حدیث نمبر20
أقيموا حدود الله في القريب و البعيد ولا تأخذكم في الله لومة لائم
ترجمہ:
اللہ کی حدود قائم کرو ، قریب اور دور، اور الزا م دھرنے والوں کے الزامات تمہیں
متاثر کردیں ایسا نہ ہونے دو۔
(ابن ماجہ ، حکیم )
خلاصہ وتشریح:
الف: حدود کا نافذ ہونا دراصل سخت
ترین سزاء کا نافذ ہونا ہے اوریہ ایسے کچھ مخصوص
واقعات پیش آنے پر استعمال کرنے کے لئے ہیں جن کے متعلق اللہ نے ( قانون) حکم نازل
کر رکھا ہے اور جب کہ ان واقعات کے حقیقت میں پیش آنے کے متعلق کوئی شک باقی نہیں
رہ گیا ہو۔ معاشرہ کی جن قدروں کی عام طور پرحرمت کی جاتی ہے اور جو کہ معاشرہ کے لئے انتہائی اہم نازک ترین قدریں ہوتی ہیں
ان کی حرمت و تقدس کی حفاظت کی خاطرحدود کا استعمال کیا جاتاہے مثال کے طور پر امن
وامان اور خوشحالی۔ اور جب کبھی معاشرہ میں ایسے واقعات یا حالات وجود میں آئیں جب کہ حدود کو نافذ کرنا لازمی
ہوجاتا ہے تو اُن حالات میں ایسے تمام لوگوں کی پرواہ
کئے بغیر حدود کو نافذ کیا جاناچاہئیے جو کہ معاشرہ کی فلاح کے لئے ان کے اپنے
ناقص وناکام نظریات کے تحت سزاؤں(حدود) کا نفاذ کرنے والوں پر الزام دھریں یا
انہیں ملزم ٹھہرائیں۔
ب: امام
سیوطیؒ کے مطابق لفظ ’قریب اور دور‘ سے مراد رشتوں کے تعلقات کی نزدیکیاں ہوسکتی
ہیں چنانچہ ذاتی تعلقات سزاؤں کے نفاذ میں آڑے نہ آئیں یا اس سے مراد اقتدار کے
تعلقات کی نزدیکیاں بھی ہوسکتی ہیں (طاقتور یا کمزور) چنانچہ حدود کا نفاذ معاشرہ کے تمام طبقات کے لئے یکساں کیا جاتاہے اور ان کی
سماجی حیثیت اور اقتدار سے قربت کے باوجود سزاء میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ، اِس روایت کے اس معنی کی تصدیق
اگلی روایت سے بھی ہوجاتی ہے
حدود کا نفاذ ہوگا چاہے کتنے ہی الزام دھرنے والے موجود ہوں
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
4:34 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: