حدیث نمبر39
مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ، وَخَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ، فَمَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً، وَمَنْ خَرَجَ مِنْ أُمَّتِي بِسَيْفِهِ يَضْرِبُ بَرَّهَا وَفَاجِرَهَا لا يَحَاشَ مُؤْمِنًا لإِيمَانِهِ، وَلا يَفِي لِذِي عَهْدٍ بِعَهْدِهِ، فَلَيْسَ مِنِّي، وَمَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ، أَوْ يَغْضَبُ لِلْعَصَبَةِ أَوْ يَدْعُو إِلَى عَصَبَةٍ، فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ.
ترجمہ: ’’وہ جو جماعت سے جدا ہو جائے اور (مسلمانوں کے امیر کی) فرمانبرداری کوترک کردے اور وہ اسی حال میں مرتا ہے تو اس کی موت جاہلیت کی اموات میں سے ایک ہوگی اور جو کوئی بھی اپنی تلوار کے ساتھ میری امت کے خلاف تلوار کشائی کرے اور ان میں نیک کاروں کو اور بدوں کو ضرب لگائے اور ایک مومن کے ایمان رکھنے کے باوجود باز نہ آئے اور جس نے اس سے عہدلیا ہو اُس کو دئیے ہوئے عہد کو پورا نہ کرے تو وہ میری امت میں سے نہیں ہے اور جو کوئی اس حال میں قتل کیا گیا جبکہ وہ جاہلیت کے جھنڈے تلے جمع تھا اور عصبیت کی خاطر غیض وغضب میں مبتلا ہورہا تھا یا عصبیت کی خاطر لڑائی لڑ رہا تھا یا عصبیت کی جانب بلاوا دے رہا تھا تواس کی موت جاہلیت کی موت ہے ‘ ‘ (احمدؒ )
خلاصہ وتشریح:
الف: شیخ
ابن تیمیہ ؒ نے اِس روایت کے متعلق
فرمایا کہ ’’نبی کریم ﷺ نے اِسے باغیوں
کے متعلق بیان کیا ہے جنہوں نے امارت (خلافت) اور مسلمانوں کی جماعت کی اطاعت
وفرمانبرداری کے خلاف ہوکر بغاوت کی اورآپﷺ نے وضاحت کی کہ اگر ان میں سے کوئی بھی مرتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا
ہے کیونکہ جاہلیت کے دور میں لوگ تمام لوگوں کے لئے ایک امیر منتخب نہیں کرتے تھے
بلکہ ہرایک گروہ غالب ہونے کی خاطر دوسرے گروہ کے ساتھ رسہ کشی اور مقابلہ آرائی
پر اُتر آیا کرتا تھا، اس کے بعد آپ ﷺ نے ان لوگوں کا بیان کیاجو کسی عصبیت و قبیلہ پرستی کے لئے
لڑیں تووہ ویسے ہی لوگوں کی طرح ہیں جنہوں نےاسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں قبائلی رشتہ داریوں (عصبیتوں)کی بنیاد پر لڑائیاں لڑیں تھیں مثلاً قیس اور یماننی قبیلے اور مزید بیان کیا کہ جو کوئی بھی ایسی
قبائلی یا عصبیت کی لڑائیاں لڑنے والوں کے جھنڈوں تلے مرا تو وہ اس امّت میں سے نہیں ہے ‘‘
ب: اس کے علاوہ اس روایت میں بےدریغ اور بلاتفریق قتل وغارتگری کرنے کی سخت ممانعت اور ملامت کی گئی ہے اور جو کوئی بھی ایسا کرے اسے اس امت محمد ﷺمیں شمار نہیں کیا جاتاہے۔
ت: آج کل کی خودمختار قومی ریاستیں دراصل بنیادی طور پر قبائلی ڈھانچہ( قبائلی یاقومی عصبیت) کی ہی ایک بڑے پیمانے کی شکل و صورت ہے اورقومیت کا فخر یا گھمنڈ، قومی جھنڈے کا فخر و گھمنڈ، قومی وراثت (قدیم رسوم رواج، قدیم ثقافت، تمدن، قدیم تاریخ وغیرہ) پر فخر و گھمنڈ دراصل ہو بہو جاہلیت کے دور کے قبائلانہ نظام کی قبائلی عصبیت کی ایک قسم ہے ۔چنانچہ قومیت کے جھنڈوں کو بلند کرنے کے لئے مشتعل ہونا، جنگ وجدل کرنا اور اس کے لئے جان دینا بھی اُسی طرح لعنت وملامت زدہ ہے جن لوگوں کا بیان اِس روایت میں کیا گیا ہے۔
عصبیت ، قوم پرستی اور بے دریغ قتل و غارت گری کی ممانعت
Reviewed by خلافت راشدا سانی
on
4:11 AM
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: