلم عن ثلاثۃ:عن الصبي حتی یبلغ؛وعن النائم حتی یستیقظ؛ و عن المعتوہ حتی یبرأ۔))

تین قسم کے لوگوں کا محاسبہ نہیں ہوگا:لڑکا ،جب تک کہ وہ سنِ بلوغ کونہ پہنچے؛سویا ہوا شخص، جب تک کہ وہ نیند سے نہ جاگ جائے؛اور مجنون(دیوانہ) جب تک کہ وہ ٹھیک نہ ہو جائے۔ 

حضرت علیؓ سے ہی دوسرے الفاظ میں یہ روایت ہے:

((رفع القلم عن ثلاثۃ:عن المجنون المغلوب علی عقلہ حتی یفیق؛
وعن النائم حتی یستیقظ؛وعن الصبي حتی یحتلم۔))

تین قسم کے لوگوں کا محاسبہ نہیں ہوگا:مجنون جسکی عقل درست نہیں ،جب تک کہ وہ ٹھیک نہ ہو جائے؛سویا ہوا شخص جب تک کہ وہ جاگ نہجائے؛ اورنابالغ لڑکا جب تک کہ بلوغت کو نہ پہنچے۔
 
ظاہر بات ہے کہ جس پر سے قلم اُٹھا لی گئی ہو یعنی جو محاسبت سے بری الذمہ کر دیا گیا ہو اور خود اپنے اوپر ذمہ دار نا ہو، تو وہ غیر مکلف ہو اور اس کیلئے صحیح نہیں ہے کہ وہ خلیفہ بنایا جائے،یا حکم و اقتدار کی کسی اور ذمہ داری پر فائز ہو۔اس بات سے بھی اس کی دلیل ملتی ہے کہ حضور (
صلى الله عليه وسلم) نے ایک نابالغ لڑکے کی بیعت لینے سے منع کر دیا تھا۔بخاری شریف میں ابی عقیل بن زہرہ بن معبدنے اپنے دادا عبد اللہ ابنِ ہشام سے روایت کی ہے کہ وہ اپنی والدہ زینب بنت حمید کے ہمراہ حضور (صلى الله عليه وسلم) کے پاس پہنچے اور اُن کی والدہ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) سے اُن کی(عبداللہ ابن ہشام کی) بیعت لینے کی گزارش کی تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:

((ھو صغیر، فمسح رأسہ و دعا لہ۔۔۔))

وہ (ابھی) چھوٹا ہے، اوراسکے سر پہ ہاتھ پھیرا اوراس کیلئے دعا فرمائی۔۔۔

لہٰذا اگر ایک نابالغ بچہ اتنا غیر معتبر ہوا کہ اس سے بیعت ہی نہیں لی جا سکتی ، تو پھر یہ اولیٰ ہوا کہ اُس کا خلیفہ بننا جائز نہ ہو۔
چوتھی شرط خلیفہ کا عاقل ہونا ہے۔یہ صحیح نہیں کہ وہ دیوانہ ہو کیونکہ حضور (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:

((رفع القلم عن ثلاثۃ:عن المجنون المغلوب علی عقلہ حتی یفیق))

تین قسم کے لوگوں کا محاسبہ نہیں ہوگا:مجنون جس کی عقل درست نہیں ،جب تک کہ وہ ٹھیک نہ ہو جائے۔۔۔

اب جو شخص ذمہ داری اُٹھانے کا اہل ہی نہ ہو، اور وہ کسی ذمہ داری کا پابند نہ ہو سو وہ غیر مکلف ہے، اورعقل ہی وہ شرط ہے جس پر انسان کے تصرفات کی صحت اور ذمہ داری ہے۔خلیفہ کے تصرفات میں حکومت اور شرعی ذمہ داریاں ہیں، چنانچہ یہ صحیح نہیں کہ وہ مجنون ہو کیونکہ ایک مجنون خود اپنے ہی معاملات طے نہیں کر سکتا، تو پھر وہ دوسروں کی ذمہ داری کس طرح اُٹھا سکتا ہے۔

پانچویں شرط خلیفہ کا عادل ہونا ہے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ خلیفہ فاسق ہو۔عادل و انصاف پسند ہونا ایسی شرط ہے جس کے بغیر اسکی خلافت کا انعقاد نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ایسی خلافت چل سکتی ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے گواہ کیلئے عادل ہونے کی شرط رکھی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(وَّاَشھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ)

اور اپنے میں سے دو صاحبِ عدل آدمیوں کو گواہ بنالو۔(طلاق:۲)

خلیفہ کی حیثیت یقیناً گواہ سے بڑھ کر ہے،اسلئے اس کیلئے یہ ضروری ہوا کہ وہ صاحبِ عدل ہو، کیونکہ جب ایک گواہ کا صحیح ہونا عدل سے مشروط ہے تو خلیفہ کیلئے یہ تو شرط بدرجۂ اولیٰ ضروری ہوئی۔

چھٹی شرط خلیفہ کا آزادہونا ہے۔ کیونکہ ایک غلام اپنے آقا کی ملکیت ہوتا ہے اور از خود اس کا اپنے اعمال پرکوئی تصرف نہیں ہوتا،پھر وہ کیونکر دوسروں پرمت صرف ہو سکتا ہے ۔

ساتویں شرط خلیفہ کا خلافت کیلئے اہل ہونا ہے۔ ایک شخص میں اس اہلیت کا ہونا شرط ہے کہ وہ خلافت کے تقاضوں کو پورا کرسکے، کیونکہ یہ اسکی بیعت کا ہی تقاضا ، اور جزو لازم ہے۔ایک شخص جو اس اہلیت سے عاجز ہے وہ قرآن اور سنت سے، جن پر کہ اسے بیعت دی گئی ،لوگوں کے امور کا اہتمام نہیں کر سکتا۔مزید یہ کہ محکمۂ مظالم کے ذیل میں نواقص یا عجائز کی ایسی فہرست ہوتی ہے جن کا خلیفہ میں ہونا ، اُس کی اہلیت کا منافی ہوجاتا ہے۔


ترجیحی شرائط:
اب تک جو شرائط گزریں یہ خلافت کے انعقاد کیلئے ناگزیر شرائط تھیں،اِن کے ماسوا کسی اور چیز کا خلافت کے انعقاد کیلئے لازمی شرط ہونا صحیح نہیں ہے،گو کہ اگر نصوصِ شرع سے دیگر کوئی شرط ثابت ہو،یا شرعی حکم کے ذیل میں ہو اور نصوص سے ثابت ہو تو وہ ترجیحی شرط ہو سکتی ہے،کیونکہ کسی شرط کی ناگزیر شرط ہونے کیلئے یہ ضروری ہے کہ اُس شرط کے حکم میں ایسی شرط کا انعقاد کیلئے لازمی شرط ثابت ہونا ضروری ہے۔

یعنی کسی شرط کے انعقادی شرط ہونے کیلئے نصوص شرع میں اُس شرط کے حکم میں قطعی طور سے اُس کے لازم ہونے کا حکم شامل ہو۔اس کے سوا اگر کسی حکم میں کوئی شرط ایسی ہو جس میں اُس کی قطعیت شامل نہ ہو تو ایسی شرط پھر افضلیت یا ترجیحی شرط ہوگی نہ کے انعقاد کیلئے ناگزیر شرط۔ نصوص شرع میں جن شرائط میں یہ قطعیت وارد ہوئی ہے وہ صرف یہی سات شرائط ہیں، لہٰذا یہی سات شرائط خلافت کے انعقاد کیلئے لازمی ہیں اور اِن کے علاوہ جو بھی شرائط نصوص شرع میں وارد ہوئی ہیں وہ افضلیت کی شرائط ہوں گی۔مثلاً کسی کا قریش میں سے ہونا،مجتہد ہونا یا اسلحہ کے استعمال میں مہارت رکھنا وغیرہ، جن کیلئے قطعیت ثابت نہیں ہے۔

خلیفہ کے نصب کئے جانے کا طریقہ:
جہاں شریعت نے امت پر خلیفہ کا مقرر کیا جانا فرض قرار دیا وہیں شریعت نے اُس کے نصب کئے جانے کا طریقہ بھی متعین کر دیاہے، اور یہ طریقہ قرآن، حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)کی سنّت اور صحابۂ کرام کے اجماع سے ثابت ہے۔یہ بیعت کا طریقہ ہے۔خلیفہ کے نصب کئے جانے کااجراء اُسے مسلمانوں کی جانب سے کتاب اللہ اور سنتِ رسول پر عمل کرنے کیلئے بیعت سے ہوتا ہے۔مسلمانوں سے مراد سابق خلیفہ کی رعایا سے ہے ،اگر خلافت قائم ہو،یا اگر خلافت قائم نہ ہو تو اُس خطّہ کے مسلمان جہاں خلافت قائم کی جارہی ہو۔

اس بیعت کے طریقہ کی دلیل مسلمانوں کے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیعت دینے سے ، اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ہمیں امیر کو بیعت دینے کے حکم سے ثابت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی حضور  (صلى الله عليه وسلم) کو بیعت دینا نبوت پر نہیں بلکہ حکومت و قتدار کی بیعت تھی؛ یہ بیعت عمل کی تھی نہ کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی تصدیق کی بیعت۔آپ (صلى الله عليه وسلم) کو بہ اعتبارِ حاکم بیعت کی گئی تھی نہ کہ بحیثیتِ نبی یا رسول کے؛کیونکہ نبی یا رسول کی تصدیق کرنا ایمان ہوتا ہے نہ کہ بیعت، اب تو صرف بحیثیتِ امیرِ ریاست بیعت ہونا باقی تھا۔بیعت کا ذکر قرآن و حدیث میں آتا ہے؛اللہ لکا ارشاد ہے:

(یٰٓاَ یُّھَا النَّبِیُّ اِ ذَ ا جَآ ءَ کَ الْمُءْو مِنٰتُ یُبَا یِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِا للّٰہِ شَیْءًا وَّ لَا یَسْرِ قْنَ وَ لَا یَذْ نِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْ لَا دَ ھُنَّ وَلَا یَا تِیْنَ بِبُھْتَانٍٍ یَّفْتَرِ یْنَہٗ بَیْن اَیْدِ ھِنَّ وَ اَرْ جُلِھِنَّ وَ لَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْ فٍ فَبَا یِعْھُنَّ )

اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی،چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی ،اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باند ھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری بے حکمی نہ کریں گی تو آپ (صلى الله عليه وسلم) ان سے بیعت کر لیا کریں۔(ممتحنہ:آیت ۱۲)

نیز اللہ تعالیٰ کا اررشاد ہے:

(اِ نَّ الَّذِ یْنَ یُبَا یِعُوْ نَکَ اِ نَّمَا یُبَا یِعُوْنَ اللّٰہَط یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِ یْھِم)

جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ یقیناًاللہ سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے
 (فتح آیت :۱۰)

بخاری شریف میں اسماعیل ؒ مالکؒ سے اور وہ یحییٰ ابن سعید سے عبادۃ بن الولید سے حضرت عبادۃ ابن صامت (رضي الله عنه) سے روایت کرتے ہیں:

((بایعنا رسول اللّٰہِ ا علی السمع و الطاعۃ في العسر والیسر والمنشط والمکرہ،وأن لا ننازع الأمر أھلہ،وأن نقوم أو نقول بالحق حیث ما کنا،لا نخاف في اللّٰہِ لومۃ لائم۔))

ہم نے رسول اللہا پر اس بات کی بیعت کی کہ ہم مشکلات میں اور آسانیوں میں، اورخوشحالی میں اور سخت حالات میں سنیں گے اور اطاعت کریں گے،اور ہم صاحب اقتدار سے اس کے امر میں تنازعہ نہیں کریں گے،اور ہم ہر موقع اور جگہ حق کہیں گے اور حق کا ساتھ دیں گے،اور اللہ کے معاملے میں کسی سے خوف زدہ نہیں ہوں گے۔

نیز مسلم شریف میں حضرت ابی سعید الخدری سے مروی ہے:

((۔۔۔ومن بایع اماماً فأعطاہ صفقۃ یدہٖ و ثمرۃ قلبہٖ فلیطعہ إن إستطاع،فإن جاء آخر ینازعہ فاضربوہ عنق الآخر))

جوکوئی ایک امام کے ہاتھ پر ،دل سے بیعت دے،سو وہ اسکی اطاعت حسبِ استطاعت کرے، اور اگر کوئی دوسرا آکر خلیفہ سے تنازعہ کرے،تو اسکی گردن اُڑا دے۔

اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی،چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی ،اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باند ھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری بے حکمی نہ کریں گی تو آپ (صلى الله عليه وسلم)ن سے بیعت کر لیا کریں۔
(ممتحنہ:آیت ۱۲)

نیز اللہ تعالیٰ کا اررشاد ہے:

(اِ نَّ الَّذِ یْنَ یُبَا یِعُوْ نَکَ اِ نَّمَا یُبَا یِعُوْنَ اللّٰہَط یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِ یْھِم)

جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ یقیناًاللہ سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے
 (ۂ فتح آیت :۱۰)

بخاری شریف میں اسماعیل ؒ مالکؒ سے اور وہ یحییٰ ابن سعید سے عبادۃ بن الولید سے حضرت عبادۃ ابن صامت (رضي الله عنه) سے روایت کرتے ہیں:

((بایعنا رسول اللّٰہِ ا علی السمع و الطاعۃ في العسر والیسر والمنشط والمکرہ،وأن لا ننازع الأمر أھلہ،وأن نقوم أو نقول بالحق حیث ما کنا،لا نخاف في اللّٰہِ لومۃ لائم۔))

ہم نے رسول اللہا پر اس بات کی بیعت کی کہ ہم مشکلات میں اور آسانیوں میں، اورخوشحالی میں اور سخت حالات میں سنیں گے اور اطاعت کریں گے،اور ہم صاحب اقتدار سے اس کے امر میں تنازعہ نہیں کریں گے،اور ہم ہر موقع اور جگہ حق کہیں گے اور حق کا ساتھ دیں گے،اور اللہ کے معاملے میں کسی سے خوف زدہ نہیں ہوں گے۔

نیز مسلم شریف میں حضرت ابی سعید الخدری سے مروی ہے:

((۔۔۔ومن بایع اماماً فأعطاہ صفقۃ یدہٖ و ثمرۃ قلبہٖ فلیطعہ إن إستطاع،فإن جاء آخر ینازعہ فاضربوہ عنق الآخر))

جوکوئی ایک امام کے ہاتھ پر ،دل سے بیعت دے،سو وہ اسکی اطاعت حسبِ استطاعت کرے، اور اگر کوئی دوسرا آکر خلیفہ سے تنازعہ کرے،تو اسکی گردن اُڑا دے۔

نیز مسلم شریف ہی میں روایت نقل ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا:
((إذا بویع لخلیفتین فأقتلوا الآخر منھما))

اگردو خلیفاؤں پر بیعت ہو جائے تو دوسرے کو قتل کر دو۔

مسلم شریف میں ابی حازمؓ کی روایت نقل کی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال حضرت ابو ہریرہؓ کے ساتھ رہا اور اُن سے حضور  (صلى الله عليه وسلم) کے بارے میں سنا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:

((کانت بنو إسرائیل تسوسھم الأنبیاء‘کلما ھلک نبیٌ خلفہ نبي‘ و إنہ لا نبي بعدي‘و ستکون خلفاء فتکثر‘قالوا فما تأمرنا؟ قال: فوا ببیعۃ الأول فالأول‘و أعطوھم حقھم‘فإن اللّٰہ سائلھم عما استرعاھم۔))

بنی اسرائیل پر انبیاء
علیہم السلام حکومت کیا کرتے تھے،جب ایک نبی کی وفات ہوجاتی تو دوسرا اسکی جگہ لے لیتا تھا،لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا،خلفاء ہوں گے اور بہت سے ہوں گے۔پوچھا گیا کہ ہمارے لئے تب کیا حکم ہے؟ فرمایا:اُن سے اپنی بیعت پوری کرو اور اُن کو اُن کا حق دو،اللہ (خود) اُن سے اس بارے میں محاسبہ کریگا جو اُن کے ذمہ کیا تھا۔

چنانچہ اس بارے میں نصوص واضح ہیں کہ کتاب و سنت میں خلیفہ کو نصب کئے جانے کا طریقہ بیعت ہی ہے۔تمام صحابۂ کرام اِس کو سمجھتے تھے اور اسی پر اُن کا عمل بھی تھا جو خلفائے راشدین کی بیعت میں ظاہر تھا۔

خلیفہ کو نصب کئے جانے کی کارروائی اور اُس کی بیعت:
خلیفہ کی بیعت سے ماقبل جن عملی کاروائیوں سے اُس کی تنصیب کا عمل مکمل ہوتا ہے، یہ ممکن ہے کہ اُن کارروائیوں کی شکلیں مختلف ہوں،جیسا کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)کی وفات کے عین بعدخلفائے راشدینکے ساتھ واقع ہوا،یعنی حضرت ابو بکر الصدیق،حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی ابن ابی طالب ۔اس عمل پر تمام صحابہ نے سکوت اختیار کیا اور اِس سے متفق رہے جبکہ اُن کیلئے یہ ممکن تھا کہ اگر یہ عمل شریعت کے مخالف ہوتا تو وہ اس سے انکار کردیتے، کیونکہ یہ عمل اتنا اہم تھا کہ اس پر مسلمانوں کی اجتماعی ہیئت کاانحصار اوراسلام کی حکومت کی بقاء کا دار ومدار تھا۔اِن خلفاء کی تنصیب کے عمل پر بغور نظر ڈالی جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ بعض صحابۂ کرام نے سقیفۂ بنی ساعدۃ میں خلافت کیلئے مقابلہ آرائی بھی کی تھی۔اس وقت خلافت کے امیدوار حضرت سعد،حضرت ابوعبیدۃ،حضرت عمراور حضرت ابو بکر تھے،لیکن اُن میں سے حضرت    ابو عبیدۃ (رضي الله عنه)،حضرت عمر  (رضي الله عنه)اس بات پر راضی نہیں تھے کہ وہ حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)کے حریف بنیں۔لہٰذا یہ معاملہ صرف حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)اور حضرت ابو عبیدۃ کے مابین ہوگیا اور اِس مقابلہ آرائی کے نتیجے میں حضرت ابو بکر پر بیعت ہوگئی۔پھر اگلے دن مسلمانوں کو مسجدِ نبوی بلایا گیا جہاں اُنہوں نے حضرت ابو بکر  (رضي الله عنه) پر بیعت کی۔سقیفۂ بنی ساعدۃ کی بیعت فی الحقیقت بیعتِ انعقاد تھی جس سے حضرت ابو بکر  (رضي الله عنه) خلیفہ بنے جبکہ دوسرے دن مسجدِ نبوی میں جو بیعت ہوئی وہ بیعتِ اطاعت تھی۔اس کے بعد جب حضرت ابو بکر الصدیق کو یہ ادراک ہوگیا کہ اُن کی بیماری جان لیوا ہے،اور خاص طور پر اُس وقت جبکہ مسلم فوجی سپاہی اُس کی کی بڑی طاقتوں یعنی فارسؔ اور رومؔ سے جنگ پر ہیں، تو آپ ص نے مسلمانوں کو بلا کراپنے بعد ہونے والے خلیفہ پر مشورہ کیا اور یہ مشورے تین مہینوں تک جاری رہے۔جب یہ مشورے مکمل ہوگئے اور آپ ص نے بیشتر مسلمانوں کی رائے جان لی تو حضرت عمر  (رضي الله عنه)پراُن کو پابند کیا، یا آج کی اصطلاح میں کہا جائے توحضرت عمر رضي الله عنهکونامزد یا Nominate کیا کہ وہ اُن کے بعد خلیفہ ہوں گے۔ حضرت ابو بکر  (رضي الله عنه) کا حضرت عمر رضي الله عنهکونامزد کرنا ، انہیں خلیفہ بنایا جانا نہیں تھا، یہ عمل تو حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)کی وفات کے بعد مسلمانوں نے حضرت عمر رضي الله عنهکو بیعت دے کر انجام دیا کیونکہ مسلمان حضرت ابو بکر  (رضي الله عنه) کی وفات کے بعد مسجدِ نبوی میں جمع ہوئے اور حضرت عمر (رضي الله عنه) کو بیعت دی جس سے وہ مسلمانوں کے خلیفہ بنے، نہ کہ اُن مشاورات سے یا حضرت ابو بکر کے عہد دینے سے۔کیونکہ اگر حضرت ابو بکر  (رضي الله عنه) کا حضرت عمر (رضي الله عنه) کو نامزد کرنا اُن کی خلافت کا انعقاد ہوتا تو مسلمانوں کو اُنہیں بیعت دینے کی ضرورت نہ ہوتی، یہ بات اُن دلائل کے علاوہ ہے جو اوپر گزرے اور جن سے واضح ہواکہ کوئی بھی مسلمانوں کی جانب سے بیعت دئے بنا خلیفہ نہیں بن سکتا۔پھر جب حضرت عمر (رضي الله عنه) زخمی ہوئے اور مسلمانوں نے اُن سے کسی کو نامزد کرنے کا مطالبہ کیا تو اُنہوں نے انکار کیا لیکن پھر مسلمانوں کے مسلسل اصرار کے مدِّ نظر اس معاملے کو چھ اشخاص پر مخصوص کردیا یعنی اُن چھ اشخاص کو نامزد کر دیا اور حضرت صہیب کو امامت کی ذمہ دی اور اُنہیں اس بات پر مقرر فرمایا کہ وہ اُن کی جانب سے نامزد چھ افراد پر نظر رکھیں جب تک کہ وہ تین دن کی مقرر کردہ میعاد میں اپنے درمیان میں سے کسی کو خلیفہ منتخب نہ کر لیں اور پھر حضرت صہیب ص سے فرمایا:

(۔۔۔اگر پانچ افراد کسی ایک شخص پر متفق ہوجائیں اور چھٹا انکار کر ے تو اُس کا سرتلوار سے اُڑا دو۔۔۔)

اس قول کو علامہ طبری ؔ نے اپنی تاریخ میں اور علامہ سیوطی ابن قتیبہؒ نے امامت اور سیاست کی اپنی مشہور کتاب تاریخ الخلفاء میں نقل کیا ہے نیز ابن سعدؒ نے بھی طبقات الکبریٰ میں ذکر کیا ہے۔اس کے بعد حضرت عمر (رضي الله عنه) نے ابی طلحہ انصاری (رضي الله عنه) کوپچاس سپاہیوں کے دستے کے ہمراہ اِن نامزدگان کی پہرے داری پر مقرر فرمایا اور حضرت المقداد بن الاسود (رضي الله عنه)کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اِن افراد کے مل بیٹھنے کیلئے جگہ متعین کریں۔حضرت عمر (رضي الله عنه) کی وفات کے بعد یہ نامزدگان جمع ہوئے اور حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف (رضي الله عنه) نے فرمایا:’’آپ لوگوں میں سے کون اپنے آپ کو اس معاملے سے خارج کر لیتا ہے تاکہ سب سے بہتر شخص کو منتخب کیا جا سکے؟‘‘۔اس پر سبھی حضرات خاموش رہے،پھر خود عبدالرحمٰن ابن عوف (رضي الله عنه) نے فرمایا کہ میں اپنے آپ کو خارج کرتا ہوں،پھر ایک ایک سے مشوارہ کیا اور فرداً فرداً سوال کیا کہ وہ اپنے علاوہ اور کس کو خلافت کیلئے سب سے زیادہ مستحق سمجھتا ہے۔

 باقی تمام افراد کے جوابات حضرت عثمان  (رضي الله عنه) اور حضرت علی (رضي الله عنه) کے حق میں آئے۔اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف  (رضي الله عنه) نے مسلمانوں سے پوچھا کہ وہ ان دو افراد میں سے کس کو خلافت کیلئے پسند کرتے ہیں، آپ ص نے مردوں اور عورتوں دونوں سے مشورہ کیا، اور صرف دن کے ہی وقت نہیں بلکہ اس کام میں دن رات لگے رہے اور عوام کی رائے سے واقف ہوئے۔ امام بخاریؒ نے المِسَْوَر بن مخرمہ سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں: عبدالرحمٰن ابن عوف (رضي الله عنه) نے میرے دروازے پر رات کو دستک دی یہاں تک کہ میں اُٹھ گیاجبکہ میں آرام سے سو رہاتھا اور کہا ’’ تم سو رہے ہو؟میں تو اِن تین راتوں کو بمشکل ہی سو پایا ہوں‘‘۔پھر جب لوگوں نے فجر کی نماز پڑھی تو حضرت عثمان  (رضي الله عنه) کی بیعت ہوئی جس سے وہ خلیفہ بنے، نہ کہ حضرت عمر (رضي الله عنه) کے ذریعے اُن چھ نامزدگان میں شامل کرنے سے۔پھر حضرت عثمان  (رضي الله عنه) قتل ہوئے اور حضرت علی (رضي الله عنه)پر اہل مدینہؔ اور اہل کوفہؔ نے بیعت کی جس سے وہ خلیفہ بنے۔

اِن حضرات کی بیعت کو باریک بینی سے دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ خلافت کے نامزدگان کا عوام میں اعلان ہوجاتا تھا جن میں ہر ایک میں خلافت کے انعقاد کی تمام شروط موجود ہوتی تھیں ،پھر اہلِ حل و عقد سے جو عوام کے نمائندے ہوتے تھے ،مشورہ ہوتا تھا۔ خلفائے راشدین کے عہد میں اِن ممثلین یا نمائندوں کی حیثیت معروف تھی کیونکہ یہ حضرات یا تو صحابۂ کرام ثتھے یا بہرحال اہلِ مدینہ تھے۔صحابۂ کرام کی اکثریت یہ خواہش رکھتی تھی کہ وہ بیعتِ انعقاد کریں جس سے خلیفہ بنے اور اُس کی اطاعت واجب ہوجائے ، پھر مسلمان اطاعت کی بیعت کرتے تھے اور خلیفہ بن جاتا تھا جو حکومت واقتدار میں امت کا نائب ہوتا تھا۔

خلفائے راشدین کی بیعت سے یہ باتیں واضح ہوجاتی ہیں نیز اس کے ساتھ دو اور اہم امور سامنے آتے ہیں،پہلا حضرت عمر (رضي الله عنه) کے ذریعے چھ افراد کی نامزدگی سے اور دوسرا حضرت عثمان  (رضي الله عنه) کی بیعت سے، یہ امور ہیں: پہلا یہ کہ ایک وقتی امیر کا ہونا جو نئے خلیفہ کی تنصیب تک امور کا اہتمام کرے اور دوسرا یہ کہ خلافت کیلئے نامزدگان کی زیادہ سے زیادہ تعداد چھ ہوسکتی ہے۔

امیرِ مؤقت(Transitional Head) :
خلیفہ کو چاہئے کہ جب اسے ادراک ہوجائے کہ اُس کی موت کا وقت قریب ہے تو وہ اِس منصب کو چھوڑنے،ایک مناسب مدّت میں ایک مؤقت امیر مقرر کردے جوسابق خلیفہ کی وفات کے عین بعد سے آئندہ خلیفہ کے مقرر ہونے تک مسلمانوں کے امور کو سنبھالے۔اِس مؤقت خلیفہ کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ تین دن کے اندر اندر نئے خلیفہ کے تعیّن کو یقینی بنائے۔

اِس مؤقت امیر کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ احکام کی تبنّی کرے؛کیونکہ احکام کی تبنّی کرنا اُس خلیفہ کا اختیار ہوتا ہے جس پر امت بیعت کرے۔نیز اُس کیلئے یہ بھی صحیح نہیں کہ وہ خود خلافت کا امیدوار ہو یا امیدوار طے کرے،کیونکہ حضرت عمر رضي الله عنهننے جن لوگوں کو نامزد فرمایا تھا، امیرِ مؤقت اُن میں شامل نہیں تھا۔

اِس امیرِ مؤقت کی میعاد نئے خلیفہ کے نصب ہوتے ہی ختم ہوجاتی ہے کیونکہ اُسی میعاد وقتی تھی جو اِس تنصیب کے ساتھ ختم ہوگئی۔

اس بات کی دلیل کہ حضرت صہیب (رضي الله عنه) امیرِ مؤقت تھے جنہیں حضرت عمر  رضي الله عنهنے مقرر فرمایا تھا، یہ ہے:
حضرت عمر  (رضي الله عنه)کا اُن چھ نامزدگان سے یہ فرمانا:’’اور اِن دنوں جب تم لوگ مشورے میں ہوگے، صہیب (رضي الله عنه) تمہاری امامت کریں گے‘‘۔پھر آپ   (رضي الله عنه) نے صہیب (رضي الله عنه) سے فرمایا:’’تم لوگوں کی تین دن تک صلاۃ کی امامت کرنا‘‘ اور فرمایا:’’اگر پانچ افراد ایک شخص پر متفق ہوجائیں اور چھٹا انکار کرے ، تو تلوار سے اس کا سر اٌڑا دو۔۔۔‘‘یعنی صہیب لوگوں پر امیر ہوئے اور اُنہیں صلاۃ کا امیر بنایا گیا،اس وقت امارتِ صلاۃ کے معنے لوگوں کی امارت کے تھے،پھر مزید یہ کہ اُنہیں عقوبات(سزاؤں)کے اختیار دئے تھے اور یہ کہا تھا کہ ’’اُس کا سر اُڑا دو‘‘۔ قتل کی سزاکا نفاذ ایک خلیفہ ہی کر سکتا ہے۔

یہ واقعہ تمام صحابہ کی جماعت کے سامنے ہوا اور کسی نے اس سے انکار نہیں کیا،لہٰذا یہ صحابہ کا اجماع ٹھہرا کہ خلیفہ کسی شخص کو مؤقت امیر مقرر کرے جو اگلے خلیفہ کی تقرری تک کی کارروائی کا نگراں ہو۔اسی بنیاد پر یہ بھی جائز ہے کہخلیفہ اپنی زندگی میں یہ قانونی شق اختیار کرے کہ اگر خلیفہ بغیر کسی شخص کو امیرِ مؤقت کو مقرر کئے، جو نئے خلیفہ کی تنصیب کی کاروائی پوری کرے ، وفات پا جائے تو ایک شخص وقتی طور پر امیر بن جائے۔

یہاں ہم یہ تبنّی کرتے ہیں کہ اگر خلیفہ اپنے مرض میں موت سے قبل کسی کو وقتی طور پر امیر مقرر نہ کرے تو اُس کے معاونین میں سے جو عمر میں سب سے بڑا ہو،وہی امیرِ مؤقت ہو، لیکن اگر وہ نامزدگان میں سے ہو تو پھر وہ معاون جو عمر میں اس نامزدہ معاون کے بعد سب سے بڑا ہو،اور یہی ترتیب رہے؛اس کے بعد اسی ترتیب سے وزرائے تنفیذ کے ساتھ معاملہ ہو۔

یہی ترتیب ہی اُس وقت بھی قائم رہے گی جب خلیفہ معزول ہوجائے،تو اُس کے معاونین میں سے جو عمر میں سب سے بڑا ہو،وہی امیرِ مؤقت ہو، لیکن اگر وہ نامزدگان میں سے ہو تو پھر وہ معاون جو عمر میں اس نامزدہ معاون کے بعد سب سے بڑا ہو،اور یہی ترتیب رہے؛اس کے بعد اسی ترتیب سے وزرائے تنفیذ کے ساتھ معاملہ ہو۔لیکن اگر سب نامزد ہونا چاہیں تو پھر سب سے کم عمر وزیر تنفیذ ہی امیرِ مؤقت ہو۔

خلیفہ کے یرغمال بنالئے جانے کی صورتِ حال میں بھی یہی شکل ہوگی، البتہ اس میں قابلِ غور بات یہ ہوگی کہ آیا خلیفہ اپنی رہائی پر قدرت رکھتاہے یا نہیں، اور اسی فرق کے لحاظ سے امیرِ مؤقت کے بعض اختیارات متأثر ہوں گے۔امیرِ مؤقت کے اختیارات کو ایک قانو ن کی شکل میں منظم کیا جائے گا جو وقتِ ضرورت وضع کیا جائے گا۔

اس امیرِ مؤقت کی حیثیت اُس سے امیر سے مختلف ہوگی جسے خلیفہ سفر یا جہاد پر نکلتے وقت اپنا نائب مقرر کرے جیسے کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)جہاد پر روانہ ہونے سے پہلے مقرر فرماتے تھے یا حجۃ الوداع کیلئے نکلنے سے قبل یا کسی اور موقع پرکیا تھا ۔ایسے وقت میں جو شخص نائب مقرر کیا جائے گا، اُس کے اختیارات خلیفہ طے کرے گا اور اِس میں یہ امر ملحوظ ہوگا کہ اسے اِس نیابت میں کن امور کی نگہداشت پر مقرر کیا گیاہے۔


تعدادِ نامزدگانِ کی حدود:
خلفائے راشدین کے نصب کئے جانے کی کیفیت پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہاں امیدواروں کی تعداد محدود کی جاتی تھی۔لہٰذا سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابو بکر،حضرت عمر،حضرت ابو عبیدۃ اور حضرت سعد ابن عبادۃ ہی امیدوار تھے۔لیکن چونکہ حضرت عمر  (رضي الله عنه)اور حضرت    ابو عبیدۃ (رضي الله عنه)  خلافت کے مسئلے میں حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)سے برابری کرنا نہیں چاہتے تھے لہٰذا اُنہوں نے مقابلہ آرائی نہیں کی اور یوں عملاً صرف حضرت ابو بکر (رضي الله عنه) اور حضرت سعد ابن عبادۃ (رضي الله عنه) ہی امیدوار رہ گئے۔پھر سقیفۂ بنی ساعدہ میں اہلِ حل و عقد نے حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)سے بیعتِ انعقاد کی اور اگلے دن مسلمانوں نے مسجدِ نبوی میں اطاعت کی بیعت کی۔

حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)نے حضرت عمر رضي الله عنهکو خلافت کا نامزد مقرر کیا اور اُن کے علاوہ کوئی دیگر امیدوار نہیں تھا،پھر مسلمانوں نے حضرت عمر  (رضي الله عنه)سے پہلے بیعتِ انعقاد کی اور پھر باقی مسلمانوں نے اطاعت کی بیعت کی۔

اس کے بعد حضرت عمر رضي الله عنهنے خلافت کے معاملے کو چھ اشخاص پر محدود کیا جن میں سے ایک کو خلیفہ منتخب کیا جانا تھا۔پھر حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف (رضي الله عنه) نے باقی پانچ افراد سے مشاورت کی اور وکیل بنائے جانے کے بعد اس معاملے کو دو لوگوں میں محدود کیا یعنی حضرت علی  (رضي الله عنه) اور حضرت عثمان  (رضي الله عنه) پر،پھر لوگوں کی رائے معلوم کرنے کے بعد خلافت کیلئے حضرت عثمان  (رضي الله عنه) کے حق میں فیصلہ کیا۔

رہی بات حضرت علی  (رضي الله عنه) کی، تو اُن کے ساتھ خلافت کیلئے اور کوئی امیدوار نہیں تھا اور جمہور مسلمانوں نے مدینےؔ اور کوفہؔ میں بیعت کی اور وہ چوتھے خلیفہ بنے۔کیونکہ حضرت عثمان  (رضي الله عنه) کی بیعت میں دو باتیں واضح ہوئیں:پہلی یہ کہ خلیفہ کے انتخاب کیلئے جو زیادہ سے زیادہ مدّت ہوگی وہ تین دن مع درمیانی راتوں کے ہے اور دوسری یہ بات کہ نامزدگان یا امیدواروں کی تعداد چھ تھی جو بعد ازآں میں دو رہ گئی تھی،لہٰذا ہم اس بیعت کے واقعات کو قدرے تفصیل کے بیان کرتے ہیں تاکہ زیرِ غور موضوع میں افادیت ہو۔

۱۔۔۔حضرت عمر  (رضي الله عنه)کی وفات بروز اتوار محرم الحرام ۰۰۲۴ ؁ھ کو مردود ابو لؤلؤۃؔ کے ذریعے زخمی کئے جانے سے واقع ہوئی جس وقت آپ (رضي الله عنه) بروز چہارشنبہ بدھ بتاریخ ۲۵ یا ۲۶ ذی الحجہ ۰۰۲۳ ؁ھ کو فجر کی نماز کیلئے کھڑے تھے۔پھر جیسا کہ آپ ص نے ہدایت کی تھی،حضرت صبیں (رضي الله عنه) نے نماز میں امامت کی۔

۲۔۔۔حضرت عمر  (رضي الله عنه)کی وفات کے بعد حضرت المقداد (رضي الله عنه)نے ایک گھر میں اُن چھ اشخاص کو جمع کیا جن کے بارے میں حضرت عمر  (رضي الله عنه)نے وصیت کی تھی اور جو اہلِ شوریٰ میں تھے۔حضرت ابو طلحہ انصاری ص نے اُن کی پہرے داری کی اور یہ حضرات مشوروں میں جُٹ گئے۔حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف (رضي الله عنه) کو اپنا وکیل منتخب کیا کہ وہ اُن میں سے ایک خلیفہ طے کریں جس سے وہ راضی ہوں گے۔

۳۔۔۔حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف  (رضي الله عنه) نے اُن سے گفتگو کی اور ایک ایک سے یہ پوچھا کہ اپنے سوا وہ باقیوں میں سے کس کو خلیفہ کیلئے پسند کریں گے؟ہر ایک کا جواب حضرت علی (رضي الله عنه)اور
حضرت عثمان  (رضي الله عنه)  ہی تھا چنانچہ حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف  (رضي الله عنه) نے چھ میں سے اِن دو پر خلافت کو محدود کیا۔

۴۔۔۔جیسا کہ معلوم ہے اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف  (رضي الله عنه) نے عوام سے اُن کی رائے معلوم کی۔

۵۔۔۔چہارشنبہ(بدھ)کی رات کو یعنی حضرت عمر رضي الله عنهکی وفات(اتوار) کی تیسری رات کو حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف (رضي الله عنه)اپنے بھانجے المسور ابن مخرمہ کے گھر پہنچے، ہم یہ واقعہ علامہ ابن کثیرؒ کی کتاب ’’البدایہ والنھایہ‘‘ سے نقل کرتے ہیں:
’’اُس رات کو جس کی صبح حضرت عمر  (رضي الله عنه)کی وفات کو چوتھا دن ہونا تھا،رت عبدالرحمٰن ابن عوف (رضي الله عنه)اپنے بھانجے المسور ابن مخرمہ کے گھر پہنچے،اور کہا اے مِسْوَر تم سو رہے تھے؟میری تو تین راتوں سے آنکھ بھی نہیں لگ پائی۔(یعنی حضرت عمر  (رضي الله عنه)کی اتوار کی صبح وفات کے بعد پیر منگل اور بدھ کی رات)پھر فرمایا جاؤ اور میرے لئے علی اور عثمان کو بلا لاؤ۔اس کے بعد وہ اُن کے ساتھ مسجد کی جانب نکلے اور لوگوں کیلئے عام اعلان کیا کہ نماز کیلئے جماعت کھڑی ہے۔یہ بدھ کے دن فجر کا وقت تھا۔پھر آپ نے حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کا ہاتھ تھاما اور اُن سے پوچھاکہ کیا وہ کتاب اللہ، سنت نبوی اور حضرت ابوبکر (رضي الله عنه) و حضرت عمر  (رضي الله عنه)کے فعل پر راضی ہونے کی بیعت کرتے ہیں؟اس پر حضرت علی نے اپنا مشہور جواب دیا کہ کتاب اللہ اور سنتِ نبوی پر ہاں،لیکن رہی بات حضرت ابوبکر (رضي الله عنه) و حضرت عمر  (رضي الله عنه)کے فعل پر راضی ہونے کی تو میں اپنی رائے پر اجتہاد کروں گا۔آپ نے حضرت علیص کا ہاتھ چھوڑ کر حضرت عثمان کا ہاتھ تھاما اور وہی سوال دہرایا،جس پر حضرت عثمان  (رضي الله عنه)  کا جواب تھا ’’ہاں‘‘۔پھر حضرت عثمان  (رضي الله عنه) پر بیعت ہوگئی۔

حضرت صہیب (رضي الله عنه) نے اُس دن فجر اور ظہر کی نماز میں امامت کی اور عصر کی نماز میں حضرت عثمان نے بحیثیت مسلمانوں کے خلیفہ کے ،امامت فرمائی۔ حالانکہ حضرت عثمان  (رضي الله عنه) کی بیعتِ انعقاد کا کارروائی فجر کی نماز کے وقت شروع ہو چکی تھی تاہم ابھی حضرت صہیب (رضي الله عنه) کی ذمہ داری ختم نہیں ہوئی تھی کیونکہ مدینے کے اہل حل و عقد کی حضرت عثمان  (رضي الله عنه) کیلئے بیعتِ انعقاد جاری تھی جو عصر سے ذرا پہلے ہی مکمل ہوپائی۔ صحابۂ کرام اُس دن وپہر تک اور عصر سے ذرا قبل تک بیعت کرتے رہے، جب یہ عصر سے قبل مکمل ہوگئی تو حضرت صہیب (رضي الله عنه) کی ذمہ داری ختم ہوئی اور حضرت عثمان  (رضي الله عنه) نے پھر عصر کی نماز میں خلیفہ کی حیثیت سے امامت فرمائی۔

علامہ ابن کثیرؔ ؒ ، مصنّف البدایہ والنھایہ اپنی کتاب میں اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ جب فجر کے وقت حضرت عثمان  (رضي الله عنه) کی بیعت ہوچکی تھی تو حضرت صہیب (رضي الله عنه) نے ظہر کی نماز میں کیوں امامت کی؟:’’لوگوں نے مسجد میں بیعت کی پھر دار الشوریٰ(وہ گھر جہاں اہل شوریٰ جمع ہوئے تھے)پہنچے،جہاں باقی لوگوں نے اُن کی بیعت کی۔بیعت ظہر کے بعد ہی مکمل ہوپائی اس لئے اُس دن مسجدِ نبوی میں ظہر کی نمازحضرت صبیں (رضي الله عنه) نے پڑھائی۔ امیر المؤمنین حضرت عثمان  (رضي الله عنه)  نے جو پہلی نماز پڑھائی وہ عصر کی ہی نماز تھی۔

(حضرت عمر  (رضي الله عنه)کے زخمی ہونے اور وفات پانے ،نیز حضرت عثمان  (رضي الله عنه) کی بیعت کے دن میں کچھ اختلاف ہے ، بہرحال ہم نے اس بحث میں وہی دن رکھے ہیں جو راجح ہیں۔)
بہرحال خلافت کے وفات یا معزولی کے سبب خالی ہونے پر اِن امور کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے:

۱۔۔۔امیدواری اور نامزدگی کا عمل اُن مہلت کے دنوں میں رات دن ہونا چاہئے۔

۲۔۔۔ایسے امیدواروں کی نامزدگی جو انعقادی شروط رکھتے ہوں،بذریعۂ محکمۂ مظالم ہونا چاہئے۔

۳۔۔۔انعقادی شروط کے حامل امیدواروں کی تحدید دو مراحل میں ہو؛ پہلی بار چھ امیدوار اور دوسری بار دو۔ان دونوں مراحل کی ادائیگی مجلس امت کے ذریعہ ہو جو امت کی نمائندگی کرتی ہے،کیونکہ امت نے حضرت عمر  (رضي الله عنه)کو اختیار دیا اور انہوں نے چھ افراد کو نامزد کیا،اِن چھ اشخاص نے اپنے درمیان میں سے عبدالرحمٰن ابن عوف (رضي الله عنه) کو وکیل بنایا جنہوں نے مشاورت کے بعد اس معاملے کو دو میں محدود کردیا:اور جیسا کہ ظاہر ہے اِن تمام مراحل میں مرجع کی حیثیت امت یعنی اُس کے نمائندوں کی ہوگی۔

۴۔۔۔امیرِ مؤقت کی ذمہ داری نئے خلیفہ کی بیعت مکمل ہونے اور اُس کی تنصیب ہوجانے پر ختم ہوتی ہے نہ کہ محض خلیفہ کے انتخاب کے اعلان پر،حضرت صہب ص کی ذمہ داری حضرت عثمان  (رضي الله عنه) کی بیعت پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اُن پر بیعت پوری ہوجانیپر مکمل ہوئی تھی۔

ان تمام کی روشنی میں قانون وضع کیا جائے گا جس میں تین دن اور درمیانی راتوں کے دوران نئے خلیفہ کے انتخاب کی کیفیت متعین کی جائے گی۔ اس سلسلے میں قانوں وضع بھی کرلیا گیا ہے ،البتہ اس پر بحث اور اُس کی تبنیّ انشاءللہ مناسب وقت پر کر لی جائے گی۔

یہ صورتِ حال ایسے وقت کی ہے جب موجودہ خلیفہ کی موت واقع ہوجائے یا وہ معزول ہوجائے اور اُس کی جگہ نئے خلیفہ کا انتخاب مقصود ہو؛لیکن اس کے برعکس اگر شکل یہ ہوکہ سرے سے خلیفہ کا وجود ہی نہ ہو اور مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوچکا کہ وہ خلافت قائم کریں،جو اسلامی احکام نافذ کرے اور اسلام کی دعوت سارے عالم کو پہنچائے،جیسی کہ۳ مارچ ۱۹۲۴ء ؁ مطابق ۲۸ رجب ۱۳۴۲ ؁ھ سے اب تک صورتِ حال ہے جب اسطنبولؔ میں خلافت کا زوال ہوا تھا، موجودہ عالمِ اسلامی کے ہر خطہ پر یہ عائد ہوتا ہے کہ وہ خلیفہ کی بیعت کرے جس سے اُس کی خلافت کا انعقاد ہو۔اسلامی خطوں میں سے کسی بھی خطہ کے عوام خلیفہ کی بیعت کرتے ہیں جس سے اُس کی خلافت کا انعقاد ہوجاتا ہے ،تو باقی تما م خطوں کے مسلمانوں پریہ فرض عائد ہوجاتا ہے کہ وہ خلیفہ سے اطاعت کی بیعت کریں یعنی اپنے انقیاد کی بیع  ت، البتہ یہ ضروری ہے کہ اُس خطہ میں جہاں کے لوگوں نے بیعتِ انعقاد کی ہے،یہ چار امور موجود ہوں:

۱۔۔۔اُس خطہ کا اقتدار اُس کا اپنا ہو جس کی سند وہاں کے مسلمان ہوں نہ کہ کوئی کافر ملک ہو یا کسی کافر کا وہاں اثر ہو۔

۲۔۔۔اُس خطہ کے مسلمانوں کی سلامتی اور امان اسلام سے ہو نہ کہ کفر سے۔یعنی یہ ریاست مسلمانوں کی اپنی قوت سے، داخلی اور خارجی طور پر اسلام ہی کی حمایت و حفاظت کرے۔

۳۔۔۔یہ ریاست علی الفور اسلام کی مکمل اور جامع طور سے تطبیق کرے اور اسلام کی دعوت پہنچانے میں ہمہ وقت سرگرم رہے۔

۴۔۔۔جس خلیفہ کو بیعت کی گئی ہو ،وہ خلافت کی انعقادی شرائط پر کھرا ہو، گو کہ اُس میں شرائطِ ترجیحی نہ بھی ہوں کیونکہ اصل تو بہرحال انعقادی شروط ہی ہیں۔

اگر یہ چار شرائط کسی خطہ میں پوری ہوتی ہوں تو صرف اُسی خطہ کی بیعت سے خلافت قائم ہوجاتی ہے، اور خلافت کا انعقاد ہو جاتا ہے اور جس خلیفہ کوصحیح طور سے بیعت دی گئی ہے وہ شرعاً خلیفہ بن جاتا ہے نیز اب اُس کے سوا کسی اور پر بیعت صحیح نہیں رہتی۔اب اِس کے بعد کسی اور خطے میں بھی کسی اور شخص پر خلافت کی بیعت کی جائے تو وہ باطل ہوگا اور اُس کی بیعت درست نہیں ہوگی کیونکہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ہے: 

((إذا بویع للخلیفتین فأقلتوا الآخر منھما))

جب دو خلفاء پر بیعت ہو تو اُن میں سے دوسرے کو قتل کر دو۔
اور آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:

((فوا ببیعۃ الأول فالأول))

پہلے خلیفہ کی بیعت کو پورا کرو۔

اور آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:

((۔۔۔ومن بایع اماماً فأعطاہ صفقۃ یدہٖ و ثمرۃ قلبہٖ فلیطعہ إن إستطاع،فإن جاء آخر ینازعہ فاضربوہ عنق الآخر))

جوکوئی ایک امام کے ہاتھ پر ،دل سے بیعت دے،سو وہ اسکی اطاعت حسبِ استطاعت کرے، اور اگر کوئی دوسرا آکر خلیفہ سے تنازعہ کرے،تو اسکی گردن اُڑا دے۔

بیعت کی کیفیت:
ابھی تک ہم نے بیعت کے دلائل اور اسلام میں بیعت ہی سے خلیفہ کی تنصیب ہونے کا ذکر کیا؛اب رہا معاملہ بیعت کے طریقے کا، تو یہ ہاتھوں کے مصافحے سے ہوسکتی ہے یا پھربذریعۂ تحریر ہو سکتی ہے۔چنانچہ عبداللہ بن دینا رصکہتے ہیں:

میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضي الله عنهکو دیکھا جب لوگ عبدالملک پر بیعت کررہے تھے تو آپ ص نے فرمایا’’لکھو، میں اللہ کے بندے عبدالملک کی ،اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی سنت کے مطابق اپنی استطاعت میں سننے اور اطاعت کرنے کا اقرار کرتا ہوں ‘‘۔

نیز اس کے علاوہ کسی اور ذریعے سے بھی بیعت صحیح ہو سکتی ہے۔
البتہ بیعت کیلئے بالغ ہونا شرط ہے،نابالغ بچے کی بیعت صحیح نہیں ہوتی۔ابو عقیل زہرہ بن معبد اپنے دادا عبد اللہ ابن ہشام سے روایت کرتے ہیں جو حضور (صلى الله عليه وسلم) کے وقت موجود تھے،کہ وہ(یعنی دادا) اپنی والدہ زینب بنت حمید کے ساتھ حضور (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی والدہ نے حضور (صلى الله عليه وسلم) سے (دادا کی) بیعت لینے کی فرمائش کی تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:

((ھو صغیر، فمسح رأسہ و دعا لہ۔))

وہ ابھی بچہ ہے،اور پھراُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کیلئے دعا کی۔(بخاری)

حالانکہ بیعت کیلئے متعین الفاظ کی کوئی شرط نہیں ہے،البتہ یہ ضروری ہے کہ اُن الفاظ میں خلیفہ کیلئے عمل میں کتاب اللہ اور سنت رسول کی پابندی شامل ہو اوربیعت دینے والے کیلئے مشکلات میں،آسانی میں،سخت حالات میں اور راحت میں اطاعت کرنے کی بات ہو۔اِس ضمن میں سابقہ طریقہ کے مطابق قانون صادر کیا جائے گا۔

جب بیعت کرنے والا خلیفہ کو بیعت دے دے، تو یہ بیعت کرنے والے کی گردن پر امانت ہوجاتی ہے جس سے وہ رجوع کرنے کا اختیار نہیں رکھتا،یہ بیعت جب تک دے نہ دی جائے، خلافت کے انعقاد کا حق ہے اور جب یہ بیعت دے دی گئی تو پھر بیعت دینے والا اس کا پابند ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اگر وہ اس بیعت سے رجوع بھی کرنا چاہے تو یہ اُس کیلئے جائز نہیں رہتا۔بخاری شریف میں حضرت جابر ابن عبداللہ ص سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)سے اسلام پر بیعت کی اور جب وہ بیماری میں مبتلا ہوا تو اُس نے کہا کہ مجھے میری بیعت سے بری کردیجئے ، آپ (صلى الله عليه وسلم)نے انکار کردیا ، وہ دوبارہ آیا اور پھر کہا کہ مجھے میری بیعت سے آزاد دیجئے، آپ (صلى الله عليه وسلم)نے پھر انکار دیا، وہ چلا گیا ،پھر آپ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا:

((المدینۃ کالکیر،تنقي خبثھا ویَنْصَع طِیْبھا))

مدینہ بھٹّی کی طرح ہے جو گندگی کو نکالتی ہے اور پاکیزگی کو رہنے دیتی ہے۔

حضرت نافع ص سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر  (رضي الله عنه) نے بتایا کہ حضور  (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:

((مَنْ خَلَعَ یَدَاً مِنْ طَاعَۃٍ لَقِي اللّٰہَ یَومَ القِیَامَۃ لا حُجَّۃَ لَہُ۔))

جوکوئی اطاعت سے دستبردار ہوا ،تو وہ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن یوں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی۔۔۔(مسلم شریف)

خلیفہ کی بیعت کی پامالی کرنا اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لینے کے مترادف ہوتی ہے۔ اگر خلیفہ کو بیعتِ انعقاد دی گئی ہو یا طاعت کی کی بیعت کی گئی ہو اور وہ اُس کے ذریعہ خلیفہ بن گیا ہو تو اب اس بیعت سے دستبرداری ممکن نہیں ،البتہ اگر معاملہ یہ ہوکہ ہونے والے خلیفہ کو بیعت ابتداء میں دے لیکن پھر اُس خلیفہ کی خلافت کا انعقاد نہ ہوسکے تو یہ ممکن ہے کہ بیعت دینے والا اُس بیعت سے آزاد ہو جائے، کیونکہ اُس خلیفہ کو
مسلمانوں کی جانب سے بیعت پوری نہیں ہوپائی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث شریف میں خلیفہ کی بیعت سے رجوع کو منع کیا گیا ہے نہ کہ کسی آدمی کی بیعت سے جو بہرحال خلیفہ نہ بن سکا۔

خلافت کا ایک ہی ہونا:
یہ بات مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ایک ہی ملک میں رہیں اور اُن کا ایک ہی خلیفہ ہو نہ کہ ایک سے زیادہ؛اوریہ شرعاً حرام ہے کہ مسلمانوں کا ایک سے زیادہ ملک ہو یا اُن پر ایک سے زیادہ خلیفہ ہو۔

اسی طرح مسلمانوں پر یہ بھی فرض ہے کہ اُن کی ریاستِ خلافت میں حکومت کا نظام متحد ہو نہ کہ وفاقی(
Federal ) ،کیونکہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)سے مسلم شریف میں حضرت عمرو بن العاص (رضي الله عنه)روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا:

((۔۔۔ومن بایع اماماً فأعطاہ صفقۃ یدہٖ و ثمرۃ قلبہٖ فلیطعہ إن إستطاع،فإن جاء آخر ینازعہ فاضربوہ عنق الآخر))

جوکوئی ایک امام کے ہاتھ پر ،دل سے بیعت دے،سو وہ اسکی اطاعت حسبِ استطاعت کرے، اور اگر کوئی دوسرا آکر خلیفہ سے تنازعہ کرے،تو اسکی گردن اُڑا دے۔

اس کے علاوہ مسلم شریف میں حضرت عرفجہ ص سے روایت ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:

((من أتکم و أمٍرُکُم جمیعٌ علی رجلٌ واحد یرید أن یشق عصاکم أو یفرِّق جمارتکم فأقتلوہ))

جب تمہارے معاملات ایک شخص کے سپرد ہوں،اور کوئی شخص تمہارے پاس آکر تم میں تفرقہ ڈالے تو اُس کو قتل کر دو۔

نیز مسلم شریف میں حضرت ابو سعید الخذري (رضي الله عنه) سے روایت ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا:

((إذا بویع لخلیفتین فأقتلوا الآخر منھما))

اگردو خلیفاؤں پر بیعت ہو جائے تو دوسرے کو قتل کر دو۔

مسلم شریف میں ابی حازم (رضي الله عنه)کی روایت نقل کی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال حضرت ابو ہریرہ ا کے ساتھ رہا اور اُن سے حضور (صلى الله عليه وسلم) کے بارے میں سنا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا:

((کانت بنو إسرائیل تسوسھم الأنبیاء‘کلما ھلک نبیٌ خلفہ نبي‘ و إنہ لا نبي بعدي‘و ستکون خلفاء فتکثر‘قالوا فما تأمرنا؟ قال: فوا ببیعۃ الأول فالأول‘و أعطوھم حقھم‘فإن اللّٰہ سائلھم عما استرعاھم۔))

بنی اسرائیل پر انبیاء علیہم السلام حکومت کیا کرتے تھے،جب ایک نبی کاانتقال ہوجاتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا تھا،لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا،خلفاء ہوں گے اور بہت سے ہوں گے۔پوچھا گیا کہ ہمارے لئے تب کیا حکم ہے؟ فرمایا:اُن سے اپنی بیعت پوری کرو اور اُن کو اُن کا حق دو،اللہ (خود) اُن سے اس بارے میں محاسبہ کرے گاجو اُن کے ذمہ کیا تھا۔

لہٰذا پہلی حدیث سے یہ واضح ہوا کہ جب کسی کو امامت یا خلافت دی جائے تو اُس کی اطاعت فرض ہو جاتی ہے اور ایسے میں اگر کوئی دوسرا شخص اکر اُس خلافت سے تنازعہ کرے اور اگر وہ اپنے اِس تنازعہ سے رجوع نہ کرے تو اُس سے لڑنا اور اسے قتل کردینا واجب ہوجاتاہے ۔

دوسری حدیث یہ بیان کرتی ہے کہ جب مسلمان ایک خلیفہ کی امارت میں ایک جماعت کی شکل میں ہوں،اور کوئی شخص آکر اس وحدت میں رخنہ اور جماعت میں پھوٹ ڈالے تو اُس کا قتل کر دیا جانا فرض ہوجاتا ہے۔ان دونوں احادیث میں یہ مفہوم ہے کہ مسلمانوں کی ریاست کے ٹکڑے نہ ہوں اور اس کی تاکید کی گئی ہے کہ اس وحدت و ریاست کی تقسیم کی معافی نہیں ہے، اس کی تقسیم سے منع کیا گیا ہے چاہے یہ تلوار کے زور سے ہی کرنا پڑے۔

تیسری حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ ریاست میں خلیفہ کے؛موت کے سبب،اسے معزول کئے جانے کی وجہ سے،یا پھر خود اُس کے ہٹ جانے کے باعث،اگر دو اشخاص پر بیعت ہوجاتی ہے تو اُس دوسرے شخص کو قتل کردیا جائے، یعنی خلیفہ وہ ہو جسے پہلے صحیح بیعت دی گئی ہو اور دوسرے شخص کو ،اگر وہ خلافت کے دعوے سے دستبردار نہیں ہوتا تو اسے قتل کردیا جائے۔لہٰذا یہ اور بھی اولیٰ ہوا کہ اگردو سے زیادہ پر بیعت ہوجائے تو پہلے شخص کے ماسوا دیگر تمام کے ساتھ بھی وہی کیا جائے۔یہ ریاست کے ایک سے زیادہ ہونے کی ممانعت کیلئے کنایہ ہے۔یعنی یہ حرام ہوا کہ ریاست کو تقسیم کرکے کئی ریاستیں بنا دی جائیں بلکہ یہ لازمی ہے کہ وہ ایک ہی ریاست رہے۔
چوتھی حدیث اس بات کیلئے ثبوت ہے کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)کے بعد کثیر تعداد میں خلفاء ہوں گے اور صحابۂ کرام نے جب دریافت کیا کہ جب بہت سے خلفاء ہوں گے تو ہم کیا کریں؟ آپ (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا کہ جس کو سب سے پہلے بیعت دی گئی ہو اُس سے اپنی بیعت کا ایفاء کرو ۔کیونکہ وہی شرعی خلیفہ ہے اور اطاعت صرف اس ہی کی کی جاسکتی ہے نہ کہ باقیوں کی ،جن کی بیعت باطل اور غیر شرعی ہوئی۔اس لئے کہ مسلمانوں کے ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کو بیعت دینا جائز ہی نہیں ہے۔یہ حدیث ایک ہی خلیفہ کی اطاعت کی فرضیت کیلئے بھی دلیل ہے ،لہٰذا اس بات کی بھی دلیل ہوئی کہ مسلمانوں کیلئے یہ جائز نہیں کہ اُن کا ایک سے زیادہ خلیفہ ہو یا ایک سے زیادہ ریاست ہو۔

خلیفہ کے اختیارات:
خلیفہ کے اختیارات مندرجہ ذیل ہوتے ہیں:

ا۔۔۔خلیفہ ہی امت کے معاملات کی نگہداشت کیلئے ضروری شرعی احکام کی تبنی کرتا ہے جو قرآن اور سنتِ رسول اسے صحیح اجتہاد کے ذریعہ مستنبط کئے گئے ہوں۔ یہ تبنی شدہ احکام قانون بن جاتے ہیں جن کی اطاعت فرض ہوجاتی ہے اور اُن کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں۔

ب۔۔۔خلیفہ ہی ریاست کی داخلہ و خارجہ پالیسی کا ذمہ دار ہوتا ہے،وہی فوجی قیادت سنبھالتا ہے۔ خلیفہ ہی جنگ کا اعلان کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور وہی صلح و جنگ بندی نیز دیگر معاہدے کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔

ج۔۔۔خلیفہ ہی بیرونی ممالک کے سفیروں کے مختار نامہ قبول یا مسترد کرتا ہے اور وہی مسلم سفیر متعین کرتا ہے یا اُنہیں برخواست کرتا ہے۔

د۔۔۔خلیفہ ہی اپنے معاونین اور والیوں کو مقرر کرتا ہے اور وہی انہیں برخواست کرتا ہے؛ وہ سب خلیفہ اور مجلس امت (مجلس شوریٰ) کو جوابدہ ہوتے ہیں۔

ھ۔۔۔خلیفہ ہی قاضی القضاۃ اور دیگر قاضیوں کی تقرری اور انہیں برخواست کرتا ہے؛البتہ قاضئ مظالم کو وہ صرف مقرر کرسکتاہے ۔قاضئ مظالم کو برخواست کرنے میں اُس پر بعض پابندیاں عائد ہوتی ہیں جو باب القضاء میں اپنے مقام پر بیان کی گئی ہیں۔ خلیفہ ہی مختلف محکمات کے ذمہ داروں کو مقرر اور برطرف کرتا ہے،فوج کے قائد ، اُس کی شاخوں اورلواء (Brigades)کے امیروں کو مقرر اور معزول کرتا ہے۔یہ تمام خلیفہ ہی کو جوابدہ ہوتے ہیں نہ کہ مجلسِ امت کو۔

و۔۔۔ خلیفہ ہی ایسے شرعی احکام کی تبنی کرتا ہے جن کی رو سے ریاست کا میزانیہ(Budget)کیا
جاتا ہے ، وہی اس بجٹ کی مختلف مَدیں طے اور ہر ایک کیلئیرقوم طے کرتا ہے،خواہ یہ آمدنی سے متعلق ہوں یا اخراجات سے۔

مذکورہ چھ اختیارات کیلئے ادلۂ تفصیلیہ سے دلائل یوں ہیں:پہلے اختیار کیلئے دلیل صحابۂ کرام کا اجماع ہے۔ قانون یا دستور ایک اصطلاح ہے جس کے معنی وہ حکم کے ہیں جو حکومت عوام پر منطبق کرنے کیلئے صادر کرے، قانون کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ:قانون ایسے احکام کے مجموعہ ہے جو حکومت عوام پر اُن کے معاملات کو منظم کرنے کیلئے صادر کرتی ہے۔یعنی جب حکومت کسی معین احکام کو صادر کرے تو یہ قانون بن جاتے ہیں جن اور عوام اِن کے پابند ہوتے ہیں اور اگر حکومت اِن کا حکم نہ دے تو یہ قانون نہیں ہوتے اور نہ ہی عوام اِن کے پابند ہوتے ہیں۔مسلمان شریعت کے پابند ہوتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی پر چلتے ہیں نہ کہ حکومت کے اوامر ونواہی پر؛جس چیز کے مسلمان پابند ہیں وہ شریعت کے احکام ہیں نہ کہ حکومت کے احکام۔یہ البتہ ہوا ہے کہ صحابۂ کرام کی رائے اِن احکام کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف تھی۔کیونکہ نصوصِ شرعیہ کے بارے میں اُن کا فہم یا ادراک دوسرے صحابہ کے فہم سے مختلف تھا، ہر ایک اپنے فہم کے مطابق عمل کرتا تھا جو اُس کیلئے اللہ کے حکم کے مترادف تھا۔لیکن امت کے بہبود کیلئے بعض شرعی احکام ایسے ہوتے ہیں جن کا تقاضہ ہوتا ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی طور پر ایک ہی رائے کے پابند ہوں نہ کہ ہر ایک اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کرے۔یہ عملاً ہو بھی چکا ہے،حضرت ابو بکر صدّیق (رضي الله عنه)کی رائے تھی کہ مال تمام مسلمانوں میں برابری سے تقسیم کیا جائے کیونکہ وہ اس مال میں برابری سے مستحق ہیں؛اس کے برعکس حضرت عمر رضي الله عنهکی رائے یہ تھی کہجو لوگ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) کے خلاف قتال کرتے تھے تھے ،اُن کا حق بہرحال اُن لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتا جو آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ تھے؛اور یہ بھی صحیح نہیں مانتے تھے کہ مسکین فقیر کو دولتمند کے برابر دیا جائے،لیکن خلیفہ حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)تھے اور اُنہوں نے اپنی رائے پر عمل درآمد کا حکم دیا یعنی یہ حکم اختیار کیا کہ مال کی تقسیم برابری سے کی جائے۔ مسلمان اسی پر چلے اور والیان اور قاضیوں نے اسی کا اتباع کیا۔ حضرت عمر (رضي الله عنه) بھی اسی رائے کے پابند رہے، اسی پر عمل کیا اور اسی کو نافذ کیا۔لیکن جب حضرت عمر (رضي الله عنه) خود خلیفہ بنے تو اُنہوں نے حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)کی رائے خلاف حکم تبنی کیا،یعنی یہ کہ مال کی تقسیم میں افضلیت یا مراتب ملحوظ رہیں نہ کہ برابری سے تقسیم کیا جائے۔چنانچہ اب مال تقسیم کرنے میں کسی شخص کی حاجت اور اُس کے اسلام قبول کرنے میں سبقت کی رعایت رکھی جانے لگی اور قاضیوں اور والیوں نے اسی پر عمل کیا۔لہٰذا یہ اس بات پر صحابۂ کرام کا اجماع ٹھہرا کہ امام یا خلیفہ کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے صحیح اجتہاد سے شریعت سے ماخوذ معیّن احکام تبنی کرے اور اُن ہی کے مطابق عمل کا حکم دے جس کی اطاعت مسلمانوں پرواجب ہوگی گو کہ اُن کا اجتہاد اس کے برعکس ہو لیکن وہ اپنی رائے اور اپنے اجتہاد کو ترک کرکے اسی پر عمل کریں۔ایسے تبنّی شدہ احکام ہی قوانین ہوتے ہیں، لہٰذا قوانین وضع کرنا صرف خلیفہ ہی کا اختیار اور اسی کی ذمہ داری ہے اور اُس کے سوا یہ اختیار مطلقاً کسی کو نہیں ہوتا۔

خلیفہ کے دوسرے اختیار (ب)کی دلیل حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)کا عمل ہے، آپ (صلى الله عليه وسلم) خود قاضیوں اور والیوں کو مقرر فرماتے اور اُن کا محاسبہ کیا کرتے تھے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) خودخرید وفروخت پر نظر رکھتے اور دھوکہ دھڑی کو روکتے تھے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) خود مال کی تقسیم فرماتے اور بے روزگار کیلئے روزگار تلاش کرتے تھے۔نیز آپ (صلى الله عليه وسلم) خود ریاست کے تمام داخلی امور کی نگہداشت فرماتے تھے۔بیرونی ممالک کے بادشاہوں کو خطاب بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) خود کرتے اور باہر سے آنے والے وفود سے ملاقات کرتے تھے،نیز ریاست کے جملہ خارجی امور کی دیکھ بھال فرماتے تھے۔

اسی طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) فوج کے بھی عملاً قائد تھے اور غزوات میں معرکوں کی قیادت سنبھالتے تھے؛نیز فوجی مہمات کیلئے فوجی ٹکڑیوں کے امیر آپ (صلى الله عليه وسلم) خود مقرر فرماتے اور اُنہیں مہم پر بھیجتے تھے۔یہاں تک ہوا کہ جب آپ (صلى الله عليه وسلم) نے شام کی ایک مہم کیلئے حضرت اسامہ ابن زیدص کو امیر متعین فرمایا تو اُن کی عمرکم ہونے کے سبب یہ بعض صحابہ کو ناگوار بھی گزرا لیکن آپ (صلى الله عليه وسلم) مُصِر رہے کہ اُن کی قیادت کو قبول کیا ہی جائے۔یہ اِس بات کی دلیل ٹھہری کہ خلیفہ ہی حقیقتاً فوج کا قائد اعلیٰ ہوتا ہے نہ کہ محض نام بھر کیلئے۔اس کے علاوہ خود آپ (صلى الله عليه وسلم) نے قریشؔ کے خلاف اور پھر بنی قریظہؔ ،بنی نضیرؔ ، بنی قینقاع ؔ اور خیبر ؔ و روم ؔ کے خلاف جنگ کے اعلان کئے۔غرض کے جو بھی جنگ واقع ہوئی اُس کیلئے اعلان جنگ خود آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ہی فرمایا، جو اس بات کی دلیل ہوئی کہ خلیفہ ہی کو اعلانِ جنگ کا اختیار ہے۔مزید یہ کہ یہودیوں کے ساتھ اور بنی مدلج ؔ نیز اُن کے حلیف بنی ضمرۃ ؔ کے ساتھ معاہدات بھی خود آپ (صلى الله عليه وسلم) نے کئے۔نیز ایلۃؔ کے یوحنہ بن رؤبۃؔ سے معادہ کیا۔اس کے علاوہ حدیبیہ کا معاہدہ بھی خود آپ (صلى الله عليه وسلم) نے کیا جس پر مسلمان بہت ناراض ہوئے لیکن آپ (صلى الله عليه وسلم) نے کسی کی بات قبول نہیں کی اور نہ ہی اُن کے مشورے ٹھکرا کر معاہدہ طے کیا جو اس بات کی دلیل ہوئی کہ صرف خلیفہ ہی صلح یا دگر معاہدے کرنے کامجاز ہے۔ 

خلیفہ کے اختیار (ج) کی دلیل یہ ہے کہ خود حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) نے مسیلمہ الکذاب کے نامہ بروں نیز قریش کے نامہ بر رافعؔ سے ملاقات کی اور آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ہی ہرقلؔ ،کسریٰؔ ، مقوقسؔ ، حیرۃ ؔ کے بادشاہ حارث الغسّانی،یمنؔ کے بادشاہ حارث الحِمیَریؔ اور حبشہؔ کے نجاشی کیلئے اپنے نامہ بر بھیجے۔نیز حضرت عثمان ابن عفان (رضي الله عنه) کو حدیبیہ کے موقع پر قریش کی جانب اپنا پیغام بر بنا کر روانہ کیا۔یہ اِس بات کی دلیل ہوئی کہ خلیفہ ہی سفیروں کو قبول یا مسترد کوتا ہے اور وہی سفیر متعین کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔

خلیفہ کے اختیار(د) کے ضمن میں نظر کیجئے تو خود حضور اقدس (صلى الله عليه وسلم) والیوں کو مقرر فرماتے تھے چنانچہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت معاذ ابن جبل  (رضي الله عنه) کو یمن ؔ کا والی مقرر فرمایا ۔والیوں کو برطرف بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) خود ہی کیا کرتے تھے چنانچہ العلاء بن الحضرمی  (رضي الله عنه)کو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے لوگوں کی شکایت کی وجہ سے برطرف فرما دیا، جو اس بات کی بھی دلیل ٹھہری کہ والی اپنے خطہ کے لوگوں کو بھی جوابدہ ہوتا ہے جیسے کہ وہ خلیفہ اور مجلسِ امت کو جوابدہ ہے جو تمام ولایات کی نمائندگی کرتی ہے۔اس اختیار کے تحت یہ بات ہوئی والیوں کے ضمن میں، اب رہی بات معاونین کی ، تو آپ (صلى الله عليه وسلم) کے دو معاون تھے: حضرت ابو بکر صدّیق (رضي الله عنه)اور حضرت عمر رضي الله عنه،جن کو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے تمام عمر نہ تو معزول فرمایا اور نہ ہی کسی اور کو معاون بنایا۔جب تک کوئی معاون رہے اِس کے اپنے اختیارات خلیفہ ہی کے جانب سے ہوتے ہیں اور معاون خلیفہ کے نائب ہونے کی حیثیت رکھتا ہے،چنانچہ خلیفہ کو اپنا نائب برطرف کرنے کا اختیار ہوا جیسے کسی بھی مؤکل کو اپنا وکیل برطرف کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔

خلیفہ کے اختیار (ھ) کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت انے حضرت علی  (رضي الله عنه) کو یمنؔ میں قاضی مقرر فرمایا تھا ۔مسندِ احمد میں عمرو بن العاص (رضي الله عنه) سے روایت ہے کہ حضور (صلى الله عليه وسلم) کے پاس دو اشخاص آئے جن کے درمیان کوئی تنازعہ تھا،حضور (صلى الله عليه وسلم) نے عمرو بن العاص (رضي الله عنه)سے فرمایا :’’أقض بینھما یا عمرو‘‘۔ یعنی،’’اے عمروؓ اِن کے درمیان فیصلہ کرو‘‘ ۔حضرت عمرو (رضي الله عنه)نے جواب دیا کہ’’ آپ (صلى الله عليه وسلم) مجھ سے بہتر ہیں‘‘حضور (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:’’پھر بھی‘‘، حضرت عمرو (رضي الله عنه)نے سوال کیا کہ اگر میں اِن کے درمیان فیصلہ کردوں تو مجھے کیا اجر ملے گا؟ حضور (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:

((إن أنت قضیتَ بینھما فأصبتَ القضاء فلک عشر حسنات،وإن أنت اجتھدت فأخطأت فلک حسنۃ۔))

اگر تم نے صحیح فیصلہ کیا تو تمہیں دس نیکیاں ملیں گی اور اگرتم نے اجتہاد میں خطا بھی کی تو ایک نیکی۔
 
حضرت عمر
رضي الله عنه،قاضیوں کو مقرر فرماتے تھے،چنانچہ آپ ص نے شریح ص کو قاضئ کو فہؔ مقرر کیا اور حضرت ابو موسیٰ ص کو بصرہؔ کا قاضی بنایا۔نیز شرجیل بن حسنہ کو شام ؔ کے والی کی حیثیت سے معزول کرکے معاویہ کو والی بنایا۔ جب شرجیل بن حسنہ نے دریافت کیا کہ کیا آپ ص نے مجھے بزدل ہونے کی وجہ سے معزول کیا ہے یا خیانت کے سبب؟حضرت عمر رضي الله عنهنے فرمایا:(من کلِّ لا،ولکن أردت رجلاً أقوی من رجل)یعنی دونوں وجوہات کی وجہ سے نہیں، بلکہ صرف اتنا کہ میں زیادہ مضبوط شخص چاہتا تھا۔اسی طرح حضرت علی  (رضي الله عنه) نے ابو اسود کو والی مقرر فرمایا اور پھر اُنہیں معزول کردیا، لہٰذا نہوں نے دریافت کیا کہ مجھے کیوں برطرف کیا؟ نہ تو میں نے خیانت کی ہے اور نہ ہی کوئی جرم۔ حضرت علی  (رضي الله عنه) نے فرمایا:

(إني رأیتک یعلو کلامک علی الخصمین)

میں تمہیں دو فریقین سے اونچی آواز میں بات کرتے دیکھا تھا۔

حضرت عمر رضي الله عنهاورحضرت علی (رضي الله عنه) کے یہ افعال تمام صحابہ کے عین سامنے واقع ہوئے اور کسی نے بھی اِن سے انکار نہیں کیا۔ یہ تمام دلیل ٹھہری کہ خلیفہ ہی کو قاضی کو مقرر کرنے کا اختیار رکھتا ہے،نیز اسے یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کو قاضیوں کی تقرری کیلئے اپنا نائب بنا کر مقرر کردے جیسا کہ کسی کو وکیل یا نائب بنانے میں ہوتا ہے،لہٰذا خلیفہ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام اختیارات اور تصرفات میں سے کسی کیلئے اپنا وکیل یا نائب مقرر کرے۔

جہاں تک قاضئ مظالم کو برطرف کرنے کے استثناء کا معاملہ ہے،تو یہ استثناء اُس حالت میں ہوتا ہے کہ قاضئ مظالم کے روبرو کوئی ایسا مقدمہ یا معاملہ نہ ہو جو خلیفہ کے خلاف ہو یااُس کے معاونین یا پھر قاضئ القضاۃ کے خلاف زیر غور نہ ہو۔اِس استثناء کی بنیادیہ شرعی قاعدہ ہے کہ’’ حرام کی طرف لے جانے ولا وسیلہ بھی حرام ہوتا ہے‘‘(الوسیلۃ إلی الحرام حرامٌ)۔کیونکہ اگر ایسی صورت میں بھی خلیفہ کو قاضئ مظالم کے برطرف کردینے کا اختیار باقی رہے تو یہ اختیار قاضئ مظالم کے حکم پر اثرانداز ہوگا،اور اس سے شرعی حکم معطل ہوتا ہے جو حرام ہے۔اس طرح ایسی حالت میں قاضئ مظالم کی برطرفی کا خلیفہ کو اختیار ہونا حرام کیلئے وسیلہ بن جاتا ہے۔خاص طور پر اس لئے کہ اس قاعدے کے رو سے قطعیت کے بغیرمحض شبہ ہونا کافی ہوتا ہے۔لہٰذا ایسی حالت میں قاضئ مظالم کی برطرفی کااختیار محکمۂ مظالم کے پاس رہتا ہے،البتہ اگر صورتِ حال یہ نہ ہو تو پھر برطرفی کا حکم اپنے اصل مقام پر ہوتا ہے ، یعنی خلیفہ ہی اسے مقرر یا معزول کرسکتا ہے۔

جہاں تک بات مختلف محکمات کے افسروں کے تعین کی ہے تو حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) ریاست کے انتظامیہ میں ہر معاملے کیلئے کاتب مقرر فرمائے تھے جن کی حیثیت اپنے اپنے محکموں کے مدیر(Directors)کی ہوتی تھی،چنانچہ حضرت المعیقیب ابن ابی فاطمہ الدوسی صمہرِ نبوت کے ذمہ دار تھے اور انہیں مال غنیمت کی ذمہ داری بھی سونپی تھی۔حضرت حذیفہ بن الیمان  (رضي الله عنه)کو علاقۂ حجازکے پھلوں کی پیداوار کے تخمینہ کی ذمہ داری سونپی تھی۔حضرت زبیر بن العوام ص کی ذمہ داری تھی کہ وہ صدقات کا حساب لکھیں۔حضرت مغیرۃ بن شعبۃ  (رضي الله عنه) قرضہ جات اور معاملات کی لکھا پڑھی سنبھالتے تھے اور اسی طرح دیگر معاملات بھی تھے۔

پھر فوج کے قائد ین(Generals) اور لواء کے امیروں(Brigadiers) کو بھی حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) ہی مقرر فرماتے
تھے؛چنانچہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت امیر حمزہ (رضي الله عنه)کوتیس افراد کی ایک ٹکڑی پر امیر مقرر فرما کر قریش سے تعرض کیلئے سمندر کے ساحل کی جانب روانہ کیا؛نیز حضرت عبیدہ بن الحارث ص کو ساٹھ آدمیوں کی ٹکڑی کی امارت سونپی اور قریش سے ٹکراؤ کیلئے رابغؔ کے مقام پر بھیجا۔

اسی طرح حضرت سعد ابن ابی وقاص (رضي الله عنه) کوبیس اشخاص کی امارت پر مکہ ؔ کی جانب روانہ فرمایا۔اس طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) فوج کے قائد اور لواء کے امیر مقرر فرمایا کرتے تھے چنانچہ یہ اس بات کی دلیل ہوئی کہ خلیفہ ہی فوج کے قائد اور لواء کے امیر مقرر کرنے کامجاز ہے۔

یہ تمام حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) کو جوابدہ ہوتے تھے نہ کہ کسی اور کے تئیں یہ جوابدہ تھے۔یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قاضی، محکموں کے امیر،فوج کے قائد(Generals)،فوجی ٹکڑیوں(Brigades)کے امیر،نیز تمام ملازمین خلیفہ کے سوا کسی اور کو جوابدہ نہیں ہوتے، مجلسِ امت کو بھی نہیں۔مجلسِ امت جوابدہی کیلئے صرف معاونین،والیان اور عاملوں(Mayors)کو ہی طلب کر سکتی ہے،کیونکہ یہ صیغہ حاکم کے ضمن میں آتے ہیں۔ اِن کے علاوہ اور کوئی بھی مجلس امت کو جوابدہ نہیں ہوتا بلکہ خلیفہ ہی کو جوابدہ ہوتے ہیں۔

خلیفہ کے اختیار(و) کی نسبت غور کیا جائے تو ریاست کے میزانیہ (بجٹ) کے آمدنی اور اخراجات احکامِ شریعت کے پابند ہوتے ہیں؛نہ تو ایک دینار بھی بغیر حکم شرعی کے اُس میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی ایک دینار بھی حکم شریعت کے خلاف خرچ ہی کیا جاسکتا ہے۔البتہ مصارف کی تفصیلات یا جنہیں بجٹ کی مختلف مَدیں کہا جاسکتا ہے وہ خلیفہ کی رائے اور اُس کے اجتہاد کے تابع ہوتی ہیں اور اسی طرح آمدنی کی تفاصیل بھی اُس کے اجتہاد کے تابع ہوتی ہیں۔مثلاً خلیفہ ہی طے کرتا ہے کہ خراج کی زمین پر کس مقدار میں خراج عائد کیا جائے؟یا یہ کہ جزیہ کی رقم کیا ہو؟یہ اور اِن جیسی مثالیں آمدنی کی مختلف مَدوں کی تفصیل کے ضمن میں آتی ہیں۔یا خلیفہ ہی مثلاً یہ طے کرتا ہے کہ سڑکوں پر کس قدر خرچ کیا جائے؟ یا اسپتالوں پر کتنا خرچ کیا جائے؛ یہ اخراجات کی تفصیلات ہیں جنہیں خلیفہ طے کرتا ہے اور یہ اُس کی اپنی صوابدید اور اجتہاد کا موضوع ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ حضور اکرم (
صلى الله عليه وسلم)بذاتِ خود عمال سے وصول کیا کرتے تھے اور اخراجات بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) ہی کی نگرانی میں ہوتے تھے۔ بعض والیوں کو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہ تصرف دے دیا کرتے تھے کہ وہ مال وصول کریں اور اُسے خرچ کریں جیسا کہ حضرت معاذابن جبل (رضي الله عنه)کے ساتھ ہوا جب اُنہیں یمنؔ کا والی مقرر کیا تھا۔اسی طرز پر خلفائے راشین کا بھی عمل رہا اور وہ اموال کی وصولی نیز اُس کا مصرف اپنے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اپنی رائے اور اجتہاد سے طے کرتے تھے اور اُن کے اِس عمل پر کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔خلیفہ ہی تمام آمدنی اور اخراجات کے ذمہ دار ہوتے تھے اور اُن کی اجازت یا رائے کے خلاف ایک بھی دینار نہ وصول کیا جاتا تھا اور نہ ہی خرچ ہوتا تھا۔حضرت عمر  (رضي الله عنه)نے جب معاویہ کو ولایت عامہ
ونپی تھی تو یہی معاملہ تھا،وہی مال وصول کرتے اور خرچ کیا کرتے تھے۔یہ سب اس پر دلالت کرتا ہے کہ خلیفہ یا خلیفہ کا مقرر کردہ نائب ہی ریاست کے بجٹ کی مختلف مَدیں طے کرتا ہے۔ 

خلیفہ کے اختیارات کے ذیل میں یہ ادلۂ تفصیلیہ ہوئے۔اِن تمام اختیارات کیلئے ایک مجموعی دلیل وہ بھی ہے جو بخاری شریف اور مسندِ احمد میں حضرت عبداللہ ابن عمر 
(رضي الله عنه) سے روایت کی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں حضور اکرم سے سنا:

((الإمام راع و مسؤول عن رعیتہٖ))

امام یا خلیفہ اپنے عوام کا نگہبان اور اُن کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

یعنی رعایا کے معاملات سے متعلق تمام امور خلیفہ ہی کی ذمہ داری ہوتے ہیں،نیز وکالت کی بنیاد پر خلیفہ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اُن امور میں سے جن کیلئے جس کسی کو جیسے مناسب سمجھے اپنا نائب مقرر کرسکتا ہے۔

خلیفہ احکام کی تبنی کرنے میں شریعت کا پابند ہوتا ہے:

خلیفہ احکام کی تبنی کرنے یعنی اُنہیں اختیار کرنے میں شریعت کا پابند ہوتا ہے۔خلیفہ کیلئے حرام ہے کہ وہ شرعی دلائل سے بغیر صحیح استنباط کے کوئی حکم تبنی کرے۔وہ اپنے تبنی شدہ احکام کا بھی پابند ہوتا ہے اور اپنے طریقۂ استنباط کا بھی پابند ہوتاہے،لہٰذا اُس کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے طریقۂ استنباط سے متناقض کسی اور طریقے سے کوئی حکم مستنبط کرے یا اپنے تبنی شدہ احکام کے خلاف کوئی حکم جاری کرے۔خلیفہ پر یہ امور لازم ہوتے ہیں۔

اس قائدے کیلئے دلیل کہ خلیفہ احکام کی تبنی میں شریعت کا پابند ہوتا ہے،حسبِ ذیل ہے:

۱۔۔۔سب سے پہلے تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان ، خواہ وہ خلیفہ ہو یا غیر خلیفہ،یہ فرض کیا ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال و افعال شریعت کے حکم کے مطابق انجام دیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

(فَلاَ وَ رَبِّکَ لَا یُؤمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَینَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فیٓ انْفُسِھِم حَرَجَاً مِمَّا قَضَیتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیمَاً)

پس تمہیں تمہارے ربّ کی قسم!یہ مومن نہیں ہو سکتے ،جب تک کہ اُن کے درمیان جو نزاع ہو ،اُس میں یہ تم سے فیصلہ نہ کرائیں، پھر تم جو فیصلہ کر دو اس پر یہ اپنے دل میں کوئی تنگی بھی نہ پائیں،اور پوری طرح تسلیم کرلیں۔( انساء:۶۵)

عمال و افعال کا حکمِ شرعی کے موافق ہونا اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ جہاں کہیں شارع کے خطاب کی مختلف تاویلیں ممکن ہوں یعنی ایک سے زیادہ حکمِ شرعی ہو ، وہاں ایک مخصوص و معین حکم تبنی کیا جائے۔لہٰذا ایک مسلمان کیلئے یہ واجب ہے کہ جہاں حکمِ شرعی کے فہم مختلف ہوں وہ اپنا عمل انجام دیتے وقت اُن میں ایک حکم اختیار کرلے،یہی خلیفہ کیلئے جب وہ عمل یعنی حکومت کے فعل کا ارادہ کرے یہ فرض ہے۔

۲۔۔۔جو بیعت خلیفہ کو دی گئی، اُس کی نص سے ہی خلیفہ اس بات کا پابند ہوجاتا ہے کہ وہ شریعتِ اسلامی کا التزام کرے۔یہ بیعت اسے کتاب اللہ اور سنتِ رسول پر دی گئی تھی، اب اُس کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ اُن سے خروج کرے۔بلکہ اگر وہ غیرِ شریعت پر عقیدہ رکھتے ہوئے خروج کر گزرتا ہے تو وہ کفر کا مرتکب ہوجاتا ہے، نیز اگر وہ غیرِ شریعت پر عقیدہ نہ بھی رکھے اور شریعت سے خروج کر جائے توبھی وہ گنہگار، ظالم اور فاسق ہوجاتا ہے۔ 

۳۔۔۔ خلیفہ کو مقرر کرنے کا مقصد ہی شریعت نافذ کرنا ہے، لہٰذا خلیفہ کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ مسلمانوں پر نافذ کرنے کیلئے شریعت کے سوا کہیں اور سے حکم اخذ کرے کیونکہ شریعت نے اس کوحتمی طور سے ممنوع قرار دیا ہے۔غیر اسلام سے حکومت کے عمل کو ایمان کی نفی بتایا ہے جو اس کی قطعیت کیلئے قرینہ ہے۔یعنی خلیفہ قوانین تبنی کرنے یا اُنہیں وضع کرنے میں صرف شریعت کا ہی پابند ہوتا ہے۔لہٰذا اگر وہ شریعت کے احکام کے ماسوا کہیں اور کے قانون اختیار کرتا ہے اور اُن پر اُس کا ایمان بھی ہوتا ہے تو وہ کفر کا مرتکب ہوگا اور اگر وہ ایسے قانون تو وضع کرتا ہے لیکن اُن پر اُس کا ایمان نہیں ہوتا تو بھی وہ گنہگار،ظالم اور فاسق ضرور ہوگا۔

اس امر میں کہ خلیفہ اپنے تبنی کردہ قوانین اور اُن قوانین کے طریقۂ استنباط کا پابند ہوتا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ حکم شرعی جو خلیفہ نافذ کرتا ہے وہ اُس کے حق میں شریعت کا حکم ہوتا ہے، نہ کہ کسی اور کیلئے۔یعنی یہ وہ شرعی حکم ہے جو اعمال و افعال کو اُس کے موافق چلانے کیلئے تبنی کیا گیا، نہ نہ کوئی بھی شرعی حکم۔لہٰذا خلیفہ جب کوئی شرعی حکم استنباط کرے یا کسی حکم کی تقلید کرے،تو حکم اُس کے حق میں اللہ کا حکم ہوتا ہے اور اس حکم کو مسلمانوں کیلئے تبنی کرنے میں وہ اسی حکم کا پابند ہوتا ہے اور اُس کیلئے اس حکم کے خلاف تبنی کرنا جائز نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اُس کے حق میں اللہ کا حکم نہیں ہوتا یعنی شریعت کا حکم نہیں ہوتا چنانچہ وہ مسلمانوں کیلئے بھی شریعت کا حکم نہیں رہ جاتا۔لہٰذا خلیفہ عوام کیلئے جاری کرنے والے قوانین میں اسی شرعی حکم کا پابند ہوتا ہے جو اُس نے تبنی کیا ہو۔اب اُس کیلئے یہ جائز نہیں رہا کہ وہ اُس تبنی شدہ حکم کے خلاف حکم جاری کرے؛کیونکہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو گویا اُس نے شرعی حکم کے خلاف حکم جاری کیا۔چنانچہ خلیفہ کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے تبنی شدہ احکام کے خلاف کوئی حکم جاری کرے۔

مزید یہ کہ خلیفہ کے استنباط کے طریقہ کے مطابق حکم شرعی کا فہم بھی متغیر ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اگر خلیفہ کسی حکم کی علت جو نصوصِ شریعت میں وارد ہے تو وہ اس علت کو ہی شرعی علت تسلیم کرتاہے اور مصلحت کو علت یا مصالح المرسلہ کو شرعی دلیل نہیں سمجھتا،اب اُس نے اپنے لئے استنباط کا طریقہ متعیّن کرلیا اور اب خلیفہ اسی طریقہ کا پابند ہوگیا؛اب یہ اُس کیلئے جائز نہیں کہ وہ کوئی ایسا شرعی حکم تبنی کرے جس کی دلیل مصالح المرسلہ کی بنیاد پر مبنی ہو،یا کسی ایسی علت پر قیاس کرے جو نصوصِ شرع میں وارد نہ ہوں؛کیونکہ ایسا حکم اُس کے حق میں حکم شرعی نہیں ہوتا اس لئے کہ اُس کے نزدیک اس حکم کی دلیل شرعی دلیل نہیں ہے،لہٰذا ایسا حکم اُس کی نظر میں شرعی حکم نہیں ہوگا۔ اور جب وہ خود اس کو شرعی حکم تسلیم نہیں کرتا تو یہ مسلمانوں کے حق میں حکمِ شرعی نہیں ہو سکتا۔یہ حکم ایسا ہوگا گویا خلیفہ نے اسلامی احکام کے ماسوا حکم تبنی ہو، جو کہ اُس کیلئے حرام ہے۔

اس کے برعکس اگر خلیفہ محض مقلدہے یا صرف مجتہدِ مسئلہ ہے نہ کہ مجتہدِ مذہب یا مجتہدِ مطلق جن کا اپنا متعین طریقہ استنباط ہوتا ہے؛تو ایسی صورت میں اس کی تبنی اُس مجتہد کے اجتہاد پر مبنی ہوتی ہے جس کی وہ تقلید کرتا ہے،یا اپنے اجتہاد پر اگر وہ مجتہدِ مسئلہ ہے، جس کیلئے اسُ کے پاس دلیل کا دلیل کا شائبہ ہے؛تو ایسی صورت میں خلیفہ صرف اپنے صادر کردہ احکام کا پابند ہوگا کہ کوئی ایسا حکم جاری نہ کرے جو اُس کے اپنے تبنی شدہ احکام کے خلاف ہو۔

ریاستِ خلافت ایک انسانی ریاست ہوتی ہے نہ کہ خدائی ریاست:
اسلامی ریاست خلافت ہوتی ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کی عام امارت ہے۔ جب کسی بھی مسلم ملک میں کسی خلیفہ پر صحیح بیعت ہو جائے تو باقی دنیا کے مسلمانوں پر یہ حرام ہوجاتا ہے کہ وہ کہیں اور دوسری خلافت قائم کرلیں ، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
((إذا بویع للخلیفتین فاقتلوا الآخر منھما))

جب بیعت دو خلفاء پر ہو جائے تو دوسرے کو قتل کر دو۔

خلافت کا مقصد اسلامی شریعت،اُن افکار کے ساتھ جو اسلام لایا،اُن احکام کو جو شریعت کے ہیں،قائم و نافذکرنا ہے ،نیزاسلام کی دعوت کو سارے عالم تک پہنچانا،اُن کے سامنے اسلام کو واضح کرکے اُس کی دعوت دینا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔اس خلافت کو امارت یا امارت المسلین بھی کہا جاتا ہے اور یہ ایک دنیوی منصب ہے نہ کہ اخروی منصب۔ اس کامقصد انسان پر اور انسانوں کے درمیان اسلام کو نافذ و جاری کرنا ہے۔خلافت نبوت سےً جدا شئے ہے۔ 

نبوت ایک منصبِ الٰہیہ ہے جو اللہ جسے چاہتا عطا کرتا تھا،جس میں نبی یا رسول کو اللہ تعالیٰ سے وحی کے ذریعہ شریعت ملتی تھی؛اس کے برعکس خلافت ایک بشری منصب ہوتا ہے جس میں مسلمان اپنی پسند سے جسے چاہتے ہیں بیعت کرتے ہیں اور مسلمانوں میں سے جسے پسند کرتے ہیں اپنا خلیفہ بنا لیتے ہیں۔حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) بذاتِ خود حاکم تھے اور جو شریعت لیکر آئے تھے،اسے نافذ کرتے تھے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) بیکوقت نبوت و رسالت پر بھی فائز تھے اور دوسری طرف اسلامی احکام نافذ کرنے میں مسلمانوں کے امیر بھی۔جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو رسالت کی تبلیغ کا حکم دیا تھا ،اسی طرح حکومت کرنے کا بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) کو حکم تھا۔اللہ تعالیٰ کا آپ (صلى الله عليه وسلم) کو خطاب تھا:

(وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمآ انْزَلَ اللّٰہُ)

اور یہ کہ تم اُن کے درمیان وہی فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے،(مائدہ:۴۹)

(ًاِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰئکَ اللّٰہُ ط)

یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کروجس سے اللہ نے تمہیں شناسا کیا۔(سورۂ النساء:۱۰۵)

(وَ أُوحِیَ إلَیَّ ھٰذا القُرآنُ لأُنْذِرَکُمْ بِہِ وَ مَن بَلَغَ)

اور یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعہ سے تمہیں خبردار کر دوں اور جس کسی کو یہ پہنچے وہ بھی یہ کام انجام دے(انعام :۱۹)

(یَٰآأیُّھا المُدَّ ثِّرُخ قُمْ فَانْذِرْخ)

اے اوڑھنے لپیٹنے والے،اٹھو اور خبردار کرنے میں مصروف ہو (مدثر :۱،۲)

چنانچہ آپ (صلى الله عليه وسلم) ایک طرف منصبِ رسالت ونبوت پر اور دوسری جانب اللہ تعالیٰ کی وحی کردہ شریعت کو قائم و نافذ کرنے کیلئے تمام دنیا کے مسلمانوں کی امارت پر فائز تھے۔

البتہ آپ
(صلى الله عليه وسلم) کے بعد خلافت کے منصب پر بشر فائز ہوئے جو بہرحال نبی نہیں تھے اور اُن سے اُن غلطیوں،بھول چوک اور گناہ وغیرہ کا امکان تھا جو ایک انسان سے سرزد ہو سکتی ہیں کیونکہ وہ بہرحال بشر تھے۔نیز یہ کہ چونکہ وہ نبی یا رسول نہیں تھے لہٰذا معصوم بھی نہیں تھے۔پھر خود آپ (صلى الله عليه وسلم) یہ بیان کر چکے تھے کہ امام یا خلیفہ سے غلطی کا امکان ہے،اسی طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اس امکان سے بھی خبردار کیا تھا کہ خلیفہ کے ظلم یا گناہ سے عوام ناراض ہو سکتے ہیں، بلکہ یہاں تک خبردار کردیا تھا کہ ایسا بھی ہوگا کہ خلیفہ سے کفر بواح سرزد ہو اور ایسی حالت میں اُس کی اطاعت نہ کی جائے بلکہ اُس سے لڑا جائے۔چنانچہ مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ (رضي الله عنه) سے روایت نقل ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:

((إنما الإمام جُنَّۃ، یُقاتَلُ مِن وراۂٖ و یتقی بہٖ،فإن أمر بتقوی اللّٰہِ عز وجلّ وعدل کان لہ بذلک أجر،وإن یأمر بغیرہٖ کان علیہ منہ))

امام ڈھال ہے جس کے پیچھے مسلمان(کافروں سے)لڑتے ہیں،اور اپنا دفاع کرتے ہیں،پھر اگر وہ اللہ کے تقوے کا حکم کرے اور انصاف کرے تو اس کو ثواب ہوگا اور اگر وہ اس کے برخلاف کرے تو اس پر وبال ہوگا۔

یعنی یہ کہ امام معصوم نہیں ہوتے اور دوسرے یہ کہ اُن سے امکان ہے کہ وہ تقوی اللہ کے خلاف حکم کریں۔مسلم شریف میں حضرت عبداللہ ابن مسعود (رضي الله عنه)  سے روایت ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا:

((ستکون بعدي أثرۃ و أمور تنکرونھا قالوا : یا رسول اللّٰہ کیف تامر من ادرک منا ذلک؟ قال: تؤدون الحق الذي علیکم،و تسألون اللّٰہ الذي لکم))

میرے بعد خودغرضی کے معاملات ہوں گے اور ایسے امور ہوں گے جن سے تم نفرت کروگے،صحابہ نے پوچھا کہ ہم میں سے جو اس کو پہنچے تو اس کیلئے کیا حکم ہے؟ فرمایا:جو تم پر حق ہے وہ دیتے رہو اور جو تمہارا حق ہے،اللہ سے مانگو۔

بخاری شریف میں حضرت جنادۃ ابن ابی امیہ سے روایت نقل کی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عبادۃ بن صامت (رضي الله عنه) بیمار تھے، ہم اُ ن کے پاس پہنچے اور اُن سے کہا کہ اللہ آپ کو شفاء دے،آپ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے حضور اسے سنی ہو، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر دے گا، تو اُنہوں نے فرمایا:

((دعانا النبيا فبایعناہ،فقال:فیما أخذ علینا أن بایعنا علی السمع و الطاعۃ في منشطنا ومکرھنا،و عسرنا و یسرنا،و أثرۃ علینا، و أن لا ننازع الأمر أھلہ،قال:إلا أن ترواْ کفراً بواحاً عندکم
من اللّٰہ فیہ برھان۔))

رسول اللہا نے ہمیں بلایا اور ہم نے ،اپنی خوشحالی میں اورسخت حالت میں،اپنی مشکلات میں اور اپنی آسودہ حالی میں،اوراپنے(مفاد کے)برخلاف بات اور صاحب اقتدار سے اس کے امر میں سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی،تو حضور (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ’’ جب تک کہ تم کو ئی واضح کفر نہ دیکھ لو جس کے بارے میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلیل ہو۔
 
ترمذی میں حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا:

((ادرأوا الحدود عن المسلمین ما استطعتم،فإن کان لہ مخرج فخلوا سبیلہٖ۔فإن الإمام أن یخطئ فی العفو خیراً من أن یخطئ فی العقوبۃ))

مسلمانوں کو جہاں تک تم سے ممکن ہو سزاؤں سے بچاؤ،اگر اُس کیلئے کوئی راہ ہو تواُس راہ کو اُس کیلئے کھول دو؛امام کیلئے یہ بہتر ہے کہ اُس سے درگزر میں غلطی ہوجائے،بہ نسبت اس کے کہ سزا دینے میں غلطی ہو۔

یہ تمام احادیث صریح ہیں کہ امام یا خلیفہ سے خطاء ، بھول چوک اور معاصی کا امکان ہے،اس کے باوجود حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)نے یہ حکم دیا کہ جب تک خلیفہ اسلامی حکم دیتا رہے،اُس سے کفرِ بواح سرزد نہ ہو اور وہ معصیت کا حکم نہ دے، اُس کی اطاعت کرتے رہو۔لہٰذا حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)کے بعد خلفاء آئے جو معصوم نہیں تھے اور اُن سے خطا اور چوک سرزد ہوئی کیونکہ وہ نبی نہیں تھے، کہ کہا جائے کہ خلافت خدائی ریاست ہوتی ہے، بلکہ یہ ایکبشری ریاست ہوتی ہے جس میں مسلمان خلیفہ کو بیعت کرتے ہیں تاکہ وہ اسلامی شریعت کے احکام نافذ کرے۔

خلیفہ کی امارت کی میعاد:
خلیفہ کی امارت کیلئے کسی معین وقت کی مدت نہیں ہوتی،جب تک وہ شریعت کی حفاظت کرے،اس کے احکام نافذ کرے،ریاست کے امور کی نگہداشت اور خلافت کی ذمہ داریوں پر قادر ہو، وہ خلیفہ بنارہتا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ بیعت کی جواحادیث وارد ہوئی ہیں وہ مطلق ہیں اور اُن میں وقتِ معین کی کوئی قید نہیں ہے،جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت   انس ابن مالک  )رضي الله عنه( سے حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)کا قول نقل ہے:

((اسمعوا و أطیعوا، و إن استُعمِل علیکم عبدٌ حَبَشِيٌ،کان رأسہُ ((

 سنو اور اطاعت کرو،خواہ تمہارے اوپر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ مقرر کر دیا جائے جس کا سر کشمش کی طرح ہو۔

ایک اور حدیث مسلم شریف میں ام حصینؓ سے نقل کی ہے جس میں یہ الفاظ ہیں:
((یقود کم بکتاب اللّٰہ۔))

وہ تم پر اللہ کی کتاب سے حکومت کرے۔

اس کے علاوہ تمام خلفائے راشدین پر جو بیعت ہوئی وہ یہی مطلق بیعت تھی جو احادیث میں وارد ہوئی ہے۔یہ تما مخلفاء غیر محدود مدّت کیلئے خلیفہ تھے ۔ ان سب نے بیعت کے فوراً بعد خلافت کا منصب سنبھالا اور اپنی وفات تک اُس پر فائز رہے۔یہ صحابۂ کرام کا اجماع ہواکہ خلافت کیلئے کوئی متعین مدّت نہیں ہوتی بلکہ یہ مطلق ہے اور بیعت سے اُس کی وفات تک جاری رہتی ہے۔

البتہ اگر خلیفہ کے ساتھ ایسی صورت ہو کہ اسے معزول ہونا پڑے یا اُس کا معزول کیا جاناواجب ہو جائے، تو اُس کی مدّت ختم ہوجاتی ہے اور وہ برطرف کردیا جاتا ہے۔لیکن بہرحال ایسی صورت خلافت کی مدّت کو اصلاً محدود نہیں کرتی بلکہ یہ تو خلافت کی شرائط میں خلل کا واقع ہونا ہے۔لہٰذا نصوصِ شرع اور اجماع صحابہ سے بیعت کا صیغہ جس طرح ثابت ہے،اُس کی رو سے خلافت غیر محدود مدّت ہی کیلئے ہوتی ہے؛لیکن جو چیز خلافت کا محدود کرتی ہے وہ اُسی بیعت کی رو سے ہے جو خلیفہ کو دی گئی، یعنی کتاب اللہ اور سنتِ رسول پر عمل پیرا ہونا اور اُس کے احکام کو نافذ کرنا؛اگر خلیفہ شریعت کی حفاظت نہیں کرتا اور اُسے نافذ نہیں کرتا تو اُس کو برطرف کر دیا جانا واجب ہوجاتا ہے۔

خلیفہ کی برطرفی:
خلیفہ میں انعقادِ خلافت کی سات شرائط میں سے کسی ایک بھی شرط ناقص واقع ہوجانے کی صورت میں اُس کیلئے شرعاً جائز نہیں رہتا کہ وہ خلافت پر قائم رہے اور وہ برطرف کردئے جانے کا مستحق ہوجاتا ہے۔

خلیفہ کی برطرفی کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف محکمۂ مظالم ہی کو ہوتا ہے۔محکمۂ مظالم سب سے پہلے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کیا خلیفہ میں اب انعقادی شرائط میں سے نقص واقع ہوگیا ہے،اس لئے کہ کسی ایسے امر کا واقع ہونا جس میں خلیفہ معزول ہوجاتا ہے یا اُسے معزول کردیا جاتا ہے فی الحقیقت مظالم میں سے ایک مظلمہ ہوتاہے جس کا ازالہ کیا جانا
ضروری ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا واقع ہوجاناثابت ہونا ہوتا ہے، اور یہ ضروری ہے کہ یہ قاضی کے روبرو ثابت ہو۔ اور کیونکہ محکمۂ مظالم ہی وہ ادارہ ہوتا ہے جو مظالم کے ازالہ کے فیصلے کرتا ہے،نیز قاضئ مظالم ہی کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ مظالم کے ہونے کو طے کرکے اُس پر حکم جاری کرے۔ چنانچہ محکمۂ مظالم ہی خلیفہ میں شرائطِ انعقاد کے نقص واقع ہو جانے کا فیصلہ کرتا ہے اور پھر خلیفہ کو معزول کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔البتہ اگر کسی انعقادی شرط میں نقص ہوجانے پر خلیفہ ازخود ہی علیحدہ ہوجائے تو یہ معاملہ وہیں ختم ہوجاتا ہے۔لیکن اگر مسلمان یہ جان لیں کہ خلیفہ میں کوئی انعقادی شرط ناقص ہوگئی ہے اور پھر خلیفہ اس بات کو تسلیم نہ کرے تو یہ معاملہ فیصلہ کیلئے قاضی کے پاس جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شئیٍ فَرُدُّوہُ اِلی اللّٰہِ والرَّسُولِ)

پھر اگر کسی چیز میں تم اختلاف کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو،(النساء:۵۹)

یہاں تنازعہ سے مراد اولی الامر اور امت کے درمیان تنازعہ سے ہے اور اللہ اور اُس کے رسول کی طرف لوٹا دینے سے مراد قضاء کی طرف لوٹا دینا یعنی محکمۂ مظالم سے رجوع کرنا ہے۔

مسلمانوں کو خلیفہ نصب کرنے کیلئے دی گئی مدّت:
خلیفہ کے مقررکرنے کیلئے جو مدّت مسلمانوں کو دی ہے وہ تین دن اور اس کی درمیانی راتیں ہیں۔ یہ مسلمان کیلئے جائز نہیں ہے کہ اُس پر تین دن اس طرح گزر جائیں کہ اُس پر بیعت کا طوق نہ ہو۔جہاں تک اِس مدّت کو تین دن اور ان کی درمیانی راتوں سے زیادہ طول دینے کامعاملہ ہے،تو حقیقتاً سابق خلیفہ کی وفات یا معزول کئے جانے کے لمحہ سے یہ فرض عائد ہوجاتا ہے،لیکن اگر مسلمان اس مدّت کے دوران خلیفہ کو نصب کرنے کے کام میں جُٹے ہوئے ہیں تو اس میں تاخیر کا جواز ہے؛اور اگر اس مدّت کے گزر جانے کے باوجود خلیفہ کی تنصیب نہیں ہوپاتی تو پھر قابلِ غور یہ ہوگا کہ آیا مسلمان اس کام میں مصروف تو تھے لیکن بعض ایسے حالات کی وجہ سے کام کو تکمیل نہ پہنچا سکے جو اِن کی دسترس سے باہر تھے،ایسی صورت میں کام کو انجام نہ دے پانے کا گناہ اُن پر نہ ہوگا کیونکہ وہ فرض میں بہرحال لگے رہے اور اس میں ہونے والی تاخیر اُن کی پسند سے نہ تھی۔ابن حبان اور ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس (رضي الله عنه)سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا:

((إنَّ اللہَ وَضَعَ عَن أمتي الخطأ وَ النسیان و ما أستکرِھوا علیہ۔))

اللہ تعالیٰ نے میری امت کو غلطی،بھول چوک اور جس پر وہ مجبور ہو،معاف کردیا ہے۔

اس کے برعکس اگر مسلمان خلیفہ کے نصب کئے جانے کے کام میں مشغول نہ ہوں تو سب کے سب گنہگار ہوں گے تاوقیکہ یہ کام انجام نہ پا جائے اور یہ فرض اُن سے ساقط نہ ہوجائے۔اس فریضہ سے غافل پڑے رہنے کا گناہ البتہ اُن پر باقی رہے گا جس کا محاسبہ اللہ تعالیٰ اُن سے کرے گا جیسا کہ وہ مسلمانوں سے دیگر فرائض میں کوتاہی کا محاسبہ کرے گا۔

خلیفہ کے خلافت سے علیحدہ ہوتے ہی فوراً اس عمل میں جُٹ جانے کی دلیل صحابۂ کرام کا عمل ہے جو حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم) کی وفات کے فوراً بعد اُسی دن سقیفۂ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کی تدفین سے پہلے اُسی دن حضرت ابو بکر صدیق صپر بیعت انعقاد مکمل کرلی اور دوسے دن مسلمان مسجدِ نبوی میں جمع ہوئے اور پھر بیعتِ اطاعت ہوئی۔

جہاں تک خلیفہ کو نصب کئے جانے کیلئے متعینہ مدّت کے تین دن اور درمیانی راتوں کے ہونے کی ہے توحضرت عمر
رضي الله عنهنے، جب اُنہیں اپنے زخموں سے شفاء کی امید نہ رہی اور موت کا یقین ہوگیا، تو اہلِ شوریٰ سے یہ عہد لیا کہ وہ تین دن کی مدّت کے دوران اس کام کو انجام دیں گے۔پھر آپ رضي الله عنه نے یہ ہدایت کی کہ اس مدّت میں یہ کام انجام نہیں پاتا تو جو شخص مخالفت کرے اُس کو اس مدّت کے بعد قتل کر دیا جائے، نہ صرف یہ بلکہ مسلمانوں کے پچاس آدمیوں کو یہ کام سونپا اور اُنہیں پابند کیا کہ وہ اس ہدایت کی تعمیل کریں گے،یعنی مخالف کو قتل کردیں گے جبکہ وہ ممکنہ مخالف بھی اہلِ شوریٰ اور جلیل القدر صحابہ ہی میں سے تھا۔یہ سب تمام صحابۂ کرام کے عین سامنے پیش آیا اور اس کاانکار یا کراہت کسی بھی صحابی سے منقول نہیں ہے!لہٰذا یہ صحابۂ کرام کا اس بات پر اجماع ہوا کہ یہ جائز نہیں کہ مسلمان خلافت سے تین دن اور ان کی درمیانی راتوں سے زیادہ خالی رہیں۔نیز یہ کہ صحابۂ کرام کا اجماع ، قرآن اور سنت کی مانند شرعی دلیل ہوتی ہے۔  

امام بخاریؒ نے المِسَْوَر بن مخرمہ  (رضي الله عنه)سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں: عبدالرحمٰن ابن عوف (رضي الله عنه) نے میرے دروازے پر رات کو دستک دی یہاں تک کہ میں اُٹھ گیاجبکہ میں آرام سے سو رہاتھا اور کہا ’’ تم سو رہے ہو؟میں تو اِن تین راتوں کو بمشکل ہی سو پایا ہوں‘‘۔پھر جب لوگوں نے فجر کی نماز پڑھی تو حضرت عثمان  (رضي الله عنه) کی بیعت ہوئی ۔ 

چنانچہ مسلمانوں پر یہ لازم آتا ہے کہ خلافت کے خالی ہوتے ہی وہ آئندہ خلیفہ کی بیعت کے کام میں مشغول ہوجائیں اور تین دنوں کے اندر اس کام کی تکمیل کرلیں۔ اس کے برعکس اگر خلیفہ کی وفات کے بھی بعد مسلمان اس کام سے غافل رہے،تو خلیفہ کی وفات کے بعد سے وہ اس غفلت کی پاداش میں گنہگار ہوں گے جیسا کے آج صورتِ حال ہے۔ مسلمان ۲۸ ح ۱۳۴۲ھ ؁ سے جب خلافت کا خاتمہ ہوا تھا،اب تک اس کام سے غافل ہونے کے گنہگار ہیں۔اس گناہ صرف وہی بری رہا جو اس کام میں کسی مخلص جماعت کے ساتھ پورے انہماک سے شامل ہوگیا اور جُٹ گیا، اسی طرح کوئی اس گناہ سے نجات پا سکتا ہے جو ایک گناہ عظیم ہے جیسا کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا اور جو اس کے گناہ عظیم ہونے کا ثبوت ہے:

(( من مات ولیس في عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیۃ))

جو کوئی اس حال میں مر گیا کہ اُس کی گردن پر خلیفہ کی بیعت کا طوق ہی نہ ہو،تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔(مسلم شریف)
خلیفہ خلیفہ Reviewed by خلافت راشدا سانی on 2:08 PM Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.