حدیث نمبر55
إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ
ترجمہ: اگر لوگ کسی کو دیکھیں جو ظالم ہواور وہ اس کو اپنے بازؤں ( روکنے کی خاطرقوت ) سے کام نہ لیں تو عنقریب ہے کہ اللہ اپنی طرف سے عذاب نازل کردے جو تمام لوگوں کو اپنے گھیرے میں لے لیگا۔(ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
خلاصہ وتشریح:
الف: ابو بکر الصدیق ؓ نے فرمایا کہ ’’ ائے لوگو!تم اللہ کی کتاب میں اِس آیت کوپڑھتے ہو اور اس پر ایسے عمل کرتے ہو جو اس آیت سے اللہ کا مقصد نہیں ہے ، ’’ائے لوگوں جو ایمان لائے ہو، خو د کی حفاظت و نگرانی کرو اگر تم ہدایت کی پیروی کرو گے تو تم پر ان لوگوں کی طرف سے کوئی نقصان نہ پہنچے گا جو لوگ خرابی میں مبتلاء ہیں‘‘ اور میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ اگر لوگوں میں سے کچھ افرادگناہ کے کام کریں اور بقیہ لوگ اس کو بدلنے کی کوشش نہ کریں تو وہ لوگ عنقریب ہیں کہ اللہ تمام لوگوں پر اپنا عذاب اُتار دے ‘‘
ب: یہ روایتیں ظالم کو ظلم سے روکنے کے فریضہ کو نظرانداز کرنے کے نتائج کیا ہونگے یہ ظاہر کرتی ہیں کیونکہ ظلم درحقیقت پورے معاشرہ کو بالاآخراپنی لپیٹ میں لے لے گا جیسا کہ حدیث سفینہ (کشتی والی حدیث) میں تفصیل سے بیان ہواہے۔
ت: امام ابن قیم ؒ نے فرمایا ’’شیطان نے اکثر لوگوں کو گمراہ اس طرح کیا ہے کہ ان کے سامنے عبادات کے نفل اعمال مثلاً نفلی نمازیں ، نفلی روزے کی پابندی کو خوشنما بنا دیا جبکہ عبادات کے دوسرے فرائض کو نظرانداز کیا مثلاً امر بالمعروف و نہی عن المنکر ( برائی سے روکنا اور بھلائی کا حکم دینا) اور وہ اس حد تک گمراہ ہوئے کہ وہ اپنے دل میں انہیں انجام دینے کی کبھی نیت تک نہیں رکھتے ۔کیونکہ ہمارے دین کی روح اللہ جل وشانہ و کے دئیے ہر فرمان کی اطاعت میں ہے، وہ جو خود پر عائد فرائض کو اداء نہ کرے وہ گناہ کرنے والے سے زیادہ بدترین ہے، وہ جو بھی اللہ کی نازل کردہ وحی ، نبی کریم ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت اور صحابہ کی زندگیوں کے متعلق کچھ علم رکھتا ہو وہ یہ جانتا ہے کہ آج جو نہایت نیک و پرہیزگار تسلیم کئے جاتے ہیں دراصل سب سے ادنی قسم کے نیک و پرہیزگار ہیں ، بلاشبہ ایسے شخص کے نزدیک دین کے معنی اور اس کی اہمیت کیا ہوگی اور اس شخص میں کیا بھلائی باقی بچی ہوگی جو یہ دیکھے کہ اللہ کی بیان کی ہوئی حرمتیں پامال ہوتی ہوں اوراللہ کی متعین کردہ حدود پر عمل درآمد نہ کیا جائے اس کو نافذ نہ کیا جائے اور اللہ کا نازل کردہ دین (معزول ہو) چھوڑ دیاگیا ہو اور اللہ کے نبی کی سنتوں کو دور ہٹادیا گیا ہو اور وہ شخص اس کے باوجود غیر متحرک ہو اور بے حس دل اور خاموش زبان کے ساتھ بالکل اسی طرح گونگا شیطان بنا رہے جس طرح و ہ شخص جو باطل اور جھوٹ بولتا ہو وہ بولنے والا شیطان ہوتا ہے ، کیا یہ سچ نہیں کہ اسلام کا زوال صرف ان افراد کی وجہ سے قائم ہے جن کا جب تک عہدہ او ر کھانا پینا برقرارہے انہیں پرواہ نہیں ہوتی کہ دین کس حال میں ہے ؟ اور ان میں بہترین لوگ ایسے ہونگے جو مگرمچھ کے آنسو بہاکر بے بسی ظاہر کردیں گے ، اور اگر ان دونوں شئے جن میں ان کا دل لگا ہوا ہے یعنی ان کا عہدہ اور ان کی دولت میں کچھ کمی ہو جائے تو وہ اس کی خاطر ہر قسم کی قربانی دیں گے، تکلیفیں برداشت کریں گے، سعی وجدوجہدکریں گے اور باز رکھنے کے تینوں ذرائع ودرجات( یعنی ان کے بازؤں، زبان اور دل جو حدیث نمبر ۴۹ میں بیان ہوئے ہیں ) ان کا اپنی پوری استطاعت کے ساتھ استعمال کریں گے، یہ افراد اللہ کے غیظ و غضب کے حقدار ہونے کے علاوہ ایک ایسی عظیم مصیبت میں مبتلاء ہیں جس کی خبر انہیں خود بھی نہیں ہے کہ ان کا دل مردہ ہو چکا ہے ۔ بلاشبہ وہ مومن جس کا قلب جس قدرے زندہ ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ اللہ کی خاطر(اس حالت پر) مشتعل ہوگا اور بقدر اسلام اور مسلمانوں کو اپنی حمایت اور مددعطا کرے گا ‘
ظالم کو نہ روکنا یہ اللہ کی جانب سے اجتماعی سزاء و عذاب کا سبب ہے
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
3:04 AM
Rating:
بھتریں اللہ آپکے علم و قلم میں برکت دے ۔۔ آمین ۔۔ میں آپکا ھر مضمون پڑھتی ھوں اور آگے بڑھاتی ھوں ایسے ھو حق گو کی حسرت تھی ھمیں
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ ماشاءاللہ۔ اللہ تعالیٰ آپکے علم و فضل میں اِضافہ اور مزید بہتری فرمائیں
جواب دیںحذف کریں