معاونین
(Delegated
Assistants)
معاونین یعنی وزراء خلیفہ
اپنے ساتھ مقرر کرتا ہے تاکہ وہ خلافت کی ذمہ داریوں میں خلیفہ کی معاونت کریں۔
خلافت کی ذضمہ داریاں کثیر ہوتی ہیں خاص طور پر جب ریاستِ خلافت بڑھ رہی ہو اور
اُس میں توسیع ہو رہی ہو تو خلیفہ کیلئے اکیلے ہی اس کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی
ہیں اور ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کے معاون اُس کی یہ ذمہ داریاں سنبھالنے میں خلیفہ
کی مدد کریں۔
معاونین کیلئے بے
قیدوزراء کا لقب دے دینا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ وزراء کی اصطلاح کا مفہوم جمہوری اور
سرمایہ داری کے نظام میں مختلف ہوتا ہے اور اسلامی نظام میں کا مفہوم جدا ہوتا ہے،
ضروری ہے کہ اِن دونوں کا فرق واضح اور ملحوظ رہے۔
وزیر تفویض یا معاونِ
تفویض وہ ہوتا ہے جسے خلیفہ حکومت اور اقتدار کی اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کیلئے
متعین کرتا ہے۔ خلیفہ وزیر تفویض کو معاملات کی نگہداشت اُس کی اپنی رائے اور
اجتہاد سے احکام شریعت کے مطابق انجام دے۔خلیفہ معاون کو نیابت اور معاملات کی
دیکھ بھالکا اختیار دیتا ہے۔
حاکمؒ اورترمذی شریف میں
ابی سعید الخذری ص سے روایت ہے کہ رسول اللہا نے فرمایا:
((وَزِیراي مِن السَماء جبریل و میکائیل، ومن أھل الأرض
أبو بکر و عمر))
آسمان پر میرے دو وزیر
جبریل اورمیکائیل ہیں اور زمین والوں میں ابو بکر (رضي
الله عنه)اور عمر
رضي الله عنه۔
اس حدیث میں لفظِ وزیر کے
معنی مدد و معاونت کرنے والے کے ہیں اور یہی اس کے لغوی معنی بھی ہوتے ہیں؛ قرآن
مجید میں بھی یہ لفظ اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد
ہے:
(وَاجْعَلْ لِّی وَزِیراً مِنْ اَھْلِی)
اور میرے لئے میرے اپنے
گھر والوں میں سے ایک ہاتھ بٹانے والا مقرر کر دے۔(سورۂ طہ:۲۹)
حدیث میں یہ لفظ اپنے
مطلق معنوں میں آیا ہے ،یعنی ہر قسم کی مدد اور معاونت کے معنوں میں،خواہ وہ کسی
بھی معاملہ میں ہو اورخلافت اور اُس سے متعلق ذمہ داریاں بھی اسی کے ضمن میں
ہیں۔اس روایت میں معاونت سے مراد صرف حکومتی معاونت ہی نہیں ہے،کیونکہ اس میں حضرت
جبرئیل ں اور حضرت میکائیل ں کو آسمان میں آپ (صلى
الله عليه وسلم) کا وزیر بتایا ہے اور اُن حضرات کا
حکومت کے کاموں اور ذمہ داریوں میں کوئی دخل نہیں تھا۔لہٰذا اس حدیث میں لفظ وزیر
صرف اپنے لغوی معنوں میں آیا ہے اور اس سے مراد مدد و معاونت ہے،نیز اس حدیث سے
وزیروں کی تعداد ایک سے زیادہ ہونے کا جواز بھی ملتا ہے۔
حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم)کے ساتھ حضرت ابو بکر (رضي
الله عنه)اور حضرت عمر رضي
الله عنهکا وزیر ہونے کے باوجود حکومت کی ذمہ
داریوں میں شریک ہونانظر نہیں آتا؛بہرحال وہ وزیر بنائے گئے تھے اور انھیں حکومتی اعمال
میں بغیر کسی تخصیص کے تمام معاملات میں معاونت کے اختیار دئے گئے، حضرت ابو بکر (رضي
الله عنه)نے خلافت سنبھالنے کے بعد حضرت عمر رضي الله عنهکو
اپنا وزیر مقرر کیا اور یہ وزارت ظاہر عام رہی۔
حضرت عمر رضي
الله عنهکے خلافت سنبھالنے کے انہوں نے حضرت عثمان (رضي الله عنه)
اور حضر ت علی (رضي الله عنه)کو
اپنا معاون مقرر کیا۔ اس وقت بھی اِن دونوں حضرات کا وزیر ہونا اور حکومتی اعمال
کو انجام دینا نظر نہیں آتا،لہٰذا اِن کی وزارت کی نوعیت بھی ایسی ہی تھی جیسی
حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)کے
ساتھ حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)اور
حضرت عمر رضي الله عنهکے
وزیر ہونے کی۔ حضر ت علی (رضي الله عنه)کے
دورِ خلافت میں اُن کے وزراء حضر ت علی اور مروان بن الحکم رہے،البتہ حضر ت علی (رضي
الله عنه)کو کیونکہ بعض معاملات پسند نہیں تھے
لہٰذا انہوں نے دوری اختیار کی لیکن مروان ابن حکم کا حکومتی کاموں میں حضرت
عثمان (رضي
الله عنه) کا معاون ہونا عیاں تھا۔
ایک معاون تفویض اگر وہ
صادق شخص ہو تو یہ خلیفہ کیلئے نہایت سودمند ہو گا کیونکہ وہ خیر کی نشاندہی کرے گا
اور اس میں خلیفہ کی معاونت کرے گا۔ مسند احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا سے روایت ہے ، جس کے بارے میں امام نوویؒ کہتے ہیں کہ اس کے رجال ثقہ ہیں،نیز
البزّار ؒ نے بھی اسے روایت کیا ہے اور علامہ ہیثمیؒ کہتے ہیں کہ اس کے رجال ،
رجالِ صحیح ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا
بیان ہے کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)نے
فرمایا:
((إذا أراد اللّٰہ بالأمیر خیراً جعل لہ وزیر صدق،إن نسي
ذکَّرہ،وإن ذکر أعانہ؛وإذا أراد غیر ذلک،جعل لہ وزیر سوء إن نسي لم یذکِّرہ وإن
ذکر لم یعینہ))
جب اللہ تعالیٰ کسی امیر
کیلئے خیر چاہتا ہے تو اس کیلئے بہتر وزیر دے دیتا ہے جو اسے یاد دلاتا اگر امیر
بھول جائے اور جب امیر کہے تو وہ اس کی مدد کرتا ہے؛اور جب اللہ تعالیٰ
اس کے علاوہ چاہتا ہے تو امیر کیلئے برا وزیر دے دیتا ہے، جو اسے بھولنے پر نہ
دلاتا ہے اور کہا جائے تو اُس کی امدد نہیں کرتا ہے۔
حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم)اور خلفائے راشدین کے عہد میں معاونین کے
عمل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ معاون کو مخصوص اعمال سونپے جاسکتے ہیں
جن پر اُس کا اشراف (Supervision)ہو یا پھر اسے تمام
امور سونپے جاسکتے ہیں جن پر اُس کا اشراف ہو۔یا یہ بھی ممکن ہے کہ اسے کسی مخصوص
مقام یا مقامات پر متعین کیا جائے جہاں وہ اشراف کرے۔بخاری ؒ اور مسلمؒ شریف میں حضرت
ابو ہریرہ (رضي الله عنه)
سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ:
(بعث
رسول اللّٰہاعمر علی الصدقۃ)
رسول اللہ ا نے حضرت
عمر (رضي
الله عنه)کو صدقات( وصول کرنے) کیلئے بھیجا۔
نیز ابن خزیمہ اور حبان میں مروی ہے:
(أن
رسول اللّٰہا حین رجع من عمرۃ الجعرانۃؔ ،بعث ابا بکر علی الحج)
کہ جب حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم) عمرہ سے لوٹے تو حضرت ابو بکر (رضي
الله عنه)کو حج پر روانہ کیا۔
یعنی حضرت ابو بکر اور
حضرت عمر (رضي
الله عنه)جو باوجود اس کے کہ حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم) کے وزیر تھے، انھیں بعض مخصوص کام سونپے
گئے، نہ کہ تمام افعال ؛جب کہ اُن کے وزیر ہونے کے باعث اُنھیں سونپی گئی وزارت ِ
تفویض کا تقاضہ یہ ہے کہ انھیں تمام افعال و امور پر عام نگرانی ہو۔یہی صورتِ حال
حضرت عمر (رضي
الله عنه)کے عہد میں حضرت عثمان (رضي الله عنه)
اور حضرت علی (رضي
الله عنه) کے ساتھ تھی۔
اسی طرح جب کہ حضرت ابو بکر
(رضي الله عنه)کے
عہد میں حضرت عمر (رضي
الله عنه)کا معاون ہونا اس قدر عیاں تھا کہ بعض
صحابہ نے تو حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)سے
یہاں تک کہا کہ ہمیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ خلیفہ آپ ہیں یا حضرت عمر رضي الله عنه،لیکن
جیسا کہ علامہ بیہقیؒ نے قوی اسناد سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)
نے حضرت عمر (رضي
الله عنه)کو بعض دفعہ قضاء کی ذمہ داری سونپی۔
حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم) اور بعد میں خلفائے راشدین کے عہد کو
بغور دیکھیں تو یہ واضح ہوجات ہے کہ معاون کو نائب بنایا جاتا تھا اور انھیں عمومی
اشراف (General Supervision) دیا جاتا تھا،لیکن
یہ ممکن ہے کہ معاون کیلئے کوئی مخصوص کام یا مخصوص مقام طے کردیا جائے؛جیسا کہ حضور
اکرم (صلى الله عليه وسلم)کے
عہد میں حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)اورعمر
رضي الله عنهکے
ساتھ کیا گیا،یا جس طرح حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)نے
کے عہد میں حضرت عمر رضي الله عنهکے
ساتھ ہوا،لہٰذا ایک معاون یا وزیر کو مثلاً شمالی علاقوں کیلئے اور دوسرے کو جنوبی
علاقوں کے مقرر کردیا جائے، یا پھر ایک کی جگہ پر دوسرے کو منتقل کردیا جائے، یہ
بھی کیا جا سکتا ہے کہجیسا بھی خلیفہ کی معاونت کا تقاضہ ہو ایک معاون کو کسی
مخصوص عمل کیلئے متعین کیا جائے اور دوسرے افعال کیلئے دیگر معاون مقرر کیا جائے
۔
ایسی منتقلی کیلئے ازجدید نئی تقرری کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ کافی ہے کہ محض
ایک مہم سے دوسری مہم کیلئے منتقل کردیا جائے۔اس کا سبب یہ ہے کہ معاون کی تقرری
میں عمومی اشراف اور نیابت شامل تھی،لہٰذا یہ تمام افعال اصلاً اُس کے دائرۂ کار
میں شامل ہیں۔اس حیثیت سے ایک معاون اور والیوں میں فرق ہوتا ہے؛والی کی تقرری ایک
مخصوص مقام کیلئے ہوتی ہے جو اُس کا دائرۂ کار ہوتا ہے،والی کو دوسرے مقام یا
ولایت کیلئے منتقل نہیں کیا جاسکتا بلکہ نئے سرے سے کسی اور مقام پر اُس کی تقرری
ہوتی ہے کیونکہ یہ نیا مقام یا ولایت اُس کی پہلی تقرری میں شامل نہیں تھا۔اس کے
برعکس ایک معاون کی تقرری میں کیونکہ اشراف عام اور نیابت شامل ہوتی ہے لہٰذا
معاون کو بغیر دوبارہ مقرر کئے ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔
پچھلی سطور سے یہ واضح
ہوا کہ خلیفہ اپنے معاون کو نیابت کے اختیار دیتا ہے جو تمام ریاست پر اور ہر قسم
کے امور پر محیط ہوتے ہیں۔البتہ یہ خلیفہ کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ معاون کو کسی
مخصوص کام سونپے یعنی charge دے،مثلاً معاون کو
مشرقی صوبوں یا پھر مغربی صوبوں پرتعینات کرے،وغیرہ۔یہ اُس وقت خاص طور پر ضروری
ہوجاتا ہے جب وزراء کی تعداد ایک سے زیادہ ہو،تاکہ ایک وزیر کی ذمہ داری دوسرے کی
ذمہ داری سے نہ ٹکرائے یا Overlap نہ ہو۔
کیونکہ خاص طور پر ریاست
کی توسیع کے دوران خلیفہ کو ایک سے زیادہ معاون کی ضرورت ہوتی ہے ،اور ایسے میں ہر
ایک معاون کا دائرۂ کار تمام ریاست پر محیط ہونا مشکلات کا سبب بن سکتا ہے،اس لئے
کہ ہر ایک معاون کو نیابت اور عمومی اشراف حاصل ہوتا ہے،ایک دوسرے کے دائرۂ کار
میں مداخلت کا امکان بڑھ جاتا ہے؛چنانچہ ہم نے یہ تبنی کیا ہے:
جہاں تک معاون کی تقرری
کا سوال ہے ، تو معاون کو تمام ریاست پر اشراف عام (General
Supervision)اور
نیابت ہونا چاہئے۔
جہاں تک وزراء کے دائرۂ
کار کا تعلق ہے تو اُنھیں ریاست کے ایک مخصوص حصہ پر متعین کیا جائے؛یعنی ایک وزیر
ریاست کے مثلاً مشرقی حصہ پر ہو اور دوسرا مغربی پر، تیسرا شمالی حصہ پر وغیرہ۔
جہاں تک وزراء کے تبادلہ یا اُن کو منتقل کئے جانے کا سوال ہے ،تو اُنھیں ایک مقام سے دوسرے مقام اور ایک مہم سے دوسری مہم پر بغیر نئے سرے سے مقرر کئے سابقہ تقرری پر ہی منتقل کیا جاتا رہے، کوینکہ اُن کی اصل تقرری میں تمام افعال بہرحال شامل تھے۔
جہاں تک وزراء کے تبادلہ یا اُن کو منتقل کئے جانے کا سوال ہے ،تو اُنھیں ایک مقام سے دوسرے مقام اور ایک مہم سے دوسری مہم پر بغیر نئے سرے سے مقرر کئے سابقہ تقرری پر ہی منتقل کیا جاتا رہے، کوینکہ اُن کی اصل تقرری میں تمام افعال بہرحال شامل تھے۔
معاون تفویض کیلئے شرائط:
معاون تفویض کیلئے وہی
شرائط ہوں گی جو خلیفہ کیلئے ہوتی ہیں،یعنی معاون مَرد، مسلم،آزاد،بالغ، عاقل اور
جو ذمہ داری اسے سونپی جارہی ہو اُس کا اہل ہو۔
اِن شرائط کیلئے جو دلائل
ہیں وہ وہی دلائل ہیں جو اخلیفہ کی شرائط کے ضمن میں چکے ہیں۔چونکہ معاون کا کام
حکومت ہے لہٰذا اُس کا مرد ہونا لازمی ہے،جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت ابی بکرۃ ص
سے روایت ہے کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)نے
فرمایا:
((لن
یفلح قوم ولَّوْا أمرھم امرأۃ))
وہ قوم جو اپنے امور پر
عورت کو والی بنالے،ہرگز کامیاب نہیں ہو گی۔
دوسری شرط یہ کہ وہ آزاد
ہو کیونکہ ایک غلام اپنے ہی اوپر تصرف نہیں رکھتا چنانچہ وہ دوسروں کے امور بھی
نہیں سنبھال سکتا۔تیسری شرط یہ کہ وہ بالغ ہو کیونکہ حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم)نے فرمایا:
((رُفع القلم عن ثلاثۃ:عن الصبي حتی یبلغ؛وعن النائم حتی یستیقظ؛ و عن المعتوہ حتی یبرأ۔))
تین قسم کے لوگوں کا
محاسبہ نہیں ہوگا:لڑکا ،جب تک کہ وہ سنِ بلوغ کونہ پہنچے؛سویا ہوا شخص، جب تک کہ
وہ نیند سے نہ جاگ جائے؛اور مجنون(دیوانہ) جب تک کہ وہ ٹھیک نہ ہو جائے۔
چوتھی شرط کہ وہ عاقل ہو، تو اس کی دلیل اسی حدیث میں وارد ہوئی ہے ، یا جیسا کہ ایک اور روایت میں آیا ہے’’مجنون جسکی عقل درست نہیں ،جب تک کہ وہ ٹھیک نہ ہو جائے‘‘۔پھر معاون کیلئے عادل ہونے کی شرط ہے؛کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ شرط ایک گواہ کیلئے لازم فرمائی ہے:
(واََشْھِدُوْا
ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ)
اور اپنے میں سے دو صاحبِ
عدل آدمیوں کو گواہ بنالو۔(طلاق:۲)
لہٰذا اس شرط کا ایک
معاون کیلئے لازم ہونا اولیٰ ہوا۔نیز معاون کیلئے حکومتی کام کاج کا اہل ہونا بھی
ضروری ہے تاکہ وہ خلافت کی ذمہ داریوں اور حکومت و اقتدار میں خلیفہ کی مدد و
معاونت کر پائے۔
معاون تفویض کی ذمہ داریاں:
معاونِ تفویض کی یہ ذمہ
داری ہوتی ہے کہ وہ جس کام کا ارادہ کرے ،خلیفہ کو اُس سے باخبر کرے اور پھر اُس
کام کے انجام پاجانے کے بعد خلیفہ کو اس کی انجام دیہی سے سے مطلع رکھے کہ اُس نے
اپنی ذمہ داریوں اور اقتدار میں سے کیا کچھ انجام دیا ہے،تاکہ اُس کے اختیارات خلیفہ
کے مساوی نہ ہوں۔چنانچہْ عاون کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ جس کام کا ارادہ کرے خلیفہ
کو اُس سے باخبر کرے اور اگر خلیفہ اُسے اُس کام سے روک نہ دے،تو پھر وہ اُس کام
کو انجام دے۔
اس کی دلیل خود معاونت کی
حقیقت ہے کہ معاون خلیفہ کا اُن امور میں جو اُسے سونپے جائیں، نائب ہوتا ہے۔ایک
نائب کسی کام کو اُس شخص کی طرف سے انجام دیتا ہے جس کا وہ نائب ہوتا ہے،لہٰذا ایک
معاون بذاتِ خود خلیفہ سے آزاد و خودمختار نہیں ہوسکتا،بلکہ وہ خلیفہ کو ہر کام سے
مطلع رکھتا ہے جیسا کہ حضرت عمر (رضي الله عنه)
جب حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)کے
معاون تھے وہ کیا کرتے تھے۔وہ حضرت ابو بکر (رضي
الله عنه)کواپنی رائے سے مطلع رکھتے اور اسی کے
مطابق عمل کو انجام دیا کرتے تھے۔یہاں خلیفہ کو ہر بات سے آگاہ رکھنے سے مراد کسی
عمل کی جزئیات میں خلیفہ کی اجازت سے نہیں ہے؛یہ تو معاون کی ذمہ داریوں اور اُس
کے کام کی حقیقت کے خلاف ہوگا،بلکہ خلیفہ کو باخبر رکھنے سے ہے جیسے کسی ولایت کی
ضروریات سے باخبر رکھنا یا وہاں کسی قوی شخص کو والی مقرر کرنایا مثلاً وہاں کے
لوگوں کیلئیغذاء کی قلت کی شکایت کا ازالہ کرنا یا کوئی بھی ریاستی معاملہ ۔یا پھر
معاون محض ان امور سے خلیفہ کو باخبر کرنے پر اکتفاء کرے اور پھر خلیفہ کی جانب سے
بغیر کسی مخصوص حکم ملنے کے اِن امور کی تفصیلات پر مناسب کارروائی انجام دے۔البتہ
اگر خلیفہ ایسا کوئی حکم صادر کردے جن کی رو سے وہ معاون کو اِن افعال پر کارروائی
سے روک سے تو پھر معاون کیلئے اُن افعال کی انجام دیہی صحیح نہیں ہوتی ۔ لہٰذا
باخبر کرنے سے مراد محض موضوع کو خلیفہ تک پہنچانا یا اُس کے علم میں لانا ہے نہ
کہ اُس کی انجام دیہی کیلئے خلیفہ کی اجازت طلب کرنا۔چنانچہ معاون اُس کو انجام
دیتا ہے تاوتیکہ خلیفہ اس کے برخلاف حکم جاری کرے معاون کو اُس کام کے نفاذسے روک
نہ دے۔
خلیفہ پر یہ لازم ہے کہ وہ معاون کے ذریعہ دئے جارہے افعال کی جانچ کرے تاکہ جو افعال صحیح انجام پائے ہیں اُن کے ماسوا دوسرے افعال میں واقع ہوئی خطاؤں کا تدارک کیا جاسکے،کیونکہ فی الحقیقت امور کی نگہداشت خلیفہ ہی ذمہ داری ہے اور اُس ہی کے اجتہاد پر منحصرہوتی ہے۔اس ذمہ داری کے ضمن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے حدیث منقول ہے :
((۔۔۔الإمام راع وھو مسؤول عن رعیتہ))
امام سرپرست ، اوراپنی
رعایاکا ذمہ دارہے۔
لہٰذا امور کی نگہداشت کا
ذمہ دار خلیفہ ہی ہوا اور وہی رعایا کا ذمہ دار ہے نہ کہ معاونِ تفویض،معاون تو
صرف اُن افعال کا ذمہ دار ہوتا ہے جنھیں وہ انجام دے،رعایا کی ذمہ داری تو صرف
خلیفہ ہی کی ہوتی ہے۔چنانچہ خلیفہ کیلئے معاون کے کام کاج کی جانچ پڑتال کرنا
ضروری ہے تاکہ اُس کی ذمہ داری ادا ہو۔مزید یہ کہ معاونِ تفویض سے خطاء کا امکان ہے
جس کا بہرحال تدارک کیا جانا ناگزیرہے،لہٰذا خلیفہ کیلئے معاون کے تمام افعال کی
جانچ پڑتال کرنا لازمی ہوا۔بالفاظِ دیگر، ایک تو اس زاویہ سے کہ خلیفہ کو اپنی ذمہ
داری ادا کرنا ہے اور دوسرے معاون سے ہوئی خطاؤں کے ازالہ کیلئے خلیفہ کیلئے
ناگزیر ہے کہ وہ معاون کے تمام افعال کی جانچ کرے۔
جب معاون کسی معاملے میں
کوئی فیصلہ کر لے اور خلیفہ اُس کو قبول کرلے یعنی اُس کام سے معاون کونہ روکے،تو
معاون اسے اُسی طرح بغیر کسی کمی بیشی کے انجام دے۔لیکن اگر خلیفہ،معاون کے کسی
کام کوجو انجام پا چکا ہو،مسترد کردے تو معاملہ کی حقیقت کو دیکھا جائیگا؛اگر
صورتِ حال یہ ہے کہ کسی فیصلہ کوکما حقہ نافذ کیاگیاہو،یارقم کسی صحیح مصرف میں
خرچ کی گئی ہو،تو معاون کی رائے ہی نافذ رہے گی،کیونکہ فی الحقیقت وہ خلیفہ کی
رائے تھی،اور خلیفہ کو حق نہیں کہ وہ اپنے کسی فیصلفیصلہ کو تبدیل کرے خواہ وہ رقوم
سے متعلق ہو؛لیکن برخلاف اس کے اگرمعاملہ کی نوعیت مثلاً فوج کی تیاری ،یاوالی کے
تقرر کی ہو،تو خلیفہ کو حق ہے کہ وہ معاون کے فیصلہ کو مسترد کر کے اپنی رائے نافذ
کرے۔کیونکہ خلیفہ کو اپنے خود کے کئے ہوئے اقدامات تبدیل کرنے کا حق ہے،لہٰذا اُسے
معاون کے اقدامات کو بدلنے کا بھی حق ہوا۔
معاون کے کام اوراُس پر
خلیفہ کی نگرانی یا نظر ثانی کی یہ نوعیت ہوگی۔اس کی بنیاد یہ تھی کہ خلیفہ کن
کاموں پر نظر ثانی کرکے تبدیل کرسکتا ہے اور کہاں ایسے کاموں میں تبدیلی کا حق
نہیں رکھتا،کیونکہ معاون تفویض کے ذریعہ انجام پائے گئے افعال خلیفہ ہی کے افعال
تصور کئے جاتے ہیں۔مثال کے طورپر معاون خود حکم صادر کرسکتا ہے،حکام کی تقرری کر
سکتاہے،ٹھیک اُسی طرح جیسے خلیفہ،کیونکہ معاون کو یہ اختیارات دئے گئے ہیں؛معاون
مظالم کی
شکایات پر بھی عمل کرسکتاہے کیونکہ یہ اختیار بھی اُسے
سونپا گیا ہے؛وہ جہادپر بھی تصرف رکھتا ہے یا کسی کو یہ تصرف دے سکتا ہے،کیونکہ
جنگ کے اختیارات بھی اُسے حاصل ہیں؛معاون کسی بھی امور جس پر اُس نے فیصلہ لیا
ہو،عمل درآمد کرسکتا ہے یا کسی اور کو اُن امور پرعمل درآمد کیلئے مقرر کرسکتا
ہے،کیونکہ اُسے اپنی رائے اور امور کے اہتمام کا اختیار سونپا گیا ہے۔لیکن اس سب
کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ معاون جو کچھ بھی انجام دیدے یا نافذ کردے،خلیفہ اُسے اس
بنیاد پر کہ اسے اطلاع دی جا چکی ہے، منسوخ نہیں کرسکتا،بلکہ محض یہ کہ گو معاون
کے اختیارات خلیفہ جیسے ہی ہوتے ہیں،لیکن بحیثیت نائبِ خلیفہ،ناکہ خودمختار اور
خلیفہ سے جدا معاون کی اپنی کوئی مستقل حیثیت سے۔خلیفہ کو بہرحال یہ اختیار ہے کہ
وہ معاون کے کانجام دئے ہوئے کسی بھی کام سے اختلاف کرے اور اسے مسترد کردے۔البتہ
جہاں تک انجام پا چکے کاموں کے مسترد کئے جانے کا سوال ہے ،تو یہ اُن ہی حدود میں
ممکن ہے ،جن میں خلیفہ خود اپنے ذریعہ انجام دئے گئے کاموں کو مسترد کر نے کا حق
رکھتا ہے۔پس اگر معاون نے کوئی حکم کما حقہ نافذ کیا،یارقوم صحیح مصرف میں خرچ کیں
ہوں اور خلیفہ اِن کے انجام پا جانے کے بعد اُس پر اعتراض کرے تو یہ اعتراض قابل
قبول نہ ہوگا،بلکہ معاون کا فیصلہ ہی نافذ ہوگا اور خلیفہ کی رائے اوراعتراض مسترد
ہو جائے گی،کیونکہ جو انجام پا چکا ،وہ تو فی الحقیقت خلیفہ ہی کی رائے ہوئی۔اس
قسم کے حالات میں خلیفہ کیلئے یہ صحیح نہیں کہ وہ اپنی رائے سے ہٹ جائے یا جو
انجام پا چکا ہو اُسے منسوخ کرے،اوراپنے معاون کے ذریعے انجام دیا کام مسترد
کردے۔لیکن اگر معاون نے مثلاً ایک والی یا کوئی ملازم مقرر کیا ہو،یا فوج کا
سربراہ وغیرہ مقرر کیا ہو ،یا مثلاًاقتصادی پالیسی وضع کی ہو،فوجی اسکیم تیار کی
ہو یا صنعتی اسکیم تیار کی ہو وغیرہ،تو خلیفہ کیلئے اِن کا منسوخ کیا جانا جائز
ہوگا،کیونکہ اِن کو خلیفہ کی اپنی رائے تصورکئے جانے کے باوجود،خلیفہ اگر خود بھی
یہ افعال انجام دے ،تو اس کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ اِن سے پیچھے ہٹ جائے یا اِنہیں
ترک کردے۔لہٰذا اِن حالات میں خلیفہ اپنے معاون کے انجام دئے ہوئے افعال منسوخ
کرسکتا ہے۔ان دونوں حالتوں کی بنیاد یہ قاعدہ ہے کہ:خلیفہ کیلئے اپنے ذریعہ انجام
دئے ہوئے جن افعال کو منسوخ یا ردّ کرنا جائز ہو،وہ اپنے معاون کے ذریعہ کئے گئے
ایسے ہی افعال منسوخ یا ردّ کر سکتا ہے؛اور ہر وہ چیز جو خود خلیفہ نے انجام دی ہو
اوراس کو منسوخ کرنا خلیفہ کیلئے جائز نہ ہو،تو خلیفہ اپنے معاون کے ذریعے کئے گئے
ایسے افعال منسوخ یا ردّ نہیں کر سکتا۔
معان تفویض کیلئے یہ صحیح
نہیں کہ کسی مخصوص دائرے یا محکمہ تک اسے محدود کیا جائے مثلاً اُسے صرف تعلیم کا
محکمہ دیا جائے،یا کسی مخصوص شعبہ تک اُسے محدود کردیا جائے جیسے فوج کی تیاری یا
فوج کو اسلحہ سے لیس کرنا وغیرہ،کیونکہ اُسے اشراف عام دے کر مقرر کیا گیا ہے۔اسی
طرح وہ محض انتظامی امور تک محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ خلیفہ کی طرح معاون تمام
انتظامی امور پر نگراں ہوتا ہے۔مزید یہ کہ اگر معاون کو مقرر کرتے وقت ہی اسکی
تقرری مخصوص امور تک محدود رکھی جاتی ہے اور اشراف عام نہیں دیا جاتا تو معاون کی
تقرری کا انعقاد ہی صحیح نہیں ہوگا،کیونکہ معاون کیلئے اشراف عام شرط ہے۔رہی مثال
قاضی القضاۃ کی ،تو وہ خلیفہ کا قضاء کے معاملات میں معاون نہیں ہوتا بلکہ اُسکی
تقرری بحیثیت والی کے ہوتی ہے جسے ایک خاص امر یعنی قضاء کاشعبہ دیا جاتا ہے جو کہ
حکومت سے جدا ہے،اسی طرح فوج کی قیادت،صدقات کی امارت وغیرہ کا معاملہ ہے،اور اُن
کی تقرری والی کی طرح ہوتی ہے،نا کہ معاون تفویض کی طرح۔قاضی القضاۃ اپنے دائرے کا
امیر ہوتا ہے جو قاضیوں کا تقرر،قضاء کے معاملات پر نگرانی اور لوگوں کے تنازعات
حل کرنے پر مامور ہوتا ہے ؛قاضی القضاۃ کی حیثیت نائب کی طرح نہیں ہوتی۔ لہٰذا
معاون تفویض کو کسی دائرے میں محدود کر دینا صحیح نہیں ہوتا،اور اگر ایسا کر دیا
جائے تو معاون کی تقرری باطل ہوجاتی ہے،کیونکہ معاون کی تقرری کیلئے ضروری ہے کہ
عقد یا معاہدہ کیا جائے یعنی صراحت سے دونوں شرطیں ادا کی جائیں:اشراف عام اور
نیابت۔اب کسی دائرے میں معاون کی تخصیص اِن شروط میں نقص کے مترادف ہوگی جس سے اس
کی تقری کا عقد باطل ہو جائیگا۔رہی بات معاون کو امور انتظامی تک محدود کرنے کی،تو
جو لوگ انتظامی امور سنبھالتے ہیں وہ ملازمین ہوتے ہیں نا کہ حاکم؛جبکہ معاون
تفویض حاکم ہوتا ہے ناکہ ملازم۔معاون تفویض کا کام امور کا اہتمام کرنا ہے نا کہ
وہ کام جن کیلئے ملازمین کا تقرر کیا جاتا ہے۔
لہٰذا
معاون تفویض محض انتظامی امور پرمامور نہیں ہوسکتا،گو کہ وہ انتظامی امور بھی
انجام دے سکتا ہے کیونکہ اس کے اختیار میں اشراف عام ہے۔
معاونین
کا تقرر اور اُن کی برطرفی:
معاونین
کا تقرر،نیز اُن کی معزولی خلیفہ کے حکم سے عمل میں آتی ہے اور خلیفہ کی وفات پر
معاون کی نیابت ختم ہوجاتی ہے اور اُن کی اس معزولی کیلئے کسی حکم کے جاری کرنے کی
ضرورت نہیں رہتی،نیز وہ اپنے منصب پر صرف امیرمؤقت کی مدّت ہی تک رہ سکتے ہیں۔اس
مدّت کے بعد اُنھیں اپنے سابقہ عہدوں پر باقی رہنے کیلئے نئے خلیفہ کی جانب سے
دوبارہ مقرر کیا جانا ضروری ہوجاتا ہے۔اُنھیں برطرف کرنے کیلئے کسی حکم کے جاری
کرنے کی ضرورت اس لئے نہیں ہوتی کیونکہ اُن کی میعاد سابقہ خلیفہ کی وفات پر ختم
ہو گئی۔
معاون تنفیذ (executive assistants)
معاون تنفیذ،خلیفہ کا وہ
وزیر ہوتا ہے جسے خلیفہ معاملات کے نفاذ،اُن پر پیش رفت سے باخبری اور اُن کی
تعمیل کیلئے تعینات کرتا ہے۔معاون تنفیذ،خلیفہ اورریاست کے تمام محکمات اوراداروں
کے مابین ایک وسیط (Liaison)ہوتا ہے،نیز وہ
خلیفہ اور عوام کی درمیان اوربیرونی ممالک کے درمیان وسیط ہوتا ہے مزید یہ کہ وہ
معاملات کے نفاذ میں خلیفہ کا معاون بھی ہوتا ہے،لیکن معاملات پر والی نہیں
ہوتا،نا ہی معاملات اُسکی صوابدید سے نفاذ کیلئے اس کے سپرد کئے جاتے ہیں۔لہٰذا
معاون تنفیذ کے کام کی نوعیت انتظامی ہے نا کہ حاکمیت کی۔معاون کا دائرہ عمل خلیفہ
کے صادر کردہ احکامات کواُن کے داخلی اور خارجی محکمات تک پہنچانا اور اِن محکمات
سے جاری تحریریں (Correspondence) خلیفہ تک پہنچانا
ہے۔چنانچہ معاون تنفیذ،خلیفہ اور باقی شعبوں کے درمیان رابطہ کاکام کرتاہے۔
حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم) اور خلفائے راشدین ث کے عہد میں وزیرِ
تنفیذ کو کاتب کہا جاتا تھا،اس کے بعد اسے رسائل و مکاتبات کا دیوان،پھرکاتبِ
ادارہ یا دیوان کاتبِ ادارہ کہا جاتا رہا اور آخر میں فقہا نے وزیرِ تنفیذ کہا۔
خلیفہ ایک حاکم ہے جس کی
ذمہ داریوں میں حاکمیت،احکام کا نفاذ اور امور کی نگہداشت ہوتی ہے۔اِن تمام افعال
کیلئے انتظامیہ یا اداری ڈھانچہ درکار ہوتا ہے جس کا تقاضہ ہے کہ خلیفہ کے پاس ایک
مخصوص ادارہ ہو جواِن ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کارآمد ہو۔لہٰذا یہ ضروری ہوا کہ
خلیفہ اپنا معاون مقرر کرے جو خلیفہ کی انتظامی امور میں مدد کرے نا کہ حاکمیت
میں۔ معاون تنفیذکی ذمہ داریوں میں کوئی حاکمیت کا کام نہیں ہوتا جیسا کہ معاون
تفویض کرتا ہے؛معاون تنفیذ نہ تو والیوں کا تقرر کرتا ہے نہ عاملوں کا اور نا ہی
عوام کے امور کا اہتمام معاون تنفیذ کی ذمہ داریوں میں سے ہے،بلکہ اُس کا کام
انتظامی امور سے متعلق ہے کہ خلیفہ یامعاون تفویض کے صادرکردہ احکامات کی تنفیذ
کرنا ہے،یہی معاون تنفیذ کے عہدہ کے نام کا سبب ہے۔فقہاء نے اس عہدہ کو’’ وزیر
تنفیذ‘‘ کہا ہے،جو معاون تنفیذ کے ہم معنی ہے،کیونکہ لفظ ’’وزیر‘‘ معاون کے مترادف
ہے۔فقہاء نے لکھا ہے کہ:’’یہ وزیر ؛خلیفہ،رعایا اوروالیوں کے درمیان وسیط ہے،یہ
اُن کاموں کی تعمیل کرتا ہے جواُسے حکم دیا جائے یا اُسے بتایا جائے،اُن امور کی
تنفیذ کرتا ہے جو اُسے حکم دئے جائیں،والیوں کی تقرری سے ہرمتعلقہ فرد یا ادارے کو
باخبر رکھتا ہے،فوج یا عسکری دستوں کی تیاری اور بندوبست سے خلیفہ کو آگاہ رکھتا
ہے اور اُن کی ضروریات سے باخبر کرتا ہے۔نئے حالات سے خلیفہ کو باخبر رکھتا ہے
تاکہ حسبِ ضرورت خلیفہ اُن کے مطابق احکام جاری کر سکے۔لہٰذا معاون تنفیذمعاملات
کے نفاذ میں مدد کرنے والا ہے ناکہ اُن پر حاکم اور نا ہی امور معاون تنفیذ کی
سپردگی میں دئے جاتے ہیں۔موجودہ دور میں وزیرِ تنفیذ کی حیثیت Cabinet
Secreatary کی
طرح ہے۔
معاون تنفیذ،کا خلیفہ سے
براہِ راست تعلق رہتا ہے جس طرح معاون تفویض کا ہوتا ہے اور معاون تنفیذ ،خلیفہ کے
رفقائے خاص میں ہوتا ہے نیز یہ کہ گو معاون تنفیذ کا کام انتظامی نوعیت کا ہے،وہ
حاکمیت سے جڑا ہوا رہتا ہے،چنانچہ شریعت کے احکام نکی عرایت رکھتے ہوئے یہ جائز
نہیں کہ وہ عورت ہو،کیونکہ عورت حاکم نہیں ہو سکتی۔اس طرح یہ بھی جائز نہیں کہ
معاون تنفیذ کافر ہو،بلکہ یہ لازمی ہے کہ وہ مسلمان ہو، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(یٰا اَیُّھَا
الَّذِیْنَ آمَنوا لا تَتَّخِذُوا بِطَانَۃً مِن دُونِکُمْ لاَ یَالُونَکُمْ
خَبَالاً وَدُّوا مَاعَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ البَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ وَمَا
تُخْفِی صُدُوْرُھُمْ اکْبَرُ)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو،اپنے سوا دوسروں کو اپنا محرمِ راز نہ بناؤ؛وہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے؛جتنی بھی تم زحمت میں پڑو انہیں محبوب ہے۔ان کا بغض تو ان کے منہ سے ظاہر ہو چکا ہے،اور جو کچھ ان کے سینے میں چھپائے ہوئے ہیں وہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔
( آل عمران:۱۱۸)
اس آیت میں یہ صریح کر
دیا گیا کہ خلیفہ کے رفقائے خاص میں غیر مسلم نہ ہوں،چنانچہ یہ جائز نہیں کہ معاون
تنفیذ کافر ہو،اس کا مسلم ہونا لازمی ہے،کیونکہ وہ خلیفہ کے رفقاء میں سے ہے،اور
معاون تفویض کی طرح خلیفہ کے ساتھ ہے۔نیز یہ بھی جائز ہے کہ معاون تنفیذبہ اعتبار
ضرورت ایک سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے،یہ اُن اعمال پر منحصر ہے جن میں وزیرُ تنفیذکو
وساطت کے کام انجام دینا ہو۔
جن امور میں معاون تنفیذ وسیط ہو سکتا ہے وہ یہ چار امور ہیں:
۱۔۔۔عالمی
تعلقات، خواہ اُن کی نوعیت یہ ہو کہ خودخلیفہ اِن تعلقات کی دیکھ بھال کررہا ہو،یا
اِن امور کیلئے خلیفہ نے مستقل کوئی ادارہ یا محکمہ مخصوص کیا ہو۔
۲۔۔۔فوجی
معاملات
۳۔۔۔عسکری
اداروں کے ماسوا دیگر محکمات
۴۔۔۔عوام
سے تعلقات
یہ معاونِ تنفیذ کے کام کی حقیقت ہوئی کہ وہ وسیط ہونے کے سبب خلیفہ تک معاملات پہچانے اور خلیفہ سےدوسروں تک پہچانے کا وسیلہ ہے۔اس میں تمام محکمات کے کام کاج میں پیش رفت پر نظر رکھنا بھی شامل ہے۔
یہ معاونِ تنفیذ کے کام کی حقیقت ہوئی کہ وہ وسیط ہونے کے سبب خلیفہ تک معاملات پہچانے اور خلیفہ سےدوسروں تک پہچانے کا وسیلہ ہے۔اس میں تمام محکمات کے کام کاج میں پیش رفت پر نظر رکھنا بھی شامل ہے۔
خلیفہ ہی کیونکہ اصل حاکم
ہوتا ہے، اور خود ہی حکومت کرتا ہے،احکام کا نفاذ کرتا ہے،عوام کے معاملات کی
نگہداشت کرتا ہے ؛اور ان سب کیلئے لازم ہے کہ وہ ہر وقت حکومت کے مختلف محکموں سے
تعلق میں رہے،بین الاقوامی حالات سے واقف رہے ، اور امت سے منسلک رہے۔خلیفہ ہی
احکامات صادر کرتا ہے،فیصلے کرتا ہے،عوامی امور کی نگہداشت اور حکومتی ڈھانچے کی
حالت سے ،ان کے کام میں دقتوں سے،اُن کی ضروریات سے واقفیت رکھتا ہے، امت کے تمام
معاملات اور شکایات کی خبر اور بیرونی حالات پر نظر رکھتا ہے۔معاون تنفیذ حقیقتاً
اِن تمام معاملات میں وسیط ہوتا ہے،جو خلیفہ تک معاملات پہنچاتا ہے اور خلیفہ سے
باقی اداروں یا محکموں کو۔ظاہر ہے کہ خلیفہ کے فیصلے جو محکمات تک پہچائے گئے،یا
محکمات سے معاملات جو خلیفہ تک پہچائے گئے،اُن کی بہتر کارکردگی کیلئے ضروری ہے کہ
ان معاملات اور فیصلوں کی تعمیل کی پیش رفت پر نظررکھی جائے،اور تعمیل کی پیش رفت
پر نظر رکھنا معاونِ تنفیذ کا ہی کام ہے،جب تک کہ تعمیل مکمل نہ ہو جائے۔اس طرح
معاون تنفیذ خلیفہ کے پاس معاملات کی نیز مختلف محکمات کے پاس معاملات کی پیش رفت
پر نظر رکھتا ہے تا وقیکہ کہ خود خلیفہ ہی ایسا کرنے سے روک دے،اب معاون تنفیذ پر
حکم کے مطابق اس(Follow-up) یا نگرانی کام سے
رک جاتاہے کیونکہ بہرحال خلیفہ ہی حاکم ہے اور اسی کا حکم قابل نفاذ ہوتا ہے۔
فوجی معاملات اور بین
الاقوامی تعلقات سے متعلق امور چونکہ صیغۂ راز میں ہوتے ہیں،اسلئے معاون ایسے
معاملات کی تعمیل اوران کی پیش رفت(Follow-up)پر نظر نہیں
رکھتا،تاوقیکہ خلیفہ از خود معاون تنفیذ سے یہ مطالبہ کرے،ایسی صورت میں معاون صرف
انہیں معاملات میں تعمیل کی پیش رفت پر نظر رکھ سکتا ہے جس کیلئے خلیفہ نے معاون
سے مطالبہ کیا ہو۔
رہے وہ معاملات جو امت سے
متعلق ہیں جیسے امت پر مظالم وغیرہ یہ سب خلیفہ یا اس کے نائب کے کام ہیں اور
معاون تنفیذ کا ان میں دخل نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ خلیفہ کے حکم پر معاون ان
معاملات کی خبرگیری کرے،ان معاملات میں معاون کا کام کم محض تعمیل ہے نہکہ اُن کی
پیش رفت پر نظر۔یہ خلیفہ اورمعاونِ تنفیذکے کاموں کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔
حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم) اور خلفائے راشدین کے عہد میں وزیرِ
تنفیذ کے افعال و اعمال کی مثال کاتب کے ضمن میں آتی ہے کیونکہ اُس عہد میں اس کا
یہی نام ہوا کرتا تھا۔
۔۔۔خارجی تعلقات اور اس کی مثالیں:
vصلحِ حدیبیہ کے وقت کی مثال ہے جس کے بارے
میں امام بخاریؒ نے المِسوَر اور مروان کے توسط سے نقل کیا ہے:
((فَدَعا النبی ا الکاتب۔۔۔))
تو نبی کرم انے کاتب کو
بلایا۔۔۔؛
نیز قاضی ابو یوسف کتاب
’’الخراج‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’محمد ابن اسحٰق ؔ اور الکلبیؔ نے مجھے حدیث سنائی جس کے لفظوں
میں کچھ فرق تھا اور اُس میں تھا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم)
نے فرمایا:’’لکھو۔۔۔‘‘ اس حدیث میں کاتب کا نام نہیں ہے۔ اسی طرح علامہ ابن کثیرؒ
لکھتے ہیں:’’ مجھ سے ابن اسحٰقؔ اور الزہریؔ نے کہا:
((۔۔۔ثم دعا رسول اللّٰہا علی ابن ابی طالب (رضي الله عنه) فقال:أکتب۔۔۔))
۔پھر حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)نے حضرت علی ابن ابی طالب (رضي الل۔۔ه عنه) کو بلایا اور فرمایا:لکھو۔۔۔
نیز علامہ ابو عبیدؒ
’’الأموال‘‘ میں حضرت ابن عباس (رضي الله عنه)سے
روایت کرتے ہیں جس میں یہ الفاظ ہیں :
((۔۔۔فقال لِعلی:أکتب یا
علی۔۔۔))
۔۔۔ پھر آپ (صلى الله عليه وسلم)
نے حضرت علی (رضي
الله عنه) سے فرمایا:اے علی لکھو۔۔۔
اسی طرح حاکم ؒ نے بھی حضرت ابن عباس (رضي الله عنه)سے روایت کیا ہے،جس سے علامہ ذہبیؒ نے اتفاق کیا ہے نیز اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ، اس روایت میں یہ الفاظ نقل ہیں:
((۔۔۔اکتب یا علی۔۔۔))اے علی،لکھو۔
صلح حدیبیہ کی نص مشہور
ہے اور یہاں اسے دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
vحضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم) کا ہرقل ؔ کے نام مکتوب جسے ابن ماجہ ؒ
کے سوا ایک پوری جماعت نے روایت کیا ہے جس کو حضرت ابن عباس صاور ابوسفیان سے نقل
کرتے ہوئے بخاری شریف کے الفاظ یوں ہیں:
((بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ،من محمد عبد اللّٰہ و رسولہ إلی ھرقل
عظیم الروم،سلام علی من اتبع الھدی،أما بعد، فإنی أدعوک بدعایۃ الإسلام ،أسلم تسلم
یؤتک اللّٰہ أجرک مرتین،فإن تولیت فإن علیک اثم الأریسیین ویا أھل الکتاب تعالوا
الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم أن لا نعبد إلا اللّٰہ ولا نشرک بہٖ شیئاً ولا یتخذ
بعضنا بعضاً أرباباً من دون اللّٰہ فإن تولوا فقو۔وا اشھدوا بأنا مسلمون ))
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان،نہایت رحم والا ہے؛ محمد کی طرف سے جو اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول ہے،ہرقل ؔ عظیم بادشاہِ روم کے نام، سلامتی ہو اُس پر کو ہدایت کوقبول کرے،ما بعد؛میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ اسلام کو قبول کرلو،تم محفوظ ہو جاؤگے اور اللہ تمہیں دو گنہ اجر دے گا؛اور اگر تم نے انکار کیا تو تمہاری قوم کی گمراہی کے ذمہ دار تم خود ہوگے۔اے اہلِ کتاب؛آؤ،اللہ کے کلمہ کی طرف،جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں گے اور اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا ربّ نہیں بنائیں گے۔پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو اے اللہ تو گواہ ہے کہ ہم نے تو قبول کر ہی لیا ہے۔
اس خط کے جواب میں ہرقل ؔ
نے حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)
کے نام خط لکھا؛ابو عبیدؒ نے ’’الأموال‘‘ میں بکر بن عبداللہ المزنیؔ کے حوالہ سے
نقل کیا ہے:’’(ہرقل نے)حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)کو
جواباً لکھا کہ وہ اِس نے اسلام قبول کرلیا ہے اور انھیں کچھ دینار بھیجے۔حضور
اکرم (صلى الله عليه وسلم)نے
خط پڑھ کر فرمایا :اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ،وہ مسلم نہیں ہے بلکہ وہ نصرانیت پر
ہی ہے‘‘۔حافظؔ نے ’’الفتح ‘‘میں اس کی سند کو صحیح بتایا ہے۔
vاہل منبج ؔ کا حضرت عمر (رضي الله عنه)کو
مکتوب اور آپ کا اِس پر جواب: قاضی ابو یوسفؔ نے کتاب’’الخراج‘‘ میں نقل کیا
ہے:’’عبدالملک بن جریح نے مجھے عمرو بن شعیب کے حوالہ سے بتایا کہ اہلِ منبج، جو
کہ سمندر پار کی ایک قوم ہے جو ہم سے جنگ پر ہے،انہوں نے حضرت عمر بن الخطاب (رضي
الله عنه) کو لکھا کہ ہمیں آپ کے علاقہ میں آکر
تجارت کی اجازت دیجئے اور ہم پر عُشر عائد کیجئے؛لہٰذا حضرت عمر رضي
الله عنهنے صحاب�ۂ
کرام سے اِس سلسلے میں مشورہ کیا،اور حضرت عمر (رضي
الله عنه) وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اہل حرب پر
عُشر عائد کیا‘‘۔
۲۔۔۔
فوج اور اس کے مکتوبات:
vحضرت ابو بکر (رضي
الله عنه)کا مکتوب حضرت خالد ابن ولید (رضي
الله عنه)کے نام،قاضی ابو یوسفؔ کتاب الخراج میں
لکھتے ہیں:’’ حضرت خالد ابن ولید (رضي الله عنه)
کا ارادہ تھا کہ الحیرہ ؔ کے مقام پر ہی قیام کریں،لیکن اُنھیں حضرت ابو بکر (رضي
الله عنه)کا مکتوب ملا جس میں اُنھیں روانہ ہونے کا
حکم تھا کہ وہ شامؔ جاکر حضرت ابو عبدہ (رضي
الله عنه)اور مسلمانوں کی مدد کریں‘‘۔
vشام کے فوجیوں کیلئے حضرت عمر (رضي الله عنه) کا
رسد اور مکتوب بھیجنا:امام احمدؒ نے اور ابو حاتم ؔ ابن حبان نے بذریعۂ سماک ؔ
صحیح رجال کی سند سے روایت کیا ہے،وہ کہتے ہیں:’’میں نے عیاض الاشعری سے سنا،وہ
کہتے ہیں:میں نے یرموکؔ کی جنگ دیکھی ،اس میں ہمارے اوپر(یکے بعد دیگرے)پانچ امیر
ہوئے: حضرت ابو عبیدہ بن الجراح (رضي الله عنه)
،یزید ابن ابی سفیان،ابی حسنہ، حضرت خالد ابن ولید (رضي
الله عنه) اور عیاض ؛یہ وہ عیاض نہیں ہیں جن سے
سماکؔ نے روایت کیا ہے، حضرت عمر (رضي
الله عنه)نے حکم دیاس تھا کہ قتال ہو تو تمہارے
اوپرحضرت ابو عبیدہ بن الجراح (رضي الله عنه)امیر ہوں گے؛ہم نے اُنھیں لکھا کہ موت
ہمارے قریب آنے کو بے تاب ہے اور اُن سے مدد طلب کی، حضرت عمر (رضي الله عنه)نے
جواب لکھا کہ مجھے تمہارا مکتوب ملا جس میں تم نے مدد طلب کی ہے،میں تمہیں اُس کا
پتہ دوں جو مدد دینے میں زیادہ طاقتور ہے اور اُس کے سپاہی حاضر رہتے ہیں،وہ اللہ
ل ہے،پس اُس ہی سے مدد طلب کرو،یومِ بدر کو محمدا کو مدد ملی تھی اور اُن کی استعداد
تم سے کم تھی؛جب تمہیں میرا یہ مکتوب ملے تو اُن سے قتال کرو اور مجھ سے رجوع مت
کرو۔راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم نے قتال کیا اورایسی شکستِ فاش دی کہ دشمن کو چار
فرسخ(۱۴
میل) تک پیچھا کرکے قتل کیا۔
vشام کی فوج نے حضرت عمر (رضي الله عنه)کو
مکتوب لکھا کہ ہم نے دشمن کا سامنا کیا، وہ اپنے ہتھیارکو ریشم سے دۃانک لیتے ہیں
جس کی وجہ سے ہم مرعوب ہوجاتے ہیں، حضرت عمر
(رضي الله عنه)نے
اپنے جوابی مکتوب میں لکھا:’’جس طرح وہ اپنے ہتھیار چھپا لیتے ہیں تم بھی اپنے
ہتھیار چھپا لیا کرو‘‘۔اس کا تذکرہ علامہ ابن تیمیہؒ نے فتاویٰ میں کیا ہے۔
۳۔۔۔ریاست
کے غیر فوجی محکمات اور اُن کے مکتوبات:
حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم) کا حضرت معاذ رضي الله عنه
کو عُشر پر مکتوب:یحییٰ بن آدم کتاب الخراج میں الحکم سے روایت کرتے ہیں:’’حضور
اکرم (صلى الله عليه وسلم)نے
حضرت معاذ رضي
الله عنه کواپنا مکتوب یمنؔ بھیجا جس میں لکھا
تھا:’’جس کی آبپاشی آبِ باراں سے ہوئی یا جو کسی نہرسے تَر ہوا، تو اُس پر
عُشر(دسواں حصہ) ہوگا،البتہ جوکؤوں سے آبپاشی ہو، اُس پر عُشر کا آدھا ہوگا‘‘۔
vجزیہ کے بارے میں حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم) کا المنذر بن ساوی کو مکتوب:قاضی ابو
یوسفؒ نے کتاب الخراج میں ابو عبیدہ ص سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں:حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم)نے المنذر بن ساوی (رضي
الله عنه) کو مکتوب لکھا کہ جس نے ہماری نماز
پڑھی،ہمارے قبلے کی جانب رخ کیا اورہمارا ذبیحہ کھایا، وہ مسلم ہے،وہ اللہ تعالیٰ
اور اُس کے رسول کے ذمہ میں آگیا۔ مجوس میں سے جو یہ اختیار کرے ،سو وہ محفوظ ہوا
،اور جس نے انکار کیا،تو اُس پر جزیہ ہے۔
vحضرت ابو بکر (رضي الله عنه)
کا حضرت انس (رضي الله عنه) کو
صدقہ عائد کرنے کامکتوب جب اُنھیں بحرین بھیجا تھا:بخاری شریف میں انس (رضي
الله عنه) سے روایت نقل ہے کہ:’’حضرت ابو بکر (رضي الله عنه)
نے اُنھیں صدقہ عائد کرنے کیلئے لکھا جس کا اللہ اور اُس کے رسول ا نے حکم دیا
ہے۔۔۔‘‘
vعام الرمادۃ یعنی خشک سالی کے برس حضرت عمر
(رضي الله عنه)
کا حضرت عمرو بن العاص (رضي الله عنه)کو
مکتوب اور اُن کا جواب:ابن خزیمہؒ اپنی صحیح میں،حاکم ؒ اپنی مستدرک میں ،بیہقی ؒ
کی سنن اور طبقات ابن سعدؒ میں زید ابن اسلم کی اُن کے والد سے روایت ہے جسے حاکمؒ
نے مسلم ؒ کی شرط پر صحیح بتایا ہے کہ عام الرمادۃ میں عرب علاقہ سوکھ گئے تو حضرت
عمر (رضي
الله عنه)نے حضرت عمرو بن العاص (رضي
الله عنه)کو مکتوب تحریر کیا :’’اللہ کے ندے اور
امیر المومنین کی جانب سے عمرو بن العاص کو، تمہیں یہ ذرا فکر نہیں کہ تم اور جو
لوگ تمہارے ساتھ ہیں وہ خوب عیش میں ہیں جبکہ یہاں سوکھا ہے اور میں اور میرے ساتھ
لوگ اس کے شکار ہیں،اے فریاد! اس پر حضرت عمرو بن العاص (رضي الله عنه)نے جواب دیا
کہ لبیک،لبیک،بس قافلہ آیا ہی چاہتا ہے،اور وہ اتنا طویل ہوگا کہ اُس کا پہلا حصہ
جب آپ تک پہنچ جائے گا ، تو آخری یہاں تک ہوگا!بس میں سمندر پار مال روانہ کرنے کی
تدبیر کررہا ہوں۔
vحضرت علی
(رضي الله عنه)
کو محمد ابن ابی بکر کا مکتوب جو اُنہیوں نے مرتدین کے بابت تحریر کیا تھااور اُس
پرحضرت علی (رضي
الله عنه) کا جوابی مکتوب:علامہ ابن ابی شیبہؒ نے
قابوس ابن مخارق سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں:’’کہ حضرت
علی (رضي
الله عنه) نے محمد ابن ابی ابکر کو مصرؔ کا امیر
مقرر فرمایا تھا،اُنہوں نے حضرت علی (رضي
الله عنه) کولکھ کر زندیقوؔ ں کے بارے میں دریافت
کیا کہ اُن میں سے بعض سورج اور چاند کی پرستش کرتے ہیں اور کچھ اور دیگر اشیاء کو
پوجتے ہیں اور بعض اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں۔حضرت علی (رضي الله عنه)
نے اپنے جوابی مکتوب میں لکھا اور اُنہیں حکم دیا کہ جو زنادق اسلام کا دعویٰ کرتے
ہیں اُنھیں قتل کر دیا جائے اور باقیوں کو چھوڑ دیا جائے ،وہ جس کی چاہیں عبادت
کریں۔
۴۔۔۔
وہ مکتوبات جن میں براہِ راست عوام سے خطاب ہے:
vحضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم) کا حضرت تمیم الدّاری کو مکتوب:قاضی ابو یوسفؒ
کتاب الخراج میں لکھتے ہیں:تمیم الدّاری ہیں جن کا پورا نام تمیم بن اوس ہے اور
لخم ؔ سے تعلق ہے،وہ کھڑے ہوئے اور کہا:’’ اے اللہ کے رسول(صلى
الله عليه وسلم) ،فلسطین کے رومؔ میں میرا پڑوس ہے اور
وہاں دو قریہ ہیں ایک کو حبریؔ اور دوسرے کو عینونؔ کہا جاتا ہے،اگر اللہ تعالیٰ
آپ کو ملکِ شام پر فتح دیتا ہے تو آپ یہ قریہ مجھے ہبہ فرما دیجئے ۔ آپ (صلى
الله عليه وسلم)نے فرمایا ہ یہ دونوں تمہارے
ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ پھر آپ یہ تحریر کردیجئے،حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم)نے تحریر کروائی:’’بسم اللہ الرحمٰن
الرحیم، منجانب محمد ،رسول اللہ،تمیم ابن اوس الدّاری کے نام ، کہ اُن کیلئے حبری
ؔ اور بیتِ عینونؔ کے پورے کے پورے قریہ ہیں،معہ اُن کے میدانوں ،پہاڑوں،کھیتوں
،پانی اور مویشیوں کے،نیز اُن کے بعداُن کے ورثاء کیلئے، کوئی اُن سے اُن کے اس حق
میں تنازعہ نہ کرے گا اور نہ کوئی ظلم کر کے اُن سے چھینے،پھر اگر کسی نے ظلم کیا
اور اُن سے کچھ چھینا،تو اُس پر اللہ کی لعنت ہو،فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی
پھٹکار ہو۔ اس مکتوب کو حضرت علی (رضي
الله عنه) نے تحریر کیا۔
جب حضرت ابو بکر (رضي
الله عنه)کا زمان�ۂ
خلافت آیا تو آپ ص نے بھی اُن کے نام تحریر دی جس میں تھا:’’بسم اللہ الرحمٰن
الرحیم ،یہ مکتوب منجانب ابو بکر کے،جو اللہ کے رسول(صلى
الله عليه وسلم) کے امین اور دنیامیں اُن کے خلیفہ ہیں،
اہل الداری کے نام، کہ کوئی اُن سے قریۂ حبریؔ اور بیت عینون، جو اُن کی مِلک ہیں،
اُس میں تنازعہ نہ کرے،جس تک یہ حکم پہنچ جائے اور جواللہ کی اطاعت کرتا ہو، وہ اس
معاملہ میں کوئی فساد و شر نہ کرے،اُن کے دروازے پر دو دربان کھڑے کئے جائیں جو
اُنھیں کسی بھی شر سے محفوظ رکھیں‘‘۔
خلیفہ کو یہ اختیار ہے کہ
وہ جس قدر ضرورت وہ کاتب مقرر کرے،بلکہ اگر کاتبوں کے تعین کے بغیر کسی کام میں
رکاوٹ آرہی ہو، تو ایسے میں اِن کی تقرری واجب ہوجاتی ہے۔سیرتِ نبوی لکھنے والوں
نے ذکر کیا ہے کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)کے
کم و بیش بیس کاتب تھے، بخاری شریف میں مروی ہے کہ آپ (صلى
الله عليه وسلم)نے حضرت زید ابن ثابت (رضي
الله عنه) کو حکم دیا کہ وہ یہودیوں کی عبارت
سیکھیں،تاکہ یہودی جب آپ (صلى الله عليه وسلم)
کو مکتوب لکھیں تو وہ اس کو پڑھ کر آپ (صلى الله عليه
وسلم) کو سنا سکیں۔ حضرت زید ابن ثابت (رضي
الله عنه) نے یہودیوں کی عبارت کو صرف پندرہ دن میں
سیکھ لیا تھا۔ابن اسحاق ؒ نے حضرت عبد اللہ ابن زبیر (رضي الله عنه) سے
نقل کیا ہے:’’کہ حضور اکرم (صلى الله عليه وسلم)
حضرت عبداللہ بن ارقم بن عبد یغوث سے لکھوایا کرتے تھے اور وہی آپ (صلى
الله عليه وسلم) کی جانب سے بادشاہوں کو جواب لکھا
کرتے تھے‘‘۔بیہقیؔ میں حضرت عبداللہ ابن عمر (رضي
الله عنه) روایت کرتے ہیں:’’حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم) کو ایک شخص کا مکتوب پہنچا تو آپ (صلى
الله عليه وسلم)نے حضرت عبداللہ بن ارقم (رضي الله عنه) سے
فرمایا کہ میری طرف سے جواب لکھو۔ اُنہوں نے جواب لکھا اور پھر پڑھ کر سنایا جس پر
آپ (صلى الله عليه وسلم)نے
فرمایا کہ تم نے ٹھیک لکھا، اللہ اس سے راضی ہو‘‘۔محمد ابن سعدؒ نے علی ابن محمد
المدائنی ؒ سے اپنی سند پر روایت کیا ہے کہ محمد ابن مسلمہ نے حضور اکرم (صلى
الله عليه وسلم) کا حکم مرۃ ؔ کے وفد کو تحریر کیا تھا،
جبکہ حضرت علی ابن ابی طالب (رضي
الله عنه) جب بھی صلح یا معاہدے ہوتے تو اُنھیں تحریر
کیا کرتے تھے،حضرت معیقیب ابن ابی فاطمہص مُہرِ نبوت پر متعین تھے۔ امام بخاریؒ نے
تاریخ میں محمد ابن بشار سے نقل کیا ہے،وہ اپنے دادا حضرت معیقیب سے روایت کرتے
ہیں:حضور اکرم کی مہر آہنی تھی جس پر چاندی چڑھی ہوئی تھی اور حضرت معیقیب ابن ابی
فاطمہ اُس کے ذمہ دار تھے۔
معاونین
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
12:31 PM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: