حدیث نمبر۲۱
أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ فَقَالَ ، وَمَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا ، وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلاَّ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللهِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ ابْنَةَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا.
ترجمہ: قریش مخذومیہ عورت کے متعلق نہایت فکر مند ہوئے تھے جس نے چوری کی تھی، انہوں نے مشورہ کیا ’’اللہ کے رسولﷺ سے کوئی بھی ( اس عورت کی خاطر) سفارش نہیں کرسکتا اور کوئی سفارش کی ہمت بھی نہیں کرسکتا سوائے اُسامہؓ کے جو اللہ کے رسول ﷺ کے چہیتے ہیں ‘‘ جب اسامہ نے نبی کریم ﷺ سے اس معاملہ کے متعلق بات کی تونبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’کیا تم اللہ کی عائد کردہ قانونی حدود کو توڑنے کی خاطر میرے پاس سفارش لے کر آئے ہو؟ ‘‘ پھر آپ ﷺ اُٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو یہ فرماتے ہوئے خطاب کیاکہ’’ ائے لوگوں، قومیں اس سے قبل تباہ کردی گئیں تھیں کیونکہ اگر ا ن میں کوئی معزز شخص چوری کرتا تو وہ اس کو رہا کردیا کرتے تھے اور جب ان میں کوئی کمزور شخص چوری کرتا اس کو قانونی سزاء کا عذاب دیا جاتا، اللہ کی قسم ، اگر فاطمہؓ ، محمدﷺ کی بیٹی نے چوری کی تو محمدﷺ اسؓ کے ہاتھ قلم کر دے گا !‘‘ ۔ ( بخاری و مسلم)
خلاصہ وتشریح:
الف: اسلام میں شرع سے اعلی ترین کسی کی شخصیت نہیں ہے اور سزاؤں کو یکساں طور پر نافذ کیا جاتا ہے خواہ مجرم کتنا ہی اعلی سماجی رتبہ اور اثر و رسوخ رکھتا ہو۔
ب: روایت واضح کردیتی ہے کہ حدود کا نفاذ ان لوگوں پر لازم آتاہے جو قران و سنت میں قائم کی گئی اللہ کی بندشوں کو توڑتے ہیں اور زیادتیاں کرتے ہیں اور ان کی سفارش کرنے کی کسی بھی کوشش پر توجہ نہیں دی جائے۔
ت: اللہ کے حقوق کے متعلق کوئی بھی سفارش قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اللہ کے حقوق انسانوں کے آپس میں عائد انسانی حقوق سے مختلف ہیں مثلاً قصاص میں سزاء کے بدل کے طور پر خون بہاء قبول کرلینے کی اجازت ہے۔
ث: اللہ کے نازل کردہ قوانین کو لوگوں پر بلاتفریق نافذ نہ کرنا لوگوں کے ذلت و زوال اور تباہی کا سبب بنتا ہے۔
ج: نبی کریم ﷺ کا قسم کھا کر فرمانا کہ آپﷺ اپنی عزیز بیٹی فاطمہ الزہرہؓ پر بھی سزاء نافذ کردیں گے اُنؓ کے متعلق اگر ایسی صورت سامنے آئے، آپ ﷺ کا اس طرح سخت بات کہنا اس حقیقت پر زوردیتا ہے کہ اگر قرابت داروں میں بھی سب سے قریبی رشتہ دارکوئی ہو تو قانون کے نفاذ میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔
چ: قوانین کا اس طرح آفاقی نفاذ کرنا آج کے اس جدید زمانہ میں انسانوں کے بنائے ہوئے نظام سے بالکل الٹ اور متضادہے جو ایسی اعلی ترین قدروں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن حقیقت میں غیر مناسب و ناجائز طور پر قانون کا وزنی بوجھ اور اکثر سزاؤں کا حصہ معاشرہ کے کمزور اور معاشی طور پر پستہ حال محروم لوگوں پر آپڑتا ہے جو کورٹ میں اپنے مقدمہ کی بہترین نمائندگی کا خرچ نہیں اٹھا سکتے یا سیاسی اثرو رسوخ نہیں رکھتے جو اُن کے حق میں مداخلت کرسکے۔
حکومتیْ قوانین کا یکساں نفاذ کیا جائے گا
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
5:13 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: