محاسبہ کو نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں بدترین حاکم اورسخت ترین دشمن کا ظہور ہوتا ہے اور دعا عیں مسترد کردی جاتی ہیں
حدیث نمبر56
والذى نفسي بيده لا تقوم الساعة حتي يبعث الله أمراء
كذبة ووزراء فجرة وأعوانا خونة وعرفاء ظلمة وقراء فسقة سيماهم سيما الرهبان
وقلوبهم أنتن من الجيف أهواؤهم مختلفة فيتيح الله لهم فتنة غبراء مظلمة فيتهاوكون
فيها والذى نفس محمد بيده لينقضن الاسلام عروة عروة حتي لا يقال الله الله لتأمرن
بالمعروف ولتنهون عن المنكر أو ليسلطن الله عليكم أشراركم فيسومونكم سوء العذاب ثم
يدعو خياركم فلا يستجاب لهم لتأمرن بالمعروف ولتنهون عن المنكر أو ليبعثن الله
عليكم من لا يرحم صغيركم ولا يوقر كبيركم
ترجمہ: اس
ذات کی قسم جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے ، وہ لمحہ ( قیامت) تب تک قائم نہیں
ہوگاجب تک اللہ ایسے حاکم نہ بھیج دے گا جو جھوٹے ہیں اور وزراء جو بداخلاق فاجر (
برے) ہیں اور حمایتی( حالی موالی) جو غدارہیں اورعلم رکھنے والے جوظالم ہیں اور
قاری ( قران پڑھنے والے) جو گناہگارفاسق ہیں اور ظاہر میں( دیکھنے میں) وہ نیک و
باتقدس لوگوں کی طرح کا ظاہر رکھتے ہیں اور ان کے قلب گل کرخراب ہو چکے گوشت سے
زیادہ غلیظ ہیں اور اُن کے نفس الگ مختلف خواہشات رکھتے ہیں، اللہ ان پر فتنہ نازل
کردے گا جو ان پر ایسا اندھیرا( ظلمت) پھیلائے گا کہ وہ اس میں تباہ ہوکر رہ جائیں
گے۔ اس ذات واحد کی قسم جس کے قبضہ میں میر ی جان ہے اسلام ٹکڑوں ٹکڑوں میں دور کردیا
جائے گا حتی کہ اللہ اللہ بھی نہ کہا جائے گا، تم ضروربالضرور امر بالمعروف کروگے
اور تم ضروربالضرور نہی عن المنکر کرو گے ورنہ اللہ تم میں سے بدترین لوگوں کو تم
پر مطلق العنان( آمر) بنا دے گا جو تم کو اذیتوں میں سے سخت ترین عذاب میں مبتلاء
کر رکھیں گے اور پھر تم میں جو بہترین ہونگے وہ دعا مانگتے رہیں گے اور ان کی
فریاد کا کوئی جواب نہ دیا جائے گا۔ تم ضروربالضرور امر بالمعروف کروگے اور تم
ضروربالضرور نہی عن المنکر کرو گے ورنہ اللہ تمہارے مقابلے میں ( دشمن) ایسے لوگ
بھیج دے گا جو تمہارے بچوں اور نوجوانوں پر کوئی رحم نہ کریں گے اور تمہارے بڑوں و
بوڑھوں کا کوئی احترام نہ کریں گے۔ (
ابن قیم)
خلاصہ وتشریح:
الف: رسول اللہ ﷺ نے عربی زبان میں حکم میں وزن پیدا کرنے کے لئے استعمال ہونے والے ’’ل‘‘ اور ’’ن‘‘ حروف دونوں کا استعمال کرکے اس حدیث میں لفظ ’’لتامرن‘‘ اور ’’لتنهون‘‘ کے ذریعے زور دے کر تاکید کی ہے کہ ’’تمہیں ضرور بالضرور بھلائی کا حکم کرنا ہوگا ‘‘ اور ’’تمہیں ضرور بالضرور برائی سے روکنا ہوگا ‘ ‘ تاکہ ان اعمال کی اہمیت جتلائی جائے اور بیان کردہ شرائط کا یقینی و حقیقی ہونا ظاہر ہوجائے جس کے نتائج حقیقت میں واقع ہوں گے۔
ب: یہ حدیث ان تمام لوگوں کا دعوی یکسر مسترد کردیتی ہے جو کہتے ہیں’’ آج فتح ونصرت اورمسلم امت کی حالت بدلنے کے لئے جو عمل کیا جاسکتا ہے وہ عمل (تبدیلی کی خاطر کوئی بھی اقدام کئے بغیر )صرف دعا کا کرنا ہے‘‘ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے واضح طور پر مسلمانوں کو بتلادیا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ( برائی سے روکنا اور بھلائی کا حکم دینا) کو انجام دینا ہی وہ شرط ہے جس کے پورے ہونے پر دعا قبول ہوتی ہے حتی کہ مسلمانوں میں سے اعلی ترین نیک کاروں کی دعاؤں کی قبولیت کے لئے بھی یہی شرط ہے۔
محاسبہ کو نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں بدترین حاکم اورسخت ترین دشمن کا ظہور ہوتا ہے اور دعا عیں مسترد کردی جاتی ہیں
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
3:10 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: