حدیث نمبر53
أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِر
ترجمہ: تمام جہاد میں افضل ترین جہاد ظالم و جابرسلطان کے بالمقابل انصاف ( عدل )کی بات کرنا ہے۔
( ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ )
حدیث نمبر54
سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وَرَجُلٌ قَالَ إِلَى إِمَامٍ جَائِرٍ فَأَمَرَهُ وَنَهَاهُ فَقَتَلَهُ.
ترجمہ: شہیدوں میں سردار حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اور وہ شخص ہے جو ظالم و جابر حکمران کے سامنے (بالمقابل) کھڑا ہو تا ہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر ( برائی سے روکنا اور بھلائی کا حکم دینا) کرتا ہے حتی کہ وہ شہید ( امرونہی کرنے کی وجہ سے )کردیا جاتا ہے۔ ( حکیم)
خلاصہ وتشریح:
الف: امام المناوی ؒ فرماتے ہیں کہ روایت میں لفظ جہاد اُس کے لغوی معنی میں مراد لیا گیا ہے جو اس کے عام معنی بھی ہیں۔
ب: دوسری روایت ظاہر کرتی ہے کہ وہ شخص جو حاکم کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر ( برائی سے روکنا اور بھلائی کا حکم دینا) کرے اور اس کے عوض شہید کردیا جائے تو اس شخص کا اجر اور درجہ ایسا ہے کہ وہ سیدّالشہدا ءامیر حمزہؓ کے ہمراہ درجات کے اعتبار سے شہیدوں کی صف اوّل میں شامل ہوگا، یہ حقیقت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ عمل جہاد کی سب سے اعلی ترین قسم ہے جو جہاد کے عام اور خاص دونوں شرعی معنی کی شرائط کو پورا کرتی ہے۔
ت: امام عابدی ؒ اپنی شرح میں بیان کرتے ہیں کہ علماء نے بیان کیا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ( برائی سے روکنا اور بھلائی کا حکم دینا) کی ذمہ داری سے کوئی بھی شخص بری نہیں ہو جاتا حتی کہ اگروہ یہ محسوس بھی کرلے کہ اس سے کوئی اثر اور کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا بلکہ اس پر یہ ذمہ داری برابر قائم اور باقی رہتی ہے جب تک وہ اسے اداء نہ کرلے۔
ث: امام الصدیقی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ افضل ترین جہاد ہے کیونکہ یہ اس کے انجام دینے والے کے مکمل عزم و یقین اوراس کے ایمان کی مظبوطی ، سچائی پر استقامت کوظاہر کرتاہے جب وہ شخص ایسے ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کہتا ہے جس کا ظلم و جبرمشہور ہو اور وہ شخص نہ اس حاکم سے خوفزدہ ہو اور نہ ہی اس کے جبر اور طاقت سے خوفزدہ ہو، بلکہ اس نے خود کو اللہ سبحانہ وتعالی کے ہاتھوں بیچ رکھاہو اور اللہ کے فرمان اوراللہ کے حقوق کو خود کی ذات اور خود کے حقوق پر فوقیت دے کر آگے کر رکھا ہواور موازنہ میں بھی یہ مجاہد شخص جنگ کے مجاہد سے مختلف ہے جس کو ایسا خطرہ لاحق نہیں ہوتاہے جو اِس مجاہد کو ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے آکر کلمہ حق بلند کرنے کے نتیجہ کی صورت میں لاحق ہوتا ہے۔
ج: حاکم کا محاسبہ کرنا نہایت ہی مشکل ترین ذمہ داری ہے اور یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ( برائی سے روکنا اور بھلائی کا حکم دینا) کا اعلی ترین درجہ ہے جیسا کہ امام شیخ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ اگر حا کم حق پر ہوتو لوگ بھی حق پر ہوجائیں گے اور اگر وہی فاسق ہو جائے تو لوگ بھی فاسق ہو جائیں گے چنانچہ حکومت اور حاکم کی اصلاح کرنے سے معاشرہ کی اصلاح ہوگی اور اگر حکومت کی خرابی اور حاکم کی خرابی (فسق) قائم اور باقی رہے گی تو معاشرہ کی خرابی بھی بدستور قائم اور باقی رہے گی۔
حاکم کا محاسبہ کرنا
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
3:01 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: