حدیث نمبر 4
مَنْ خَرَجَ مِنَ
الْجَمَاعَةِ قِيدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الإِسْلاَمِ مِنْ عُنُقِهِ
حَتَّى يُرَاجِعَهُ وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ عَلَيْهِ إِمَامُ جَمَاعَةٍ فَإِنَّ
مَوْتَتَهُ مَوْتَةٌ جَاهِلِيَّةٌ
ترجمہ:
جو کوئی بھی خود کو جماعت
( خلیفہ تلے متحد امت مسلمہ) سے ایک ہاتھ کی دوری پہ ہٹالے تو اس نے اسلام کو اپنی گردن سے اتار کرجدا کردیا ہے جب تک وہ واپس نہ آ جائے، جو کوئی اس حال میں مرتا ہے کہ جماعت کا امیر اس کے اوپر(سربراہ) موجود نہ ہو تووہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔( حاکم)
( خلیفہ تلے متحد امت مسلمہ) سے ایک ہاتھ کی دوری پہ ہٹالے تو اس نے اسلام کو اپنی گردن سے اتار کرجدا کردیا ہے جب تک وہ واپس نہ آ جائے، جو کوئی اس حال میں مرتا ہے کہ جماعت کا امیر اس کے اوپر(سربراہ) موجود نہ ہو تووہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔( حاکم)
خلاصہ
وتشریح:
الف: یہ احادیث بتلاتی ہیں کہ امت کا
سچائی پر اکٹھّا ہونا(حق پر متحد ہونا) فرض ہے مزید ’’ایک ہاتھ کی دوری پر‘‘ اِس
عبارت کے ذریعے حدیث یہ بتلاتی ہے کہ بے اتحادی( تفرقہ ، پھوٹ) کتنی چھوٹی ہی کیوں
نہ ہو وہ حرام ہے۔
ب:
اسلام میں اُمت کے امیر جس کو ایک مرتبہ بیعت دی جا چکی ہو اس کی اطاعت و فرماں برداری کرنا فرض ہے ۔ امیر کی اطاعت
کے معاملہ کو سمجھنے کے لئے اُن دوسری احادیث کے ساتھ جوڑ کر مکمل طور پرسمجھنا
چاہئیے جو امت میں مخصوص حالات کے تحت امیر سے اختلاف حتی کہ امیرکے خلاف بغاوت پر اتر جانے کا حکم
دیتی ہیں( امیر جب اِسلام کے علاوہ کسی دوسرے
احکام کے تحت حکم دیتا ہو)،
ایسی تمام احادیث کو یکجا کرکے سمجھنے پر
امیر کی اطاعت کا معاملہ پوری طرح واضح ہو جاتا ہے ۔
ت:
بیعت( اطاعت کا عہد ) جس کا حدیث میں ذکر آیا ہے یہ بیعت رعایا اور حاکم ( امیر)
کے درمیان طلب (حاصل) کی جاتی ہے جیساکہ نبی کریم ﷺ اورآپﷺ کے صحابہ رضوان اللہ
علیہم اجمعین کی سنّت سے ظاہر ہوتا ہے تاکہ امیر قران و سنت کے مطابق اُمّت کے
فیصلے ( حکومت) کرے اور اُس کے عوض امّت
امیر کی اطاعت و فرمان بردار بن کرر
ہے گی۔
ث:
عبارت ’جاہلیت کی موت‘ روایت میں اس بات کی جانب ایک اشارہ ہے کہ کسی بھی مسلم فرد کااپنی گردن پر بیعت کا طوق حاصل
کئے بغیر مرجانا حرام ہے یعنی جب وہ ایسے مرجائے کہ اس نے امیر کو( اطاعت کا عہد)
بیعت نہ دی ہو چنانچہ بیعت کی موجودگی ایک فرض حکم ہے اور چونکہ امیر(خلیفہ) کی
موجودگی کے بغیر یہ بیعت موجود نہیں رہ سکتی لہذا اُمت میں ایک خلیفہ کی موجودگی
بھی فرض ہوجاتی ہے جس کے ساتھ یہ بیعت حاصل کی جاتی ہے جیسا کہ علماء کرام بیان
کرتے ہیں مثلاً امام تفتازانی ؒ ، اُن کے علاوہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ بھی
اپنی کتاب ’ازالتہ الخفاء عن خلافتہ الخلفاء‘ میں بیان کرتے ہیں جو کہ فارسی زبان
میں لکھی گئی تھی۔
ج:
دوسری حدیث میں اس نقطہ کو مزید ظاہر اورواضح کیا گیا ہے ، پہلی حدیث میں بیان کئے
گئے اشارہ یعنی ’’ گردن پر بیعت کا طوق حاصل کئے بغیر ‘‘ کی مکمل تشریح بعد والی
حدیث (نمبر۴)کے الفاظ یعنی ’’جماعت (مسلمانوں کی ) کا امیر اس کے سر پر نہ ہو ‘‘
سے بیان ہوتی ہے۔
چ:
فقہی اصول ’’واجب کی ادائیگی کے لئے درکار ( شئے اورعمل ) بھی واجب ہوتا ہے‘‘ کے
تحت خلافت کو قائم کرنا واجب العمل (فرض )ہے اور یہ وہ فرض ہے جو مسلمانوں کے ہر
ایک فرد پر واجب ہے چونکہ لفظ ’من‘ یعنی
’’ جو کوئی‘‘ کے استعمال سے حکم کے عام ہونے کی نوعیت ظاہر ہوجاتی ہے چنانچہ اس فریضہ کی انجام دہی
کی ذمہ داری تمام مسلمانوں پر فرداً فرداً واجب ہوتی ہے۔
خلافت کا فریضہ
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
8:18 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: