بدکاریوں کو روکا جائے یہ معاشرہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے



 

حدیث نمبر52

مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُودِ اللهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَا وَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلاَهَا فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَا يَمُرُّونَ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلاَهَا فَتَأَذَّوْا بِهِ فَأَخَذَ فَأْسًا فَجَعَلَ يَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِينَةِ فَأَتَوْهُ فَقَالُوا مَا لَكَ قَالَ تَأَذَّيْتُمْ بِي ، وَلاَ بُدَّ لِي مِنَ الْمَاءِ فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَنْجَوْهُ وَنَجَّوْا أَنْفُسَهُمْ وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُ ، وَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ

ترجمہ: جو لوگ اللہ کی قائم کردہ حدود کی نگرانی ولحاظ کرتے ہیں اوروہ جو اِن حدوں سے تجاوز کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے کہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہیں کچھ لوگ کشتی میں اوپری حصہ میں اور کچھ لوگ نچلے حصہ میں سوار ہیں نچلے حصہ میں سوار افراد کوپانی حاصل کرنے کیلئے اوپری حصہ سے گذرنا پڑتا ہے لہذا وہ آپس میں کہتے ہیں ’ کیوں نہ ہم نچلے حصہ میں سے ہی ایک سوراخ کرلیں اور یہیں سے پانی حاصل کیاکریں تاکہ اوپری حصہ والوں کو بھی کوئی دِقّت نہ ہو؟‘ اگر اوپری حصہ کے سوار نچلے حصہ والوں کو ایسا کرنے دیں تو کشتی مع تمام سوار غرق آب ہوجائیگی البتّہ اگروہ اِنہیں ایسا کرنے سے روک دیں توتمام سوار محفوظ ہو جائیں گے ۔( البخاری )

خلاصہ وتشریح:

الف: اللہ کے نبی کریم ﷺ کا مسلمانوں کے معاشرہ کو اس طرح بیان کرنا کہ’’ لوگوں کا ایک گروہ ہو جوایک ہی کشتی میں سوار ہوں اور جس میں ہر ایک فردکا عمل دوسرے فردکو متاثرکرتا ہے‘‘ معاشرہ کے متعلق اُس اسلامی نظریہ کو جتلاتا ہے کہ معاشرہ کی حفاظت ونگرانی کرنا معاشرہ کے افراد پر لازم ہے جس میں ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرہ کی بھلائی کے لئے اس کی نگرانی اور دیکھ بھال کرے ،  اس طرح معاشرہ اور اس کے افرادکے درمیان ایک سچا رشتہ قائم ہوتا ہے جو معاشرہ سے فرد کے حقیقی اور فطری تعلق کو بیان کرتا ہے ۔ معاشرتی تعلق کا یہ اسلامی نظریہ موجودہ زمانہ کے نظریہ انفراد(اجتماعی حقوق کی بجائے انفرادی حقوق پرزیادہ زور دینا) کے عین برخلاف ہے جو آج معاشرتی تعلق کے ہر پہلو پر غالب نظر آتا ہے اور ساتھ ہی یہ اسلامی نظریہ اِس فلسفہ کو بھی رد کردیتا ہے کہ معاشرہ صرف انفراد کا مجموعہ ہے اور جس میں ہر فرد اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق فعل کرنے کے لئے آزاد ہے اور جس میں فرد صرف اپنی ذات کے متعلق متوجہ اور فکر مند رہے اور دوسروں کے متعلق کوئی خیال نہ کرے (ذاتی مفاد یا خواہش کے لئے ان کے حقوق و ادب اور لحاظ کا کوئی احترام نہ کرے)۔اس خراب بُرے فلسفہ کا اثرمعاشرہ میں ناسور کی طرح پھیلتی ہوئی رشوت خوری اور جرائم کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح اور بچوں اور بوڑھوں کے متعلق برتی جانے والی بے توجہی اور لاپرواہی وغیرہ سے ظاہر ہو جاتا ہے۔

ب: اگر حکومتیں اور افراد معاشرہ میں حرام کاریوں اور حرام معاملات کو واقع ہونے دیں تو پورا معاشرہ تباہی کی زد میں آ جاتاہے۔

ت: حدیث اس مثال کے ذریعے یہ جتلاتی ہے کہ اگر حدود معاشرہ میں قائم ہوتی رہے تو معاشرہ کی حفاظت ہوتی رہے گی اور وہ محفوظ رہے گااور اگر حدود معاشرہ سے ہٹ جائیں گی تو پھر حدودکا توڑنا اورکی جانے والی زیادتیاں اورحقوق کی پامالیاں تمام لوگوں کو اپنے نرغہ میں لے لے گی( جیسا کہ معاشرہ میں بڑھتے ہوئے جرائم کی شرح سے تمام افراد پہلے ہی غیر محفوظ ہوچکے ہیں )۔

ث: امام الصدیقی الشافعی ؒ فرماتے ہیں کہ حدیث بتلاتی ہے کہ جو کوئی اللہ کی متعین حدود (ممنوع )سے زیادتیاں کرتا ہے تووہ اپنے گناہ کی وجہ سے تباہ ہوجاتا ہے اور جو کوئی حدود کی پامالی پر خاموشی اختیار کرتا ہے تو وہ برائی سے راضی ہوجانے کی وجہ سے تباہ ہوجاتا ہے۔

ج: امام العینی ؒ فرماتے ہیں کہ جب حدود کی پامالی کو روکا جاتا ہے تو جو لوگ کشتی کے اوپری حصہ والے ہیں ( اللہ کی حدود کو قائم کرنے والے) تنہا ان کی حفاظت نہیں ہوتی بلکہ معاشرہ میں موجود تمام افراد محفوظ ہو جاتے ہیں، چنانچہ اسلام کا نفاذ اورامر بالمعروف و نہی عن المنکر ( برائی کو روکنا اور بھلائی کا حکم دینا) یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے تمام معاشرہ کی دیکھ بھال اور اس کی سلامتی یقینی ہو سکتی ہے۔

بدکاریوں کو روکا جائے یہ معاشرہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے بدکاریوں کو روکا جائے یہ معاشرہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے Reviewed by خلافت راشدا سانی on 2:57 AM Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.