کوئی بھی ملزم جرم کے ثابت نہ ہونے تک معصوم ہے



حدیث نمبر22

الْبَيِّنَةِ عَلَى الْمُدَّعِي وَالْيَمِينِ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ

ترجمہ: ثبوت پیش کرنے کا بوجھ (ذمہ داری ) الزام لگانے والے پر ہے اور عہد اُٹھانے کا بوجھ (ذمہ داری) ملزم پر ہے۔(ترمذی)

 

 

حدیث نمبر23

لَوْ كُنْتُ رَاجِمًا أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ لَرَجَمْتُهَا

ترجمہ: اگر میں کسی بھی فرد کو ثبوت کی غیر حاضری میں سنگسار کرنے والا ہوتا تو اُس عورت کو ضرور سنگسار کرچکا ہوتا۔(مسلم)

خلاصہ وتشریح:

الف: پہلی روایت میں اللہ کے پیغمبررسول اکرمﷺ وضاحت کرتے ہیں کہ ا لزام لگانے والے شخص پر ثبوت پیش کرنے کی ذمہ داری ہے۔اگر اس کے پاس کوئی ثبوت موجود نہ ہو اور وہ الزام لگائے تو ملزم خود پر الزام کے متعلق اپنے موقف پر قسم کھائے اور اس طرح قاضی (جج)الزام کو رد کردیتا ہے چنانچہ یہ معاملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ملزم معصوم ہے جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے۔

ب : دوسری روایت میں لفظ (لَوْ) یعنی’’ اگر‘‘ عربی زبان میں کسی چیز کی غیر موجودگی کی وجہ سے رک جانے کا اظہار کرتا ہے یعنی اس شئے کی موجودگی فعل انجام دینے کی شرط بنتی ہے۔لہذا اس روایت میں سنگ سار(رجم ) نہ کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ عورت کے جرم کے متعلق کوئی ثبوت سامنے پیش نہیں ہوا۔

ت: یہ حدیث تصدیق کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عورت جس کا بیان حدیث میں ہے اُس کو صرف اس لئے سنگ سارنہیں کیا کیونکہ اس کے متعلق کوئی ثبوت پیش نہیں ہو سکا حالانکہ اس عورت پر زنا کے ارتکاب کا مکمل اندیشہ تھا۔

ث: ایک روایت میں ابن عباسؓ نے وضاحت کی کہ عورت جس کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایسی عورت تھی کہ جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد بھی برائیوں کو ظاہر کر رکھا تھا ۔امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اس عورت پر شبہ کا اشارہ ملتا ہے جو اس کے ماحول اور اس سے ملنے جلنے آنے والے لوگوں کی وجہ سے تھا، امام نووی ؒ بیان کرتے ہیں کہ یہ تشریح کہ وہ برائیوں کا اظہار کرتی تھی اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ان برائیوں کے لئے جانی جانے لگی تھی اور یہ بات مشہور ہوچکی تھی البتہ اِس زناء کے واقعہ کے متعلق کوئی واضح ثبوت موجود نہ تھا اور نہ ہی اس نے جرم قبول کیا تھا (زناء کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے چار گواہ درکار ہوتے ہیں یا پھر اقبال جرم درکار ہوتا ہے) ۔ لہذ یہ ا حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ صرف جرم کی خبرملنے پر سزاء نافذ نہیں کی جاتی جب تک جرم شرع کے مطابق ثابت نہ ہوجائے خواہ ملزم کتنا ہی بدنام کیوں نہ ہو۔

ج: چنانچہ حاکم پر یہ حرام ہے کہ وہ کسی کو بھی سزاء سُنا دے جب تک وہ ایسے کسی جرم کا ارتکاب نہ کریں جو شرع کی نظر میں درحقیقت جرم شمار کیا جاتا ہے اور ایک موزوں (جج) قاضی کے سامنے شرعی عدالت میں جرم کا ارتکاب ثابت نہ ہو چکا ہو کیونکہ کوئی ثبوت قابل قبول نہیں ہے جب تک وہ ثبوت موزوں قاضی (جج) کے سامنے شرعی عدالت میں پیش نہ ہو اورثبوت ثابت نہ ہوجائے ۔

کوئی بھی ملزم جرم کے ثابت نہ ہونے تک معصوم ہے کوئی بھی ملزم جرم کے ثابت نہ ہونے تک معصوم ہے Reviewed by خلافت راشدا سانی on 5:45 AM Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.