حدیث نمبر24
أَلاَ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدَةً لَهُ ذِمَّةُ
اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللَّهِ فَلاَ يَرَحْ
رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ
خَرِيفً
ترجمہ: وہ جو کسی ذِمّی شخص کو قتل کردے جواللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ کئے معاہدہ کے تحت زندگی گذار رہا ہے تب اس شخص( قاتل) نے اللہ کے ساتھ اپنے عہدکی خلاف ورزی کی ہے جس کی بدولت وہ جنت کی خوشبوبھی نہ پاسکے گا اور جنت کی خوشبو ستّر سال کی مسافت کی دوری سے سونگھی جاسکتی ہے۔ (ترمذیؒ )
حدیث نمبر25
صَالَحَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَهْلَ نَجْرَانَ عَلَى أَلْفَىْ حُلَّةٍ… عَلَى أَنْ لاَ تُهْدَمَ لَهُمْ بَيْعَةٌ وَلاَ يُخْرَجُ لَهُمْ قَسٌّ وَلاَ يُفْتَنُوا عَنْ دِينِهِمْ مَا لَمْ يُحْدِثُوا حَدَثًا أَوْ يَأْكُلُوا الرِّبَا
ترجمہ: اللہ کے رسول ﷺ نے نجران کے لوگوں سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ دو ہزارلباس مسلمانوں کے حوالے کریں گے ، جس کے عوض مسلمان ان کے گرجاگھروں کو تباہ نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کے پادریوں پر کوئی پابندی عائد کی جائے گی اور ان کے دین سے ان کو زبردستی دور کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اس شرط پر کہ وہ دین میں کوئی نئی بدعت پیدا نہیں کریں گے اور نہ ہی ربا( سود) میں کوئی لین دین کریں گے۔ (ابو داؤد)
خلاصہ وتشریح:
الف: اصلاً ہر ایک شخص جواسلامی ریاست کا شہری ہو جو خواہ ایسا مسلمان ہو جو ہجرت اختیار کرکے اسلامی ریاست میں آیا ہویاایساغیر مسلم ہو جو مسلمانوں کے ساتھ عہد لے کر ریاست کے اہل ذمہ افراد میں شامل ہواہو اسلامی ریاست کا حاکم ان سب کے ساتھ یکساں سلوک اور عدل کرتا ہے کیونکہ قران کریم کی آیت عام ہے جو بیان کرتی ہے کہ ’اگر تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کر و ، سچ ہے کہ کتنی بہترین ہے جو تعلیم تمہیں اللہ دیتا ہے کیونکہ اللہ ہی ہے جو ہرشئے کو سنتا ہے اور دیکھتا ہے ‘ (۴:۸۵)
ؓب: جس طرح شرعی قانون کے تحت اسلامی حکومت میں اہل ذمہ کو مساوی و یکساں سلوک اور تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اسی طرح جوعوامی قوانین مسلمانوں کے لئے ہوتے ہیں وہی عوامی قوانین یکساں تمام لوگوں کے لئے بھی ہیں( صرف ان افعال کے علاوہ جن کے قبول ہونے کے لئے اسلام پر ایمان کی شرط ہوتی ہے جیسے نماز و زکوۃ وغیرہ)۔یہ حکم نبی کریم ﷺ کی باتوں اور آپ ﷺ کے نمونہ سے اخذ کیا گیا ہے ،آپ ﷺ مسلم و غیر مسلم میں فرق کئے بغیر ایک ہی سزاء نافذ کیا کرتے تھے مثال کے طور پرآپﷺ نے ایک عورت کو قتل کرنے کے جرم میں مجرم یہودی کو قتل کی سزاء دی تھی۔
ت: یہ روایت مسلمانوں پر صاف طور پر واضح کردیتی ہے کہ ان پر لازم ہے کہ وہ اہل ذمّہ کو وہی تحفظ فراہم کریں جو وہ ایک دوسرے کو فراہم کرتے ہیں۔
ث: یہ ایک روایت میں ہے کہ امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے قبل جو کوئی بھی ان کی موت کے بعد اگلا خلیفہ مقررکیا جائے اس کے لئے نصیحت کرتے ہوئے اہل ذمہ کی خاطر یہ ارشاد فرمایا تھا کہ’’اس کوبتلاؤ کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ کئے عہد کی قسم کہ وہ اُن( اہل ذمہ) کی خاطر اللہ اور اللہ کے رسول کی جانب سے اُنہیں( اہل ذمہ کو) دئیے گئے عہد کی پابندی کرے گا جس کی رؤ سے وہ ان کی حفاظت میں خود لڑے گااوران پر اتنا بوجھ نہ ڈالے گا جو وہ اٹھا نہ سکتے ہوں ‘ ‘
ج: نجران کے لوگوں کے ساتھ کیا گیا معاہدہ صاف طور پر واضح کر دیتا ہے کہ غیر مسلموں کے رسوم ورواج اور ان کے عبادت کدوں کو اسی طرح برقرار رہنے دیا جاسکتا ہے جب تک وہ اسلامی ریاست کی طرف سے ان پر عائد ہونے والے اسلامی ضابطوں اور قوانین کی پابندی کی اپنی ذمہ داری کو اداء کرتے رہیں۔یہ عملی نمونہ ہے ان قرانی الفاظ کاجو واضح کرتے ہیں کہ دین (مذہب یا عقیدہ) کے متعلق کوئی زبردستی نہیں ہے۔ اہل ذمہ کے عبادت خانے انہی کے ذمہ رہنے دئیے جائیں مختلف فقہہ کے درمیان اس بات کے لازمی ہونے کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے جن میں سے اکثریت کی یہ رائے ہے کہ امام(امیر) کے لئے مباح وجائزہے کہ وہ حالات اور مسلمانوں کی بھلائی میں کوئی بھی فیصلہ کرے۔
غیر مسلموں کے ساتھ انصاف کا سلوک
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
5:54 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: