اسلام حکم بتلاتا ہے نہ کہ اسکی تکنیکیات






حدیث نمبر
9

عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ مَرَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم  بِقَوْمٍ عَلَى رُءُوسِ النَّخْلِ فَقَالَ  مَا يَصْنَعُ هَؤُلاَءِ . فَقَالُوا يُلَقِّحُونَهُ يَجْعَلُونَ الذَّكَرَ فِى الأُنْثَى فَيَلْقَحُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم   مَا أَظُنُّ يُغْنِى ذَلِكَ شَيْئًا . قَالَ فَأُخْبِرُوا بِذَلِكَ فَتَرَكُوهُ فَأُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم  بِذَلِكَ فَقَالَ  إِنْ كَانَ يَنْفَعُهُمْ ذَلِكَ فَلْيَصْنَعُوهُ فَإِنِّى إِنَّمَا ظَنَنْتُ ظَنًّا فَلاَ تُؤَاخِذُونِى بِالظَّنِّ وَلَكِنْ إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنِ اللَّهِ شَيْئًا فَخُذُوا بِهِ فَإِنِّى لَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ .

ترجمہ: موسی بن طلحہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ : میں اور اللہ کے رسول ایک مرتبہ کچھ لوگوں کے قریب سے گذرے جو کھجورکے درختوں کے پاس تھے، آپ ( نبی اکرم) نے فرمایا : یہ تمام لوگ کیا کررہے ہیں؟ ان لوگوں نے کہا کہ وہ قلم لگا رہے ہیں( نر اور مادہ پودوں کو ایک ساتھ مشترک ملا کر لگارہے تھے اور اس طرح وہ مزید پھل دیتے ہیں)، اس پر اللہ کے رسول نے فرمایا : ’’میں نہیں سمجھتاکہ یہ عمل کچھ فائدہ دے سکتا ہے۔‘‘ تمام لوگوں تک یہ بات پہنچائی گئی اور انہوں نے یہ طریقہ ترک کردیا اللہ کے نبی کو تھوڑی مدت بعدبتلایاگیا ( کہ پیداوارکم ہوئی ہے) جس پر آپ نے فرمایا : ’’اگر وہ عمل فائدہ مند ہے تو انہیں چاہئیے کہ وہ کیا کریں، کیونکہ وہ میری ذاتی رائے تھی اور تم پرلازم نہیں کہ میری ذاتی رائے کی پیروی کرو لیکن جب میں تمہیں وہ بتلاؤں جو اللہ کی جانب سے ہوتو اس کو قبول کرلو کیونکہ میں اللہ عزوجل کی جانب کوئی جھوٹی بات منصوب نہیں کرتا۔‘‘


حدیث نمبر 10

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِىَّ  صلى الله عليه وسلم  مَرَّ بِقَوْمٍ يُلَقِّحُونَ فَقَالَ  لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا لَصَلُحَ . قَالَ فَخَرَجَ شِيصًا فَمَرَّ بِهِمْ فَقَالَ  مَا لِنَخْلِكُمْ . قَالُوا قُلْتَ كَذَا وَكَذَا قَالَ  أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ.

ترجمہ: انسؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ایک مرتبہ ایسے لوگوں کے قریب سے گذرے جو درختوں میں قلم کاری کرنے میں مصروف تھے، اس پر آپ نے فرمایا : اگر تم یہ نہیں کرتے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوتا ( چنانچہ انہوں نے وہ عمل ترک کردیا) اور فصل کی پیداوار میں کمی واقع ہوگئی۔ آپ ان لوگوں کے پاس سے گذرے تو دریافت کیا : ’’تمہارے درختوں کے ساتھ کیا غلط حادثہ پیش آیا؟ ‘‘ انہوں نے بتلایا کہ آپ نے یوں اور یوں فرمایا تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’تمہیں دنیا کے معاملات میں بہتر علم ( تکنیکی ہنر سے متعلق) ہے۔ ‘‘ ( مسلم)

لاصہ وتشریح:

الف: کچھ جدید خیالات کے حامی دانشوران اِن روایات اور اسی قسم کی دیگر روایات کو اپنے موقف کی تائید میں استعما ل کرتے ہیں اور پھر عام دعوی کرتے ہیں کہ’’ اسلام دنیا کے امور کے انتظام کرنے کیلئے احکام بتلانے کے لئے نہیں آیا ہے‘‘ ، اُن کا ایسا کرنا درحقیقت اِن احادیث کو مکمل طور پر توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش ہے، امام نووی صحیح مسلم کی تشریح کرتے ہوئے اس حدیث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ

قال العلماء قوله صلى الله عليه وسلم من رأيي اي في امر الدنيا ومعايشها لا على التشريع فأما ما قاله باجتهاده صلى الله عليه وسلم ورآه شرعا يجب العمل به وليس آبار النخل من هذا النوع

’’علماء نے فرمایا ہے کہ حدیث میں اِس عبارت ’میری رائے سے ‘ سے مراد دُنیا وی معاملات میں اور رزق سے متعلق معاملا ت میں ہے یہ عبارت تشریع یا قانون سازی کے معاملات سے متعلق نہیں ہے بلکہ شرعی معاملات میں آپ نے اپنے اجتہاد اوراپنی شرعی رائے سے جو کچھ فرمایا ہے ان تمام کو آپ کی جانب سے قبول کرنا مسلمانوں پرواجب ہے اور کھجور کے درختوں کی بارآوری اس زمرہ میں شامل نہیں ہے بلکہ دنیاوی معاملہ اور رزق سے متعلق معاملہ میں شامل ہے ‘‘

ب: شرع ہمیں فعل کو انجام دینے کی تفصیلات اوراسلوب( ڈھنگ یا انداز) سکھانے کے لئے نازل نہیں ہوئی بلکہ شرع حلال وحرام، صحیح و فاسد سے متعلق احکام کو واضح کرنے کے لئے آئی ہے، فعل کو کس طرح انجام دیا جائے عام طور پرفعل کا اسلوب یا ڈھنگ فعل کے حکم سے ہی معلوم ہوجاتا ہے چنانچہ شرع میں جب کسی معاملہ کو جائز بتلایا جاتا ہے مثلاً عام کاشت کاری تو زمانہ میں موجود ذرائع اور دستیاب تکنالوجی اور وقت کی ضرورت کے اعتبار سے کاشت کاری کو مختلف طور پر انجام دیاجاسکتا ہے مثلاً فصلوں کی آب پاشی یا فصلوں کے مختلف طرز(انداز) ، باری باری سے مختلف پیداوار کو اُگانے کی کاشتکاری کی طرز ( ڈھنگ) تاکہ زمین کی زرخیز ی قائم رہے اور جگہہ کا بھرپور استعمال ہوسکے ، غرض ضرورت و حالات کے مطابق کاشت کاری کے فعل کو انجام دینے کی خاطر مختلف طرز(اسلوب) اختیار کیے جاسکتے ہیں۔

ت: یہ روایات کھجور کے درختوں کی بارآوری کے متعلق تھیں چنانچہ ان روایات کو ان میں بیان کئے گئے معاملات و حالات ( زراعت و صنعت) سے ملتے جلتے معاملات و حالات میں حکم سمجھنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے مثال کے طور پرزراعتی پیداوار اور صنعتی پیداوارسے متعلق معاملات میں استعما ل کیا جاسکتا ہے۔

ث: اس واقعہ کی پہلی روایت میں نبی کریم نے بیان کیا ہے کہ یہ صرف ایک ذاتی خیال تھا جو آپؐ کے ذہن میں آیاتھا، مزید آپ ؐ نے یہ بھی بیان کیا کہ یہ کوئی تشریعی (قانون سازی کا) معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک تکنیکی معاملہ ہے اور اس میں آپکی یہ ذاتی رائے ہے ، یہ معاملہ اسی قسم کے ایک دوسرے معاملہ کی طرح کاہے جب آپ نے بدر کے میدان میں فوج کے پڑاؤ کے متعلق فیصلہ کرلیا تھا اس کے بعدالحباب بن المنظرؓ نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کا یہ فیصلہ وحی کے ذریعے نازل ہوا فیصلہ ہے یا آپ کی ذاتی رائے ہے؟ دوسرے الفاظ میں اگر یہ فیصلہ نازل کردہ ہے تو پھر کوئی دو رائے نہیں لیکن اگر اس قسم کے تکنیکی معاملہ میں یہ آپ کی ذاتی رائے ہے تو پڑاؤ کے لئے دوسرے دیگر متبادل مقامات ہو سکتے ہیں جو جنگی حکمت عملی کے لحاظ سے فوج کے پڑاؤ کے لئے زیادہ موثر( اسٹریٹجک) مقام ہو سکتا ہے۔

 

 


 

 

 
اسلام حکم بتلاتا ہے نہ کہ اسکی تکنیکیات اسلام حکم بتلاتا ہے نہ کہ اسکی تکنیکیات Reviewed by خلافت راشدا سانی on 9:21 AM Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.